Thursday, 26 May 2022

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

 جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے ، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ ، چاہے جان کر ہو ، یا اَنجانے میں ، کتنے لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کر دیتا ہے ، یہ لڑائی ، جھگڑے اور خون وخرابے کا باعث ہوتا ہے ، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے ۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے ، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے ، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔ انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں ، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 61)

ترجمہ : جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ۔


اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 105)

ترجمہ : جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں ۔


کافروں  کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں  اس کا رد کیا گیا ہے ۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں  ہی کا کام ہے ۔ (خازن، النحل الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴)


اس آیت میں مشرکین کے متعلق فرمایا ہے اولئک ھم الکاذبون ہے اور یہ جملہ اسمیہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق جب کسی کام کو جملہ اسمیہ کے ساتھ تعبیر کیا جائے تو وہ دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ مشرکین ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں، اور جب کسی کام کو جملہ فعلیہ کے ساتھ تعبیر کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس میں دوام و استمرار کا قصد نہیں کیا گیا ۔ قرآن مجید میں ہے : ثم بدالھم من بعد ما راوا الایت لیسجننہ حتی حین ۔ (یوسف : ٣٥) پھر یوسف کی پاکیزگی دیکھنے کے بعد انہوں نے یہی مناسب جانا کہ کچھ عرصہ کےلیے ان کو قید کر دیں ۔


چونکہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ہمیشہ قید میں نہیں رکھنا چاہتے تھے ، اس لیے انہوں نے لیس جننہ کہا اور قید کرنے کو جملہ فعلیہ کے ساتھ تعبیر کیا ، اور فرعون کا ارادہ حضرت موسیٰ کو ہمیشہ قید میں رکھنا تھا ، اس لیے انہیں قید میں رکھنے کو اس نے اسم کے ساتھ تعبیر کیا اور من المسجونین کہا ۔


قال لئن اتخذت الھا غیر لاجعلنک من المسجونین ۔ (الشعراء : ٢٩) فرعون نے کہا (اے موسی) اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور قیدیوں میں شامل کردوں گا ۔


اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق الکاذبون فرمایا اور اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کذب ان کی صفت ثابتہ راسخہ دائمہ ہے ۔ یعنی جھوٹ بولان ان کی دائمی عادت ہے ، اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھی جھوٹ باندھنے کی جرات کی ۔


اس آیت میں مشرکین کا رد ہے ، وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف افترا کی نسبت کرتے تھے کہ ایک عجمی شخص سے کلام سیکھ کر العیاذ باللہ یہ افترا کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ حالانکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو الصادق الامین کہتے تھے ، پھر بھی ان ظالموں نے یہ کہا کہ آپ معاذ اللہ اللہ پر افترا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا افترا تو وہی لوگ کرتے ہیں کہ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ، یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کاذب اور مفتری وہی ہے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتا ، کیونکہ سب سے بڑا کزب اور افترا اللہ کا شریک قرار دینا اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنا ہے ۔


جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں  اس کے علاوہ بہت سی جگہوں  پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ۔ بکثرت اَحادیث میں  بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ۔


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : صدق کو لازم کرلو ، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، یہاں  تک کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے ، یہاں  تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔ ( بخاری، کتاب الادب باب قول اللّٰہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴،چشتی)(مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ صفحہ ۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))


حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں  مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں  کرتا ، اس کےلیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے ، اس کےلیے جنت کے اعلیٰ درجے میں  مکان بنایا جائے گا ۔ ( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰،چشتی)


حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں  سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب باب فی المعاریض ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں  گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے ، وہ اس سے کہیں  زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے ۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان ۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)


حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے ، لہٰذا اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے ۔


حضرت صفوان بن سلیم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا گیا : کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا : ’’ہاں‘‘ پھر سوال کیا گیا : کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا : ’’ہاں‘‘ پھر عرض کیا گیا : کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا) ۔ (مؤطا امام مالک حدیث : ۳۶۳۰/۸۲۴،چشتی)


ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے ، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے ، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے ، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے ۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے : جس میں چار خصلتیں ہوں گی ، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے ، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے ، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے : جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۳۴،چشتی)


ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے ، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں : جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ۱۹۷۲)


ایک حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں : یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے ، تا آنکہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۶۰۹۴)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے ۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے ، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے ! حدیث ملاحظہ فرمائیں : یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو ، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے ، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ (سنن ابو داود، حدیث: ۴۹۷۱)


ایک حدیث شریف میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے : حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں ؟ تین بار فرمایا ۔ پھر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم نے عرض کیا : ہاں ! اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے ، جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے ، پھر فرمایا : خبردار ! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے) ۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۲۶۵۴)


صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ ہو اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے ، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے ۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں ، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے ، ایسےشخص کےلیے بربادی ہو ، ایسے شخص کےلیے بربادی ہو ۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۳۱۵)


شریعتِ مطہرہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے ، جیسا کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس جھوٹ افتراء کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں ، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے ۔ (سورۃ النحل:۱۰۵)

ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے : اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے ، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے ، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے ، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، وہ فلاح نہ پائیں گے ۔ (سورۃ النحل:۱۱۶)


جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے ۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضی کا باعث ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے ، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے ۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہو جاتی ہے، تو لوگ اسے کبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے ، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا ۔ ایسےشخص پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے ، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کر چکا ہے ۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ۔ لوگوں کے درمیان لڑائی ، جھگڑے کا سبب بنتی ہے ۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے ۔ اگر ہم ایک صالح معاشرے کا فرد بننا چاہتے ہیں ، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں ، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں ، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردِّ عمل نہ دیں ۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں ۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...