قوموں کی تباہی و بربادی حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ - اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 9)
ترجمہ : تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروا دو اور عدل کرو ، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب اُن کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اُسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اُسے سزا دی جاتی ۔ (صحیح بخاری ، رقم 4304)
مخذوم قبیلہ کی فاطمہ بنت الاسود نے جب چوری کا ارتکاب کیا تو اس وقت چور کی سزا ہاتھ کاٹنا مقررتھی ۔ قریش کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کون کہے کہ اس عورت سے نرمی برتی جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت کی بناء پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کےلیے تیار کر کے مخذومی عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا گیا مگر اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب اس کی سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کر رہے ہو ؟ اسامہ نے معذرت کر لی ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کے بعد لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے ۔ اے لوگو ! تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک عام آدمی ان سے خطبے کے دوران ان کے کُرتے کے بارے میں سوال کرتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے اس کی وضاحت پیش کر نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ جب کسی کو کسی صوبے یا شہر کا والی مقرر کرتے تھے تو پہلے اس کی جائیداد اور مال کا حساب لے لیتے تھے اور جب وہ اپنے منصب سے الگ ہوتے یا ان کے متعلق دوران تقرر اگر ان کو یہ علم ہوجاتا کہ ان کے پاس غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور زائد دولت بیت المال میں جمع کروا دیتے ۔ ان کے دور میں گورنر وں کو قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی ۔
فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے عبدﷲ کو (جس نے کسی شخص کو بلاوجہ مارا تھا) آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے مگر کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ کچھ مخالفت کر سکے ۔ فاتح شام حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کیا ۔ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جواب طلبی کی ۔ (چشتی)
عدل کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ اپنا اخلاقی وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ ناانصافی اور ظلم سے انتشار، ہیجان ، بے یقینی ، مایوسی ، اشتعال ، فساد فی الارض ، انتہا پسندی ، تشدد اور پھر دہشت گردی جنم لیتی ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو وہاں پر قانون ہاتھ میں لینے والے ، قانون کو توڑنے والے ، کمزور کا استحصال کرنے والے اور اپنے مفادات کےلیے کمزور کی جان تک لے لینے والے افراد ، گروہ اور عناصر پائے جاتے ہیں ۔ ایسے درندہ صفت عناصر اور گروہوں کی حیوانی اور خون آشام خواہشات کے سامنے قانون اور ریاست ڈھال بنتی ہے ۔ آج کل ریاستِ مدینہ کے انتظامی ماڈل کا بہت تذکرہ ہے ۔ اگر میثاقِ مدینہ کی جملہ شقوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میثاق کی روح لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا اور انسانی جان کا تحفظ کرنا ہے ۔ میثاقِ مدینہ کی بنیاد انسانیت کے تحفظ اور بقاء کی فکر پر رکھی گئی ۔ اس معاہدے میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب بھی شامل تھے ، اس لیے یہ کائنات کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے جس میں انسانی جان کے تحفظ ، قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو ضبطِ تحریر میں لایا گیا ۔
اسلام وہ واحد ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی جان کے تحفظ کےلیے اخلاقی تعلیمات بھی دیں اور تعزیری احکامات بھی دیے ۔ جدید جمہوری نظام اور جمہوری اقدار میں بھی انصاف کی فراہمی اور انسانی جان کے تحفظ کو اولین ترجیح دی گئی ہے کیونکہ یہ دو ایسے انسانی ، سماجی اور اخلاقی امور ہیں جن سے انحراف کر کے ایک متوازن انسانی سوسائٹی کو پروان نہیں چڑھایا جا سکتا اور جب بھی کوئی گروہ اپنی افرادی قوت ، وسائل یا طاقت کے زعم میں کسی کا حق سلب کرتا ہے تو مظلوم کی مدد کےلیے سب سے پہلے قانون پہنچتا ہے ۔ جب مظلوم کو طاقتور کے مقابلے میں قانون کی مدد نہیں ملتی تو کمزور بےبسی اور اشتعال کا شکار ہوتا ہے اور سوسائٹی کا انتظامی انفراسٹرکچر اپنی اخلاقی اہمیت اور افادیت کھو دیتا ہے ۔ (چشتی)
اللہ رب العزت نے سورۃ الحجرات میں انصاف کی اہمیت اور ناگزیریت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ - فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ - فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ - اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔(سورہ الحجرات آیت نمبر 9)
ترجمہ : اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرادوپھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروا دو اور عدل کرو ، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔
سورۃ المائدہ میں فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘ - وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ - اِعْدِلُوْا - هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘ - وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر 8)
ترجمہ : اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے ۔ (چشتی)
معلوم ہوا کہ عدل کرنا حبِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور تقویٰ کی علامت ہے ۔ نظامِ انصاف میں منصف کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ انصاف کا عمل منصف کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتاہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس دن عرشِ الہٰی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ، ان میں ایک امامِ عادل ہے (یعنی انصاف کرنے والا حکمران یا قاضی ہے) ۔ (صحیح بخاری)
پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں ۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں بلکہ وہ دل اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں ۔ (سورہ الحج 45 ، 46)
اور کتنی ایسی بستیاں تھیں ، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا ۔ تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے ۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے ۔ (سورہ الاعراف آیات 4,5 ) ۔ (چشتی)
آگے فرمایا : کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران آ جائے اور وہ سوئے پڑے ہوں؟ کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب چاشت کے وقت آ جائے اور وہ کھیل میں لگے ہوں ؟ ۔ (سورہ الاعراف آیات 97,97)
عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کر دے ۔ عزت و آبرو برباد کر دے ۔ قوم کو اپنا غلام بنا لے ۔ عزت و آبرو تو ہم لوگوں کی تار تار ہو چکی ہے ، کبھی اس در کبھی اس در کبھی دربدر، کبھی امریکہ کے ہر اول دستہ کے غلام ، کبھی چین کے ہر اول دستہ کے غلام ، علما و ذاکر حضرات کبھی سعودی عرب کی چوکھٹ پر اور باقی کبھی ایران کی چوکھٹ پر ، الغرض ندامت و پشیمانی ہی ہمارا مقدر ہے، لیکن عبرت ہم نے حاصل نہیں کرنی ۔
یہ بات تو طے ہے کہ احتساب عام آدمی کا ہی ہوتا ہے ، اور ہوتا رہے گا ۔ عام آدمی اگر 1 مہینہ بجلی کا بل نا دے تو واپڈا کی ضلعی انتظامیہ اس کا میٹر کاٹ جاتی ہے ۔ جبکہ سرکاری دفاتر اور ملازم دل کرے تو بل دے دیں ، نہیں تو نادہندہ بن کر بھی بجلی استعمال کرتے رہیں ، کیونکہ ان کو کچھ نہیں کہا جاتا ۔ عام آدمی اگر کسی جرم میں پکڑا جائے تو پولیس اس سے وہ جرم بھی قبول کروا لیتی ہے ، جو اس نے کیے نہیں ہوتے ہیں ۔ جبکہ امرا جرم کر کے ثبوت نا ہونے اور نامکمل تفتیش کی بنیاد پر رہا ہو جاتے ہیں اور اگر اس سے بھی کام نا بنے تو ڈیل و ڈھیل ، پلی بارگین اور دیت کا قانون ہی کافی ہے ، نواز شریف ، شیباز شریف ، حمزہ شہباز ، شاہد خاقان عباسی ، علیم خان ، جہانگیر ترین ، سراج درانی ، آصف زرداری ، خرشید شاہ ، مجید اچکزئی اور مزید ناموں کے لیے فہرست چھاپنا پڑے گی ، اب تو اس فہرست میں ان کے نام بھی آ سکتے ہیں جو اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کے نگہبان ہیں ۔ عام آدمی ٹیکس نا دے تو حکومت جائیداد کی قرقی کا فرمان جاری کر دیتی ہے ۔
پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا، مگر اسلامی اصولوں کے استعمال پر پابندی ہے ، کیونکہ مسلم ممالک میں جس دن اسلامی نظام نافذ ہو گیا ، اس دن ملک میں ججز اور جلادوں کی قلت پیدا ہو جائے گی ۔ مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment