Saturday, 18 June 2022

فضائل و مسائل قربانی حصّہ اوّل

فضائل و مسائل قربانی حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل نے ذو الحجہ کے مکمل مہینے بالخصوص پہلے دس دنوں کو اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا ہے ۔ ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت و حرمت والے مہینوں رجب ، ذوالقعدہ ، ذو الحجہ اور محرم میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں ذکر ، تسبیح ، تلاوت قرآن پاک ، نوافل روزے اور دیگر صدقات وغیرہ کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ بالخصوص ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن کی تو اتنی فضیلت ہے کہ اللہ پاک نے اس عشرہ کی پہلی دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے اور ارشاد فرمایا : وَ الْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرِ ۔ (سورۃ الفجر، آیت:۱،۲) ’’اور قسم ہے فجر اور دس راتوں کی‘‘ ۔

قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے ۔ (المفردات للراغب صفحہ 408 طبع مصر)

قربانی کےلیے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوتے ہیں : ⬇

قربانی : اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی ۔

منسک : لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَؕ-اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 67) 
 ترجمہ : ہر امت کےلیے ہم نے ایک شریعت بنادی جس پر انہیں عمل کرنا ہے تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں اورتم اپنے رب کی طرف بلاؤ بیشک تم سیدھی راہ پر ہو ۔

نحر : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ : تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔ (سورہ الکوثر آیت نمبر 2)

یعنی اے محبب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دونوں جہاں کی بے شمار بھلائیاں عطا کی ہیں اور آپ کو وہ خاص رتبہ عطا کیا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کیا، تو آپ اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے نماز پڑھتے رہیں جس نے آپ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ، کوثر عطا کر کے عزت و شرافت دی تاکہ بتوں  کے پجاری ذلیل ہوں اور بتوں کے نام پر ذبح کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے اوراس کے نام پر قربانی کریں ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے نمازِ عید مراد ہے ۔ (تفسیر مدارک الکوثر الآیۃ: ۲، ص۱۳۷۸)(تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۶-۴۱۷)

ان المراد هوالنحر البدن ۔
ترجمہ : مراد جانور کی قربانی ہے ۔ (تفسیر کبیر، 32 : 129)

اسلامی سال کے بارھویں مہینے کو ذی الحج کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مہینہ حج کےلیے مقرر ہے اسی لئے اس کا نام ذی الحج پڑ گیا اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن پاک میں ایاما معلومات لکھا گیا ہے لہذا یہ مہینہ اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور اس کے پہلے دس دنوں کو بڑا متبرک قرار دیا گیا ہے جسے عشرہ ذی الحجہ کہا جاتا ہے اس کی پہلی تاریخ کو خاتون جنت علیہا السلام کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہوا اس کی آٹھویں تاریخ کو یوم ترویہ کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج کرام زم زم سے خوب سیراب ہوتے ہیں اور اپنی جسمانی و روحانی پیاس بجھاتے ہیں ۔ (چشتی)

آٹھویں ذی الحج کو ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کرو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے صبح کے وقت سوچا کہ آیا یہ آیات اللہ پاک کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے اس لئے آٹھ ذی الحج کو یوم ترویہ (یعنی سوچ بچار کا دن ہے) کہتے ہیں۔ اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نویں تاریخ رات کو پھر وہی خواب دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی دن یعنی 9 ذی الحج کو عرفات میں حج کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے اور دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں۔ کیونکہ اسی روز سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اور اسی یاد کو تازہ کرنے کے لئے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔

سورۃ الصفت کی آیات نمبر 100 سے لے کر 108 تک جو پارہ نمبر23 میں ہیں ان آیات میں سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے کچھ یوں دعا کی : اے میرے رب مجھے سعادت مند اولاد عطا فرما تو ہم نے ان کو ایک نرم دل خوبصورت لڑکے کی خوشخبری دی اور جب ان کے ساتھ جدوجہد اور تگ و دو یعنی جوانی کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔ اے میرے پیارے بیٹے میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ جیسے تم کو ذبح کررہا ہوں تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے تو پیارے بیٹے نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہورہا ہے وہ کر گزریئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ جب دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے پکار کر کہا اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ بلا شبہ یہ صریحا آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنادیا تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے قیامت تک ابراہیم کا ذکر خیر باقی رہے ۔

سورۃ الحج کی آیت نمبر37 پارہ نمبر17 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے : اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع فرماں بنادیا ہے اس بات کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت بخشی ہے۔ اس کی بڑائی بیان کرو اور اے پیغمبر ! نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے ۔ (چشتی)

ان آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ قربانی کا مقصد کیا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو قربانی کس نیت سے کرنی چاہئے اور اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو رزق حلال، پھر نیت کا اخلاص، پھر قربانی کا جذبہ، ایثار کا جذبہ دوسروں کےلیے خدمت خلق کا جذبہ، اپنی جان مال، اولاد سب اللہ کا مال سمجھ کر خرچ کرنا، اپنا اختیار نہ رکھنا اور نہ سمجھنا۔ جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور یہ نہ ہو کہ قربانی بھی کی اور اللہ کی رضا حاصل نہ ہوسکے یعنی مقصد پورا نہ ہو بلکہ الٹا ہم ایسا عمل کر گزریں جو اللہ کی نافرمانی کا سبب بن جائے ۔

قربانی کا وقت اور طریقہ

حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عیدالاضحٰی کے دن پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اس کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا اور آپ نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے جانور ذبح کرچکا ہے اسے چاہئے کہ اس کے بدلے میں ایک اور جانور ذبح کرے ۔

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز عید سے پہلے آپ قربانی نہیں کر سکتے بلکہ نماز کے بعد خطبہ کے بعد اطمینان سے جانور کو پانی وغیرہ پلاکر آپ قربانی کریں گے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی روایت مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کردیا اس نے محض اپنے گوشت کھانے کے لئے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ پر عمل کیا یعنی سنت کے مطابق قربانی ادا کی ۔ (چشتی)

قربانی کا وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ کے مطابق دس تاریخ سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ تک رہتا ہے ۔

اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی ۔ ان دونوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور اپنا پاؤں جانور کی گردن پر رکھا ۔

ذبح کرتے وقت دیر نہ لگائیں

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ عجلت میں ذبح کرو اور ایسی چیز سے جو خون بہادے تاکہ جانور کو غیر ضروری اذیت نہ ہو۔ یعنی قربانی کرتے وقت آپ کی جو چھری یا جو آلہ ہے جس سے قربانی کرنی ہے وہ اتنی تیز ہو کہ فوراً ذبح ہوجائے تاکہ جانور کو کم سے کم اذیت ہو ۔

کتنی بڑی بات ہے کہ ہمارے دین نے ہمیں ہر طرح کی راہنمائی فرمائی یہاں تک کہ جانور کے بھی حقوق بتادیئے کہ ان کو تم سے کم تکلیف ہو کیونکہ آخر ایک جان کو۔ اللہ کی دی ہوئی جان کو ذبح کرنا ہے تو اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ یہی ہمارے دین کی خوبصورتی ہے کہ جانور کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے تو کیا انسان جو کہ پھر بھی اشرف ہوا اس کے ساتھ حسن سلوک کی کیا اہمیت ہوگی ۔ اس کا اجرو ثواب کیا ہوگا اس کا اندازہ حقوق العباد سے ہم بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس کی فضیلت کیا ہوگی اس کا اجر و ثواب کیا ہوگا ؟

قربانی کا گوشت ذخیرہ کرسکتے ہیں

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے گوشت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، مستحق لوگوں کو کھلاؤ ۔ ذخیرہ بھی کرو یعنی اس بات کی اجازت مرحمت فرمادی کہ کھاؤ بھی اور ذخیرہ بھی کرو ۔ امام نووی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ علماء کرام نے کہا ہے کہ ایک تہائی خود کھائے ایک تہائی صدقہ کردے اور ایک تہائی دوستوں اور رشتہ داروں کےلیے تقسیم کرے ۔ اب ہم خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس حد تک رکھنا ہے اور کس حد تک تقسیم کرنا ہے ۔ اس معاملے میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟ ۔ (چشتی)

قربانی اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے ، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو انہیں بڑھاپے میں عطا ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر قربان کرنے کےلیے تیار ہو گئے اور دوسری طرف فرمانبردار صابر و شاکر بیٹا اپنے والد گرامی کی زبان سے یہ اشارہ سن کر کہ اس کے رب نے اس کی جان کی قربانی طلب کی ہے، اسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہو گیا ۔ اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ قربانی قبول ہوئی مگر بیٹے کی جان بخش دی گئی اور اس کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دیا گیا ، چنانچہ آج تک آپ علیہ السلام کا ذکر اور قربانی کی صورت میں آپ علیہ السلام کی یادگار موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی ۔ قدرت نے اس یادگار کو فرضیت و لزوم کا درجہ دے کر ایسا مستحکم انتظام فرما دیا ہے کہ اسے کسی بھی سازش اور بے جا منفی تاویلوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

عیدالاضحیٰ اور حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی میں فرق یہ ہے کہ حج افراد ادا کرنے والے کے علاوہ حج کی قربانی غنی، فقیر سب پر واجب ہے، جبکہ عید الاضحیٰ کی قربانی فقط غنی پر واجب ہے فقیر پر نہیں ۔

حج افراد کرنے والے پر قربانی دینا مستحب ہے، اگرچہ غنی ہو ، جبکہ حج قرآن اور حج تمتع کرنے والوں پر قربانی دینا واجب ہے ، اگرچہ فقیر ہی ہو ۔ (چشتی)

اگر کوئی شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ قربانی کے بدلہ میں دس روزے رکھے ، تین حج کے مہینے میں احرام باندھ کر اور باقی سات روزے حج سے فارغ ہونے کے بعد جہاں چاہے رکھے، لیکن گھر پہنچ کر رکھنا بہتر ہے ۔ ان روزوں کو مسلسل یا الگ الگ رکھنا دونوں طرح جائز ہے ۔

جس پر قربانی واجب ہے ، خواہ شکرانے کی یا کسی جنایت و قصور کی، اس کےلیے اس کے عوض صدقہ و خیرات کرنا جائز نہیں ۔

یَدی کے جانور کو سرزمین حرم کے علاوہ کسی اور جگہ ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اس کے وجوب کی صورت میں حاجی بغیر قربانی کیے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح وطن واپس آ کر ایک جانور کی جگہ ہزار جانور بھی قربان کرے تو واجب ادا نہیں ہوگا ، کیونکہ اس کےلیے حرم کی سرزمین شرط ہے ۔ (چشتی)

قربانی سے پہلے حلق کروانا (سر منڈانا) جائز نہیں ۔

قربانی دینے والے کا اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا افضل ہے ۔ اگر خود جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ جانور ذبح کر سکتا ہے، مگر اجازت ضروری ہے، اور سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کروائے۔ بھوکا، پیاسا جانور ذبح نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے سامنے چھری تیز کی جائے۔ جب تک ٹھنڈا نہ ہو جائے کھال نہ اتاریں، جانور کو قبلہ رُو پہلو پر لٹائیں اور داہنا پاؤں اس کے شانے پر رکھیں۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عید کے دن حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مینڈھے ذبح فرمائے اور انہیں قبلہ رخ کر کے عرض کیا : إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْن، اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِی ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن، لَا شَرِيْکَ لَهُ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب أضاحی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، 3 : 530، رقم : 3121)
ترجمہ : بے شک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔

پھر

اَللّٰهُمَّ مِنْکَ بِسْمِ الله اَللهُ اَکْبَر

پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کرے۔ اگر اپنی قربانی کا جانور ذبح کرے تو ذبح کرنے کے بعد پڑھے : اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِيْلِکَ اِبْرَاهِيْم وَحَبِيْبِکَ مُحَمَّد صلی الله عليه وآله وسلم ۔

اگر دوسرے کی قربانی کا جانور ذبح کرے تو مِنّی کی جگہ مِنْ پڑھ کر اس کا نام لے ۔

اونٹ کےلیے پانچ سال، گائے کے لئے دو سال اور بکرے کے لئے ایک سال کا ہونا ضروری ہے، اگر عمر اس سے ایک دن بھی کم ہوئی تو قربانی جائز نہیں ہو گی، اگرچہ بھیڑ اور دنبہ کے لئے بھی ایک سال کا ہونا ضروری ہے، مگر اس میں یہ رعایت دی گئی ہے کہ اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ عمر ہے، مگر اتنے فربہ اور صحت مند ہیں کہ دیکھنے میں ایک سال کے محسوس ہوتے ہیں توان کی قربانی جائز ہے۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں : ⬇

اندھا ، جس کا اندھا پن ظاہر ہے۔
بیمار، جس کی بیماری ظاہر ہو رہی ہو ۔ لنگڑا ، جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو ۔ لاغر ، جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب مايکره ان يضحی به، 3 : 542، رقم : 3144)

گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ (کے مقام) میں ہم لوگوں نے اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی کیا تھا۔(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب عن کم تجزی البدنة والبقرة، 3 : 536، رقم : 3132)

چاہے سب قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے والے لیکن کسی ایسے شخص کا حصہ نہیں ڈال سکتے جو محض گوشت کے حصول کےلیے شریک ہو رہا ہو کیونکہ اس طرح کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی ۔ (چشتی)

قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا افضل ہے۔ اس کی تقسیم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک حصہ فقراء و مساکین کے لئے، دوسرا دوست و احباب اور اعزاء و اقارب کے لئے جبکہ تیسرا گھر والوں کے لئے مختص کیا جائے۔

قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت وغیرہ قصاب کو بطور اجرت دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ دینی چاہیے۔

قربانی کی کھال اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مصرف میں لانا چاہے تو لا سکتا ہے، مثلاً جائے نماز بنا لے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ لیکن اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔

یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہیں۔

ذبیحہ یعنی ذبح شدہ جانور کے سات اعضاء کو کھانے سے منع کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں :

مرارہ (پِتہ)
مثانہ
محیاۃ (شرم گاہ)
آلہ تناسل
خصیے
غدود
دم مسفوح (بہتا ہوا خون)

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَکْرَهُ مِنَ الشَّاةِ سَبْعًا : اَلْمَرَارَة، والْمَثَانَةَ، والْمَحْيَاة، والذَّکَرَ، وَالْاُنْثَيَيْنِ، وَالْغُدَّةَ، والدَّمَ، وَکَانَ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُقَّدَّمُهَا ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، باب الياءِ من اسمهُ يعقوب، 10 : 217، رقم : 9476،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذبیحہ کے سات اعضاء کو مکروہ شمار کرتے تھے ، جو یہ ہیں : مرارہ (پِتہ)، مثانہ ، محیاۃ (شرم گاہ) ، آلہ تناسل ، دو خصیے ، غدود اور خون ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بکری کا مقدم حصہ زیادہ پسند تھا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...