بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل ہے حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ ۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۔ (الكوثر آیت نمبر 1 تا 3)
ترجمہ : بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے ۔ سو آپ اپنے رب کی رضا کےلیے نماز پڑھتے رہیے اور قربانی کرتے رہیں ۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل ہے ۔
اس آیت کے شروع میں لفظ ” انا “ ہے اور یہ جمع کا لفظ ہے اور اس لفظ سے کبھی جمعیت مراد ہوتی ہے اور کبھی تعظیم مراد ہوتی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ واحد ہے ، اس لیے اس سے جمعیت مردا نہیں ہو سکتی ، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جو کوثر عطا فرمائی ہے ، اس میں کئی افردا وسیلہ ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کو اہل مکہ میں رسول بنا کر بھیجنے کی دعا کی : (البقرہ : ١٢٩) ۔ اے ہمارے رب ! ان میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیج ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی : اے میرے رب ! مجھے امت احمد میں سے بنا دے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کی آمد کی بشارت دی : (الصف : ٦) ۔ اور میں اپنے بعد ایک آنے والے رسول کی تم کو بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ۔
لفظ ” انا “ میں جمع کے لفظ کی دوسری وجہ تعظیم ہے یعنی آپ کو کوثر عطا کرنے والا تمام آسمانوں اور زمینوں کا خالق اور مالک ہے اور جب آپ کو عطا کرنے والا اس قدر عظیم ہے تو اس کا عطیہ بھی بہت عظیم ہوگا ۔
کوثر کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب !بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کرکے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا ، آپ کو حسنِ ظاہر بھی دیا حسنِ باطن بھی عطا کیا ، نسبِ عالی بھی ، نبوت بھی ، کتاب بھی ، حکمت بھی ، علم بھی ، شفاعت بھی ، حوضِ کوثر بھی ، مقامِ محمود بھی ، امت کی کثرت بھی ، دین کے دشمنوں پر غلبہ بھی ، فتوحات کی کثرت بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جن کی انتہاء نہیں ۔ (تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۳-۴۱۴،چشتی)
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوثر عطا کر دی ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہم آپ کو کوثر عطا کریں گے بلکہ یہ فرمایا کہ بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دی ۔
اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا ان کے نبی اور رسول ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ذات کی وجہ سے ہے جو شانِ محبوبِیّت کی صورت ہے کیونکہ یہاں یہ فرمایا ’’اَعْطَیْنٰكَ‘‘ ہم نے آپ کو عطا فرمائی،یہ نہیں فرمایا کہ ’’اَعْطَیْنَا الرَّسُوْلَ‘‘ یا ’’اَعْطَیْنَا النَّبِیَّ‘‘ ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر یہ عطا کسی عبادت اور ریاضت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان پر یہ عطا اللّٰہ تعالیٰ کے عظیم فضل اور احسان کی وجہ سے ہے کیونکہ یہاں عطا کا ذکر پہلے ہوا اور عبادت کا ذکر بعد میں ہوا ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر کا مالک بنا دیا ہے تو آپ جسے چاہیں جو چاہیں عطا کر سکتے ہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مِدحت خود رب تعالیٰ فرماتا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ⬇
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ساری کثرت پاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں
اور فرماتے ہیں : ⬇
اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدّاحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللّٰہ کی
اللہ تعالیٰ نے ماضی کے صیغہ سے فرمایا ہے : ہم نے آپ کو کوثر عطا کردی اور مستقبل کے صیغہ سے نہیں فرمایا کہ ہم آپ کو کوثر عطا کریں گے، یہ اس کی دلیل ہے کہ کوثر آپ کو ماضی میں حاصل ہوچکی ہے اور اس میں حسب ذیل فوائد ہیں : ⬇
(١) جس کو ماضی میں بہت عظیم نعمت حاصل ہوچکی ہو، وہ اس سے بہت افضل ہے جس کو مستقبل میں وہ نعمت حاصل ہو، اسی لیے جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے پوچھا گیا : آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا : اس وقت جب حضرت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سننت رمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٩،چشتی)
(٢) گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا : ہم نے آپ کی ولدات سے پہلے ہی آپ کی سعادت کے اسباب مہیا کردیئے تھے تو ہم آپ کی ولادت اور آپ کی عبادت کے بعد آپ کو کب فراموش کرنے والے ہیں۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو کوثر عطا کرین کا ذکر کیا، اس کے بعد آپ کو نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو کوثر عطا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل اور احسان ہے، آپ کسی عبادت اور ریاضت کا معاوضہ نہیں ہے۔
(٤) نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ہم نے کوثر آپ کو دی ہے، یوں نہیں فرمایا کہ ہم نے یہ کوثر نبی کو دی ہے یا رسول کو دی ہے کیونکہ اگر فرماتا : یہ کوثر نبی کو دی ہے تو یوں سمجھا جاتا کہ یہ کوثر نبوت کا مقتضیٰ ہے، سو جو بھی نبی ہوگا اس کو یہ کوثر مل گئی ہوگی اور اگر فرماتا : یہ کوثر رسول کو دی ہے تو یوں سمجھا جاتا کہ یہ کوثر رسالت کا تقاضا ہے، سو جو بھی رسول ہوگا اس کو یہ کوثر مل گئی ہوگی اور جب فرمایا : بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے تو پتا چلا کہ یہ کوثر نہ نبوت کا تقاضا ہے نہ رسالت کا تقاضا ہے، یہ کوثر تو صرف آپ کی ذات کات قاضا ہے۔
(٥) عربی میں ” اعطائ “ اور ” ایتائ “ دونوں کا معنی دینا اور نوازنا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں پر ” اعطائ “ کا لفظ فرمایا ” ایتائ “ کا لفظ نہیں فرمایا کیونکہ ” اعطائ “ کا متبادرمعنی ہے : محض اپنے فضل سے دینا، نیز ” اعطائ “ کا معنی ہے، کسی چیز کا مال کبنا دینا اور ” ایتائ “ سے یہ متابدر نہیں ہوتا، پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو کوثر کا مالک بنادیا ہے، آپ جس کو چاہیں اس کو کوثر میں سے دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں، اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان کو ملک عظیم عطا کیا تو فرمایا :
(ص : ٣٩) یہ ہماری عطا ہے، اب آپ کسی پر احسان کر کے اس کو دے دیں یا روک کر رکھیں۔
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر عطا کی تو آپ کو اس کا مالک بنادیا، چاہے آپ کسی کو دیں یا نہ دیں ۔
لفظ ” کوثر “ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال : ⬇
(١) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :” الکوثر “ جنت میں نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس میں موتی اور یاقوت جاری ہیں، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ (سنن ترمذیرقم الحدیث : ٣٣٦١ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے)
(٢) کوثر سے مراد حوض ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرت یہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ کو اونگھ آگئی ، آپ نے مسکراتے ہوئے سربلند کیا اور فرمایا : ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے پڑھا :” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انا اعطینک الکوثر۔ فضل الربک وانحر۔ ان شائنک ھوالابتر۔ “ پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ عمل ہے، آپ نے فرمایا : یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب عزو جل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں خیر کثیر ہے اور یہ وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت وارد ہوگی، اس کے برتن ستاروں کے عدد کے برابر ہیں، اس پر ان میں سے ایک بندہ وہاں سے نکالا جائے گا، میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ میرا امتی ہے، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا، آپ از خود نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد دین میں کیا نیا کام نکالا تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٠)
اس حدیث سے معترضین یہ استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ” ماکان ومایکون “ کا علم نہیں تھا ورنہ آپ کو از خود معلوم ہوتا کہ یہ شخص آپ کے دین اور آپ کی امت سے نکل چکا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضتر انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ (الوفا ص 810 مطبوعہ مصر 1369 ھ) سو جس شخص نے دین میں نیا کام نکالا اس کا عمل بھی آپ پر پیش کیا گیا تھا، لہٰذا اس حدیث سے آپ کے علم کی نفی نہیں ہوتی، البتہ اس میں آپ کی توجہ کی نفی ہے۔
کوثر سے مراد حوض ہو یا جنت میں نہر، یہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بیان کردہ تفسیر ہے، اس لئے یہ تفسیر تمام اقوال پر راجح اور فائق ہے۔
(٣) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کوثر سے مراد خیر کثیر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر خیر کثیر آپ کو عطا کردی اور اسلام، قرآن، نبوت اور دنیا اور آخرت میں تعریف اور تحسین اور ثناء جمیل خیرات کثیرہ ہیں اور جنت کی سب نعمتیں خیر کثیر ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٤٩٦٦،چشتی)
(٤) عکرمہ نے کہا : کوثر سے مراد نبوت اور کتاب ہے۔
(٥) حسن بصری نے کہا : کوثر سے مراد قرآن ہے۔
(٦) المغیرہ نے کہا : کوثر سے مراد اسلام ہے۔
(٧) الحسین بن الفضل نے کہا : کوثر سے مراد قرآن کو آسان کرنا اور احکام شرعیہ میں تخفیف ہے۔
(٨) ابوبکر بن عیاش نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے اصحاب آپ کی امت اور آپ کے متبعین کی کثرت ہے۔
(٩) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١٠) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١١) ” الکوثر “ سے مراد آپ کے دل کا وہ نور ہے، جس نے آپ کو اللہ کے ماسوا سے سے منقطع کردیا۔
(١٢) کوثر سے مراد شفاعت ہے۔
(١٣) الثعلبی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے معجزات ہیں، جن سے آپ کی امت کو ہدایت حاصل ہوئی۔
(١٤) بلال بن یساف نے کہا : کوثر سے مراد ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ ہے اور ایک قول ہے : کوثر سے مراد دین کی فقہ ہے اور ایک قول ہے : پانچ نمازیں ہیں۔
ان اقوال میں سے صحیح ترین قول اول اور ثانی ہے یعنی کوثر سے مراد جنت میں ایک نہر ہے یا حوض ہے، جو محشر میں قائم ہوگا کیونکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢٠ ص ١٩٤، دارالفکر، بیروت ١٤١٥ ھ)
حوض کوثر کے متعلق یہ ایمان افروز حدیث ہے : حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ باہر نکلے تو آپ نے شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی، پھر آپ منبر پر گئے، پس فرمایا : میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا، اور بیشک اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کو اب بھی ضرور دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور بیشک اللہ کی قسم ! مجھے تم پر یہ خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم (سب) مشرک ہو جاٶ گے لیکن مجھے تم سے یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1344-6590 (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٣، مسند حمد ج ٤ ص ١٤٨ ) ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment