Thursday, 2 June 2022

قوموں کی تباہی و بربادی حصّہ سوم

قوموں کی تباہی و بربادی حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امت مسلمہ کوئی نسلی یا جغرافیائی قوم نہیں  جو کسی خاص نسل اور خاص ملک کی نمائندگی کرتی ہو ۔ بلکہ یہ ایک آفاقی اور نظریاتی ملت ہے جس کا ایک خاص مقصد وجود اور خاص نصب العین ہے اور پوری دنیا میں اس کی دعوت اور اشاعت کے لیے برپا کی گئی ہے ۔ اس کا ایک لائحہ عمل ہے جس کی تکمیل پر وہ مامور ہے ۔

عدل درحقیقت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے ، قرآن کریم میں ارشاد ہے : شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَأُولُوْا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ (آلِ عمران:۱۸)
ترجمہ :  اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے ۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے ، زبردست ہے حکمت والا ۔

اللہ عزوجل خود عادل ہے ، اس کا نازل کر دہ قانون ( شریعتِ محمدیہ) سراپا عدل ہے ، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے : یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی أَنْ تَعْدِلُوْا ۔ (النساء:۱۳۵)
ترجمہ : اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر ، گواہی دو اللہ کی طرف کی ، اگر چہ نقصان ہو تمہارا ، یا ماں باپ کا ، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے ، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں ۔

اسی طرح جب کسی سے بغض و عداوت ہو تو عدل و انصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کےلیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے ، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، بلکہ ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم رکھیں : یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (المائدۃ:۸)
ترجمہ : اے ایمان والو! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو ، عدل کرو ، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو ۔

نظامِ عالم اور عدل و انصاف 
دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل و انصاف سے وابستہ ہے ، نظامِ عالم کےلیے عدل و انصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں ۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کےلیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے ، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے : ⬇

شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت

 کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کوسِ ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ‘‘ بجاتے تھے اور آئین وقانون ان کے اشاروں پر رقص کر تا تھا ، لیکن دورِ جد ید نے ملو کیت کو جمہور یت میں بدل ڈالا ، آئین و دستور وضع کیے گئے ، بادشاہت کی جگہ کہیں صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزراتی نظام نا فذ کیا گیا ، گویا دورِ قدیم کے شہنشاہ کا منصب دورِ جدید کے صدرِ مملکت یا وز یر اعظم کو تفویض ہوا ۔ فرق یہ پڑا کہ دورِ قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دورِ جدید میں نیچے سے جاتے ہیں ، لیکن عدل و انصاف محض ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں ، بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پرور اربابِ اقتدار پر ہے ۔ حاکم اعلیٰ عدل و انصاف کے جوہر سے مالامال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے، یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے ، جس طرح مملکت کی آبادی و شادابی عدل و انصاف سے وابستہ ہے ، اسی طرح اشخاص کی بقاء و فلاح عدل و انصاف کی رہینِ منت ہے ۔

کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیجیے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی ، قوم کا فسق و فجور اور حکمرانوں کا ظلم و عدوان ، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے ، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق و معصیت کے نشہ میں بدمست ہو کر حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلَّط کردیے جاتے ہیں ۔ قرآن کر یم میں کسی قوم کی تباہی و بربادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے : وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا ۔ (بنی اسرائیل:۱۶)
ترجمہ : اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں ، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں ، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے ، پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں ۔

قوم کا فسق و فجور اور ملوک و سلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بنتا ہے ۔ ظلم و استبداد کی چکی میں پہلے سر کش قوم پستی ہے ، بالآ خر یہی چکی ظالم و جا بر کو بھی پیس ڈالتی ہے ۔ اہلِ دانش کا قول ہے کہ : کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے ، مگر ظلم و استبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ (چشتی)

درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے دستِ قُدرت میں ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے ، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا ، بلکہ دوسروں کےلیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہو جاتا ہے ۔ تاریک دور کے فرعون و ہامان اور شداد و نمرود کو جانے دو ، ماضی قریب میں اسٹالن ، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے ۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا ، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے ۔ خود ہماری مملکتِ خدا داد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظا ہر سامنے آتے رہے ہیں ، کیا سکندر مر زا ، غلام محمد ، ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی ۔

بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کےلیے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل و انصاف کو قائم کریں اور قوم فسق و معصیت کا راستہ ترک کر کے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے ۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش ، فسق و فجور اور فحاشی و بدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہولناک ہوا ۔ پاکستان کی پاک سر زمین جوحق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوتا ، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ، تقویٰ و طہارت کی فضا قائم ہوتی ، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جد ید میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی علمبر دار ہوتی ، لیکن افسوس صدا فسوس کہ : ⬇

خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم

 یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثارِ کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا ، بلکہ آزادی کے بعد یہ فرض کر لیا گیا کہ ہم اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آزاد ہیں ۔ سود ، قمار اور دیگر صریح محر مات کو حلال کر نے کی کوشش کی گئی ۔فواحش و منکرات کی ترویج کی گئی ۔ سینما ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن کو بے حیائی کا مناد بنا دیا گیا ۔ رہی سہی کسر اخبارات نے پوری کردی ۔ شعائرِ دین کا مذاق اُڑایا گیا ، اسلامی قوانین کو مسخ کیا گیا ، دین کے قزاقوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا ۔ بے خدا قوموں کی تقلید میں آزادیِ نسواں کا پرچار کیا گیا ۔ اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے اِزموں کے نعرے لگائے گئے اور اب تو خدا فر اموشی کی حالت ایسی نا گفتہ بہ صورت اختیار کر چکی کہ اس کے انجام کا تصور کر کے بھی رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

 یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سز ابھی افراد تک محدود رہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم و بغاوت کا راستہ اختیار کر ے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے ۔ یہ سزا ہمیں ایک بار سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں مل چکی اور ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ سزا کی دوسری قسط کے خطرات سر پر منڈلانے لگے ۔ (چشتی)

جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشۂ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا ، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال و انفصال کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر سڑ گل کر منتشر ہو جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال و انتشار کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔ شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح امریکہ ، روس اور ہند وستان کی سازش سے ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو بیٹھے ہیں ، اسی طرح خاکم بد ہن مز ید تباہی و بربادی سے دو چار نہ ہو جائیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پردے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی ؟ ایک طرف پورا ملک بے چینی و بے قراری کا شکار ہے ، بیم و یاس کی کیفیت طاری ہے ، ہو شربا مہنگاٸی و گِرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے ، خیر و برکت اُٹھ چکی ہے ۔ یہی خطۂ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کرتا تھا خود دانے دانے کےلیے دریوزہ گر ہے ۔ ہر چیز کا قحط ہے ، باہمی اُلفت و محبت اور اتحاد و اعتماد نصیبِ دشمناں ہے ۔ رشوت ، لالچ ، چور بازاری ، سٹہ بازی جیسے امراض دَق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں ۔ چوری اور ڈاکے کی وار داتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں ۔ کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا ، بلکہ فواحش ومنکرات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کلبوں اور ناچ گھروں میں عریانی بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں ۔ ظلم و بربریت کی آخری حدوں کو چھویا جا رہا ہے ۔ غفلت و خدا فراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے ۔ آخر حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی ؟ اور انتقامِ الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی ؟ گزشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایا ہے : الَّذِیْنَ طَغَوْا فِيْ الْبِلَادِ فَأَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ ۔ (الفجر: ۱۱ تا ۱۴)
ترجمہ : یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی ، پس اس میں بہت اودھم مچا یا ، پھر بر سایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا ، بلاشبہ تیرا رب گھات میں ہے ۔

اِس سب دردناک صورت حال سے نجات حاصل کرنے کےلیے ازبس ضروری ہے کہ راعی اور رعایا بارگاہِ ربوبیت میں توبہ و انابت اختیار کریں ، اجتماعی معاصی سے یکسر پرہیز کریں اور گزشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں توبہ و استغفار کریں ، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں ۔ سورۂ نوح میں اس قسم کے معاصی کی کثرت سے قحط و تنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج توبہ و استغفار بتایا گیا ہے : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْھٰرًا ۔ (نوح:۱۰تا۱۲)
ترجمہ : (نوح  علیہ السلام  بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں قوم سے خطاب کرتے ہوئے) میں نے کہا : گناہ بخشواؤ اپنے رب سے ، بے شک وہ ہے بخشنے والا ، چھوڑ دے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں ۔

مقصد یہ کہ تو بہ و انابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی ، بلکہ دنیا کے عیش و آرام کی صورتیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے مہیا فرما دیں گے ۔ دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوگا ، اموال میں خیروبرکت ہو گی ، اولاد صالح اور خدمت گار ہوگی ۔ آسمان سے ابرِ رحمت کا نزول ہوگا ، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی ۔ فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے ، اس لیے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فورًا کرلینا چاہیے ، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے ، ہماری قوم کو فسق و فجور اور حکمرانوں کو ظلم و عدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...