قوموں کی تباہی و بربادی حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ظلم ایک ایسا بدترین فعل ہے جس سے انسان اپنے بنیادی حق سے محروم ہو کر اَذِیَّت اور کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے جھگڑے اور فسادات جنم لیتے ، لوگ بغاوت اور سرکشی پر اتر آتے اور اصول و قوانین ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق تَلف ہوتے اور معاشرے کا امن و سکون تباہ ہو کر رہ جاتا ہے ، دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کا سب سے زیادہ حامی ہے اسی لیے اس دین نے انسانی حقوق تَلف کرنے اور معاشرتی امن میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہر فعل سے روکا ہے اوران چیزوں میں ظلم کا کردار دوسرے افعال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لیے اسلام نے ظلم کے خاتمے کےلیے بھی انتہائی احسن اِقدامات کیے ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں ، ان میں سے ایک اِقدام لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ ظالم کو روکیں اور دوسرا اِقدام ظالم کو وعیدیں سنانا ہے تاکہ وہ خوداپنے ظلم سے باز آجائے ۔
حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی ، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی)مدد کرنا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ... الخ، ۴ / ۳۸۹، الحدیث: ۶۹۵۲،چشتی)
حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مظلوم کی بددعا سے بچو ، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق والے کا حق اس سے نہیں روکتا ۔ (شعب الایمان،التاسع والاربعون من شعب الایمان ... الخ، فصل فی ذکر ماورد من التشدید... الخ، ۶ / ۴۹، الحدیث: ۷۴۶۴)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس کا اپنے مسلمان بھائی پر اس کی آبرو یا کسی اور چیز کا کوئی ظلم ہو تو وہ آج ہی اس سے معافی لے لے ، اس سے پہلے کہ (وہ دن آجائے جب) اس کے پاس نہ دینار ہو نہ درہم ، (اس دن) اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں گے تو ظلم کے مطابق اس سے چھین لیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے ۔(صحیح بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل... الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الظّلم، الفصل الاول، ۲ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۱۲۶،چشتی)
اس سے معلوم ہوا کہ معاشرتی امن کو قائم کرنے اور اس کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ’’ظلم‘‘ کو ختم کرنے میں اسلام کا کردار سب سے زیادہ ہے اور اس کی کوششیں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگَر ہیں کیونکہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دیں گے تو وہ ظلم نہ کر سکے گا اور ظالم جب اتنی ہَولْناک وعیدیں سنے گا تواس کے دل میں خوف پیدا ہو گا اور یہی خوف ظلم سے باز آنے میں اس کی مدد کرے گا ، یوں معاشرے سے ظلم کا جڑ سے خاتمہ ہو گا اور معاشرہ امن و سکون کا پُرلُطف باغ بن جائے گا ۔
حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مظلوم کی فریاد رسی کرے، اللہ تعالیٰ اس کےلیے 73 مغفرتیں لکھے گا ، ان میں سے ایک سے اس کے تمام کاموں کی درستی ہوجائے گی اور 72 سے قیامت کے دن اس کے درجے بلند ہوں گے۔( شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان... الخ، ۶ / ۱۲۰، الحدیث: ۷۶۷۰،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو کسی مظلوم کے ساتھ اس کی مدد کرنے چلے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس دن قدم پھسل رہے ہوں گے۔(حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس، ۶ / ۳۸۳، الحدیث: ۹۰۱۲،چشتی)
ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا ، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا: تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا ؟ اس نے کہا : میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا : کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے ؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے ، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا ۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا : کیا آپ رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو ۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجیے گا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا : کیا تم اسے مہلت دیتے ہو ؟ دیہاتی نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی ، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔ (فتوح الشام ذکر فتح حمص صفحہ نمبر ۱۰۰ الجزء الاول،چشتی)
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا ، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کریں ۔ چنانچہ یہ فیصلے کےلیے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے گھر پہنچے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ان سے فرمایا : ہم تمہارے پا س اس لیے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دو ۔ حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی : اے امیر المومنین ! یہاں تشریف رکھیے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کے لئے مقرر ہونے کے بعد کیا ، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا ۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ، حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس کا انکار کیا (حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پر قسم کھانا لازم آتا تھا) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے (حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے) حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے کہا : آپ امیر المومنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے قسم لینے سے در گزر کیجیے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا: زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک (مقدمے کے معاملے میں ) برابر نہیں ہو جاتے ۔ (ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن ثابت بن الضحاک۔۔۔ الخ، ۱۹ / ۳۱۹)
نظامِ عالم اور عدل و انصاف
قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب
صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سر فہر ست امام عادل کا نام آتا ہے : عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : ’’سبعۃ یظلھم اللّٰہ في ظلہٖ یوم لا ظل إلا ظلہ، إمام عادل ، وشاب نشأ في عبادۃ اللّٰہ ، ورجل معلق قلبہٗ في المساجد، ورجلان تحابا في اللّٰہ اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ، ورجل دعتہ امرأۃ ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف اللّٰہ، ورجل تصد ق بصد قۃٍ فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہٗ ما تنفق یمینہٗ، ورجل ذکر اللّٰہ خالیاً ففاضت عیناہ ۔ (صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجدینتظرالصلوۃوفضل المساجد، ج:۱، ص:۹۱،ط: قدیمی)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل بادشاہ ۔ وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو ۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے ۔ ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی ، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ۔ وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا : مجھے خدا کا خوف ہے۔ وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں ۔ مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment