فضائل و مسائلِ حج حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : لغوی رُو سے حج کا معنی قصد کرنا ، زیارت کا ارادہ کرنا ہے ۔ اصطلاحِ شریعت میں مخصوص اوقات میں خاص طریقوں سے ضروری عبادات اور مناسک کی بجاآوری کےلیے بیت اللہ کا قصد کرنا ، کعبہ اللہ کا طواف کرنا اور میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کہلاتا ہے ۔ حج کا لغوی معنی ’’القصد‘‘ (ارادہ کرنا) ہے ۔ جبکہ اصطلاح میں حج کا معنی ہے کہ : هُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْاَفْعَالِ الْمَخْصُوْصَةِ مِنَ الطَّوَافِ وَالْوُقُوْفِ فِي وَقْتِهِ، مُحْرَماً بِنِیَّةِ الْحَجِّ سَابِقاً ۔
ترجمہ : حج افعال مخصوصہ مثلاً طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے ہی حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے ۔ (الفتاوی الهندیةِ، 1: 216)
حج اسلام کا بنیادی رکن ہے یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو ۔ حج ، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے ۔ قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً ۔
ترجمہ : اور اللہ کےلیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو ۔ (سورہ آل عمران: 97)
حجاج کرام اللہ عزوجل کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے ۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کےلیے مسدود ہوجاتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دوران خطبہ ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا لہٰذا حج کرو - ایک شخص نے عرض کی ، یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیا ہر سال ؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سکوت فرمایا - انہوں نے تین بار یہ کلمہ کہا -
ارشاد فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر واجب ہو جاتا اور تم سے نہ ہو سکتا پهر فرمایا : جب تک میں کسی بات کو بیان نہ کروں تم مجهه سے سوال نہ کرو، اگلے لوگ کثرت سوال اور پهر انبیاء کرام (علیهم السلام) کی مخالفت سے ہلاک ہوئے ، لہٰذا جب میں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے اسے کرو اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اسے چهوڑ دو ۔ (صحیح مسلم کتاب الحج،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حج کیا اور رفث (فحش کلام) نہ کیا اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہوکر ایسا لوٹا جیسے اس دن تها کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ (صحیح بخاری کتاب الحج)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عمرہ سے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت ہی ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج کمزوروں کےلیے جہاد ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ،ابواب المناسک)
ام المومنین سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورتوں پر جہاد ہے ، فرمایا : ہاں ان کے ذمہ وہ جہاد ہے جس میں لڑنا نہیں (یعنی) حج و عمرہ ۔ (سنن ابن ماجہ ابواب المناسک،چشتی)
اور دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا : تمہارا جہاد حج ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجهاد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں ، جیسے بهٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت ہی ہے ۔ (جامع الترمذی ، ابواب الحج)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حاجی اپنے گهر والوں میں سے چار سو (افراد) کی شفاعت کرے گا اور (حاجی) گناہوں سے ایسا نکل جائے گا ، جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ (مسند بزار حدیث نمبر 3196،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج و عمرہ کرنے والے اللہ تعالٰی کے وفد ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں بلایا ، یہ حاضر ہوئے ، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ، اس نے انہیں دیا ۔ (الترغیب والترهیب للمنذری ، کتاب الحج)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حاجی کی مغفرت ہوجاتی ہے اور حاجی جس کےلیے استغفار کرے اس کےلئے بهی ۔ ( مجمع الزوائد للهیثمی حدیث نمبر 5287 جلد 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اس راہ میں حج یا عمرہ کےلئے نکلا اور مر گیا اس کی پیشی نہیں ہوگی ، نہ حساب ہوگا اور اس سے کہا جائے گا تو جنت میں داخل ہوجا ۔ (معجم اوسط للطبرانی حدیث نمبر 5388 جلد 4)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو حج کےلئے نکلا اور مر گیا ۔ قیامت تک اس کےلیے حج کرنے والے کا ثواب لکها جائے گا اور جو عمرہ کےلیے نکلا اور مر گیا تو اس کےلیے قیامت تک عمرہ کرنے کا ثواب لکها جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور مر گیا اس کےلیے قیامت تک غازی کا ثواب لکها جائے گا ۔ (مسند ابی یعلی حدیث نمبر 6337 جلد 5)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے حج کرنے سے نہ حاجت ظاہرہ مانع ہوئی ، نہ بادشاہ ظالم، نہ کوئی ایسا مرض جو روک دے ، پهر بغیر حج کیے مرگیا تو چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر ۔ (سنن دارمی کتاب المناسک)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص عرض کی : کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے ؟ فرمایا : توشہ اور سواری ۔ (جامع الترمذی ابواب الحج،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما راوی کہ کسی نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاجی کو کیسا ہونا چاہیے ؟ فرمایا : پراگندہ سر ، میلا کچیلا ۔ دوسرے نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حج کا کون سا عمل افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا : بلند آواز سے لبیک کہنا اور قربانی کرنا- کسی اور نے عرض کی، سبیل کیا ہے ؟ فرمایا : توشہ اور سواری ۔ (شرح السنتہ للبغوی کتاب الحج)
حج کا لغوی معنیٰ ہے قصد کرنا
اور شرعی طور پر حج نام ہے احرام باندھ کر نویں (9) ذی الحجہ کو (میدان) عرفات میں ٹهہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا اور اس کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان)
حج 9 ہجری میں فرض ہوا ۔ حج کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔ (المفہم جلد 3 - فتاویٰ ہندیہ، کتاب المناسک)
عمر بهر میں صرف ایک بار حج فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ فتاویٰ عالمگیری و درمختار)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔
عرض کی گئی : پھر کونسا ہے ؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔
قِیلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ : حَجٌّ مَبْرُورٌ ۔
عرض کی گئی کہ پھر کونسا ہے ؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو ۔ (بخاري، الصحیح، 1:18 ، رقم:27،چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔
ترجم : جو رضائے الٰہی کےلیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو ۔ (مسلم، الصحیح، 2: 983 ، رقم: 1350)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَلْعُمْرَةِ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے ، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے ۔ (بخاري، الصحیح، 2: 929، رقم: 1683،چشتی)
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے ۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا ۔
ترجمہ : جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے) ۔ (ترمذي، السنن، 3: 176،رقم: 812،چشتی)
اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ ﷲِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ ۔
ترجمہ : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2: 9، رقم: 2892)
حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةِ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةِ مَغْفُوْرًا لَهُ ۔
ترجمہ : جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا ۔ (ابن خزیمةِ، الصحیح، 4: 332،چشتی)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : إِذَا لَقِیتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ یَسْتَغْفِرَ لَکَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ ۔
ترجمہ : جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اسے گھر داخل ہونے سے پہلے اپنے بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2: 69، رقم: 5371)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ خَرَجَ حَاجّاً أَوْ مُعتَمِراً أوْ غَازِیاً ثمَّ مَاتَ فِی طریقِه کَتَبَ ﷲُ لَهٗ أجْرَ الغازِی وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ ۔
ترجمہ : جو مسلمان حج یا عمرہ یا جہاد کی نیت سے نکلا اور راستہ میں مرگیا ، اللہ اس کے لئے حج ، عمرہ یا جہاد کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے ۔ (بیهقی، شعب الایمان 3 : 474، رقم: 4100)
حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا ۔
ترجمہ : جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے ۔ (ترمذي السنن، 3: 189، رقم: 828،چشتی)
ادائیگی کے طریقہ کے لحاظ سے حج کی تین اقسام ہیں : ⬇
افراد : اس طریقے کو کہتے ہیں جس میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے، حج کرنے والا اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کرسکتا ہے اور احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی ضروری ہے ۔
قِران : حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے ۔ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کیا جاتا ہے اور پھر اسی احرام میں حج ادا کرنا ہوتا ہے ۔
تمتع : وہ طریقہ حج ہے جس میں حج اور عمرہ کو ساتھ ساتھ اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کی حالت سے باہر آسکتا ہے اور پھر حج کےلیے 8 ذی الحجہ کو حج کے ارادے سے احرام باندھتا ہے اور یہ سب سے آسان حج ہے ۔
فرائضِ حج درج ذیل ہیں : ⬇
1 : احرام باندھنا ۔
2 : وقوفِ عرفات ۔
3 : طواف زیارت کرنا ۔
ان تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا ۔
سات چیزیں حج کے واجبات میں شامل ہیں : ⬇
1 : مزدلفہ میں ٹھہرنا ۔
2 : جمرات کو کنکریاں مارنا ۔
3 : اگر حج قِران یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا ۔
4 : سر کے بال منڈاونا یا کترانا ۔
5 : صفا اور مروہ کے درمیان طوافِ سعی کرنا ۔
6 : طواف و داع کرنا ۔
7 : طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا ۔
ان واجبات میں سے کوئی واجب بھی ترک ہو جائے تو ایک قربانی دینا ضروری ہے ۔
ایامِ حج اور ارکانِ حج کی ادائیگی
8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایام حج کہلاتے ہیں ۔ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں ۔ ان کی تفصیل یہ ہے : ⬇
8 ذالحجہ : منیٰ کو روانگی
حجاج 8 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں ۔ سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے ۔ منی پہنچ کر ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات یہیں قیام کرتے ہیں اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں ۔
9 ذی الحجہ : وقوف عرفات
نماز فجر منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں ۔ میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوف عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے ۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اس کا حج نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے ۔
مزدلفہ میں قیام : اس دن غروب آفتاب کے وقت عازمین مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں ۔ مزدلفہ میں نماز عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں ۔ رات مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے ۔
10 ذی الحجہ : منٰی روانگی
فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا واجب ہے ۔ بعد ازاں عازمین منیٰ کو روانہ ہوتے ہیں ۔ منیٰ پہنچ کر حجاج کرام کو تین واجبات بالترتیب اداکرنے ہوں گے ۔
بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا ۔
رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا ۔
قربانی کے بعد سرمنڈاوانا یا کتروانا ۔
اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیا جاتا ہے اور حجاج سے احرام کی سب پابندیاں (سوائے مباشرت کے) ختم ہوجاتی ہیں ۔
طوافِ زیارت اور سعی
حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طوافِ زیارت ادا کرتے ہیں ۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12 ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے اس کے بعد دم (قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا ۔
طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنا واجب ہے ۔
منیٰ واپسی
طواف زیارت و سعی کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنت موکدہ ہے ۔ مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے ۔ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام رمی، کہتے ہیں ۔ ان تینوں تاریخوں میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۔ رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ پہلے جمرہ اولیٰ پر پھر جمرہ وسطیٰ اور بعد ازاں جمرہ عقبہ پر۔ پھر مکہ واپسی ہوتی ہے ۔
طوافِ وداع
یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیں ۔
مدینہ منورہ روانگی
مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کےلیے عشاق مدینہ منورہ روانہ ہوجاتے ہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment