Wednesday, 29 June 2022

آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ دوم

آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اس سے قبل حصّہ اوّل میں ہم تفصیل کے ساتھ مستند دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ آذر حضرت سیّدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہیں چچا تھا آئیے اب اس موضوع پر حصّہ دوم میں مزید دلائل پڑھتے ہیں : اس سلسلہ میں اس حدیث سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے (عرفی) باپ آزر سے قیامت کے دن ملاقات ہوگی اور آزر کے چہرے پر دھواں اور گرد و غبار ہوگا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے فرمائیں گے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میری نافرمانی نہ کرنا ؟ ان کے (عرفی) باپ کہیں گے ‘ آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں گے ‘ اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ تو قیامت کے دن مجھ کو شرمندہ نہیں کرے گا اور اس سے بڑی اور کیا شرمندگی ہوگی کہ میرا (عرفی) باپ رحمت سے دور ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے ‘ پھر کہا جائے گا اے ابراہیم ! تمہارے پیروں کے نیچے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دیکھیں گے تو وہ گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو ہوگا۔ اور اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٥٠‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٧٥‘ المستدرک ‘ ج ٢‘ ص ٣٣٨‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٢٩٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٣٨،چشتی)

حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر ہے اور جمہور اہل نسب ‘ بہ شمول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام تارخ ہے اور اہل کتاب تارح کہتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ١‘ ص ١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٩٧٤ ء)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : بعض علماء رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام شرک اور کفر کی آلودگی سے پاک اور منزہ ہیں ۔ ان کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ‘ ان کو مجازا باپ کہا گیا ہے اور ان کے باپ کا نام تارخ ہے اسی وجہ سے مطلقا نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تاکہ ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن متوجہ نہ ہو ‘ اور ان کے والد کے ساتھ آزر کا ذکر کیا ‘ تاکہ معلوم ہو کہ یہاں مجازی باپ مراد ہے۔ (اشعۃ اللمعات ‘ ج ٤‘ ص ٣٦٨‘ مطبوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنؤ)

شیخ محمد ادریس کا ندھلوی متوفی ١٣٩٤ ھ دیوبندی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : تحقیق یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا ‘ اس کو مجاز متعارف کے طور پر باپ کہا گیا ہے اور آپ کے باپ کا نام تارخ ہے۔ بعض محققین علماء جنہوں نے آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء سے کفر کی نفی کی ہے ان کی یہی تحقیق ہے ۔ اس بناء پر اس حدیث میں آزر کا ذکر اس لیے ہے کہ اگر یوں کہا جاتا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تو اس سے ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن چلا جاتا ‘ اور جب آزر کی قید لگائی تو ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن نہیں جائے گا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس چچا پر باپ کا اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اختلاط اور ان کی الفت اپنے اس چچا کے ساتھ بہت زیادہ تھی اور مشرکین کا رئیس تھا اور اسی کے ساتھ ان کا مناظرہ ہوا تھا ۔ (التعلیق الصبیح ‘ ج ٦‘ ص ٣٠١‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ ‘ لاہور،چشتی)

اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندگی میں آزر کے دشمن خدا ہونے کی وجہ سے اس سے بیزار ہوگئے تھے ‘ تو پھر قیامت کے دن اس کی سفارش کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر کے لیے نجات کی دعا کرنے سے بیزار ہوگئے تھے اور قیامت کے دن انہوں نے اس کی نجات کےلیے سفارش نہیں کی ‘ بلکہ اس کے عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش کی تھی اور بعض خصوصیات کی بنا پر کفار کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔

ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء کرام مومن تھے اس پر دلیل یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبداللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب سے خیر (بہتر) اور سب سے افضل تھے ‘ اور قرآن مجید میں یہ تصریح ہے : (آیت) ” ولعبد مومن خیرمن مشرک ولو اعجبکم “۔ (البقرہ : ٢٢١)
ترجمہ : اور بیشک مومن غلام ‘ مشرک (آزاد) سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں اچھا لگے۔
اور جب مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء کرام اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر اور افضل تھے تو ضروری ہوا ک کہ وہ مومن ہوں۔ نیز احادیث اور آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک ‘ بلکہ قیامت تک روئے زمین پر کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم رہے اور اس کی عبادت کرتے رہے اور ان ہی کی وجہ سے زمین محفوظ رہی ‘ ورنہ زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ‘ اور ان مقدمات سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء میں کوئی مشرک نہیں تھا۔ کیونکہ زمین کبھی مومنین اور مشرکین سے خالی نہیں رہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء اپنے اپنے دور میں سب سے بہتر اور افضل تھے اور مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہوتا ہے ۔ لہذاثابت ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام مومن تھے ‘ پہلے ہم اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ زمین کبھی مومنین اور موحدین سے خالی نہیں رہی اور پھر اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبد اللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب لوگوں سے بہتر اور افضل تھے ۔

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں از معمر ‘ از ابن جریج ‘ از ابن المسیب روایت کیا ہے ‘ روئے زمین پر ہمیشہ قیامت تک کم از کم سات مسلمان رہے ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور ہرچند کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ‘ لیکن اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی پس یہ حدیث حکما مرفوع ہے ۔ امام ابن المنذر نے اس حدیث کو امام عبدالرزاق کی سند سے اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے زمین میں ہمیشہ چودہ ایسے نفوس رہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا تھا اور ان کی برکت زمین میں پہنچاتا تھا ‘ ماسوا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے ‘ کیونکہ وہ اپنے زمانہ میں صرف ایک تھے۔
امام ابن المنذر نے قتادہ سے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین میں اللہ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا ہے ‘ کبھی زمین ابلیس کے لیے خالی نہیں رہی ‘ اس میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جو اس کی اطاعت کرتے رہے ہیں ۔
حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر از قاسم ‘ از امام مالک روایت کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما نے فرمایا جب تک زمین میں شیطان کا ولی ہے ‘ تو زمین میں اللہ کا ولی بھی ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے کتاب الزھد میں بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد زمین کبھی ایسے نفوس سے خالی نہیں رہی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی حکما مرفوع ہے ۔
امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں زہیر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین پر کم از کم سات ایسے رہے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام ابن المنذر نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ ابن جریج سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے کہا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ‘ اللہ کی عبادت کرتے رہے ۔
امام بزار نے اپنی مسند میں اور امام ابن جریر ‘ امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی اپنی تفاسیر میں اور امام حاکم نے المستدرک میں تصحیح سند کے ساتھ اس آیت ” کان الناس امۃ واحدۃ “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے درمیان دس قرن ہیں اور ان میں سے ہر ایک شریعت حق پر ہے ۔ پھر ان کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور زمین والوں پر اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلا رسول بھیجا ‘ وہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے ۔ اور امام محمد بن سعد نے طبقات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک دس آباء ہیں اور وہ سب اسلام پر تھے۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٣۔ ٢١٢‘ مطبوعہ فیصل آباد،چشتی)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ زمین اللہ اللہ نہ کہا جائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ دوسری روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک شخص بھی اللہ اللہ کہتا رہے گا اس پر قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ (صحیح مسلم ‘ ایمان ٢٣٤‘ (١٤٨) ٣٦٩‘ ٣٦٨‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢١٤‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٥‘ رقم الحدیث :‘ ٦٨٤٩‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٨٣٤‘ طبع جدید ‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ ص ٢٦٨‘ ٢٠١‘ ١٠٧‘ طبع قدیم ‘ مسند ابو یعلی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٢٦‘ مصنف عبدالرزاق ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٨٤٧‘چشتی،مسند ابو عوانہ ‘ ج ١‘ ص ١٠١‘ المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٤٩٤‘ شرح السنہ ‘ ج ٧‘ ص ٤١٧٨‘ کنز العمال ‘ ج ١٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٥٨٥‘ مسند البزار ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٤١٨‘ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٣٣١‘ ج ٨‘ ص ١٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥١٦)
اس صحیح حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر دور میں اللہ اللہ کہنے والے مسلمان بندے روئے زمین پر رہے ہیں اور کسی دور میں بھی اللہ اللہ کہنے والوں سے زمین خالی نہیں رہی ‘ ورنہ قیامت آچکی ہوتی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام کا اپنے اپنے زمانہ میں سب سے افضل اور بہتر ہونا

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے بنو آدم کے ہر قرن اور ہر طبقہ میں سب سے بہتر قرن اور طبقہ سے مطعوث کیا جاتا رہا حتی کہ جس قرن میں میں ہوں ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٥٧‘ مسند احمد ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٦٠‘ ٨٨٤٣‘ طبع دارالحدیث قاہرہ ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٤١٧‘ طبع قدیم ‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٧٣٩‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٠٠٥‘ دلائل النبوۃ للبیقہی ‘ ج ١‘ ص ١٧٥)

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں۔ جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا ‘ میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ مجھے زمانہ جاہلیت کی بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ بدکاری سے پیدا نہیں کیا گیا ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر پاکیزگی کا یہ سلسلہ میرے باپ اور میری ماں تک پہنچا ہے ‘ میں بطور شخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بہ طور باپ کے تم سب سے بہتر ہوں۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ١‘ ص ١٧٥‘ ١٧٤)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماں باپ کبھی بھی بدکاری پر جمع نہیں ہوئے ۔ اللہ عزوجل ہمیشہ مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل فرماتا رہا ‘ جو صاف اور مہذب تھیں۔ جب بھی دو شاخیں پھوٹیں ‘ میں ان میں سے بہتر شاخ میں تھا۔ (دلائل النبوۃ ج ١‘ رقم الحدیث : ١٥)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش آپس میں بیٹھے ہوئے اپنے حسب ونسب کا ذکر رہے تھے ۔ انہوں نے آپ کی مثال اس طرح دی جیسے زمین کے گھورے (گندگی ڈالنے کی جگہ) میں کھجور کا درخت پیدا ہوگیا ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر لوگوں میں اور سب سے بہتر گروہوں میں اور سب سے بہتر فرقوں میں رکھا ‘ پھر قبیلوں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر گھروں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔ پس میں بطور شخص سب سے بہتر ہوں اور بہ طور گھر سب سے بہتر ہوں۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٧‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ١٦٩‘ دلائل النبوۃ لابی نعیم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٦،چشتی)

مطلب بن ابی وداعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کوئی ناگوار بات سنی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا میں کون ہوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ علیک السلام ‘ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہوں ‘ بیشک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے سب سے بہتر مخلوق میں رکھا ۔ پھر اللہ نے ان کے دو گروہ کیے ‘ تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں رکھا۔ پھر اللہ نے ان کو قبائل میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر اللہ نے ان کو گھروں میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا اور سب سے بہتر شخص میں رکھا ۔ امام ترمذیرحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٨‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٢٧٠‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ٦٧٦۔ ٦٧٥‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ١٦٦۔ ١٦٥)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما ” وتقلبک فی الساجدین “ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی پشتوں میں منقلب ہوتے رہے ‘ حتی کہ آپ اپنی والدہ (رضی اللہ عنہا) سے پیدا ہوئے ۔ ‘ (دلائل النبوۃ ج ١‘ رقم الحدیث : ١٧) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...