Thursday, 23 June 2022

فضائل و مسائلِ حج حصّہ چہارم

فضائل و مسائلِ حج حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے ، جس کے لفظی معنی ہیں ’ قصد کرنا ، کسی جگہ ارادے سے جانا ‘ جبکہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنا ہے ۔ (ابن منظور افريقی لسان العرب 3 : 52)

حج کے مقررہ دنوں کے علاوہ بھی کسی وقت مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں ۔ اصطلاحِ شریعت میں عمرہ سے مراد شرائطِ مخصوصہ اور افعالِ خاصہ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کرنا ہے ۔ (الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 1121)

وہ آخری مقام جہاں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کا احرام کے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں ، میقات کہلاتا ہے ۔

حدودِ حرم سے پہلے جن مقامات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطور میقات مقرر فرمایا وہ پانچ ہیں ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اہل مدینہ کےلیے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحُلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جُحفہ ہے اور اہل عراق کےلیے احرام باندھنے کی جگہ ذاتِ عرق ہے ، اہل نجد کےلیے قرن المنازل ہے اور اہل یمن کےلیے یَلَمْلَمْ ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب مواقيت الحج و العمره، 2 : 841، رقم : 1183،چشتی)

پاکستانیوں کا میقات یَلَمْلَمْ ہے ، جہاں اہلِ پاکستان احرام باندھتے ہیں ، جو جدہ سے پہلے آتا ہے ۔

حدودِ حرم کے باہر چاروں طرف جو زمین میقات تک ہے ، اسے حِلّ کہتے ہیں اور جو شخص زمین حِلّ کا رہنے والا ہو اسے حِلّی کہتے ہیں ۔ اس جگہ وہ تمام چیزیں حلال ہیں جو حرم میں احتراماً منع ہیں ۔

مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک زمین کو حرم کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ ہر طرف حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں ، ان حدود کے اندر شکار کھیلنا ، وحشی جانوروں حتیٰ کہ جنگلی کبوتروں کو تکلیف و ایذا دینا، جانوروں کو گھاس چرانا بلکہ تر گھاس اکھیڑنا بھی حرام ہے۔ مکہ مکرمہ ، منیٰ ، مزدلفہ سب حدودِ حرم ہیں ، البتہ عرفات داخلِ حرم نہیں ۔

وہ شخص جو حج کی نیت سے حدود میقات کے باہر سے آئے ، مثلاً یمنی ، پاکستانی ، بھارتی ، مصری ، شامی ، عراقی اور ایرانی وغیرہ کو آفاقی کہتے ہیں ۔ یہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

حج یا عمرہ کی باقاعدہ نیت کر کے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے احرام کہتے ہیں ۔ اس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا ۔ یعنی ایک چادر نئی یا دھلی ہوئی اوڑھنے کےلیے اور ایسا ہی ایک تہہ بند کمر پر لپیٹنے کےلیے ۔ اس کے پہننے کے بعد بعض حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں ۔

تلبیہ وہ مخصوص ورد ہے جو حج اور عمرہ کے دوران حالت احرام میں کیا جاتا ہے۔ تلبیہ کے کلمات یہ ہیں : لَبَّيکَ اَللّٰهمَّ! لَبَّيک، لَبَّيک لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية، وصفتها ووقتها، 2 : 841، رقم : 1184،چشتی)(ترمذی، السنن، ابواب الحج، باب ما جاء فی التلبية، 2 : 176-177، رقم : 825)
’’اے اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ میں حاضر ہوں ۔ تعریف ، نعمت اور بادشاہی تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘

احرام کےلیے ایک مرتبہ زبان سے تلبیہ کہنا ضروری ہے اور نیت شرط ہے ۔ الفاظِ نیت یہ ہیں : اَللّٰهمَّ إِنِّی أُرِيدُ الْحَجَّ يا أُرِيدُ الْعُمْرَة فَيسِّرْه لِیْ يا فَيسِرَها لِی وَتَقَبَّلْه مِنِّی ۔
’’ اے اللہ ! میں حج یا عمرہ کی نیت کرتا ہوں ، پس اس کو میرے لیے آسان کر دے اور مجھ سے قبول کر لے ۔‘‘

مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے اردگرد بطریقِ خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے ۔ جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں ۔ طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوتا ہے ۔

مکۃ المکرمہ میں داخل ہونے کے بعد جو پہلا طواف کیا جاتا ہے ۔ اسے طوافِ قدوم کہتے ہیں ، یہ طواف ہر اس آفاقی کےلیے مسنون ہے جو حج اِفراد یا قِران کی نیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہو ۔

طوافِ زیارت حج کا رُکن ہے ، چونکہ یہ قربانی ، حلق و تقصیر اور اِحرام کھولنے کے بعد عام لباس میں کیا جاتا ہے ، اس لیے اس طواف میں اضطباع نہیں ۔ یہ طواف 10 ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ غروبِ آفتاب سے پہلے تک ہو سکتا ہے ۔ البتہ 10 ذوالحجہ کو کرنا احسن ہے ۔ طوافِ زیارت کرنے کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں ۔

بیت اللہ سے واپسی کے وقت طواف کرنا ، طوافِ وداع کہلاتا ہے ۔ اس میں نہ رمل ہے نہ سعی اور نہ ہی اضطباع ۔ یہ آفاقی پر واجب ہے ۔

وہ طواف جو کوئی بھی عاقل شخص مکہ میں قیام کے دوران وقت کی پابندی کیے بغیر کسی بھی وقت ایک یا ایک سے زائد بار کر سکتا ہے نفلی طواف کہلاتا ہے ۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی احرام باندھنے کی پابندی ہوتی ہے ۔ آفاقی یعنی مسافر کےلیے نفل نماز سے نفل طواف افضل ہے اور اہل مکہ کےلیے طواف سے نماز افضل ہے ، مکہ والوں کےلیے یہ حکم فقط موسم حج کےلیے ہے تاکہ آفاقیوں کےلیے جگہ تنگ نہ ہو ورنہ نفل طواف بہتر ہے ۔

طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے ، اضطباع کہلاتا ہے ۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی‘‘۔ پھر کعبہ کی طرف منہ کر کے اپنی دائیں جانب حجرِ اسود کی طرف چلیں، یہاں تک کہ حجر اسود بالکل سامنے ہو جائے۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء أن النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبعًا، 3 : 214، رقم : 859)

طواف کے پہلے تین پھیروں میں تیز قدم اٹھانے اور شانے ہلانے کو رمل کہتے ہیں ، جیسا کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیت اللہ کا طواف فرماتے تو تین مرتبہ رمل فرماتے اور چار مرتبہ چلتے ۔ (ابن ماجه ، السنن، کتاب المناسک، باب الرمل حول البيت، 3 : 441، رقم : 2951،چشتی)

دونوں ہاتھوں کے درمیان منہ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر بھیڑ کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو استلام کہتے ہیں ۔

حضرت زبیر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا استلام کرتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب الحج، باب تقبيل الحجر، 2 : 583، رقم : 1532)

احرام کے ساتھ طواف و سعی کے مجموعہ کا نام عمرہ ہے ۔ یہ طواف عمرہ کرنے والوں پر فرض ہے ۔ اس طواف میں اضطباع ، رمل اور اس کے بعد سعی بھی ہے ۔

صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی طرف جانا اور آنا اور مِیْلَیْن اخضَرَیْن کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا سعی کہلاتا ہے ۔

آٹھ 8 ذوالحجہ کو حج کی عبادات کا آغاز ہوتا ہے ، اسے ’’یوم التّرویہ‘‘ کہتے ہیں ۔

نو 9 ذوالحجہ کو میدان عرفات میں حج ہوتا ہے، اسی نسبت سے اس دن کو یومِ عرفہ کہتے ہیں ۔

دس 10 ذوالحجہ کو ، جس دن قربانی کی جاتی ہے ، اسے یومِ نحر کہتے ہیں ۔

نو 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک کے ایّام ، ایامِ تشریق کہلاتے ہیں ۔ ان دنوں میں ہر فرض نماز باجماعت پڑھنے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھی جاتی ہے ، تکبیر تشریق یہ ہے : الله اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ لَا اِلٰه اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْد ۔

نو 9 ذوالحجہ کو عرفات میں ٹھہرنا ، خشیتِ الٰہی اور خالص نیت سے ذکر ، لبیک ، دعا ، درود و سلام ، استغفار میں مشغول رہنا ، نماز ظہر و عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروبِ آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنے کو وقوف عرفہ کہتے ہیں ۔

منیٰ میں واقع تین جمرات (یعنی شیاطین) پر کنکریاں مارنے کو رَمِیْ کہتے ہیں ۔ ان میں سے پہلے کا نام جمرۃ الاخریٰ یا جمرۃ العقبہ ہے ۔ اسے عوام الناس بڑا شیطان کہتے ہیں ۔ دوسرے کو جمرۃ الوسطیٰ (منجھلا شیطان) اور تیسرے کو جمرۃ الاولیٰ (چھوٹا شیطان) کہتے ہیں ۔

وہ جانور جسے حج یا عمرہ کرنے والا اپنی طرف سے قربانی کےلیے وقف کرے اسے ھَدِی کہتے ہیں ۔

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد قبلہ رو بیٹھ کر حاجی کےلیے سارا سر منڈانا حلق کہلاتا ہے ۔ حلق کروانا افضل ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَللَّهمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، 2 : 617، رقم : 1641،چشتی)
’’اے اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے۔‘‘

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد سر منڈانے کی بجائے بالوں کو کتروانے یعنی بال چھوٹے کرانے کی بھی اجازت ہے ، یہ عمل تقصیر کہلاتا ہے ۔ لیکن حلق ، تقصیر کی نسبت زیادہ افضل ہے ۔ خواتین پر حلق اور قصر دونوں نہیں ، بلکہ وہ انگلی کی ایک پور کے برابر بال کتروائیں ۔

کعبہ یا بیت اللہ مقاماتِ حج میں سے سب سے عظیم مقام ہے ۔ اسی کا حج اور طواف کیا جاتا ہے اور وہ مسجد جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ گھر واقع ہے ، اسے مسجدِ حرام کہتے ہیں ۔

کعبۃ اللہ کے چار رُکن ہیں : ⬇

رکنِ اَسود : یہ حرمِ کعبہ کا جنوب مشرقی کونہ ہے، جہاں حجر اسود نصب ہے ۔
رکنِ عراقی : یہ حرم کعبہ کا شمال مشرقی کونہ ہے ، جہاں بابِ کعبہ ہے ، جو اپنی دو رکنوں کے درمیان کی شرقی دیوار میں زمین سے بہت بلند ہے ۔
رکنِ شامی : یہ بیت اللہ کا شمال مغربی کونہ ہے ۔ یہاں حجرِ اسود کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو بیت المقدس سامنے ہو گا ۔
رکنِ یمانی : یہ بیت اللہ کا جنوب مغربی کونہ ہے ، جو کہ یمن کی سمت واقع ہے ۔

حجرِ اسود : یہ ایک جنتی پتھر ہے ، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے ۔ حدیثِ مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نَزَل الْحَجرُ الْاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّة وَهوَ اَشَدُّ بَياضًا مِنَ اللَّبْنِ فَسَوَّدَتْه خَطَايا بَنِی آدَمُ ۔ (ترمذی، السنن، ابواب الحج، باب ماجاء فی فضل الحجر الاسود و الرکن و المقام، 2 : 216-215، رقم : 877،چشتی)
’’حجر اسود جنت سے اترا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔‘‘

حجرِ اسود خانہ کعبہ کے طواف کے شروع اور ختم کرنے کےلیے ایک نشان کا کام دیتا ہے ۔

مشرقی دیوار کا وہ ٹکڑا جو رکنِ اسود سے بابِ خانہ کعبہ تک ہے ۔ ملتزم کہلاتا ہے ۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم پر نماز و دعا سے فارغ ہو کر حاجی یہاں آ کر اس سے لپٹتے ، اپنا سینہ و رخسار اس پر رکھتے ہوئے اور ہاتھ اونچے کر کے دیوار پر پھیلاتے ہوئے دعا کرتے ہیں ۔

سونے کا پرنالہ جو رکنِ عراقی اور رکنِ شامی کی درمیانی دیوار کی چھت پر نصب ہے ۔ اسے خانہ کعبہ کا پرنالہ یعنی میزابِ رحمت کہا جاتا ہے ۔

بیت اللہ شریف کی شمالی دیوار کی طرف زمین کا ایک حصہ ، جس کے ارد گرد قوسی کمان کے انداز کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی ہے ، اُسے حطیم کہتے ہیں ۔ اس کے دونوں طرف آمد و رفت کا دروازہ ہے ۔ اس حصہ زمین کو طواف میں شامل کرنا واجب ہے ۔

رکنِ یمانی و شامی کے درمیان غربی دیوار کا وہ ٹکڑا جو ملتزم کے مقابل ہے ، مستجار کہلاتا ہے ۔

رکنِ یمانی اور رکن اَسود کے درمیان جنوبی دیوار ہے ۔ یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں ۔ اس لیے اس کا نام مستجاب رکھا گیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وُکِّلَ بِه يعنی بِالرُّکْنِ الْيمَانِي سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ فَمَنْ قَالَ : اللَّهمَّ إِنِّی أَسأَلُکَ الْعَفْوَ (والعافية) فِی الدُّنْيا وَالآخِرَة، رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وَفِی الْآخِرَة حَسَنَة وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالُوْا : آمين ۔ (ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 110، رقم : 7332،چشتی)
’’رکن یمانی پر ستر ہزار فرشتے تعینات ہیں، پس جو کوئی بھی وہاں یہ دعا پڑھتا ہے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ،‘‘ تو وہ آمین کہتے ہیں۔‘‘

مقامِ ابراہیم علیہ السلام دروازہ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ مقدس پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی ۔ آپ کے قدم مبارک کا اس پر نشان پڑ گیا جو اب تک موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيتَ مَثَابَة لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيمَ مُصَلًّی ۔ (البقرة، 2 : 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کےلیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا ، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘

آب زمزم مکہ معظمہ کا وہ کنواں ہے جس کا پانی پینا ثواب اور بہت سی بیماریوں کےلیے باعث شفا ہے ۔

باب الصّفا مسجد حرام کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔

باب السّلام مسجد حرام کا ایک دروازہ ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی دروازے سے مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے ۔ اس کا نام اب ’’باب الفتح‘‘ رکھ دیا گیا ہے ۔

کعبۃ اللہ سے جنوب کی سمت ایک پہاڑی ہے ، جہاں سے سعی شروع ہوتی ہے ، اسے صفا کہتے ہیں ۔ یہ پہاڑی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ گئی ہے اور اب وہاں قبلہ رخ ایک دالان (برآمدہ) سا بنا ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں ۔

کعبہ کے قریب شمال مشرق کی سمت ایک پہاڑی ہے ، جہاں سعی ختم ہوتی ہے ، اسے مروہ کہتے ہیں ۔ یہ بھی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ چکی ہے ۔ یہاں بھی اب قبلہ رخ دالان اور سیڑھیاں ہیں ۔ صفا سے مروہ کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ مسجد حرام کا احاطہ ہے ۔

دو سبز ستون جو حرمین شریفین میں صفا و مروہ کے درمیان نصب ہیں ، انہیں میلین اخضرین کہتے ہیں ، ان کے درمیان صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے دوڑ کر گزرنا پسندیدہ ہے ۔ نشانی کے طور پر وہاں سبز رنگ کی ٹیوب لائٹس شب و روز روشن رہتی ہیں ۔

صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کی جگہ یعنی وہ فاصلہ جو ان دونوں نشانوں کے درمیان ہے مَسعیٰ کہلاتا ہے ۔

تنعیم وہ مقام ہے ، جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے احرام باندھا تھا ۔ اسے مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ مسجد حرم پاک سے باہر ہے اور مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران عمرے کےلیے وہاں سے احرام باندھا جاتا ہے ۔

ذُوالحُلَیْفَہ : یہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی طرف 10 کلومیٹر دور ایک مقام ہے، جو اہل مدینہ کا میقات ہے ۔

ذاتِ عرق : یہ عراق سے آنے والوں کےلیے میقات ہے اور مکہ سے تقریبًا تین دن کی مسافت پر عراق کی طرف ہے ۔

جُحفہ : یہ اہل شام و اہل مصر کا میقات ہے اور مکہ مکرمہ سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

قَرنُ الْمَنازِل : یہ نجد کی طرف سے آنے والوں کےلیے میقات ہے ۔

میدانِ عرفات ایک بہت بڑا میدان ہے ، جو منیٰ سے تقریبًا 11 کلو میٹر دور ہے ۔ یہاں پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے ۔ یہ اُس یادگار ملاقات کی علامت بھی ہے ، جو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیھا السلام کے درمیان جنت سے نکالے جانے اور طویل عرصہ کی جدائی کے بعد اس میدان میں ہوئی ، جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ اس پہچان کی وجہ سے اس کو میدانِ عرفات کہا جاتا ہے ۔ اس میدان کی حدود چاروں طرف سے متعین ہیں اور اب حکومت سعودیہ نے ان حدود پر نشانات لگوا دیے ہیں ۔ تاکہ وقوف عرفات جو حج کا رکن اعظم ہے، اس سے باہر نہ ہو ۔

عرفات میں وہ جگہ جہاں نماز کے بعد غروب آفتاب تک کھڑے ہو کر ذکر و دعا کرنے کا حکم ہے ، مَوقِف کہلاتا ہے ۔

بطنِ عرفہ : یہ عرفات کے قریب ایک جنگل ہے ۔ یہاں وقوف جائز نہیں ۔ یہاں قیام یا وقوف کیا تو حج ادا نہ ہوگا ۔ سعودی حکومت نے اس کی حدود پر نشانات لگوا دیئے ہیں تاکہ وقوف عرفات اس کے اندر نہ ہو ۔

مسجدِ نَمرہ : میدانِ عرفات کے بالکل کنارے پر ایک عظیم مسجد ہے ، جسے مسجد نمرہ کہتے ہیں ، اس کا کچھ حصہ عرفات کے اندر اور کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے ۔ اس حصہ میں بڑے بڑے بورڈ لگا دیئے ہیں ۔ تاکہ کوئی شخص مسجد کے اس حصے میں قیام نہ کرے ۔ کیونکہ اس حصے میں قیام کرنا وقوف عرفات کےلیے کافی نہیں ۔ حج کا خطبہ اسی مسجد میں دیا جاتا ہے ۔ اسے مسجد ابراہیم بھی کہتے ہیں ۔

جبلِ رحمت عرفات کا ایک پہاڑ ہے ۔ یہ زمین سے تقریبًا تین سو فٹ اونچا اور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے ، اسے موقفِ اعظم بھی کہتے ہیں ۔ اسی کے قریب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوف فرمایا ۔

مزدلفہ : عرفات اور منیٰ کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے ، اسے مزدلفہ کہتے ہیں ۔ عرفات سے تقریبًا تین میل دور ہے ۔ یہاں سے منیٰ کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے ۔

ماذمین : عرفات اور مزدلفہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے، جو ماذمین کہلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات سے مزدلفہ اسی راستے تشریف لائے تھے ۔

مَشْعَرِ حرام اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعر حرام کہتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۔ (البقرة، 2 : 198)
’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو۔‘‘

مزدلفہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کی جگہ گنبد بنا دیا گیا تھا ، آج کل یہاں ایک مسجد ہے ، جسے مسجد مشعر حرام کہا جاتا ہے ۔ مزدلفہ کا پہاڑ جبل قزح مشعر حرام ہے ۔

وادی مُحَسَّرْ : مُحَسَّرْ وہ وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب الٰہی نازل ہوا تھا اور وہ مکہ مکرمہ کی طرف آگے نہ بڑھ سکے اور سب ہلاک ہو گئے ، جس کا سورہِ فیل میں ذکر ہے ۔

مِنٰی : منیٰ ایک وسیع اور کشادہ میدان ہے ، جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے ۔ مزدلفہ سے یہاں آ کر رمی جمار اور قربانی جیسے افعال ادا کئے جاتے ہیں ۔

مسجد خیف : مسجد خیف منیٰ کی مشہور اور بڑی مسجد کا نام ہے ۔ خیف وادی کو کہتے ہیں، اس پر ہشت پہلو قبہ ہے ، اس قبہ کی جگہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت سے انبیاۓ کرام علیہم السّلام نے نمازیں ادا فرمائی ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسجدِ خیف میں ستر انبیاء علیہم السلام نے نماز ادا کی ۔ (حاکم، المستدرک، 2 : 653، رقم : 4169،چشتی)

مسجد کبش اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کےلیے اپنے لخت جگر کو لٹایا تھا اور کبش یعنی دنبہ ذبح فرمایا تھا ۔

جنت معلّٰی مکہ مکرمہ کا وہ تاریخی قبرستان ہے جہاں چھ ہزار جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں ۔ یہ منیٰ کے راستہ میں مسجد الحرام سے تقریباً ایک میل دور شمال مشرق میں واقع ہے ۔ یہ قبرستان مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے علاوہ دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے ۔
قبرستان کو اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ درمیان میں سڑک ہے ۔ پرانے حصے میں ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے ۔ پہلے کبھی قبر مبارک پر گنبد تھا جو اب گرا دیا گیا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ تابعین اور بہت سے اولیائے کاملین و صالحین علیہم الرحمہ یہاں آرام فرما ہیں ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا جناب عبد المطلب، چچا جناب ابوطالب، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادگان حضرت قاسم، حضرت طاہر اور حضرت طیب رضی اللہ علہیم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں ۔

جنت البقیع مدینہ منورہ کا عظیم قبرستان ہے، جو مسجد نبوی کی مشرقی سمت میں ہے، باب جبریل سے نکل کر سڑک پر آئیں تو سامنے جنت البقیع کا احاطہ نظر آتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہاں دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آرام فرما ہیں اور تابعین، تبع تابعین اور اولیاء و علماء و صلحاء وغیرھم بھی بے شمار ہیں۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بقیع کے شمال مشرقی گوشہ کے قریب مدفون ہیں۔ یہیں پر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے۔ اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں صاحبزادیاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اسی مقامِ ادب پر محوِ استراحت ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہما، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھیوں کے مزارات بھی بقیع کے احاطہ میں ہیں۔ بقیع کی مشرقی دیوار سے باہر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کے مزارات ہیں۔
حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت اسد بن زرارۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں۔
شیخ القرآء امام نافع اور امام مالک رضی اللہ عنہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے مزار بھی احاطہ میں موجود ہیں جو جنگ احد میں زخمی ہوئے اور مدینہ منورہ میں آ کر وفات پا گئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر جنت البقیع تشریف لے جاتے اور اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے۔ مسجد نبوی اور روضہ اطہر کی حاضری کے بعد پہلی فرصت میں جنت البقیع کی زیارت کرنی چاہئے۔

جمار : منیٰ کے میدان میں پتھر کے تین بڑے ستون نصب ہیں، جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں جمار کہلاتے ہیں۔ ان میں سے منیٰ سے مکہ کی طرف جائیں تو پہلے کا نام جمرہ اولیٰ، دوسرے کا نام جمرہ وسطی اور تیسرے کا نام جمرہ عقبہ ہے۔

جبل النور وہ عزت و عظمت والا پہاڑ ہے جس پر غارِ حرا ہے۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی غارِ حرا میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ قرآنِ حکیم کی پہلی وحی بھی اسی غارِ حرا میں نازل ہوئی۔ گویا پہلی وحی کے نزول کی یہی جگہ ہے۔ اس پر چڑھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔

جبل ثور مکہ مکرمہ سے تقریبًا ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی پہاڑ ہے جس کی چوٹی کے قریب واقع ایک غار میں ہجرت کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق سفر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن قیام فرمایا۔ اس پہاڑ کی بلندی تقریبًا سوا دو کلومیٹر ہے۔(ماخوذ : فتایٰ رضویہ ۔ بہار شریعت ۔ فتاویٰ قاضی خان ۔ فتایٰ عالمگیری) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...