اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے کر گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قتل کردے تو کیا حکم ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : اگر کسی نے انفرادی طور پر اُٹھ کر ایسے گستاخ کو قتل کردیا تو اس کا کیا حکم ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نبوی زندگی میں اس کی کوئی مثال اگر ہےتو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایسے گستاخ کے قاتل کے ساتھ کیا رویہ اپنایا ہے ۔ ہمارا اعلی تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا سیکولر طبقہ ایسے ہر موقع پر جب توہین رسالت کے کسی مجرم اور گستاخ رسول کو کوئی سچا پکا مسلمان اور اپنے نبی کا دیوانہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کیفر کردار کو پہنچا دیتا ہے تو شور مچا دیتا ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ بجا فرمایا قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے لیکن یہ طبقہ ذرا یہ تو بتائے کہ یہ عدالتیں ان ملعنوں کے کیسز کو تمام ثبوت اور شواہد ہونے کے باوجود کئی کئی سال لمبی لمبی تاریخیں دے کر کیا قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتی ہیں بلکہ ہاتھ میں کیا یہ تو ایسے کیسز کو جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔ مزید ستم یہ کہ ایسے گستاخوں کو خصوصی پروٹوکول دے کر بیرون ملک فرار کروا دیا جاتا ہے کیا یہ قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں ہے ؟؟؟؟ اور پھر بیروں ملک ان کو وی آئی پی کا سٹیٹس دے کر ہمارے سینوں پر مونگ دلی جاتی ہے ہمیں بے بسی کا احساس دلایا جاتا ہے ہمیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ تمہیں اپنے آزاد اسلامی ملک میں اگر اپنے نبی کی حرمت کا احساس نہیں ہے تمہاری حکومتیں اگر اپنے نبی کی حرمت سے زیادہ ہماری خوشنودی کی طلبگار ہیں تو تم بھگتو ہمیں تو اپنے عیسائی اپنے قادیانی کی حرمت کا پورا احساس ہے ہم تو ان کا تحفظ ان کو وی آئی پی کا سٹیٹس دے کر کریں گے ۔ ہمیں ان کے رویوں میں یہ منافقت نظر آتی ہے کہ وہ سیکولر ضرور ہیں لیکن اپنے کسی ہم مذہب کو جیل جاتا پھانسی چڑھتا نہیں دیکھ سکتے لیکن ہمارے لبرل اور سیکولر انسانیت کا رونا روتے رہتے ہیں اور قانون قانون کی رٹ لگا کر ہمیں جاہل پاگل اور ذہنی مریض ثابت کیا جاتا ہے. کیا قائد اعظم جب غازی علم الدین شہید کا مقدمہ لڑ رہے تھے تو کیا وہ ذہنی مریض تھے ؟؟ جب علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گئیے تو کیا وہ ذہنی مریض تھے ۔
(1) حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ اناعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ ۔ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیتی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخیاں کرتی تھی ، یہ نابینا اس کو روکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی ۔ راوی کہتا ہے کہ جب ایک رات پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخیاں کرنی اور گالیں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا ، عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل پڑا ، جو کچھ وہاں تھا خون الود ہوا ۔ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا کہ اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے ، تو نابینا کھڑا ہوا ، لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑا کہ وہ کانپ رہا تھا ، حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ہوں اسے مارنے والا ، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا تھا وہ نہ رکتی تھی ، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی ، لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ (بے سزا) ہے ۔
(2) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ۔ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ : حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور برا کہتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسکے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا ۔
پہلی حدیث تو ایک مملوکہ باندی کا تھا اور دوسری حدیث غیر مملوکہ غیر مسلم کے متعلق ہے، مگرغیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال کئے بغیر جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیا اور حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکا بدلہ باطل قرار دیا ۔ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دینے والے مباح الدم بن جاتا ہے اور اگر کوئی اس گستاخ کو انفرادی طور پر قتل کرے تو قاتل کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس گستاخ کا قاتل ہر قسم کے جرم و سزا سے آزاد ہوگا۔نیز حق کا علمبردار بن کر ثواب عظیم کا مستحق بن جاتا ہے ۔ گستاخ رسول کا قتل حکومت کا ذمہ ہے ۔ اور عام آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے ، لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اس گستاخ کو قتل کیا تو اس قاتل پر کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہوگا کیونکہ مرتد مباح الدم ہوتا ہے اور جائز القتل ہوتا ہے ۔ عام آدمی اگر اس کو قتل کردے تو یہ آدمی مجرم نہیں ہوگا ۔
محترم قارئینِ کرام : اگر کسی کی ماں بہن یا بیوی کو کوئی بدبخت سرعام اور بیچ چوراہے کے چھیڑے اور اس کی عزت و حرمت کو نیلام کرنے کی کوشش کرے تو کتنے ایسے ہیں جو وہاں پر اپنی ماں یا بہن کو اس بات کی تلقین کریں گے کہ نہیں مسئلہ قانونی ہے ؟ ہمیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے ؟ کتنے ایسے ہیں جو ایسے فعل بد کے خلاف تحریک چلائیں گے اور حکومت جو تحفظ نہیں دے سکتی اسے ہٹا کر دوسری حکومت بنائیں گے جو تحفظ دے گی ؟ کتنے ایسے جو طاقت کے باوجود رواداری کا درس دینا شروع کردیں گے ؟ کتنے ایسے ہیں جنہیں ایسے مواقع پر "سافٹ امیج" عزیز ہو گا ؟ یقینا ہر شخص کے دماغ کی پھرکی گھومے گی اور ایسے بدبخت کو سبق سکھانے کے لیے تمام دلائل کو پس پشت ڈال کر جان تک قربان کرنے لیے تیار ہو جائے گا ۔
مگر ذرا سوچیے : یہی معاملہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرمت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ حکومتوں سے لے کر عدالتوں تک ہر ایک ٹال مٹول سے کام لیتا ہے ۔۔۔۔ اور کوئی غازی اٹھ کر "غیرت" کا مظاہرہ کرتا ہے تو ہمیں رواداری کی ساری آیات و احادیث یاد آجاتی ہیں ۔۔۔۔۔ سافٹ امیج کا خیال آ جاتا ہے ۔۔۔۔ دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹروں ، سکالروں اور انجینئروں کے دروس بطور دلیل نقل کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے ؛ کہ آج تک کتنے گستاخوں کو سزا دی گئی ؟ اور آپ نے سزا نہ دینے پر کتنا احتجاج کیا ؟ قانون کی عملداری کی باتیں کرنا آسان ہے ۔۔۔۔ مگر اس پر عمل درآمد کے لیے آپ نے کتنی کوششیں کی ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔ تو پھر ایسے غازیوں کی مذمت کر کے لبرلز کے ہاتھ مضبوط ۔۔۔۔ اور غازیان اسلام کے حوصلے پست مت کریں ۔۔۔۔۔۔ جس دن اس ملک میں قانون پر عمل در آمد ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ایسے واقعات رو نما ہونا بند ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ مزید ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ " اس طرح حرمت رسول کے قانون کو لوگ اپنی مرضی سے استعمال کریں گے " اور جھوٹ بول کر جسے چاہیں گے گستاخ قرار دے کر قتل کردیں گے ۔۔۔۔۔ میرا سوال ہے کہ آج تک کتنی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس قانون کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق غلط استعمال کیا ہو ؟ ۔۔۔۔۔ خدا را بزدلی چھوڑیئے ۔۔۔۔اگر کچھ کر نہیں سکتے تو خاموش رہیے ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کعب کو کون قتل کرے گا یہ اللہ و رسول کو ایذا دیتا ہے تو صحابہ نے اسے قتل کردیا ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3031)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انصار کی ایک جماعت کو بجھیجا کہ ابورافع کو قتل کرے تو عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اسے سوتے ھوئے قتل کیا ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3022،چشتی)
فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا کہ ابنِ خطل کعبہ کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور چھپا ہوا ہے تو حکم ارشاد فرمایا
اسے قتل کر دو ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3044)
ایک ملعون جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں بکتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کون اسے قتل کرے گا ؟ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا ۔ (الشفاء جلد نمبر 1 صفحہ نمبر62،چشتی)
ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بےادبی کیا کرتی تھی تو ایک صحابی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس عورت کا خون رائیگاں جانے دیا اور قاتل کو سزا نہیں دی ۔ (سنن ابو داؤد,حدیث نمبر4362)
ایک صحابی نے عرض کی کہ میرا باپ آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا تو میں نے اسے مار دیا تو حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو اس کے قتل کا کوئی دکھ نہ ہوا ۔ (الشفاء جلد نمبر 2 صفحہ نمبر195،چشتی)
ایک نابینا صحابی کی ایک لونڈی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرتی تھی تو ان نابینا صحابی نے اسے قتل کردیا اورآ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کا خون رائیگاں جانا اور کوئی سزا نہیں دی ۔ (سنن ابو داؤد,حدیث نمبر4341)
خلافتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ میں ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی میں گانا گایا تو مہاجر بن امیہ نے اس کے دونوں ہاتھ اور زبان کاٹ دی ۔ جب اس کی خبر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ نہ کیا ہوتا تو میں اسے قتل کروا دیتا کہ انبیاء کی گستاخ کی سزا عام سزاؤں کی طرح نہیں ہوتی ۔ (الشفاء,جلدنمبر2, صفحہ نمبر196)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت کا مرتکب واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقًا کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی خواہ وہ قبل الأخذ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا بعد الأخذ مقدمے کے اندراج یا گرفتاری کے بعد تائب ہو، ہر صورت برابر ہے۔ کسی صور ت میں بھی قطعاً قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس موقف پر دلائل درج ذیل ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِا ﷲِ وَاٰيٰـتِهِ وَرَسُوْلِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُوْنَ o لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ ۔
ترجمہ : اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو، بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے ۔ (سورۃُ التوبة، 9 : 65، 66)
مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : قَدْ کَفَرْتُمْ ، قد أظهرتم الکفر بإيذاء الرسول والطعن فيه.
’’تم کافر ہو چکے ہو یعنی تمہارا کفر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت وتکلیف دینے ، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں طعن وتشنیع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوچکا ہے ۔
عظیم مفسر علامہ عبد ﷲ بن عمر بيضاوی رحمۃ اللہ علیہ ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 3: 155، بيروت، لبنان: دارالفکر ۔
أبو السعود محمد بن محمد رحمۃ اللہ علیہ، تفسير أبو السعود، 4: 80، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي ۔
علامہ محمود آلوسي رحمۃ اللہ علیہ، روح المعاني، 10: 131، بيروت، لبنان: دارا حياء التراث العربي ۔(چشتی)
دیگر مفسرین کرام کی اکثریت نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت مباکہ میں ہے : اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ ﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ ﷲُ فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ۔
ترجمہ : بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃُ الاحزاب، 33 ۔ 57)
اس آیت کریمہ سے علامہ ابن تیمیہ استدلال کرتے ہوے لکھتے ہیں : ان المسلم يقتل اذا سب من غير استتابة وان اظهر التوبة بعد اخذه کما هو مذهب الجمهور.
ترجمہ : کوئی بھی مسلمان (جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے گا) اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے ۔ اگر چہ وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرلے یہی مذہب جمہور ہے ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 635، بيروت، لبنان: دار ابن حزم)
علامہ ابن تیمیہ مزید بیان کرتے ہیں، نسبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے، شان رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کرنے والے کی سزا تو بہ کا موقع دیئے بغیر اسے قتل کرنا ہے ۔ حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی بات سامنے آتی ہے : فانه امر بقتل الذي کذب عليه من غير استتابه.
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس شخص کے بارے میں بغیر توبہ کا موقع دیے قتل کا حکم صادر فرمایا جس نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 638،چشتی)
فتنہ اہانت رسول میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ۔ دونوں پر حد کا اجراء ہوگا، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ و مبراء نہ ہوگا ۔ امام مالک رحمہ ﷲ نے اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : من سب رسول ﷲ أو شتمه أو عابه أو قتل مسلما کان أو کافراً ولا يستتاب.
ترجمہ : جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا عیب لگایا یا آپ کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 572)
امام احمد بن حنبل رحمہ ﷲ نے فرمایا ہروہ شخص جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا تنقیص واہانت کا مرتکب ہوا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس جسارت پر سزائے قتل اس پر لازم ہوجائے گی ۔ مزید برآں فرماتے ہیں : اری ان يقتل ولا يستتاب ۔
ترجمہ : کہ میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کا موقع دیے بغیر قتل کر دیا جائے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ ﷲ کے صاحبزادے فرماتے ہیں ایک روز میں نے والد گرامی سے پوچھا جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے آپ کی شان اقدس میں دشنام طرازی کا ارتکاب کرے تو ایسے شخص کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : قد وجب عليه القتل ولايستتاب ۔ ترجمہ : سزائے قتل اس پر واجب ہو چکی ہے اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 551،چشتی)
جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے ادبی وگستاخی کا مرتکب ہو کیا اس کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس کے بارے میں امام زین الدین ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ قلبی طور پر بغض وعداوت رکھتا ہے وہ مرتد ہے جبکہ کھلم کھلا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والا بطریق اولیٰ کافرومرتد ہے : يقتل عندنا حدا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل ۔
ترجمہ : ہمارے نزدیک (یعنی مذہب احناف کے مطابق) اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور حد قتل کو ساقط کرنے کے حوالے سے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ (البحر الرائق، 5: 136، بيروت، لبنان: دارالمعرفة)
امام ابن عابدین شامی حنفی رحمہ ﷲ شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اہانت وگستاخی کے مرتکب کی سزا کے متعلق فرماتے ہیں : فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته لأن الحد لايسقط بالتوبة، وأفاد أنه حکم الدنيا وأما عند ﷲ تعالیٰ فھي مقبولة ۔
ترجمہ : اسے حداً قتل کر دیا جائے گا ۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط و معاف نہیں ہوتی ، یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں ﷲ رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی ۔ (رد المحتار ، 4: 230، 231، بيروت، لبنان: دارالفکر،چشتی)
محمد بن علی بن محمد علاؤ الدین دمشقی المعروف حصکفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الکافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب ﷲ تعالیٰ قبلت لأنه حق ﷲ تعالیٰ والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک في عذابه وکفره کفر ۔
ترجمہ : انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیں ہوگی ۔ اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی) تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے (جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے) جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ (الدر المختار، 4: 231، 232، بيروت، لبنان: دارالفکر)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی ، توہین و تنقیص ، تحقیر و استخفاف ، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر ، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے ۔ اللہ تعالیٰ جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment