Wednesday 22 June 2022

فضائل و مسائلِ حج حصّہ دوم

0 comments
فضائل و مسائلِ حج حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اورکعبہ معظمہ کے طواف کا اور اس کےلیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کیے جائیں تو حج ہے ۔ 9 ہجری میں فرض ہوا ، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے مگر عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے ۔ (''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الأول في تفسیر الحج و فرضیتہ ...إلخ ، ج۱، ص۲۱۶)(و''الدرالمختار ''معہ'' ردالمحتار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۱۶-۵۱۸)

دکھاوے کےلیے حج کرنا اور مالِ حرام سے حج کو جانا حرام ہے۔ حج کو جانے کے لیے جس سے اجازت لینا واجب ہے بغیر اُس کی اجازت کے جا نا مکروہ ہے مثلاًماں باپ اگر اُس کی خدمت کے محتاج ہوں اور ماں باپ نہ ہوں تو دادا، دادی کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ حج فرض کا حکم ہے اور نفل ہو تو مطلقاً والدین کی اطاعت کرے ۔ (''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، مطلب فیمن حج بمال حرام، ج۳، ص۵۱۹،چشتی)

لڑکا خوبصورت اَمرد ہو تو جب تک داڑھی نہ نکلے ، باپ اُسے جانے سے منع کر سکتا ہے ۔ (''الدرالمختار'' کتاب الحج، ج۳، ص۵۲۰)

جب حج کےلیے جانے پر قادر ہو حج فوراََ فرض ہو گیا یعنی اُسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا ادا ہی ہے قضا نہیں ۔ (''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، صفحہ ۵۲۰،چشتی)

مال موجود تھا اور حج نہ کیا پھر وہ مال تلف ہوگیا ، تو قرض لے کر جائے اگرچہ جانتا ہو کہ یہ قرض ادا نہ ہو گا مگر نیت یہ ہو کہ اللہ تَعَالٰی قدرت دے گا تو ادا کر دوں گا۔ پھر اگر ادانہ ہو سکا اور نیت ادا کی تھی تو امید ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر مؤاخذہ نہ فرمائے ۔ (''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۲۱)

حج کا وقت شوال سے دسویں ذی الحجہ تک [یعنی دو مہینے اور دس دن تک] ہے کہ اس سے پیشتر [پہلے] حج کے افعال نہیں ہوسکتے ، سوا احرام کے کہ احرام اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اگرچہ مکروہ ہے ۔ (بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ۶،صفحہ۱۰۳۵ ، ۱۰۳۶،چشتی)۔(''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۴۳)

حج فرض ہونے کی آٹھ (8) شرطیں ہیں، جب تک سب نہ پائی جائیں حج فرض نہیں ہوگا.
(1) : اسلام : اگر کوئی شخص مسلمان ہونے سے پہلے استطاعت رکهتا تها مگر اب حالت اسلام میں (شرعی) فقیر ہوگیا تو حالت کفر کی استطاعت کیوجہ سے اسلام لانے کے بعد اس پر حج فرض نہیں ہوگا. اور اگر مسلمان صاحب استطاعت تها مگر حج نہ کیا اور اب فقیر ہوگیا تو اس پر اب بهی حج فرض ہے ۔
(2) : دارالحرب میں ہو تو یہ بهی ضروری ہے کہ جانتا ہو کہ اسلام کے فرائض میں حج ہے .
(3) : بلوغ یعنی بالغ ہونا . اگر نابالغ نے حج کیا یعنی اپنے آپ جبکہ سمجھ دار ہو یا اس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندها ہو جب کہ ناسمجھ ہو، بہرحال وہ حج نفل ہوا، حجتہ الاسلام یعنی حج فرض کے قائم مقام نہیں ہوسکتا .
(4) عاقل ہونا : مجنون پر حج فرض نہیں . پہلے مجنون تها اور وقوف عرفہ سے پہلے جنون جاتا رہا اور نیا احرام باندھ کر حج کیا تو یہ حج حجتہ الاسلام ہوگیا ورنہ نہیں- بوہرا بهی مجنون کے حکم میں ہے .
(5) آزاد ہونا : باندی غلام پر حج فرض نہیں .
(6) تندرست ہونا کہ حج کو جا سکے، اعضا سلامت ہوں ، انکهیارا ہو ، اپاہج اور فالج والے پر اور جس کے پاؤں کٹے ہوں اور بوڑهے پر (اتنا بڑهاپا و ضعف ہو) کہ سواری پر خود نہ بیٹھ سکتا ہو (پر) حج فرض نہیں . یونہی اندهے پر بهی واجب نہیں اگرچہ ہاتھ پکڑ کر لے چلنے اسے ملے- ان سب پر یہ بهی واجب نہیں کہ کسی کو بهیج کر اپنی طرف سے حج کرا دیں یا وصیت کر جائیں اور اگر تکلیف اٹها کر حج کرلیا تو صحیح ہوگیا اور حجتہ الاسلام ادا ہوا یعنی اس کے بعد اگر اعضا درست ہوگئے تو اب دوبارہ حج فرض نہ ہوگا وہی پہلا حج کافی ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج،چشتی)

(7) : سفر خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو ۔ کسی نے حج کےلئے اس کو اتنا مال مباح کردیا کہ حج کرلے تو (اس وجہ سے) حج فرض نہ ہوا کہ اباحت سے ملک نہیں ہوتی (یعنی یہ اس مال کا مالک نہ ہوا) اور (حج) فرض ہونے کےلئے ملک درکار ہے . اگر عاریتاً سواری مل جائے گی جب بهی فرض نہیں ، کسی نے حج کےلئے مال ہبہ کیا تو قبول کرنا اس پر واجب نہیں - دینے والا اجنبی ہو یا ماں، باپ، اولاد وغیرہ ، مگر قبول کرلے گا تو حج واجب ہوجائے گا ، سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ یہ چیزیں اس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی ، مکان و لباس اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دین (یعنی قرض ) سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کےلئے کافی مال چهوڑ جائے ، اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گهر اہل و عیال کے نفقہ میں قدر متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اسراف ۔ (بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج)

حج پر جانے والے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کےلئے تحائف لیکر آتے ہیں، ان تحائف پر ہونے والا خرچ ضروریات میں سے نہیں ۔ (ماخوذ از بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان)

جس کی بسر اوقات تجارت پر ہے اور مالی حیثیت اتنی ہوگئی کہ سفر حج کا خرچ اور واپسی تک بال بچوں کی خوراک نکال لے تو اتنا مال باقی بچ جائے جس سے اپنی تجارت بقدر اپنی گزر کے کر سکے ، تو حج فرض ہے ورنہ نہیں ۔ (ماخوذ بہارشریعت)

پیدل کی طاقت ہو تو پیدل حج کرنا افضل ہے ۔ حدیث میں ہے : جو پیدل حج کرے ، اس کےلئے ہر قدم پر سات (7) سو نیکیاں ہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ ردالمحتار ، کتاب الحج،چشتی)

( شرعی) فقیر نے پیدل حج کیا پهر مالدار ہوگیا تو اس پر دوسرا حج فرض نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کتاب المناسک)

رہنے کا مکان اور خدمت کا غلام اور پہننے کے کپڑے اور برتنے کے اسباب ہیں تو حج فرض نہیں ، یعنی لازم نہیں کہ انہیں بیچ کر حج کرے اور اگر مکان ہے مگر اس میں رہتا نہیں غلام ہے مگر اس سے خدمت نہیں لیتا تو بیچ کر حج کرے اور اگر اس کے پاس نہ مکان ہے نہ غلام وغیرہ اور روپیہ ہے جس سے حج کر سکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق (روپیہ) نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اٹهانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اس شہر ( جہاں یہ رہتا ہے) والے حج کو جارہے ہوں اور ، اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اٹها دیا (یعنی روپیہ خرچ کردیا) تو حرج نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری،چشتی)

جس مکان میں رہتا ہے اگر اسے بیچ کر اس سے کم حیثیت کا خرید لے تو اتنا روپیہ بچے گا کہ حج کرلے تو (مکان) بیچنا ضروری نہیں مگر ایسا کرے تو افضل ہے ، لہٰذا مکان بیچ کر حج کرنا اور کرایہ کے مکان میں گزر کرنا تو بدرجہ اولی ضرور نہیں ۔ (بہار شریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری)

جس کے پاس سال بهر کے خرچ کا غلہ ہو تو یہ لازم نہیں کہ (غلہ ، اناج) بیچ کر حج کو جائے اور اس (سال بهر کے غلے) سے زائد ہے تو اگر زائد کے بیچنے میں حج کا سامان ہوسکتا ہے تو (حج) فرض ہے ورنہ نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ لباب المناسک)

دینی کتابیں اگر اہل علم کے پاس ہیں جو اس کے کام میں رہتی ہیں تو انہیں بیچ کر حج کرنا ضروری نہیں اور بے علم کے پاس ہوں اور اتنی ہیں کہ بیچے تو حج کر سکے گا تو اس پر حج فرض ہے ۔ یوہیں طب اور ریاضی وغیرہ کی کتابیں اگرچہ کام میں رہتی ہوں اگر اتنی ہوں کہ بیچ کر حج کر سکتا ہے تو حج فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری و ردالمحتار)

(8) : وقت : یعنی حج کے مہینوں میں تمام شرائط پائے جائیں اور اگر دور کا رہنے والا ہو تو جس وقت وہاں کے لوگ (حج کےلیے) جاتے ہوں اس وقت شرائط پائے جائیں اور اگر شرائط ایسے وقت پائے گئے کہ اب نہیں پہنچے گا تو (حج) فرض نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان،چشتی)

سیدی اعلی حضرت امام اهلسنت قدس سرہ العزیز اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : جبکہ زید اپنے ذاتی روپے سے (حج کی) استطاعت رکهتا ہے تو حج اس پر فرض ہے، اور حج فرض میں والدین کی اجازت درکار نہیں بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں ، زید پر لازم ہے کہ حج کو چلا جائے اگرچہ والدین مانع (منع کرتے) ہوں ، اور والدین پر قرض ہونا اس شخص پر فرضیت میں خلل انداز نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ 658)

واضح رہے کہ بعض لوگ یوں کہتے بهی سنائی دیتے ہیں کہ اگر لڑکیوں کی شادی نہیں کی تو باپ حج پر نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح یہ یہ اختراع بهی ہے کہ اگر والدین نے حج نہیں کیا تو بیٹا بهی حج نہیں کر سکتا ۔ یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں ، شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی ثبوت یا حکم نہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : آپ نے حج واجب ہونے کے شرائط کا مطالعہ کیا ۔ اب ان شرائط کا ذکر ہوگا وہ پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے اور سب (شرائط) نہ پائی جائیں تو خود جانا ضروری نہیں بلکہ دوسرے (کو بهیج کر) سے حج کرا سکتا ہے یا وصیت کرجائے مگر اس میں یہ بهی ضروری ہے کہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو ورنہ خود بهی (حج) کرنا ضرور ہوگا ۔
وہ شرائط یہ ہیں : ⬇

(1) : راستہ میں امن ہو ۔ یعنی اگر غالب گمان سلامتی ہو تو جانا واجب اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکے وغیرہ سے جان ضائع ہوجائے گی تو جانا ضرور نہیں ، (حج کےلیے) جانے کے زمانے میں امن ہونا شرط ہے پہلے کی بد امنی قابل لحاظ نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ ردالمحتار کتاب الحج)

(2) : عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے ، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑهیا ۔
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کےلئے اس کا نکاح حرام ہے ، خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو، جیسے باپ، بیٹا، بهائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ کی حرمت ہو ، جیسے رضاعی بهائی ، باپ ، بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی ، جیسے خسر ، شوہر کا بیٹا وغیرہ ۔
شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے اس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے ۔ مجنون یا نابالغ یا فاسق کے ساتھ نہیں جاسکتی ...الخ
عورت بغیر محرم یا شوہر کے حج کو گئی تو گنہگار ہوئی، مگر حج کرے گی تو حج ہوجائے گا یعنی فرض ادا ہوجائے گا ۔
عورت کا نہ شوہر ہے ، نہ محرم تو (اس صورت میں) اس پر واجب نہیں کہ حج کے جانے کےلئے نکاح کرلے اور جب محرم ہے تو حج فرض کےلئے محرم کے ساتھ جائے اگرچہ شوہر اجازت نہ دیتا ہو . نفل اور منت کا حج ہو تو شوہر کو منع کرنے کا اختیار ہے ۔ (بہار شریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ الجوهرتہ النیرہ کتاب الحج)
(3) : حج پر جانے کے زمانے میں عورت عدت میں نہ ہو، وہ عدت وفات کی ہو یا طلاق کی ، بائن کی ہو یا رجعی کی ۔
(4) : قید میں نہ ہو مگر جب کسی حق کی وجہ سے قید میں ہو اور اس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو یہ عذر نہیں اور بادشاہ اگر حج کے جانے سے روکتا ہو تو یہ عذر ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ درمختار و ردالمحتار کتاب الحج)

صحت ادا کے شرائط

صحت ادا کےلیے نو ( 9 ) شرطیں ہیں کہ وہ نہ پائی جائیں تو حج صحیح نہیں ۔
(1) اسلام : کافر نے حج کیا تو نہ ہوا ۔
(2) احرام : بغیر احرام حج نہیں ہوسکتا ۔
(3) زمان یعنی حج کےلئے جو زمانہ مقرر ہے اس سے قبل افعال حج نہیں ہوسکتے ۔
(4) مکان : طواف کی جگہ مسجد الحرام شریف ہے اور وقوف کےلئے عرفات و مزدلفہ ، کنکری مارنے کےلئے منی ، قربانی کےلئے حرم ، یعنی جس فعل کےلئے جو جگہ مقرر ہے وہ وہیں ہوگا ۔
(5) تمیز ۔ (6) عقل ۔ جس میں تمیز نہ ہو جیسے ناسمجھ بچہ یا جس میں عقل نہ ہو جیسے مجنون- یہ خود وہ افعال نہیں کرسکتے جن میں نیت کی ضرورت ہے ، مثلاً احرام یا طواف ، بلکہ ان کی طرف کوئی اور کرے اور جس فعل میں نیت شرط نہیں ، جیسے وقوف عرفہ وہ یہ خود کرسکتے ہیں ۔
(7) فرائض حج کا بجا لانا مگر جب کہ عذر ہو ۔
(8) احرام کے اور وقوف سے پہلے جماع نہ ہونا اگر ہوگا حج باطل ہوجائے گا ۔
(9) جس سال احرام باندها اسی سال حج کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان،چشتی)

حج فرض ادا ہونے کے شرائط ۔ حج فرض ادا ہونے کےلیے نو ( 9 ) شرطیں ہیں : ⬇

(1) اسلام ۔ (2) مرتے وقت تک اسلام ہی پر رہنا . (3) عاقل (ہونا) . (4) بالغ ہونا.
(5) آزاد ہونا ۔ (6) اگر قادر ہو تو خود ادا کرنا ۔ (7) نفل ( نفلی حج ) کی نیت نہ ہوناب ۔ (8) دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی نیت نہ ہونا ۔ (9) فاسد نہ کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان )

حج میں یہ چیزیں فرض ہیں
(1) احرام ، کہ یہ شرط ہے.
(2) وقوف عرفہ یعنی *نویں ذی الحجہ کے آفتاب ڈهلنے سے دسویں کی صبح صادق سے پیشتر تک کسی وقت عرفات میں ٹهرنا ۔
(3) طواف زیارت کا اکثر حصہ ، یعنی (کعبہ شریف کے) چار پهیرے پچهلی دونوں چیزیں یعنی وقوف (عرفات) اور طواف رکن ہیں.
(4) نیت ۔ (5) ترتیب یعنی پہلے احرام باندهنا پهر وقوف پهر طواف ۔
(6) ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا ۔ (7) مکان یعنی وقوف زمین عرفات میں ہونا سوا بطن عرنہ ( یہ عرفات کے قریب جگہ ہے جہاں حاجی کا وقوف درست نہیں) کے اور طواف کا مکان (جگہ ) مسجد الحرام شریف ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ درمختار، ردالمحتار کتاب الحج)

حج کے واجبات : ⬇

(1) میقات سے احرام باندهنا، یعنی میقات سے بغیر احرام نہ گزرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا تو جائز ہے.
(2) صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا اس ( دوڑنے کے عمل ) کو *سعی* کہتے ہیں.
(3) سعی کو صفا سے شروع کرنا اور اگر مروہ سے شروع کی تو پہلا پهیرا شمار نہ کیا جائے، اس کا اعادہ کرے ۔
(4) اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا ۔ تنبیہہ : بعض لوگ بلاعذر صحیح محض آرام سستی و غفلت کیوجہ سے *وہیل چیئر* پر صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں، انہیں خیال رکهنا چاہئے کہ ایسا کرنا واجب کا ترک ہے ، علمائے کرام نے لکها کہ جو بلا عذر سوار ہو کر وہ وہیل چیئر پر ہو یا کسی کے کندهے پر وہ اس کا اعادہ کرے اور اگر اعادہ نہ کیا وطن واپس پہنچ گیا تو ایک قربانی حدود حرم میں دے .
(5) دن میں وقوف کیا تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب ڈوب جائے خواہ آفتاب ڈهلتے ہی شروع کیا ہو یا بعد میں، غرض غروب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر رات میں وقوف کیا تو اس کےلئے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب تک وقوف کرتا ۔
(6) وقوف میں رات کا کچھ جز (حصہ) آجانا ۔ (7 )عرفات سے واپسی میں امام کی متابعت کرنا ۔ (8) مزدلفہ میں ٹهرنا ۔
نوٹ : مزدلفہ منی سے میدان عرفات کی جانب کم و بیش پانچ کلو میٹر پر واقع ایک میدان کا نام ہے ، اس میدان یعنی مزدلفہ میں حجاج عرفات سے واپسی پر رات بسر کرتے ہیں ۔
ـ9) مغرب و عشا کی نماز وقت عشا میں مزدلفہ میں آکر پڑهنا ۔
(10) تینوں جمروں پر دسویں، گیارہویں، بارہویں (تاریخ) تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں کو صرف ۔ جمرتہ العقبہ پر اور گیارہویں بارهویں کو تینوں (جمروں) پر رمی کرنا ۔

نوٹ : منی میں تین مقامات جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں ، پہلے کا نام جمرتہ العقبی ، دوسرے کو جمرتہ الوسطی اور تیسرے کو جمرتہ الاولی کہتے ہیں، ان کو جمع کے طور پر جمرات کہا جاتا ہے - اور عوام بولی میں بالترتیب بڑا شیطان ، منجهلا شیطان اور چهوٹا شیطان کہا جاتا ہے - ان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں اس فعل کو رمی کہتے ہیں ۔
(11) جمرہ عقبہ کی رمی پہلے دن حلق سے پہلے ہونا ۔ (12) ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا ۔ (13) سر مونڈانا یا بال کتروانا ۔ (14) اور اس کا ایام نحر اور ۔ (15) حرم شریف میں ہونا اگرچہ منی میں نہ ہو ۔
نوٹ : مرد حضرات قربانی سے فارغ ہو کر حلق یعنی تمام سر کے بال منڈاوا دیں، یا تقصیر یعنی کم از کم چوتهائی سر کے بال انگلی کے پورے برابر کٹوائیں ۔
آج کل یہ بات اکثر دیکهنے کو مل رہی ہے کہ لوگ عمرہ یا حج کے موقع پر قینچی سے چند بال کاٹ لیتے ہیں یہ عمل جائز نہیں ۔ عورتیں صرف " تقصیر " کروائیں ۔ یعنی چوتهائی سر کے بالوں میں سے ہر بال انگلی کے پورے برابر کٹوائیں ۔
(16) حج قران اور تمتع والے کو قربانی کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ لباب المناسک)
(17) اس قربانی کا حرم اور ایام نحر میں ہونا.
(18) طواف افاضہ کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہونا . عرفات سے واپسی کے بعد جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طواف افاضہ ہے اور اسے طواف زیارت بهی کہتے ہیں ۔
(19) طواف حطیم کے باہر سے ہونا ۔ کعبہ شریف کی دیوار کے پاس آدهے دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کے حصے کو حطیم کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ حطیم کعبہ شریف کا حصہ ہے، اس میں داخل ہونا عین بیت اللہ شریف میں داخل ہونا ہے - حج و عمرہ میں طواف کے دوران حطیم کے اندر سے نہیں گزریں گے ۔
(20) دہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کی بائیں جانب ہو ۔
(21) عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا*، یہاں تک کہ اگر گهسٹتے ہوئے طواف کرنے کی منت مانی جب بهی طواف میں پاؤں سے چلنا لازم ہے اور طواف نفل ( نفلی طواف) اگر گهسٹتے ہوئے شروع تو ہوجائے گا مگر افضل یہ ہے کہ چل کر طواف کرے ۔

(22) طواف کرنے میں نجاست حکمیہ سے پاک ہونا ، یعنی جنب ( جس پر غسل فرض ہے) اور بے وضو نہ ہونا،اگر بے وضو یا جنابت میں طواف کیا تو اعادہ کرے ۔
(23) طواف کرتے وقت ستر چهپا ہونا یعنی اگر ایک عضو کی چوتهائی یا اس سے زیادہ حصہ کهلا رہا تو دم واجب ہوگا اور چند جگہ سے کهلا رہا تو جمع کریں گے ، غرض نماز میں ستر کهلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے یہاں دم واجب ہوگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (مرد کےلیے) ناف کے نیچے سے گهٹنے تک عورت ہے ۔ (سنن دار قطنی، کتاب الصلوٰہ)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکهتے ہیں : مرد کےلئے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت ہے ، یعنی اس کا چهپانا فرض ہے ۔ ناف اس میں داخل نہیں اور گهٹنے داخل ہیں ، اس زمانہ میں بہتیرے ایسے ہیں کہ تہبند یا پاجامہ اس طرح پہنتے ہیں، کہ پیڑو (ناف کے نیچے کا حصہ) کا کچھ حصہ کهلا رہتا ہے ، اگر کرتے وغیرہ سے اس طرح چهپا ہو کہ جلد کی رنگت نہ چمکے تو خیر ، ورنہ حرام ہے اور نماز میں چوتهائی کی مقدار کهلا رہا تو نماز نہ ہوگی اور بعض بےباک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گهٹنے ، بلکہ ران تک کهولے رہتے ہیں، یہ بهی حرام ہے اور اس کی عادت ہے تو فاسق ہے ۔
آزاد عورتوں اور خنثی مشکل (جس میں مرد و عورت دونوں کی علامات پائی جائیں) کےلیے سارا بدن عورت ہے، سوا منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بهی عورت ہیں، ان کا چهپانا بهی فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 3 ، نماز کی شرطوں کا بیان)
(24) طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑهنا، نہ پڑهی تو دم واجب نہیں ۔
(25) کنکریاں پھینکنے اور ذبح اور سر منڈانے اور طواف میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں پهینکے پهر غیر مفرد قربانی کرے پهر سر منڈائے پهر طواف کرے ۔
(26) طواف صدر یعنی میقات سے باہر کے رہنے والوں کےلئے رخصت کا طواف کرنا- اگر حج کرنے والی حیض یا نفاس سے ہے اور طہارت سے پہلے قافلہ روانہ ہوجائے گا تو اس پر طواف رخصت نہیں ۔
(27) وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا ۔
(28) احرام کے ممنوعات مثلاً سلا کپڑ پہننے اور منہ یا سر چهپانے سے بچنا ۔
یاد رکهئے : واجب کے ترک سے دم لازم آتا ہے خواہ قصداً (واجب) ترک کیا ہو یا سہواً خطا کے طور پر ہو یا نسیان کے ، وہ شخص (جس نے واجب ترک کیا) اس کا واجب ہونا جانتا ہو یا نہیں، ہاں! اگر قصداً کرے اور جانتا بهی ہے تو گنہگار بهی ہے ۔ مگر واجب کے ترک سے حج باطل نہ ہوگا ، البتہ بعض واجب کا اس حکم سے استثنا ہے کہ ترک کرنے پر دم لازم نہیں، مثلاً طواف کے بعد کی دونوں رکعتیں یا کسی عذر کی وجہ سے سر نہ منڈانا یا مغرب کی نماز کا عشا تک موخر نہ کرنا یا کسی واجب کا ترک ، ایسے عذر سے ہو جس کو شرع نے معتبر رکها ہو، یعنی وہاں اجازت دی ہو اور کفارہ ساقط کر دیا ہو ۔ (بہار شریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ لباب المناسک ) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔