Wednesday 14 September 2016

مسلہ باغ فدک حقائق و دلائل کی روشنی میں

1 comments

































جہلا اور ان پڑھ و ناواقف لوگوں کو باغ فدک کے قصے گھڑ کر سنانا اور ان کو ائمہ صادقین کے صریح غیر مبہم اور واضح ارشادات سے منحرف کرنا روافضہ کا عمل ہے۔

فدک سے متعلق اصول کافی صفحہ 351

وکانت فدک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاصۃ لانہ فتحھا وامیر المؤمنین لم یکن معھما احد فزال عنہ اسم الفئ ولزمھا اسم الانفال۔

یعنی فدک صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، کیونکہ اس کو صرف رسول اللہ علیہ السلام ہی نے فتح کیا تھا اور امیرالمؤمنین نے جن کے ساتھ کوئی اور نہیں تھا۔ تو اس کا نام فئی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا نام انفال ہے۔

اب یہ تحقیق کہ اس غزوہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بجز علی کے اور کوئی صحابی نہ تھا۔ واقف حال حضرات پر ہی چھوڑتے ہیں۔ سردست صرف اتنی گزارش ہے کہ کافی کی تصریح سے اتنا تو واضح ہوگیا کہ فدک فئی نہیں تھا بلکہ انفال تھا۔ تو اب انفال کے متعلق حضرت امام عالی مقام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا واضح اور کھلا فیصلہ پڑھ لو۔

اصول کافی صفحہ 352

قال الانفال مالم یرجف علیہ بخیل ولا رکاب او قوم صالحوا او قوم اعطوا بایدیھم وکل ارض خربۃ اوبطون اودیۃ فھو لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو للامام بعدہ یضعہ حیث یشآء

امام عالی مقام انفال کی تعریف اور اسکا حکم بیان کرتے ہیں کہ انفال وہ ہوتا ہے جس کا حصول فوج کشی کے ساتھ نہ ہو یا دشمن جنگ کی مصالحت پر پیش کرے یا ویسے کوئی قوم کسی حکومت اسلامیہ کو اپنے اختیار سے دے یا وہ زمین جو لاوارث غیرآباد چلی آتی ہو یا دریاؤں اور پہاڑی نالوں کا پیٹ ہو تو یہ سب انفال ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں انفال کے واحد مالک رسول اللہ علیہ السلام تھے۔ آپ کے بعد جو امام اور خلیفہ ہوگا وہ ہی مالک ہوگا۔ جس طرح چاہے اس کو خرچ کرے۔

اسی طرح فروع کافی صفحہ 626 ملاحظہ کریں۔ اور اصول کافی صفحہ 351 پر بھی فدک کو انفال ثابت کیا گیا ہے۔ تو فدک کا انفال ہونا جب تسلیم کرلیا گیا اور انفال کے متعلق یہ تسلیم کیا گیا کہ امام اور خلیفہ اس کے تصرف میں مختار عام ہے اور خلفائے راشدین کی امامت بحوالہ شافی و تلخیص الشافی و نہج البلاغۃ و ابن میثم وغیرہ ثابت اور محقق ہوچکی ہے۔ اور بحوالہ کشف الغمہ ان کی صدیقیت اظہر من الشمس ہے اور بحوالہ ابن میثم و نہج البلاغۃ و کافی وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا بھی ثابت ہوچکا ہے اور حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے غیر مستحق خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنے کا فتویٰ قیامت تک نہ مٹنے والے نقوش کے ساتھ دے دیا ہے۔ تو پھر ان ائمہ ھدیٰ نے اگر فرض بھی کرلیں کہ حسب ادعاء شیعہ فدک کو تقسیم نہیں فرمایا۔ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ صادقین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عین مذہب و عین دین کے مطابق عمل فرمایا۔ پھر ظلم اور غضب کے اتہامات کسقدر لغو اور بے معنی ہیں۔ آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اور امام عالی مقام سیدنا حسین ، سیدنا حسن اور امام سیدنا زین العابدین (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) اور امام باقر امام جعفر صادق نے بھی تو یہی سنت اختیار فرمائی اور فدک کا تقسیم کرنا جائز نہ سمجھا۔ اسی طریقے پر عمل درآمد فرمایا جس طریقے پر کہ خلفائے راشدین نے فرمایا تھا۔

یقین نہ آئے تو اہل تشیع کی معتبر کتاب کشف الغمہ صفحہ 147 سطر 23 ملاحظہ فرمائیں کہ سب سے پہلے عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنو امیہ کا فدک کو تقسیم کرنا مرقوم ہے۔

اہلسنت و جماعت غریب اسقدر مظلوم ہیں کہ ان کے مذہب کے خلاف اگر کوئی شیعہ اور وہ بھی اکیلا روایت کرے تو اہل تشیع اسکو اہلسنت پر بطور الزام پیش کرتے ہیں۔ اور اہل تشیع اسقدر باختیار ہیں کہ ان کی اپنی کتابوں میں آئمہ معصومین کی سند سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو ان کو یہ کہنے میں کچھ تامل نہیں ہوتا کہ یہ امام اکیلے روایت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شاہد نہیں لہٰذا یہ خبر آجز ہے اور قابل اعتبار نہیں ۔ دیکھو اپنی تلخیص الشافی جلد 1 صفہ 468 مطبوعہ نجف اشرف

اعتراض کے دوسرے حصے کا جواب : ۔

اب رہا یہ سوال کہ اہلسنت کی کتاب میں شیعہ صاحب نے روایت کو کیسے لکھ دیا تو اسکے جواب میں ہمارا صرف یہ کہنا ہے کہ ہمیں پتہ نہیں چلنے دیا۔ کافی ہوسکتا ہے۔ وہ اسلیئے ! جب پہلے زمانہ میں نہ چھاپہ خانے تھے۔ نہ کاپی رائٹس محفوظ کرائے جاتے تھے۔ قلمی کتابیں تھیں۔ ہر شخص نقل کرسکتا تھا۔ علی الخصوص وہ لوگ جن کا مذہب و دین ہی تقیہ و کتمان ہو۔ نہایت آسانی کے ساتھ تشریف لاسکتے تھے اور علمائے اسلام کے نہایت محب بن کر ان کی کتابوں میں حسب ضرورت کارستانیاں کرسکتے تھے۔ اور اس پر بھی ثبوت کی ضرورت ہو تو قاضی نوراللہ شوستری کی مشہور ترین کتاب مجالس المومنین ص 6 پڑھ لو۔ کہ ہم لوگ شروع شروع میں سنی حنفی شافعی مالکی اور حنبلی بن کر اہلسنت کے استاذ اور انکے شاگرد بنے رہے ۔ ان سے روایتیں لیتے تھے۔ ان کو حدیثیں سناتے تھے اور تقیہ کی آڑ میں اپنا کام کرتے رہے۔

کتاب ایران کی چھپی ہوئی ہے ۔ فارسی زبان میں ہے ہرشخص مطالعہ کرسکتا ہے۔ تو یہ کیا مشکل تھا کہ اسی آڑ میں کسی غریب سنی کی کتاب میں یہ کارفرمائی بھی کرلی ہو۔

حدیث کو پرکھنے کی کسوٹی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے کہنا کہ انہوں نے بخاری شریف کی تمام روایات کو برحق اور صحیح ہی تسلیم کیا ہے۔ غلط اور جھوٹ ہے۔ شاہ صاحب مرحوم فقط مرفوع حدیث کے متعلق صحت کا دعویٰ کرتے ہیں اور باغ فدک کی تقسیم نہ کرنے کی روایت مرفوع نہیں۔

معلومات؛ مرفوع حدیث صرف وہی ہوتی ہے جو رسول اللہ علیہ السلام کا ارشاد ہو یا حضور کا عمل ہو یا حضور نے اپنے زمانہ اقدس میں کوئی عمل ملاحظہ فرمانے کے بعد اسکو جائز اور برقرار رکھا ہو۔۔

چنانچہ اور فدک کے متعلق روایات کے بعد کے واقعات پر مشتمل ہوسکتی ہیں۔ اگر ہم اہل تشیع کے اس روای کو سچا بھی مان لیں اور غریب مذہب ہونے کے باوجود اسکی روایت کو اپنی کتاب میں لکھ کر بھی لیں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ خود ہم نے اس کی روایت کو اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ توپھر بھی ہمارے اصول کے مطابق بلکہ اہل تشیع کے اصول کے مطابق یہ روایت قابل حجت نہیں۔ کیونکہ صرف ایک راوی ہے۔ لہٰذا خبر آحاد ہے۔ اور خبر آحا حجت نہیں ہوتی۔ اہلسنت کے اصول کو نظر انداز کرکے خود اہل تشیع کے امام الطائفہ ابو جعفر طوسی کی کتاب تلخیص الشافی جلد 2 ص 428 کا مطالعہ کرو جہاں صاف لکھا ہے کہ خبر آحاد ناقابل حجت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ہم بے چارے اہلسنت وجماعت ائمہ کرام کی روایات کوتو سرآنکھوں پر تسلیم کرتے ہیں۔ اور اگر کسی غیرمذہب کی منفرد روایت کو بھی اسی طرح تسلیم کریں کہ جس کے تسلیم کرنے سے تمام ائمہ طاہرین کی بھی تکذیب لازم آتی ہو۔ شان رسالت کے متعلق بھی برا عقیدہ لازم آتا ہو، تو بھائی ہمیں اس پر معاف کرو ایسا دھرم تم کو ہی مبارک۔ ہمارے لیئے تو اس قصے کی الف لیلیٰ کے قصے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔

نیز

فدک کے متعلق مزید تحقیق دیکھنا چاہیں تو کتاب (بنیات) مولف جناب سید محمد مہدی علی خانصاب تحصیلدار مرزا پور جلد دوم مطالعہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ تحصیلدار صاحب موصوف کے دلائل اور بحث نہایت محققانہ اور فاضلانہ ہے جن دلائل کو اور جس بحث کو صاحب موصوف نے قلمبند کیا ہے انہیں کا حصہ ہے۔

معصومین کی تصریحات کے بالمقابل اس قسم کی روایات گھڑنا اور ان کے تصریح ارشادات کے معانی ومطالب میں غلط تصرفات اور نامعقول تبدیلیاں کرنا اور بعید از قیاس مفہومات بیان کرے ،اللہ کے مقدس گروہ کی شان میں سب وشتم کے لیئے منہ کھولنا حددرجہ جسارت اور (گستاخی معاف) حد درجہ بے ایمانی ہے۔ اہلسنت وجماعت کے مذہب کے خلاف اعتراضات کا وہابیوں کی طرح ڈھنڈورا پیٹنا بند کردو ۔

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔