عَن أَنَسٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّشْفَعَ لِیَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ أَنَا فَاعِلٌ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ! فَأَیْنَ أَطْلُبُکَ؟ قَالَ اُطْلُبْنِی أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِی عَلَی الصِّرَاطِ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ؟ قَالَ فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الْمِیزَانِ؟ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عِنْدَ الْمِیزَانِ قَالَ فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّی لَا أُخْطِءُ ہَذِہِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ۔( مشکوۃ المصابیح ، کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق ، باب الحوض والشفاعۃ، الفصل الثانی ، الحدیث ۵۵۹۵، ج۲ ،ص ۳۲۶ )
ترجمہ : روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا قیامت کے دن( میری )شفاعت فرمادیں (۱)فرمایا میں شفاعت کروں گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم میں حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو کہاں تلاش کروں(۲)فرمایا تم مجھے پہلے تو تلاش کرنا پُل صراط پر عرض کیا اگر پُل صراط پر نہ پاؤں فرمایا پھر مجھے میزان کے پاس ڈھونڈنا (۳)میں نے عرض کیا اگر میں حضور کو میزان کے پاس نہ پاؤ ں(۴)فرمایاپھر مجھے حوض کے پاس تلاش کرنا (۵)کیونکہ میں ان تین جگہوں کے علاوہ نہیں ہوں گا ۔
وضاحت :
(۱)یہاں شفاعت سے مراد خاص شفاعت ہے جو خاص غلاموں کی ہوگی شفاعت عامہ تو ہر مومن کی ہوگی خیال رہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک شفاعت مانگ کر ایمان ،تقویٰ ،حُسنِ خاتمہ ، قبر کے امتحان میں کامیابی سب کچھ مانگ لی کہ یہ چیزیں شفاعت خاصہ کی تمھیدیں ہیں ۔
تجھ سے تجھی کو مانگ کر مانگ لی دو جہاں کی خیر
مجھ سا کوئی گدا نہیں تجھ سا کوئی سخی نہیں
اس ایک کلمہ میں بہت سے وعدے ہیں تم ایمان پر جیو گے تمھاری زندگی تقوی میں گزرے گی تمھارا خاتمہ ایما ن پر ہو گا ۔ تمھاری خطائیں قابل معافی ہوں گی تمھاری شفاعت میرے ذمہ ہوگی کیونکہ کفر ، حقوق العباد کی شفاعت نہیں ہوگی آج بھی مسلمان روضہ اطہر پر عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم ہم آپ سے شفاعت کی بھیک مانگتے ہیں یہ حدیث اس مانگنے کی اصل ہے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم سے بھیک مانگنا جائز ہے کہ دنیا کی ہر چیز شفاعت سے نیچے ہے حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کسی سائل کو محروم نہیں کرتے وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَاتَنْھَرْ ۔ حضور سے اولاد مانگو دین ودنیا مانگو دنیا کی ہر نعمت مانگو جو مانگو گے پاؤ گے وہاں سے محروم کوئی نہیں پھرتا
(۲)خیال رہے کہ قیامت میں ایک وقت تو وہ ہوگا جب سارا جہاں حضور کو ڈھونڈے گا پھر وقت وہ آئے گا کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم اپنے گناہ گار کو ڈھونڈیں گے
عزیز بچّے کو ماں جس طرح تلاش کرے
خدا گواہ یہی حال آپ کا ہوگا
وہ لیں گے چھانٹ اپنے نام لیواؤں کو محشر میں
غضب کی بھیڑ میں، ان کی میں اس پہچان کے صدقے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سوال غالباً پہلے وقت کے متعلق ہے کبھی ایسا بھی ہوگا کہ گنہگار حضور کو اور غمخوار محبوب اپنے گناہ گار کو تلاش کریں گے دو طرفہ تلاش ہوگی حضور پُل صراط کے کنارے کھڑے ہوں گے تاکہ گِرتوں کو سہارا دیں ۔حضور میزان پر اپنی امت کے اعمال کاوزن اپنے اہتمام سے کروائیں گے کہ اگر کسی امتی کی نیکیاں ہلکی ہوں اور وہ دوزخ میں لے جایا جانے لگے تو اپنا کوئی عمل اپنا قدم رکھ کر ،شفاعت فرماکر ا سکی نیکیاں وزنی کردیں گے دوزخ سے بچالیں گے کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کے اعمال کا وزن نہ ہوگا۔
(۴) سبحان اللہ کیا پیارا سوال ہے یعنی آپ کو اس دن ایک جگہ تو مستقل قرارہوگا نہیں کبھی اِن مجرموں کے پاس، کبھی دوسروں کے پاس
کوئی قریب ترازو کوئی لب کوثر کوئی صراط پہ انکو پکارتا ہوگا
کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ نہیں تو دم میں غریبوں کا فیصلہ ہوگا
کو ئی کہے گا دُہائی ہے یا رسول اللہ تو کوئی تھام کے دامن مچل رہا ہوگا
غرض ایک جان اور فکرجہاں اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَّمَدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ تو اگر آپ میزان پر نہ ملیں تو پھر کہاں تلاش کروں ۔
(۵)غالباً یہاں حوض سے مراد حوضِ کوثر کی وہ نہر ہے جو میدان حشر میں ہوگی اصل حوض کوثر تو جنت میں ہے حشر میں پیاسے پانی پییں گے حضور اپنے اہتمام سے انہیں پلائیں گے یہاں وہی موجودگی مراد ہے۔
(۶)اس حدیث کے متعلق چار باتیں خیال میں رکھو ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم خصوصی شفاعت کے اوقات میں ان تین جگہوں میں ہوں گے ورنہ عمومی شفاعت کی جگہ تو مقام محمود ہے رب عزوجل فرماتا ہے عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا حاکم کا مقام مقدمات کے وقت کچہری ہوتا ہے کھانے وغیرہ کے وقت گھر نماز کے وقت مسجد لہذا یہ حدیث نہ تو قرآن مجید کے خلاف ہے نہ دوسری احادیث کے دوسرا یہ کہ یہاں ان تین مقاموں کا ذکر وہاں کی ترتیب کے مطابق نہیں کیونکہ میزان پہلے ہے حوض کی نہر اس کے آگے پُل صراط اس کے آگے تیسرا یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت سے ہمارے نیک عمل ایسے بھاری ہوجائیں گے جیسے روئی پانی میں بھگو کر وزنی ہوجاتی ہے چوتھا یہ کہ یہ حدیث اس حدیث عائشہ کے خلاف نہیں کہ حضور نے فرمایا ان تین مقامات پر کوئی کسی کو یا دنہ کریگا وہاں عام شوہروں کا ذکر ہے نہ کہ حضور انو ر صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کا ۔ (مراۃ المناجیح،ج۷،ص۴۵۸تا۴۶۰)
No comments:
Post a Comment