Sunday 11 September 2016

اے مسلماں کبھی سوچا بھی کر

0 comments
ہر مسلمان کے لیے ہر زمانے میں لازم اور ضروری ہے کہ وہ اپنے حالات ومعاملات کا محاسبہ کرتا رہے ، خود کو ایسے تمام اخلاقی ، تہذیبی ، فکری اور عملی برائیوں سے دور رکھے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اور آخرت کی بربادی کا سبب بن سکتے ہوں ۔

ہائے افسوس ہمیں کیا ہوگیا ہے آج قوم مسلم مکمل طور پر ایمان و اعمال و اخلاق ہر زاویے سے تباہ حال اور رو بہ زوال ہے لیکن کسی کو عاقبت و آخرت اور اصلاح حال کی فکر نہیں ،جب کہ مسلمان اپنے دور عروج میں دنیا سے زیادہ آخرت کے لیے فکر مند رہا کرتا تھا ، نہ زندگی کی فکر ہوتی ، نہ مال وزر کا خیال ، نہ انہیں شہرت وملکی گیری کی ہوس ہوا کرتی تھی ۔ ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت ، امیر ہو یاغریب ، شہری ہو یادیہاتی ، تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ ، تجارت پیشہ ہو یا مزدور طبقہ ، ہر ایک کا سینہ خوف خدا ، اور خشیت الٰہی سے لبریز ہوا کرتا تھا ، جو ہر مقام پر انہیں نیکیوں کی طرف راغب کرتا اور برائیوں سے روکتا تھا ، نتیجے کے طور پر مسلمانوں کی شبیہ دنیا کی نظر میں اتنی صاف ستھری اور پاکیزہ تھی کہ مسلمان ہونا بڑی عزت اور سعادت کی بات شمار کی جاتی تھی ۔

جب دنیا ظلم و جہل کی تاریکیوں میں غوطہ زن تھی اس وقت مسلمان اپنے نبی کی پاکیزہ تعلیمات کی برکتوں سے علم وآگہی کے اجالے میں تھا ، جب دنیا فتنہ وفساد اورشر میں مبتلاتھی ،مسلمان اپنے نبی کی برکتوں سے امن وشانتی اور سلامتی کی زندگی بسر کررہا تھا ، جب دنیا بے حیائی ، برائی اور انسانیت سے خالی تھی اس وقت مسلمان تہذیب وتمدن ، شرم وحیا انسانیت وشرافت والی زندگی بسر کررہا تھا ۔

بنا بریں جس نے مسلمانوں کو دیکھا وہ ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا،مسلمانوں کو دیکھ کر، ان کے اخلاق وپاکیزگی کو دیکھ کر ، ان کی تہذیب وتمدن اور معاملات کو دیکھ کر ، ان کے طریقۂ عبادت وبندگی کو دیکھ کر دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے مذہب اسلام سے وابستگی اختیار کی اور ہمیشہ کے لیے کفر وشرک ، جہالت وگمرہی سے ناطہ توڑ کر اللہ ورسول کے نام لیوا بن گئے ۔

اسلام کی برکتوں سے وہ علم وفضل ، اخلاق وعادات ، سیاست وحکومت ، معیشت وثقافت ، تہذیب وتمدن ہر میدان میں اقوام عالم کے قائد و امام بن گئے ۔ اللہ ورسول اور دین ومذہب سے وابستگی نے انہیں دنیا کی غالب ترین امت ، اور ناقابل تسخیر طاقت وقوت بنادیا تھا ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہی ہے ’’تم ہی سر بلند اور کامیاب رہوگے بشرطیکہ سچے مومن ہوجاؤ ۔( پ:۴،ال عمران :۱۳۹،آیت:۱۳۹ )
اسلامی تاریخ اور اسلاف کی انہی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہے ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
ہاں یہ ہمارے بزرگ واسلاف ہی تھے ، دنیانے جن کی عزت کی امام وپیشوا ، رہبر ورہنما تسلیم کیا ، اور انہوں نے مختصر سی مدت میں پوری دنیا کو تعلیم وتہذیب ، عدل وانصاف ، امانت ودیانت ، پاکبازی وخدا ترسی کے نور سے منور کردیا ،اور لاکھوں کروڑوں گمراہ اور بے دینوں کا رشتہ اللہ و رسول سے ایسا جوڑا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ان کے ہو کر رہ گئے۔

خیر یہ تو ہماری ترقی وعروج کا زمانہ تھا ، لیکن آج حالات یکسر بدل چکے ہیں ، آج مسلمان من حیث القوم دنیا کی سب سے پچھڑی اور پست قوم بن چکی ہے ، علم کی جگہ جہالت نے ،اسلامی تہذیب کی جگہ یہود ونصاریٰ کی نظریاتی وفکری غلامی اور پیروی نے لے لی ، جس قوم کا فرض منصبی تھا کہ دیگر قوموں کو ہدایت سے آراستہ کرے وہ خود بے راہ روی کا شکا رہوچکی ۔ یاللاسف

حالات یہ ہیں کہ آج ہمارے پاس نہ ہماری تہذیب ہے نہ تمدن ، نہ ہماری ثقافت ہے نہ طور طریقے ، نہ اخلاقی خوبیاں ہیں ، نہ علم وعمل ، قوم جہالت اور بے عملی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں سرگرداں ہے۔ نوجوان نسل دین مذہب سے بہت حد تک بے بہرہ ہوکر اعمال حسنہ سے دور ہوچکی ہے ،نمازیں چھوڑی جارہی ہیں ، تلاوت قرآن اور اذکار ووظائف کو لوگوں نے زندگی سے خارج کردیا ہے ، اب مسلم بستیوں میں ہر طرف فلمی نغموں کی جھنکار ہے ، لڑکے لڑکیوں کے پہننے اوڑھنے کا انداز دین مذہب اور شرافت سے ہٹ کر ٹی وی سیریل اور فلمی ہیرو ہیروئن کے مطابق ہوچکا ہے، ناجائز پیار ومحبت اور عشق ومعاشقہ میں تقریباً تمام ہی نوجوان مبتلا نظر آرہے ہیں ، عفت وعصمت کی حفاظت اور پاکبازی کی فکر اب کم ہی کسی کو ہے ،حد تو یہ ہے کہ شادی اور نکاح ہے پہلے ہی اب تما م حدوں کو پار کیا جارہا ہے ،زنا بالجبر اور اجتماعی عصمت ریزی کی وارداتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں، نوجوان نسل شراب و شباب کے دام میں بری طرح الجھی نظر آرہی ہے، کل تک جو عفت وعصمت کو زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھتے تھے، وہ بھی دنیا کی چکا چوند اور دل فریبی کو دیکھ کر اپنی تہذیب کا گلا کھونٹ کر شرم وحیا کی چادر اتارکرشراب ، شباب ، نشہ ومنشیات کے دل دادہ ہوچکے ہیں ،نہ عزت نفس کا انہیں خیال ہے اور نہ وقوم وملت کے وقار کا پاس ولحاظ مسلمانوں کی اب کوئی گلی کوئی محلہ ، کوئی بستی ، کوئی قصبہ اور شہر ایسا نہیں جہاں ان گناہوں کی نحوست اور لعنت کے سبب تاریکی نہ چھائی ہو، انہی حالات کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا:

وضع تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ہاں مسلمان آج اپنی بداعمالیوں کے سبب رب کی رحمتوں سے کٹ کر بہت دور آچکا ہے ، لیکن خود اسے اس دوری کا احساس نہیں ،وہ رب کی نوازشوں سے محروم ہوچکا ہے ،لیکن اس محرومی کا اسے احساس نہیں ،حالت ہرزاویے سے بد سے بد تر ہوگئی ،لیکن اسے حالات کی سنگینی کا اور اصلاح حال کا خیال نہیں اسی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نے یہ بھی کہاتھا۔

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

آئندہ کل یکم جنوری کے ذریعہ ۲۰۱۶ کا آغاز ہونا ہے دنیا جہاں کے عیسائی اور غیر مسلم حضرات نئے سنہ عیسوی کے آغاز پر خرمستیاں کرنے میں مصروف ہیں جگہ جگہ رقص وسرود کی محفلیں جاری ہیں ۔ رات گئے تک نوجوان لڑکے لڑکیاں ، سیر وسیاحت کے بہانے رنگ ریلیوں میں مصروف ہیں ، نائٹ کلب ، بیئربار، ڈانس کلب اور عیاشی وفحاشی کے دوسرے مراکز اپنے گاہگوں سے ہر طرف بھرے پڑے ہیں ،اور سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی دوسری قوموں کے شانہ بشانہ مذکورہ تمام برائیوں اور بے حیائیوں میں مصروف ہیں ۔

خوف خدا شرم نبی یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

بھلا وہ قوم راہ پر کیسے آسکتی ہے جسے خدا کی ناراضگی کا خیال نہ ہو،اس قوم کی حالت کیسے درست ہوسکتی ہے جسے اپنے رسول کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہ ہو، اس قوم کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے جسے قرآن وسنت ، دین وشریعت سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ایسے حالات کو دیکھ کر بس یہی فکر اور دعا زبان سے نکلتی ہے کہ: اے کاش! قوم مسلم کو ہوش آجائے اور نوجوان نسل ہر طرح کی برائی وبے حیائی سے بچ کر اللہ ورسول ﷺ کی تعلیمات کو اپنالے، ہاں دنیا و آخرت میں اسی سے عزت ہے ،اسی سے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابی ہے،یہی رب کی رضا اور پیارے مصطفی ﷺکی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ،انشاء اللہ تعالیٰ اسی سے ہمارا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل ہوگا۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔