Sunday, 11 September 2016

حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور قربانی حضرت اسماعیل علیہ السّلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبی اور بر گزیدہ بندے ہیں ان کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبت سے سرشار نظر آتی ہے آپ نے محبت خدا وندی کی ایک ایسی مثال قائم فرمائی جس کی نظیر صبح قیامت تک روئے زمین پر نہیں مل سکتی ۔واقعہ یہ ہے کہ بڑی خواہش و تمنا کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اولاد عطا فرمائی تھی پھر اللہ کہ مشیت کہئے کہ آپ کو حکم ہوا کہ اپنے چہیتے بیٹے کو محض اللہ کے حکم پر اس کی رضا کے لیے قربان کر دیں جسے آپ نے پورا کر دیکھایا اور صبح قیامت تک کے لیے محبت خداوندی کی وہ داستان رقم کر دی جس کی نظیر و مثال اب نہیں ہو سکتی ۔

عجیب خواب : حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تواللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم دیا کہ وہ اپنے لخت جگر کو ذبح کریں ۔( تفسیر مظہری ، ج:۵،ص:۱۳۵)آپ نے ترویہ کی شب یہ خواب دیکھا ۔ کہنے والا کہہ رہا تھا ’’ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا بیٹا ذبح کریں ‘‘ ۔ صبح ہوئی آپ نے اس خواب میں غور و فکر کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ہے ۔اس لیے اس دن کو یوم ترویہ کہا جاتا ہے ۔دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا۔ تب آپ نے جان لیا کہ یہ خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہے ۔اس دن کو یوم عرفہ کہا گیا ۔تیسری رات پھر یہی خواب دیکھا اس دن آپ اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے آپ کو فرزند کی بشارت دی تھیاس وقت آپ نے فرمایا تھا’’پھر اسے اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کر دیا جائے گا‘‘۔ جب حضرت اسماعیل دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو آپ سے کہا گیا ’’ اپنی نذر پوری کریں ‘‘ ۔( روح المعانی ، ج:۱۳،۱۴،ص:۱۲۸)

خواب میں لخت جگر کو ذبح کرنے کا حکم کیوں دیا گیا:حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں ۔فرشتے آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ پھر آپ کو بیٹا ذبح کر نے کا حکم خواب میں کیوں دیا گیا ؟ اس میں کئی حکمتیں ہیں :(۱)۔ اس حکم میں ذبح ہونے اور ذبح کرنے والے کے لیے انتہائی تکلیف تھی اس لیے پہلے نیند میں اس کا مشاہدہ کرا دیا گیا تا کہ یہ مشقت برداشت کرنا آسان ہو جائے ۔( تفسیر کبیر، ج:۱۳، ص : ۱۵۷)(۲)۔ خواب میں یہ حکم اس لیے دیا گیا تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ جو ہستی صرف خواب آنے پر اپنا فرزند ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئی ہے ۔اس کا بیداری میں دیے گئے حکم پر عمل پیرا ہونے کا عالم کیا ہوگا ۔ یہ آپ کے اخلاص اور اطاعت کے کمال پر دلالت کرتا ہے ۔ ( روح البیان ، ج: ۷، ص: ۵۵۶)(۳)۔ تا کہ معلوم ہو سکے کہ انبیائے کرام کی دو نوں حالتیں نیند اور بیداری صدق میں برار ہیں ۔ ( روح المعانی، ج: ۲۳،۲۴، ص: ۱۲۹)

حضرت ابراہیم کاحضرت اسماعیل سے مشورہ:اللہ رب العزت کا ارشادہے:فَلَمّاَ بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِیْ الْمَناَمِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی جب حضرت اسماعیل اتنے بڑے ہو گئے کہ آپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کر سکیں آپ نے فرمایا ’’ اے میرے پیارے بیٹے ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب بتا ؤتمھاری رائے کیا ہے؟ عرض کیا ’’میرے پدر بزرگوار کر ڈالیے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘ ۔(الصافات:۱۰۲) ذبح کے وقت حضرت اسماعیل کی عمر تیرہ برس تھی۔ آپ سے والد گرامی نے مشورہ کیوں کیا ؟ اس کے بارے میں مفسرین نے کئی اسباب بیان کیے ہیں ۔(۱)۔ آپ نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے طلب کی تاکہ امر الٰہی پر آپ کے صبر اور اطاعت پر آپ کی عزیمت معلوم ہو جائے ۔ (تفسیر مظہری ،جلد ۸،ص: ۱۶۰)(۲)۔آپ نے اپنے لخت جگر کو اس واقعہ کی اطلاع دی تا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ وہ اطاعت الٰہیہ میں صبر کا مظاہرہ کس طرح کرتا ہے اور اس سے حضرت ابراہیم کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو کہ ان کا بیٹا حلم کی اس حد تک پہنچ چکا ہے ۔(۳)۔ تا کہ فرزند ارجمند کو آخرت میں ثواب عظیم اور دنیا میں عمدہ ستائش مل سکے ۔ (تفسیرکبیر ،جلد ۹،ص: ۱۵۸)(۴)۔ مشاورت کرنا سنت ابراہیمی بن جائے۔ (روح البیان ،جلد ۷،ص: ۵۵۶)

ذبح کا واقعہ: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے نور نظر حضرت اسمعیل کو ذبح کریں تو انہوں نے حضرت اسماعیل سے کہا ’’ جان پدر ! رسی لو ، چھری پکڑ لو ہم اس گھاٹی میں چلتے ہیں تا کہ اہل خانہ کے لیے کچھ لکڑیاں اکٹھی کر لیں ‘‘ ۔آپ نے ابھی تک ذبح کے بارے میں حضرت اسماعیل سے کچھ نہیں فرمایاتھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام گھاٹی کی سمت بڑھے تو دشمن خدا ابلیس آپ کے سامنے آیا تا کہ آپ کوحکم الٰہی سے روک سکے ۔ وہ ایک آدمی کی شکل میں تھا ۔ اس نے کہا ’’ بزرگ محترم ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ ‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ میں اس گھاٹی میں جانا چاہتا ہوں وہاں مجھے ایک ضروری کام ہے ‘‘۔ ابلیس نے کہا ’’خدا کی قسم میں نے دیکھا شیطان خواب میں تمہارے پاس آیا اور تمہیں اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔تم اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہو ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس لعین کو پہچان لیا ۔ فرمایا ’’ اللہ کے دشمن! مجھ سے دور ہو جا ۔ قسم بخدا میں حکم الٰہی ضرور بجا لاؤں گا‘‘۔ جب لعین حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مایوس ہو گیا تو حضرت اسماعیل کے پاس آ گیا ۔ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے پیچھے تھے ۔رسی اور چھری ان کے ہاتھ میں تھی ۔ لعین نے ان سے کہا ’’ بچے ! کیا تجھے پتا ہے کہ تمہارے ابو تمہیں کہاں لے جا رہے ہیں ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہم اس گھاٹی سے لکڑیاں لینے جا رہے ہیں ‘‘۔ ابلیس نے کہا ’’تمہارے ابو تمہیں ذبح کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں ‘‘۔ حضرت اسماعیل نے پوچھا ’’ کیوں ؟ ابلیس نے کہا ’’ ان کا گمان ہے کہ ان کے رب نے اس طرح کا حکم دیا ہے ‘‘۔ حضرت اسماعیل نے فرمایا ’’ انہیں اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے۔ میں پوری طرح تیار ہوں ‘‘۔ پھر لعین حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا ۔ وہ اپنے گھر میں تشریف فرما تھیں۔ انہیں کہنے لگا ’’ اسماعیل کی ماں! کیا تمہیں علم ہے حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو کہاں لے گئے ہیں ؟ ‘‘۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا’’ وہ اس گھاٹی سے ہمارے لیے لکڑیاں لینے گئے ہیں ‘‘۔ لعین نے کہا وہ تو اسے ذبح کرنے گئے ہیں ۔حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے کہا ’’ اس طرح نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اپنے بیٹے پر بڑا رحم کرتے ہیں ۔ اس سے بہت پیار کرتے ہیں‘‘۔ ابلیس نے کہا ’’ان کا گمان ہے کہ ان کے رب نے انہیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے ‘‘۔ حضرت ہاجرہ نے کہا ’’ اگر اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم دیا ہے تو سر تسلیم خم ہے ‘‘۔ اس طرح ابلیس خائب و خاسر ہو کر وہاں سے لوٹا ۔(تاریخ طبری ،جلد :۱ص:۱۴۱)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم ملا تو شیطان مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ) کے پاس ان کے سامنے آیا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے نکل گئے ۔ جب آپ جمرۂ عقبہ کے پاس پہنچے تو شیطان پھر سامنے آیا ۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ اور اپنی منزل کی طرف چلتے گئے ۔ جب آپ جمرۂ وسطی کے پاس پہنچے تو وہ لعین پھر پہنچ گیا ۔ آپ نے یہاں بھی اسے سات کنکریاں ماریں ۔ پھروہاں سے چلے ۔ حتیٰ کہ آپ جمرۂ کبریٰ کے پاس پہنچے تو وہ لعین وہاں بھی پہنچ گیا ۔ آپ نے یہاں بھی اسے سات کنکریاں ماریں اور اپنے مقصد کی طرف گامزن ہوگئے ۔(تفسیر مظہری ،جلد :۸،ص:۱۶۲)
باپ اور بیٹے کی گفتگو :کہا جاتا ہے کہ جب باپ اور بیٹا کوہ ثیبر کی گھاٹی میں پہنچے تو حضرت ابراہیم نے اپنے فرزندسے کہا :’’پیارے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب بتا ؤتمھاری کیا مرضی ہے؟َ آپ نے عرض کیا: ابا جان ! کر ڈالیے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

حضرت اسماعیل کی وصیتیں :حضرت ابراہیمکا حکم سن کر حضرت اسماعیل نے عرض کیا ’’ابا جان ! میرے اعضاء سختی سے باندھ دیں تاکہ ذبح کے وقت میں حرکت نہ کرسکوں ۔ اپنے کپڑے اچھی طرح لپیٹ لیں تاکہ میرے خون کا کوئی چھینٹا آپ پر نہ لگ جائے ۔ میرے اجر میں کمی واقع نہ ہوجائے ۔ میرا خون دیکھ کر امی جان پریشان نہ ہوجائیں ۔ ابو! اپنی چھری اچھی طرح تیز کرلیں ۔ میرے حلق پر اسے تیزی سے چلائیں تاکہ مجھے آسانی رہے۔ کیوں کہ موت کا معاملہ بڑا سخت ہوتا ہے ۔ جب واپس میری امی جان کے پاس جائیں تو انہیں میرا سلام عرض کرنا ۔ اگر آپ میری قمیص ان کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں ۔ ممکن ہے اس سے انہیں کچھ تسلی اور اطمینان مل جائے ۔ ابو جان ! آپ مجھے پیشانی کے بل لٹادیں کیوں کہ آپ میرے چہرے کو دیکھیں گے تو آپ کو مجھ پر رحم آجائے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ حکم الٰہی کی اطاعت میں رقت و شفقت کا جذبہ حائل ہوجائے اس طرح میں چھری کو دیکھ کرجزع و فزع نہیں کروں گا ‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضرت اسماعیل نے حضرت ابراہیم سے کہا آپ نے سفید قمیص پہن رکھی ہے ۔’’ابا جان ! میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں ۔ آپ قمیص اتار لیں اور مجھے اسی میں کفن دے لینا ‘‘(روح المعانی،جلد:۱۳؍۱۴ ص:۱۳۰)

حضرت ابراہیم نے چھری لخت جگر کے گلے پر رکھ دی :حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت کے میٹھے میٹھے کلمات سن کر اور آداب فرزندی دیکھ کر ارشاد فرمایا’’بیٹا !حکم الٰہی کی اطاعت میں تو کتنا بہتر معاون ہے ۔‘‘ جس طرح حضرت اسماعیل نے کہا تھا حضرت ابراہیم نے اسی طرح کیا ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے نور نظر کو بوسہ دیا ۔ ان کے دونوں ہاتھ اور پاؤں باندھ دئے ۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ آپ نے رضائے الٰہی کے لیے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی ۔ مگر چھری کو دو تین بار پتھر پر تیز کرنے کے باوجود کام نہیں کررہی تھی ۔روایت ہے کہ آپ نے ان کی گدی پر چھری رکھی تو چھری الٹی ہوگئی ۔ یہ واقعہ منیٰ میں صخرہ کے پاس یامسجد منیٰ کے پاس بلند جگہ پر یااس مذبح میں پیش آیا تھا جہاں آج کل قربانیاں کی جاتی ہیں ۔

اللہ کی پکار ؛جب عظیم باپ اور بے مثال بیٹے نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے انتہائی درجہ کی کوشش کر لی تو یوں ندائے الہی آئیُ ’’اور ہم نے آواز دی اے ابراہیم ! بس ہاتھ روک لو! بے شک تو نے سچ کر دکھایا خواب کو۔ ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنین کو بے شک یہ بڑی کھلی آزمائش تھی۔‘‘ (الصافات)

بعض علما فرماتے ہیں کہ خواب میں حضرت ابراہیم نے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ خون بہاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا عالم بے داری میں بھی کر دکھایا ۔ حضرت ابراہیم اور ان کے لخت جگر اس اطاعت الٰہیہ میں مخلص تھے ۔ یہ آزمائش اتنی مشکل تھی کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی آزمائش نہیں ہوسکتی ۔ علامہ حریری فرماتے ہیں آزمائش کی تین اقسام ہیں :۔(۱) یہ مخالفین کے لیے عذاب اور سزا ہوتی ہے۔ (۲)سابقین کے لیے تمحیص اور کفارہ ہوتی ہے۔ (۳)اولیا اور صدیقین کے لیے امتحان ہوتی ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صدا دی گئی تو آپ متوجہ ہوئے تو وہاں خوب صورت مینڈھا کھڑا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اٹھے ، اسے پکڑا اور ذبح کردیا ۔ اپنے لخت جگر کو چھوڑدیا۔ اسے گلے لگایا اور فرمایا ’’بیٹے ! تم آج ہی مجھے عنایت کیے گئے ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ فَدَیْنٰہٗ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (الصافات)

مینڈھے کو عظیم کیوں کہا گیا؟:حسین بن فضل نے کہا کہ وہ اس لیے عظیم تھا کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا تھا ۔ مفسر قرآن حضرت مجاہد کہتے ہیں کیوں کہ وہ مقبول تھااس لیے عظیم تھا ۔ وہ جنت میں چالیس سال چرتا رہاتھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ وہی مینڈھا تھا جو حضرت ہابیل نے بطور قربانی پیش کیا تھا اور ان کی قربانی قبول ہوگئی تھی ۔ وہ جنت میں چرتا رہا حتیٰ کہ اسے حضرت اسماعیل کے فدیہ میں ذبح کردیا گیا ۔(تفسیر کبیر ،جلد :۱۳،ص۱۵۹) اس مینڈھے کو عظیم اس لیے کہا گیا کیوں کہ وہ دو نبیوں کی طرف سے بطور قربانی فدیہ دیا گیا تھا ۔ ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم تھے ۔ وہ دو عظیم الشان نبی حضرت محمد عربی ﷺ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے کیوں کہ حضور اکرم ﷺ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پشت میں تھے ۔(روح البیان ،جلد ؛ ۷،ص:۵۵۹) جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مینڈھا ذبح کردیا تو حضرت جبرائیل نے کہا’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘ حضرت اسماعیل نے کہا ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ ۔ یہ تکبیر کہنا سنت ہوگیا۔ (روح البیان ،جلد ؛ ۷،ص:۵۵۹)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...