Tuesday, 20 September 2016

نسب کی پاکیزگی کیلئے حضرت آدم علیہ السلام کی وصیت

امام عبد اللہ عبدی محمد السنوی الرومی (قاضی القضاۃ حلب) اپنی کتاب ’مطالع النور السنی فی طہارۃ النسب العربی‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بیس مرتبہ تولد کے ذریعے آدم علیہ السلام کے ہاں چالیس بیٹے ہوئے۔ یعنی ہر بار دو بیٹے ہوتے تھے۔ اُن چالیس بیٹوں میں ایک بیٹے کا نام حضرت شیث علیہ السلام ہے جن کی نسل سے آقاe کی ولادت ہوئی۔ حضرت شیث e، آدم علیہ السلام کے بعد آقا علیہ السلام کے جد اول ہیں۔ ہر ولادت کے موقع پر دو بیٹے اکٹھے پیدا ہوتے مگر جب حضرت شیث علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یہ اکیلے پیدا ہوئے، اُن کے ساتھ دوسرا بھائی نہیں تھا۔

امام عبد اللہ عبدی محمد السنوی الرومی لکھتے ہیں:

فَإنَّهُ وُلِدَ مُنْفَرِدًا کَرَامَتًا لِکَوْنِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لِنَسْلِهِ.

’’حضرت شیث علیہ السلام کا کرامتاً منفرد پیدا ہونا اس لئے تھا کہ ان کی نسل سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لانا تھا‘‘۔

گویا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نسب کی انفرادیت عطا فرمانے کے لئے حضرت شیث علیہ السلام کو بھی انفرادیت عطا کی گئی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے چالیس بیٹوں میں سے اپنا وصی، نائب، وارث اور خلیفہ حضرت شیث علیہ السلام کو بنایا۔ آپ نے ان کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

اے میرے بیٹے! تم دیکھتے ہو کہ میرے ماتھے میں ایک نور چمکتا ہے، وہ نور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس نور نے تیری پشت کے ذریعے آگے منتقل ہو نا ہے اور اپنی ولادت تک نسب کا سفر طے کرنا ہے۔ لیٰذا تو پاکیزہ و طاہرہ خاتون کے ساتھ شادی کرنا، چونکہ اُن کے بطن سے نورِ مصطفی علیہ السلام نے آگے گزرنا ہے۔ جب تیری اولاد ہو تو ان کو وصیت کرتے جانا کہ میری نسل میں کوئی بیٹا کسی ایسی خاتون سے شادی نہ کرے جنہیں دور جاہلیت کی آلودگی نے مَس کیا ہو۔ چونکہ یہ پشتیں اور یہ بطن امانت کے لئے ہیں۔ ان پشتوں اور بطنوں میں سے نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے منتقل ہونا ہے۔

یہ وصیت و عہد اسی طرح تھا جس طرح اللہ رب العزت نے تمام انبیا علیہ السلام کی روحوں سے آقا علیہ السلام کے لئے عہد و میثاق لیا کہ میرے نبی آخرالزماں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آجائیں تو تم سب اپنا کلمہ چھوڑ کر میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمے کو پڑھنا، ان پر ایمان لے آنا اور ان کے دین کی مدد کرنا۔ بعد ازاں ہر نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کو یہی وصیت و نصیحت کرتا رہا۔ اسی طرح ہر نبی اور نسلِ آدم کا ہر فرد جو حضور علیہ السلام کے آبا و اجداد میں تھا، وہ ہر زمانے میں اپنی اولاد کو وصیت کرتا رہا کہ ان کا ایک نسب ایسا رہے جو پاکیزہ پشت اور پاکیزہ رحم کے ساتھ ملے۔

یہ ذہن نشین رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کاجب وصال ہوا تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً نو سو برس تھی۔ وصال تک ان کی نسلیں ان کے بیٹوں، پوتوں، پوتیوں، پڑپوتیوں، پڑپوتوں، نواسوں اور نواسیوں کی جو نسلیں زمین پر آباد تھیں وہ چالیس ہزار افراد تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت شیث علیہ السلام کو نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جد اول بننا ہے۔ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کی شادی روئے زمین کی سب سے خوبصورت اور مطہر خاتون سے ہوئی، ان کا نکاح اور خطبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر پڑھا اور ملائکہ ان کے گواہ ہوئے۔

حضرت شیث علیہ السلام اس بات کا اشارہ دینے کے لئے کہ میں نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جد اول ہوں، آپ اپنے باقی بھائیوں اور قبائل کے ساتھ نہ رہے بلکہ مکہ معظمہ آکر آباد ہوگئے اور ساری زندگی مکہ معظمہ میں گزاری، کیونکہ یہیں تاجدار کائنات کی ولادت ہونی تھی۔ حضرت شیث علیہ السلام کا وصال بھی مکہ میں ہوا اور جبل ابو قبیس میں دفن ہوئے جو کعبۃ اللہ کے بالکل سامنے ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو جو وصیت/ نصیحت کی، جلیل القدر تابعی حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ (جن سے صغائر صحابہ کرام بھی کسب فیض کرتے) نے نسب کی حفاظت کی اس روایت کو بیان کیا۔ امام ابن عساکر، امام زرقانی (المواھب اللدنیہ) نے اسے اپنی کتب میں درج کیا۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کو مقامِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آگہی دیتے ہوئے فرمایا:

أي بني! أنت خليفتي من بعدي. فخذها بعمارة التقوٰی والعروة الوثقٰی.

میرے بعد روئے زمین پر آپ میرا خلیفہ بننے والے ہیں۔ عُرْوَةِ الوُثْقٰی کی طرح تقویٰ اور میری نصیحت/ وصیت پکڑ لے۔

وکلما ذکرت اسم اﷲ تعالیٰ فاذکر إلیٰ جنبه اسم محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم.

جب بھی تو اللہ کا ذکر کرے، اللہ کے ذکر کے ساتھ ذکرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور کرنا۔

فانی رأيت اسمهُ مکتوباً علی ساقِ العرش وانا بين الروح والطين.

جب اللہ رب العزت نے مجھ کو پیدا کیا تو میں نے عرش کے ستونوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا۔

ثم إني طفت السمٰوٰت فلم أر في السموات موضعا إلا رأيت.

مجھے پوری آسمانی کائنات کی سیر کروائی گئی، میں نے کوئی بھی عزت و بلندی مقام نہیں دیکھا جہاں اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ لکھا ہوا ہو۔

وإن ربي أسکنني الجنة فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مکتوبا عليه.

پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں سکونت بخشی، میں نے جنت کا ایک محل ایسا نہیں دیکھا، کوئی ایسا حجرہ نہیں دیکھا جس پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ لکھا ہو۔ (یعنی گویا جنت کا ہر ستون اور ہر درخت مصطفی علیہ السلام کی ملکیت میں ہے۔)

ولقد رأيت اسم محمد مکتوبا علی نحور الحور العين وعلی ورق قصب آجام الجنة وعلی ورق شجرة طوبی وعلی وروق سدرة المنتهی وعلی أطراف الحجب وبين أعين الملٰئکة.

میں نے فرشتوں کی آنکھوں پر اور اُن کے ماتھوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، الغرض جدھر نظر دوڑائی جو مقامِ بلندی و عزت دیکھا، ہر جگہ اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب تھا۔

اس لئے بیٹے شیث! ملائکہ بھی ہر وقت اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔

(سيوطی، الدرالمنثور، 2: 746-747)

اس کی تائید قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ.

بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔

(الأحزاب، 33: 56)

یعنی ملائکہ عرش اور فوق العرش آپ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں وصیت آدم علیہ السلام کی تائید، اس قرآنی حکم سے میسر آتی ہے کہ آقا علیہ السلام کی شان کس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے بلند فرمائی۔

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کے میلاد کے صدقے سے پورے نسب کو منفرد شان عطا کی، جس میں کوئی بھی آقا علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں اور نہ ہی آپ کا کوئی بھی مماثل اور مثیل ہے۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...