Wednesday, 21 September 2016

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ کے اذن سے متصرف و مختار ہونا

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! توگواہ رہنا۔

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اہلِ مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية، فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم : 3437. 3439، وفی کتاب : التفسير / القمر، باب : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ : وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوْا، ]1، 2[، 4 / 1843، الرقم : 4583. 4587، ومسلم فی الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، باب : انشقاق القمر، 4 / 2158. 2159، الرقم : 2800. 2801، والترمذی فی السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : من سورة القمر، 5 / 398، الرقم : 3285. 3289، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 476، الرقم : 1552. 1553، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 377، الرقم : 3583، 3924، 4360، وابن حبان فی الصحيح، 4 / 420، الرقم : 6495، والحاکم فی المستدرک، 2 / 513، الرقم : 3758. 3761، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبزار فی المسند، 5 / 202، الرقم : 1801. 1802، وأبو يعلی فی المسند، 5 / 306، الرقم : 2929، والطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 132، الرقم : 1559. 1561، والطيالسی فی المسند، 1 / 37، الرقم : 280، والشاشی فی المسند، 1 / 402، الرقم : 404.
---------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا : تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1309. 1310، الرقم : 3379. 3380، 5316، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فی معجزات النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1783، الرقم : 2279، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (6)، 5 / 596، الرقم : 3631، ومالک فی الموطأ، 1 / 32، الرقم : 62، والشافعی فی المسند، 1 / 15، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 132، الرقم : 12370، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 / 193، الرقم : 878، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 316، الرقم : 31724.
-------------------------------------------
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے سامنے آ گیا یا ایسا ہی لفظ ارشاد فرمایا تاکہ میری نماز توڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ عطا فرما دیا تو میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سارے اسے دیکھتے لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول یاد آ گیا ’’کہ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو۔‘‘ حضرت روح کا بیان ہے کہ اسے ذلیل کر کے بھگا دیا۔

امام احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں اسے پکڑ لیتا تو وہ مجھ سے بھاگ نہ سکتا یہاں تک کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا، اہل مدینہ کے بچے اسے دیکھتے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے : ’’یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کے بچے اس کے گرد چکر کاٹتے پھرتے۔

بخاري في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الأسير أو الغريم يربط في المسجد، 1 / 176، الرقم : 449، وفي کتاب : أحاديث الأنبياء، باب : قول اﷲ تعالی : ووهبنا لداود سليمان نعم العبد إنه أوّاب، 3 / 1260، الرقم : 3241، وفي کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : وهب لي ملکا لا ينبغي لأحد من بعدي إنک أنت الوهاب، 4 / 1809، الرقم : 4530، ومسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، باب : جواز لعن الشيطان في أثناء الصلاة، 1 / 384، الرقم : 541، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 443، الرقم : 11440، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 298، الرقم : 7956، 5 / 104، الرقم : 21038، وابن حبان في الصحيح، 14 / 328، الرقم : 6419، والدارقطني في السنن، 1 / 365، الرقم : 16.
-----------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہو گئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہو گئے، بکریاں مر گئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہو گئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا : ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1313، الرقم : 3389، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الاستسقائ، باب : الدعاء فی الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، وأبوداود فی السنن، کتاب : صلاة الاستسقائ، باب : رفع اليدين فی الاستسقاء، 1 / 304، الرقم : 1174، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 214، الرقم : 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 95، الرقم : 2601، وفي الدعائ، 1 / 596. 597، الرقم : 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 26، الرقم : 957.
---------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لہٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ بلند فرمائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا : جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے : (یا رسول اﷲ!) ہم تو غرق ہونے لگے لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور دعا کی : اے اﷲ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : الأدب، باب : التبسم والضحک، 5 / 2261، الرقم : 5742، وفی کتاب : الدعوات، باب : الدعاء غير مستقبل القبلة، 5 / 2335، الرقم : 5982، وفی کتاب : الجمعة، باب : الاستسقاء فی الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم : 891، وفی کتاب : الاستسقائ، باب : الاستسقاء فی المسجد الجامع، 1 / 343، الرقم : 967، وفی باب : الاستسقاء فی خطبة مستقبل القبلة، 1 / 344، الرقم : 968، وفی باب : إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 / 346، الرقم : 974، وفی باب : من تمطر فی المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم : 986، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء فی الاستسقاء، 2 / 612. 614، الرقم : 897، والنسائی فی السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : کيف يرفع، 3 / 159. 166، الرقم : 1515، 1517، 1527. 1528، وابن ماجه فی السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء فی الدعاء فی الاستسقاء، 1 / 404، الرقم : 1269، والنسائی فی السنن الکبری، 1 / 558، الرقم : 1818، وابن الجارود فی المنتقی، 1 / 75، الرقم : 256، وابن خزيمة فی الصحيح، 2 / 338، الرقم : 1423، وابن حبان فی الصحيح، 3 / 272، الرقم : 992، وعبد الرزاق فی المصنف، 3 / 92، الرقم : 4911، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 104، الرقم : 12038، والبيهقی فی السنن الکبری، 3 / 221، الرقم : 5630، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 28، الرقم : 29225، والطحاوی فی شرح معانی الآثار، 1 / 321، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 187، الرقم : 592، وفی المعجم الکبير، 10 / 285، الرقم : 10673، وأبو يعلی فی المسند، 6 / 82، الرقم : 3334.
---------------------------------------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔

بخاري في الصحيح، کتاب : الجمعة، باب : الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم : 891، وفي باب : من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم : 986، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم : 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم : 256، والطبراني في الدعاء، 1 / 297، الرقم : 957.
-----------------------------------------------------------
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو رافع یہودی کی (سرکوبی کے لئے اس) طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (دین کے) خلاف (کفار کی) مدد کرتا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔۔۔ (حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے ابو رافع یہودی کے قتل کی کارروائی بیان کرتے ہوئے فرمایا :) مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ پھر میں نے ایک ایک کر کے تمام دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ زمین پر آرہا۔ چاندنی رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی تو میں نے اسے عمامہ سے باندھ دیا ۔۔۔ پھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پاؤں آگے کرو۔ میں نے پاؤں پھیلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر دستِ کرم پھیرا تو (ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی اور) پھر کبھی درد تک نہ ہوا۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : قتل أبی رافع عبداﷲ بن أبی الحُقَيْقِ، 4 / 1482، الرقم : 3813، والبيهقی فی السنن الکبری، 9 / 80، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 125، وابن عبد البر فی الاستيعاب، 3 / 946، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 2 / 56، وابن کثير فی البداية والنهاية : 4 / 139، وابن تيمية فی الصارم المسلول، 2 / 294.
----------------------------------------------------
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ کسوف پڑھائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ کسی قدر پیچھے ہٹ گئے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے جنت نظر آئی تھی، میں نے اس میں سے ایک خوشہ پکڑ لیا، اگر اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے (اور وہ ختم نہ ہوتا)۔

بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : رفع البصر إلی الإمام فی الصلاة، 1 / 261، الرقم : 715، وفی کتاب : الکسوف، باب : صلاة الکسوف جماعة، 1 / 357، الرقم : 1004، وفی کتاب : النکاح، باب : کفران العشير، 5 / 1994، الرقم : 4901، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الکسوف، باب : ما عرض علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 627، الرقم : 904، والنسائی فی السنن، کتاب : الکسوف، باب : قدر قرائة فی صلاة الکسوف، 3 / 147، الرقم : 1493، وفی السنن الکبری، 1 / 578، الرقم : 1878، ومالک فی الموطأ، 1 / 186، الرقم : 445، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 298، الرقم : 2711، 3374، وابن حبان فی الصحيح، 7 / 73، الرقم : 2832، 2853، وعبد الرزاق فی المصنف، 3 / 98، الرقم : 4925، والبيهقی فی السنن الکبری، 3 / 321، الرقم : 6096، والشافعی فی السنن المأثورة، 1 / 140، الرقم : 47.
-----------------------------------------------------
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا : لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔

بخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3383، وفی کتاب : المغازی، باب : غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3921. 3923، وفی کتاب : الأشربة، باب : شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم : 5316، وفی کتاب : التفسير / الفتح، باب : إِذْ يُبَايعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4 / 1831، الرقم : 4560، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 329، الرقم : 14562، وابن خزيمة فی الصحيح، 1 / 65، الرقم : 125، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 480، الرقم : 6542، والدارمی فی السنن، 1 / 21، الرقم : 27، وأبو يعلی فی المسند، 4 / 82، الرقم : 2107، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 / 272، وابن جعد فی المسند، 1 / 29، الرقم : 82.
-------------------------------------------------
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے) سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا : اس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔

بخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1311، الرقم : 3384.
------------------------------------------------
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو (بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔

بخاري في الصحيح، کتاب : البيوع، باب : النجار، 2 / 378، الرقم : 1989، وفی کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1314، الرقم : 3391. 3392، وفی کتاب : المساجد، باب : الاستعانة بالنجار والصناع فی أعواد المنبر والمسجد، 1 / 172، الرقم : 438، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (6)، 5 / 594، الرقم : 3627، والنسائی فی السنن، کتاب : الجمعة، باب : مقام الإمام فی الخطبة، 3 / 102، الرقم : 1396، وابن ماجه فی السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء فی بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم : 1414. 1417، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 226، والدارمی نحوه فی السنن، 1 / 23، الرقم : 42، وابن خزيمة فی الصحيح، 3 / 139، الرقم : 1776. 1777، وعبد الرزاق فی المصنف، 3 / 186، الرقم : 5253، وابن حبان فی الصحيح 14 / 48، 43، الرقم : 6506، وأبو يعلی فی المسند، 6 / 114، الرقم : 3384.
----------------------------------------
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبردار ہو گیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا : اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا : اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے، میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا : جی! یا رسول اﷲ! فرمایا : ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں گی ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔

مسلم فی الصحيح، کتاب : الزهد والرقائق، باب : حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليَسَر، 4 / 2306، الرقم : 3012، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 455. 456، الرقم : 6524، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 / 94، الرقم : 452، والأصبهاني فی دلائل النبوة، 1 / 53. 55، الرقم : 37، وابن عبد البر فی التمهيد، 1 / 222، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 / 383، الرقم : 5885.
---------------------------------------------
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع کرنے کے بعد یہ کلمات فرما رہے تھے : أعوذ باﷲ منک (میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں) پھر فرمایا : میں تین بار تجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کرتا ہوں، پھر اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا جیسے کوئی چیز پکڑ رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے آج آپ سے نماز میں ایسے کلمات سنے جو پہلے کبھی نہ سنے تھے اور آپ کو نماز میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ نے فرمایا : اللہ کا دشمن ابلیس (العیاذ باﷲ) میرا منہ جلانے کے لیے انگارے لے کر آیا تو میں نے تین بار کہا : أعوذ باﷲ منک۔ پھر میں نے تین بار کہا : میں اللہ تعالیٰ کی مکمل لعنت تجھ پر ڈالتا ہوں۔ وہ پیچھے نہیں ہٹا بالآخر میں نے اسے پکڑنے کا ارادہ کیا بخدا! اگر مجھے سلیمان علیہ السلام کی دعا کا خیال نہ ہوتا تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ منورہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے رہتے۔

مسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، باب : جواز لعن الشيطان في أثناء الصلاة والتعوذ منه، 1 / 385، الرقم : 542، والنسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : لعن إبليس التعوذ باﷲ منه في الصلاة، 3 / 13، الرقم : 1215، وفي السنن الکبری، 1 / 196، الرقم : 549، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 105، الرقم : 21044، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 50، الرقم : 891.
-------------------------------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا : میں تم میں سب سے زیادہ محمد مصطفی کو جاننے والا ہوں میں ان کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا وہ اس جگہ آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس (لاش) کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔

مسلم نحوه فی الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقی فی السنن الصغری، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد فی المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 2 / 188، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798.
--------------------------------------------------
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اﷲ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔اس حدیث کو امام طحاوی اور طبرانی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں، اور اس حدیث کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

طبرانی فی المعجم الکبير، 24 / 147، الرقم : 390، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 297، والذهبی فی ميزان الاعتدال، 5 / 205، وابن کثير فی البداية والنهاية، 6 / 83، والقاضی عياض فی الشفاء، 1 / 400، والسيوطی فی الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبی فی السيرة الحلبية، 2 / 103، والقرطبی فی الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197.

رواه الطبرانی بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388. 389) وللحديث طرق أخري عن أسمائ، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدريث.

وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اﷲ بن عبد اﷲ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي : فی الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبرانی بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين.

وقال الإمام النووي فی شرحه علی صحيح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضيص : أن نبينا صلی الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات.
--------------------------------------------------
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : مجھے کیسے علم ہو گا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس کے گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے (نباتات کی محبت و اطاعتِ رسول کا یہ منظر) دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔

ترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 594، الرقم : 3628، والحاکم في المستدرک، 2 / 676، الرقم : 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 110، الرقم : 12622، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 3، الرقم : 6، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 538، 539، الرقم : 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 48، والخطيب التبريزی في مشکاة المصابيح، 2 / 394، الرقم : 5924.
---------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت (پانی لانے کے لئے) استعمال کرنے سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے اور اب وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور نہ ہی خود سے کوئی کام لینے دیتا ہے، ہمارے کھیت کھلیان اور باغ پانی کی قلت کے باعث سوکھ گئے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : اٹھو، پس سارے اٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ میں داخل ہوئے درانحالیکہ اونٹ ایک کونے میں تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ کی طرف چل پڑے تو انصار کہنے لگے : (یا رسول اللہ!) یہ اونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسب سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقل بھی رکھتے ہیں اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی اس عظیم قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اسے بیوی پر حاصل ہے۔

أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 158، الرقم : 12635، والدارمی فی السنن، باب : (4)، ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 22، الرقم : 17، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 9 / 81، الرقم : 9189، وعبد بن حميد فی المسند، 1 / 320، الرقم : 1053، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 5 / 265، الرقم : 1895، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3 / 35، الرقم : 2977، والحسينی فی البيان والتعريف، 2 / 171، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 4، 9، والمناوی فی فيض القدير، 5 / 329.
----------------------------------------
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہوئی تھی۔

أبو يعلی فی المسند، 3 / 120، الرقم : 1549، وأبوعوانة فی المسند، 4 / 348، الرقم : 6929، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 187، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 2 / 333، والعسقلانی فی تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم : 814، وفی الإصابة، 4 / 208، الرقم : 4888، وابن قانع فی معجم الصحابة، 2 / 361، وابن کثير فی البداية والنهاية، 3 / 291.
---------------------------------------------
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (منافقین میں سے) ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کوئی کلام فرماتے تو وہ (بوجہ بغض و عناد اور نقلیں اتارنے کے لئے) اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (بار بار یہ حرکت کرتے دیکھ کر) فرمایا : اسی طرح ہو جاؤ، پس وہ مرتے دم تک اسی طرح اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا رہا۔

حاکم في المستدرک، 2 / 678، الرقم : 4241، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 37، الرقم : 11، والجزري في النهاية في غريب الأثر، 2 / 60.
------------------------------------------
حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما کو آگ میں جلا (کر اذیت) دیتے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور اپنا دستِ اقدس ان کے سر پر پھیرتے اور (حکم) فرماتے : اے آگ، عمار پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جیسا کہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر (سلامتی والی) ہو گئی تھی (تو وہ آگ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جلاتی نہیں تھی) اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے عمار!) تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

ابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 248، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 43 / 372، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 / 443، والعيني في عمدة القاري، 1 / 197، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 134، والحلبي في السيرة، 1 / 483.

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...