حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و الشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52.
---------------------------------------------------------
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059.
-------------------------------------------------
حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اس قدر اہتمام نہ فرمایا۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514، و أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060، و البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600.
--------------------------------------------
حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں؟ اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510، و الطبراني في المعجم الکبير، 23!205، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81، و عبد بن حميد في المسند، 1!446.
-----------------------------------------
حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا اس کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیاہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939، و الطبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82.
-----------------------------------------------
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ اس حدیث کو ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56، و ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281.
------------------------------------------
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 7 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64
------------------------------------------------
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی اس کو پانی اور مٹی میں پھیر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ پھر ایک شحص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو بھی جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس کو مصائب و آلام کے ساتھ جنت کی بشارت دے دو، تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دے دی اور جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمان نے کہا : اے اللہ! صبر عطا فرما، یا فرمایا اللہ ہی مستعان ہے۔ اس حدیث کو اما م بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3490، و في کتاب الأدب، باب من نکت العود في الماء و الطين، 5 / 2295، الحديث رقم : 5862، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1867، الحديث رقم : 2403، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الحديث رقم : 965، و ابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 / 299.
-----------------------------------------
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا پس ایک آدمی نے آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے پھر دوسرے شخص نے آ کر اجازت طلب کی تو فرمایا : اسے بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔ دروازہ کھولا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے پھر ایک اورشخص آیا اور اس نے بھی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا : انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو ان مصائب و مشکلات کے ساتھ جو اسے پہنچیں گی، دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 142.
----------------------------------------------
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اریس کنویں کے وسط میں مبارک ٹانگیں دراز فرما کر بیٹھے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا اور پھر جا کر دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے دل میں کہا آج میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربان بنوں گا، . . . . . . پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے کہا کون ہے؟ اس نے کہا عثمان بن عفان، میں نے کہا ٹھہرئیے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر خبر دی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کو اجازت دو اور جو مصائب اور بلیات اس کو لاحق ہوں گے ان کے ساتھ اس کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے کہا آجائیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان مصائب کے ساتھ جنت کی بشارت دے رہے ہیں جو آپ کو لاحق ہوں گے وہ آئے انہوں نے دیکھا کہ کنویں کی منڈیر بھر چکی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کی جانب بیٹھ گئے، یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الحديث رقم : 3471، والبخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6 / 2599، الحديث رقم : 6684، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1868، الحديث رقم : 2403، و شمس الحق في عون المعبود، 14 / 62.
---------------------------------------------
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک گھنے باغ میں داخل ہوئے۔ وہاں اپنی حاجت مبارکہ پوری کی پھر مجھ سے فرمایا : ابو موسیٰ دروازے پر کھڑے رہو۔ کوئی میرے پاس میری اجازت کے بغیر نہ آئے۔ پس ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں ابو بکر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم : ابوبکر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں عمر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عمر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ پس وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں عثمان ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عثمان باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور جنت کی بشارت دے دو ایک بڑی آزمائش پر جس کا یہ شکار ہوں گے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 631، الحديث رقم : 3710، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 406، و الروياني في المسند، 1 / 343، الحديث رقم : 524، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367.
-------------------------------------------------
حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الحديث رقم : 3698، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب في فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 40، الحديث رقم : 109، و أبويعلي في المسند، 2 / 28، الحديث رقم : 665، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 589، الحديث رقم : 1289، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 401، الحديث رقم : 616.
-----------------------------------------
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مہاجرین کے ایک گروہ میں ایک گھر میں تھے اور اس گروہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم بھی تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہر آدمی اپنے کفو کی طرف کھڑا ہوجائے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان کی طرف کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے گلے لگایا اور فرمایا : اے عثمان تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں امام ابو يعلي نے مسند میں روایت کیا اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 104، الحديث رقم : 4536، و أبو يعلي في المسند، 4 / 44، الحديث رقم : 2051، و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 524، رقم : 868، و مناوي في فيض القدير، 4 / 302.
-----------------------------------------
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : کیا جنت میں بجلی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 105، الحديث رقم : 4540، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 377، الحديث رقم : 7097، و المناوي في فيض القدير، 4 / 302.
--------------------------------
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ اس دوران ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ سے اس وقت تک نہ چھڑایا جب تک خود اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ نہ چھوڑا پھر اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اﷲ ! حضرت عثمان تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير اور المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 98، الحديث رقم : 300، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 405، الحديث رقم : 13495، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 87.
-----------------------------------
حضرت عبد اﷲ بن سہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی حضرت سعید بن زید کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں عثمان سے بہت زیادہ بغض رکھتا ہوں اتنا بغض میں نے کسی سے کبھی بھی نہیں رکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو نے نہایت ہی بری بات کہی ہے، تو نے ایک ایسے آدمی سے بغض رکھا جو کہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے فضائل صحابہ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 16 : أخرجه احمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 570، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 3 / 280.
------------------------------------
No comments:
Post a Comment