Monday, 12 September 2016

تمام اہل ایمان کو عید الاضحیٰ مبارک ہو

یہ عظیم دن مسلمانوں کے دو تہواروں میں سے ایک ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کے دو تہوار ہیں۔ یہ دونوں تہوار دو عظیم واقعات کی یادگار ہیں، ان دونوں تہواروں کا تعلق تخلیق آدم کے مقصد سے ہے، اس لیے دیگر اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے دونوں تہوار نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیائے انسانیت کو ان کا مقصد زندگی یاد دلانے کے لیے آتے ہیں۔
یہ دونوں تہوار قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک کا حصّہ ہیں جو روئے زمین پر اہل اسلام کی بیداری کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ عیدالفطر کا تہوار ماہِ رمضان کے اختتام کی شکر گزاری کا اعلان ہے۔ اس ماہ میں انسانیت کے نام رب کائنات نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اپنا آخری پیغام ہدایت بھیجا تھا، اس لیے یہ ماہ اسلامی دنیا میں قرآن کے پیغام کو یاد دلاتا ہے، جبکہ عید الاضحی ماہ حج میں آتا ہے، یہ مہینہ بھی روئے زمین میں اسلام کی بیداری اور حیات نو کا پیغام لے کر آتا ہے ماہ حج میں ایک طرف دنیا کے ہر خطے سے ہزاروں لوگ اپنے اپنے قومی لباس اتار کر ایک بے سلا لباس پہن کر نسل ورنگ اور قوم وملک کی تفریق اور تمیز سے بے پروا ہوکر خدائے واحد کی بندگی کا اعلان کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا اعلان بھی کرتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی اقتدار اور حکومت نہیں ہے۔ یہ مناسک حج اور یوم عید الاضحی اسلام کی دعوتِ توحید کی بازگشت ہے جس کا اعلان حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے کیا تھا۔
یوم عید الاضحی جسے مناسک کے پانچ ایام میں ’’یوم النحر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی ایسی قربانی کی یادگار ہے جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان یوم النحر یا یوم عید الاضحی کو سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں جانوروں کو قربان کرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کے مطابق اللہ کے نزدیک ’’یوم النحر‘‘ (قربانی کا دن) سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے، اس دن اللہ کو جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب ومرغوب نہیں ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے مسلمان یوم عید الاضحی کو قربانی کرتے ہوئے، عید الاضحی کا دوگانہ ادا کرتے ہوئے ان لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں جو اللہ کے پہلے اور قدیم گھر میں حج کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع مسلمانوں کی عالمی برادری تشکیل دیتا ہے، جو ہرقسم کے نسلی، علاقائی، ملکی تعصبات سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ کے گھر کو اللہ نے امن کا گھر بھی قرار دیا ہے۔ یہاں جمع ہونے والوں میں ہم خیالی، ہم آہنگی، یک دلی اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔ اس مرکز میں آنے والوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم ہوجاتی ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کلمہ گو مسلمانوں کا عظیم اجتماع، اللہ اکبر اور لبیک کی صدائیں لاکھوں جانوروں کی قربانیاں امتِ مسلمہ کی شوکت وعظمت کے اظہار کے بجائے ان کی نکبت وزوال کا نوحہ بن گئی ہیں۔ حج اور قربانی کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں ان کی نشانیاں اور علامتیں نظر نہیں آتیں۔ قربانی کا جانور قربانی کرنے والوں کے ذریعہ نجات بنتا ہے۔ اس سے پہلے کہ جانور ذبح کرنے کے لیے زمین پر گرایا جائے، اس کا خون بہایا جائے اللہ کے نزدیک قبول کرلیا جاتا ہے، لیکن قبولیت اعمال کی جوبرکتیں معاشرے میں نظر آنی چاہئیں وہ نظر نہیں آتیں۔
مسلمانوں کی ذاتی، معاشرتی، سیاسی اور اجتماعی زندگی میں فساد اور بگاڑ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، جرائم اور بدعنوانی ہماری قومی اور اجتماعی زندگی کی پہچان بن گئے ہیں۔
یوم عید الاضحی ہمیں یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جانوروں کو اللہ راستے میں قربان کرتے ہوئے اس مقصد پر بھی غور کریں جس کے لیے اللہ نے عید کے تین دنوں میں جانور قربان کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس دن اللہ کو جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل مرغوب اور پسندیدہ نہیں ہے۔
قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے بالوں کی تعداد کے برابر نیکیاں عطا کی جاتی ہیں، لیکن ان نیکیوں کی برکات کے مظاہر ہمیں نظر نہیں آتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان اسلام مذہبی اور سماجی رسوم میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہمارا معاشرہ بشارت دی ہوئی برکتوں سے محروم ہے۔ قربانی کے جانوروں کو اللہ نے شعائر اللہ قرار دیا ہے شعائر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کا کوئی بھی عمل شعور سے خالی نہیں ہوتا، اسی طرح یوم الحج نام ’’یوم عرفہ‘‘ ہے، حج مناسک حج اور قربانی کے عرفان اور شعور کے بغیر برکتوں کا حصول ممکن نہیں ہے، حقیقی شعور وعرفان موجود نہ ہوتو عبادات رسم، نمائش اور ریاکاری بن جاتی ہے۔ یوم عید الاضحی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یادگار ہے، جو اس بات کا پیغام ہے کہ اللہ کا حکم آجانے کے بعد چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تخلیق آدم کا مقصد بھی یہی ہے اور تمام انبیائے کرام اسی مقصد کے لیے روئے زمین پر بھیجے گئے کہ تمام انسان خدا کی ہدایت کی پیروی اور اتباع کریں۔ خدا کی ہدایت اور پیروی کے اتباع کے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے اس سے لاتعلقی اور بیزاری کا اعلان کریں۔ خدا کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ حکمراں ہیں جو خدا کی جگہ خود انسانوں کے خدا بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہر برس دنیا کے ہر خطے سے اللہ کے گھر کی طرف جمع ہوتے ہوئے کلمہ گواہلِ ایمان اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کے اقتدار اور حکومت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ کی حکومت کے علاوہ ہم کسی کی حکومت قبول نہیں کرتے۔ یہ ایک انقلابی نعرہ اور پیغام ہے جو کبھی بھی خدا کے باغی حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہ پیغام روئے زمین پر ایک کشمکش پیدا کرتا ہے۔ حج میں لاکھوں مسلمانوں کے اس اعلان کے باوجود کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہو کہ وہاں اللہ کی حکومت قائم ہے۔ آج پوری دنیا ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ دنیا پر نمرودانِ جدید کی حکومت ہے جنہوں نے توحید کا علم بلند کرنے والوں کے لیے نئی آگ بھڑکائی ہوئی ہے۔
B-52 بمبار طیارے، ڈیزی کٹر، ڈرون طیارے اہل ایمان کا خون بہا رہے ہیں۔ گو اتنا ناموبے، ابو غریب اور بگرام تعذیب خانے قائم کردیے گئے ہیں۔ پوری انسانیت کو فرعونیت ونمرودیت نے نئی سامراجیت وشہنشاہی کا لبادہ اوڑھ کر غلام بنالیا ہے۔ حج وقربانی دراصل انسانیت کے لیے آزادی کا پیغام ہے۔ حج اور قربانی کا اصل پیغام یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو حکمرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرے اس پیغام کو جدید نمرودوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی قرار دے دیا ہے۔ آج پوری دنیا کے ظلم وفساد کا علاج حج اور قربانی کے پیغام میں ہے جس دن امتِ مسلمہ کو یہ شعور حاصل ہوجائے گا حج کا عظیم اجتماع اور لاکھوں جانوروں کی قربانی عالمی اسلامی انقلاب کا عنوان بن جائے گا۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...