الف : جن آیتو ں میں نبی سے کہلوایا گیا ہے کہ ہم تم جیسے بشر ہیں وہاں مطلب یہ ہے کہ خالص بندے ہونے میں تم جیسے بشر ہیں کہ جیسے تم نہ خدا ہو نہ خدا کے بیٹے،نہ خداکے ساجھی،شریک ایسے ہی ہم نہ خداہیں نہ اس کے بیٹے نہ اس کے ساجھی۔ خالص بندے ہیں ۔
ب: جن آیتوں میں نبی کو بشر کہنے پر کفر کا فتوے دیا گیا ہے اور انہیں بشرکہنے والوں کو کافر کہا گیا ہے ان کامطلب یہ ہے کہ جونبی کی ہمسری اور برابر ی کا دعوی کرتے ہوئے انہیں بشر کہے یا ان کی اہانت کرنے کے لئے بشر کہے یا یوں کہے کہ جیسے ہم محض بشر ہیں نبی نہیں ایسے ہی تم نبوت سے خالی ہو محض بشر ہو ۔وہ کافر ہے۔
'' الف'' کی مثال یہ ہے : (1) قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۔
ترجمہ : ۔ فرمادو کہ میں تم جیسا بشر ہوں کہ میری طر ف وحی کی گئی ۔(پ16،الکھف:110)
(2) قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنۡ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ؕ
ترجمہ : ۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم تو تمہاری طر ح انسا ن ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے ۔(پ13،ابرٰھیم:11)
ان جیسی تمام آیات میں یہی مراد ہے کہ ہم'' اِلٰہ'' نہ ہونے میں اور خالص بندہ ہونے میں تم جیسے بشر ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عام انسان پیغمبر کے برابر ہوجاویں ۔ ان آیات کی تائیدان آیتوں سے ہورہی ہے ۔
(1) وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمۡ ؕ
ترجمہ : اورنہیں ہے کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پر ندہ کہ اپنے پروں پر اڑتا ہو مگر تم جیسی امتیں ہیں ۔(پ7،الانعام:38)
(2) مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصْبَاحٌ ؕ
اس اللہ کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے ۔(پ18،النور:35)
ان آیتو ں میں تمام جانوروں کو انسانوں کی مثل فرمایا گیا حالانکہ انسا ن اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو طاق اور چراغ سے مثال دی گئی ۔ حالانکہ کہاں طا ق اور چراغ اور کہاں رب کا نورجیسے ان دونوں آیتوں کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتاکہ ہم جانوروں کی طرح یارب کانور طاق اور چراغ کی طر ح ۔اسی طرح نہیں کہا جاسکتاکہ ہم نبی کے برابریاان کی طر ح ہیں۔ یہ تمثیل فقط سمجھانے کیلئے ہے۔
''ب'' کی مثال یہ ہے :
(1) فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسْتَغْنَی اللہُ
ترجمہ : ۔ پس کافر بولے کیا بشر ہمیں ہدایت کریگا لہٰذا وہ کافر ہوگئے پھر وہ پھر گئے اور اللہ بے پرواہ ہے ۔(پ28،التغابن:6)
(2) قَالَ لَمْ اَکُنۡ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنۡ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾
ترجمہ : ۔ شیطان نے کہا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ لیسدار گارے سے تھی ۔(پ14،الحجر:33)
(3) فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ
ترجمہ : ۔ تو جس قوم کے سرداروں نے کفر کیا وہ بولے یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی ۔(پ18،المؤمنون:24)
(4) وَلَئِنْ اَطَعْتُمۡ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ ۙ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾
ترجمہ : ۔ کفار نے کہا کہ اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کروگے تو تم ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔(پ18،المؤمنون:34)
(5) فَقَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾
ترجمہ : ۔ فرعونی بولے کیا ہم ایمان لائیں اپنے جیسے دو آدمیوں پر اور ان کی قوم ہماری بندگی کر رہی ہے ۔
ان جیسی تمام آیتو ں میں فرمایا گیا کہ پیغمبر کو بشر کہنا اولاً شیطان کا کام تھا پھر ہمیشہ کفار نے کہا مومنوں نے یہ کبھی نہ کہا اور ان کفار کے کفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے برابری کے دعویدار ہوکر انہیں اپنی طر ح بشر کہتے تھے ۔
نوٹ ضروری: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا بارہا اپنی بندگی اور بشریت کا اعلان کرنا اس لئے تھا کہ عیسائیوں نے عیسی علیہ السلام میں دو معجزے دیکھ کر انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا ، ایک توان کا بغیر باپ پیدا ہونا اور دوسرے مردے زندہ کرنا مسلمانوں نے صدہا معجزے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دیکھے ، چاند پھٹتا ہوا ۔ سورج لوٹتا ہوا دیکھا کنکر کلمہ پڑھتے دیکھے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہتے دیکھے۔ اندیشہ تھا کہ وہ بھی حضور کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دیں ۔ اس احتیاط کے لئے بار بار اپنی بشریت کا اعلان فرمایا۔(پ18،المؤمنون:47)
No comments:
Post a Comment