Tuesday, 20 September 2016

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات

بسم اللہ الرحمن الرحیم سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا،بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت وتنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنااو رسرکار کا اس موقع پر انکی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں )۔

سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ،بیعت ِرضوان کے موقع پر سرکا ر ؐ کااپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ،دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کے لئے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔

ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جن کا انکی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کئے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیئے ،چاہئے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہوجاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام سے لے کرآج تک زوروشور سے جاری ہے۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کئے ۔

پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں۔۔۔۔۔۔ اس کاتیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ،خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا ان تینوںسوالوں کاجواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔فرمایا!۔۔۔۔۔۔جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں انکی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟)دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اسلئے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر سرکارؐ نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا۔

او رتیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بناکر ان کازبردست اعزازواکرام فرمایا انکے مکہ جانے کے بعدبیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی رسول اللہ ؐ نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ،اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا،یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچادکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیاکہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔

(مشکوۃشریف مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کااصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کابدخواہ ایک سازشی گروہ پیداہوچکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ،بصرہ،مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوابنایا اورسادہ لوح عوام کواپنے دام تزویرمیں پھنساکرخلیفہءِ اسلام سے بد گمان کرکے ان کے خلاف ایک محاذقائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں۔ اس سبائی گروہ کی باقیات آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بناکرحضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوہدفِ تنقید بنارہے ہیں۔

اوراہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کرکے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔لہذا مناسب ہوگاکہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیاجائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کئے گئے ہیں۔

(١) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ،چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹاکرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور انکی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ،اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹاکر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ،یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا،ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیا د اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ،عبد اللہ بن عامر ،اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی کے قریبی رشتہ دار تھے ۔

(٢) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔

(٣) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ،سرکار ؐ کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لئے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچاتھے ۔

(٤) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ،کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھامدینہ طیبہ میں حضر ت علی،حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کررہاتھا ،جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑاہے جو حضرت عثمان غنی نے گورنر مصر کے نام لکھاہے جس میں اسے حکم دیا گیاہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ،اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ،اسلئے لوگوں نے نتیجہ نکالاکہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگاجوحضر ت عثمان کے چچازادبھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔

(٥) رسول الل ﷺ نے حجۃالوداع میں منیٰ وعرفات میں نمازِ قصر ادافرمائی اورشیخین کاعمل بھی اسی پررہامگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میںاتمام کرتے تھے جو سرکارؐاور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔

ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں!

پہلے ،دوسرے اور پانچویں سوالوں اوربہت سے دیگرسوالات کے خودحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دئیے جوھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں،چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ،ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیاکہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طورپرمال دیتے ہیں مثلاًعبداللہ بن سعدکوآپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیاکہ میں اسکو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیاہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ،فاروقی میں بھی اسکی مثالیں موجود ہیں ۔ اسکے بعد ایک اورشخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیزواقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاًمعاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھاہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کومعزول کرکے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ،کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجداکرکے ولید بن عقبہ کواسکے بعد سعید بن العاص کوامیربنایا۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایاکہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔

اگرآپکی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اورمجھ پران کی بے جارعایت کاالزام عائد ہوتاہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کومقرر کرنے کےلئے تیارہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو انکی امارت سے الگ کرکے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کاگورنربنایاہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہاتم نے بلا استحقاق اور ناقابلِ رشتہ داروں کوامارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاًعبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں انکو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیاکہ عبد اللہ بن عامر عقل وفراست ،دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتازہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے آنحضرت ؐ نے اسامہ بن زید کو صرف ١٧ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔

اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی،اپنے رشتہ داروں کیلئے بلااستحقاق کیسے لے سکتاہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیا ر ہے چاہے جسکو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہاکہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیںمیں انکو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اوروہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اسکا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔

پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میںپوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذامیرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا

تاریخ اسلام جلد اول ص٣٤١)

گورنروں کے عزل ونصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے

حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اسکے معقول اسبا ب ووجودہ تھے۔ اورجن حضر ت کا تقررفرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ سر کار ،عہدِشیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں سرکارؐ نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے۔

جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے انکی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں سرکا رؐ سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے انکی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔

چنانچہ(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ )جلد دوم ص٥٣مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔! ''فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان''

ترجمہ: پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کومدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ؐ سے سفارش کی تھی تو سرکارؐ نے مجھ سے انکی واپسی کاوعدہ فرمایا ۔

او ر چوتھے سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اسکا حکم دیااورنہ یہ آپ کی مہرتھی او رنہ ہی اس میںمروان ملوث تھا بلکہ یہ عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضر ت عثمانِ غنی کوشہید کیااس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھابلکہ حضرت علی ،حضرت طلحہ ،حضر ت زبیرکے نام سے مختلف شہروںکے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہاگیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکرحضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو،

چنانچہ( علامہ حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج٧ص١٧٥)میں اس خط کے بارے میں حضر ت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ''فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم'' ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اسکے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ،ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں

ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان۔

ترجمہ: صحابہ کرام نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میںانہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کوکہا گیا تھااو ریہ صحابہ کر ام پر جھوٹاالزام ہے ،ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی وطلحہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا،اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹاخط لکھاگیا۔

معاملاتِ صحابہ کرام میں راہ عافیت : حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام واتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالاجاتاہے انتخاب کیا گیااو رپھراختصارکے ساتھ ان کاجواب دیا گیا حق کے متلاشی کے لئے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصو صاًخلفاء راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے۔

شرح عقائد میں ہے ''ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ''یعنی ذکرِصحابہ سے زبان کو روکا جائے مگربھلائی کے ساتھ اوریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہاہے اوراحادیث انکے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔! ٭

یداللّٰہ فوق ایدیھم،

ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔

رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ،

اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔

کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،

سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔

اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔

لایمس النا رمسلماًرأنی

،جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔

اکرموااصحابی فانھم خیارکم

میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں۔

لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔

اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا،

میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ۔

من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ،

جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔

اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم،

جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو۔

خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت سے جاری ہونے والاپروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو۔

ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم،آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں۔

اوریہ بات بھی ہردم ملحوظ ہوکہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں انکی زندگی میں لسانِ رسالت سے نبوت سے نوید ِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جوضعاف درکنارموضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کاکیا ٹھکانا،لہذاراہِ احتیاط قرآن وسنت کواپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات ومہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا او رنہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کواہمیت دی جاسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب واذہان میں صحابہ واہلِ بیت کی محبت بسائے او رانکی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے ۔آمین

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...