خوشی ومسر ت اور رنج وغم انسانی طبیعت پر آنے والے احوال ہیں ، جوں جوں طبیعت میں اختلاف آتا ہے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں ، گویا یہ احوال فطرت انسانی میں داخل ہیں چنانچہ جب بھی روز عید آتا ہے بہ اقتضاء فطرت ،طبیعت پر فرحت کی چادر تنی جاتی ہے کیونکہ روز عید عطاء نعمت کادن ہوتا ہے۔
عید’’عَود‘‘ سے ماخوذہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ،عید کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال نئی فرحت وشاد مانی لاتاہے اور اس لئے بھی کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالی بندوں کو منافع واحسانات سے سرفراز فرماتا ہے ، اورایک وجہ یہ کہ بندہ اس دن اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف لوٹتا ہے اسی لئے اس کو عید کہا جاتاہے۔
جو بندے اطاعت واتباع ، عبادت وتقوی کے ساتھ خوشی مناتے ہیں وہ اللہ تعالی کے محبوب ہیں اور جو تکبرونافرمانی کے ساتھ اظہار خوشی کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے پاس مبغوض وناپسند ہیں جیسا کہ ارشاد حق تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ۔
ترجمہ:یقینا اللہ تعالی اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔(سورۃالقصص:76)
دین اسلام کے سایۂ رحمت وظل عاطفت میں رہنے والوں کو خالق کائنات نے بے عدد خوشیاں اور کئی عیدیں عطافرمائیں ہیں، جن میں مشہور عید یں یہ ہیں: (1)عیدالفطر(2) عیدالاضحی(3) عیدالاعیاد (عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم )(4)عید المومنین (جمعہ )
احادیث شریفہ میں عیدالفطر کے فضائل واردہیں جن میں سے ایک حدیث شریف ذکر کی جارہی ہے جس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں ذکرفرمائی ہے:
عَنْ سَعِيدِ بن أَوْسٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ ، فَنَادَوْا : اغْدُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يَمُنُّ بِالْخَيْرِ ، ثُمَّ يُثِيبُ عَلَيْهِ الْجَزِيلَ ، لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَقُمْتُمْ ، وَأُمِرْتُمْ بِصِيَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّكُمْ ، فَاقْبِضُوا جَوَائِزَكُمْ ، فَإِذَا صَلَّوْا ، نَادَى مُنَادٍ : أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ قَدْ غَفَرَ لَكُمْ ، فَارْجِعُوا رَاشِدِينَ إِلَى رِحَالِكُمْ ، فَهُوَ يَوْمُ الْجَائِزَةِ ، وَيُسَمَّى ذَلِكَ الْيَوْمُ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ الْجَائِزَةِ .(معجم کبیرطبرانی ،حدیث نمبر:616)
ترجمہ:سیدنا سعیدبن اوس انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب عیدالفطرکا دن آتا ہے توفرشتے چوراہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورنداء دیتے ہیں:ائے مسلمانوں کی جماعت !رب کریم کی جانب چلو؛جوخیرسے نوازتاہے ،پھراجرعظیم عطافرماتاہے، یقیناًتمہیں رات میں عبادت کرنے کا حکم دیاگیا توتم نے عبادت کی اور تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا توتم نے روزے رکھے، تم نے اپنے رب کی اطاعت کی، اب اپنے انعامات حاصل کرلو!پھرجب لوگ نمازعید اداکرتے ہیں تو ایک آوازدینے والاآوازدیتاہے،سنو!بے شک تمہارے پروردگار نے تمہیں بخش دیا ،اب تم اپنے گھرلوٹ جاؤ !اس حال میں کہ تم ہدایت والے ہو،تویہ یوم الجائزۃ(انعام کا دن)ہے اورآسمان میں اس دن کویوم الجائزۃ(انعام کا دن)کہاجاتاہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی غوث اعظم رضی اللہ عنہ غنیۃ الطالبین میں رقمطراز ہیں:
قال وہب بن منبہ رحمہ اللہ:خلق اللہ الجنۃ یوم الفطر،وغرس شجرۃ طوبی یوم الفطر،واصطفی جبریل علیہ السلام للوحی یوم الفطر،والسحرۃ وجدوا المغفرۃ یوم الفطر۔
حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے عید الفطر کے دن جنت پیدا فرمائی اور اسی دن درخت طوبی لگا یا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی کیلئے منتخب فرمایااوراسی دن حضرت موسی علیہ السلام کے مقابل آنے والے جادوگروں کو توبہ نصیب ہوئی۔
(الغنیۃ لطالبی طریق الحق، ج 2،ص 18)
حقیقی عید کیا ہے:
زبدۃ المحدثین، خاتمۃ المحققین ، واقف رموز شریعت ودین،عارف باللہ حضرت ا بو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
بے شک عید کی خوشی منانا بھی مسنون ہے ، لیکن کیا معلوم کہ ہمارے لئے یہ عید ہے یا وعید ؟
حضرات! اصلی عید تو اس روز ہوگی جس روز وہ جانِ جہاں ہم پر نظر فرمائیں گے ۔
عید گاہ ِ ما غریباں کوئے تو انبساطِ عید دیدن روئے تو
صد ہلال عید قربانت کنم اے ہلالِ ما خم ِ ابروئے تو
(ہم غریبوں کی عیدگاہ، اے دوست تیری گلی ہے اور عید کی خوشی ہمیں تیرے چہرے کو دیکھنے سے ملتی ہے )۔
(عید کے سو(100)چاند میں تجھ پر قربان کرتا ہوں، ہماری عید کا چاند تیرے ابرو کا خم ہے)۔
عید کی خوشی منانا چاہئے اس لئے کہ یہ بھی سنت ہے ۔
مگرصاحبو!عید تو اس روز ہوگی جب ہم خدائے تعالی سے ملیں گے ،اس حالت میں کہ ہم اس سے راضی اور وہ ہم سے راضی ۔
ہمیشہ اسی کوشش میں رہنا چاہئے ۔
یہ عید اور اس کی خوشی دونوں فانی ہیں ، خدا کرے کہ وہ دن آئے جس میں دل کی اصلاح ہوکر دل' دلدار کا ہوجائے ، وہ دن حقیقی عید کا ہے ، یہ عید بھی باقی اور اس کی خوشی بھی باقی ۔
عید کے دن مغفرت ہوتی ہے اس لئے وہ خوشی کا دن ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بندے عید کے دن خداکے دربار (عیدگاہ) میں جاتے ہیں تو وہاں سے بخشے بخشوائے گھروں کو واپس ہوتے ہیں ۔
بعض لوگ خلاف ِ شریعت اُمور کے مرتکب ہوکر عید کی نماز کے لئے آتے ہیں ، ان سب خرافات سے باز آکر سرفرازیوں کے مستحق بن کر آنا چاہئے۔ (مواعظ ِ حسنہ ، حصہ اول ، ص 277)
حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر عید کے روز اپنے اہل وعیال کو اکٹھا کرتے اور سب مل کر روتے بیٹھتے ، لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ ایساکیوں کرتےہیں ؟ فر مانے لگے : میں غلام ہوں ، اللہ تعالی نے ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کاحکم فرمایا ہے ، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہم سے پورا ہوایا نہیں ؟ عید کی خوشی منانا اُسے مناسب ہے جو عذاب الہی سے امن میں ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عید کے دن گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی ، لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا : جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے روزے قبول ہوئےیا نہیں وہ عید کیسے منائے ۔(مواعظ ِ حسنہ ، حصہ دوم ، ص 315)
عیدمنانے کا طریقہ
مومن کی عید یہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں کھیل کود کرے اور لہوولعب میں مشغول رہے بلکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں عید مناتا ہے ۔
اور عید کا مفہوم ہی طاعت وعبادت ، فرحت ومسرت ، سلامتی وراحت ہے ، تقاضئہ عقل کے مطابق اس دن عبادت میں تخفیف ہونی چاہئے تھی اس کے برخلاف اللہ تعالی نے امت پر ایک اور نماز اضافہ واجب فرمائی ، جس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ بندے جب ایک جا جمع ہوجائیں تومعاشرہ میں افرا تفری وانتشار پیدا ہونے کے بجائے رب کریم کی عبادت میں رہ کر انسانی معاشرہ کو اپنے اجتماع سے امن وسلامتی کا پیام دیں۔
عیدگا ہ جاتے وقت راستہ میں میانہ آواز میں تکبیر کہنا سنت ہے‘ تکبیر اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق جب کثیر اجتماع ہوتا ہے تو بلاوجہ آوازیں بلند ہوتی ہیں اور راہ گیروں کےلئے اذیت کا سبب بنتی ہیں اور رفتہ رفتہ بات جھگڑے و فساد تک پہنچ جاتی ہے ، معاشرتی ومعاشی فضا کو تکدر سے دور کرنے کےلئے تکبیرکہنے کا حکم دیا گیا ، اس کے علاوہ عید کے دن نماز اور تکبیروں سے مومن بندے ذکر خدا وندی کرکے اس کی برکتوں اوررحمتوں سے عالم کو فیض یاب بناتے ہیں کیونکہ جب ابرکرم برستا ہے تووہ رحمت عامہ بن کر سب کو اپنے سایہ میں لیتاہے ۔
عید کے دن مالدار، صاحب نصاب مومن پر صدقۂ فطر(ایک کلو106گرام گیہوں یا اس کی قیمت) اداکرنا واجب ہے تاکہ غریب ، نادار ومحتاج افراد بھی عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہیں‘ اس کے علاوہ ہر خطہ کے مسلمان نماز عید کے بعد فقراء ومساکین میں گھر واپس ہونے تک راستہ بھر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہ عمل مسلمانوں کی سخاوت ‘ملت سے محبت اور ان پر مہربانی کو عیاں کرتا ہے ، اس طرح عید کی ابتداء سے انتہا ء تک مسلمانوں کا ہر عمل دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کا پیام افرادِ وطن کے نام دیتا ہے ۔
عید کی خصوصی دعاء
امام طبرانی کی معجم اوسط میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامنقول ہے:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے کیلئے یہ دعاء فرمائی :
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ الْعِيْدَيْنِ " اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ عِيْشَةً تَقِيَّةً ، وَمِيْتَةً سَوِيَّةً ، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ وَلَا فَاضِحٍ ، اَللَّهُمَّ لَا تُهْلِكْنَا فَجْأَةً ، وَلَا تَأْخُذْنَا بَغْتَةً ، وَلَا تُعَجِّلْنَا عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِيَّةٍ ، اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْعَفَافَ وَالْغِنَى ، وَالتُّقَى وَالْهُدَى ، وَحُسْنَ عَاقِبَةِ الْآخِرَةِ وَالدُّنْيَا ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّقَاقِ ، وَالرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ فِيْ دِيْنِكْ ، يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبّْ! لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابْ۔
ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے فرمایا :عیدین کے موقع پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ دعاء فرماتے :اے اللہ !ہم تجھ سے پرہیزگار زندگی اور بہترحالت میں حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں، ایسا انجام مانگتے ہیں جوذلیل اوررسوا کرنے والانہ ہو،ائے اللہ !توہمیں اچانک ہلاک نہ فرما، فوراًہمارا مؤاخذہ نہ فرما اور کسی حق کی ادائیگی یا وصیت پوری کرنے سے پہلے ہمیں عجلت میں مت ڈال، اے اللہ !ہم تجھ سے پاکدامنی وبے نیازی‘ پرہیزگاری وہدایت مانگتے ہیں اور دنیا وآخرت کے اچھے انجام کا سوال کرتے ہیں ،ہم شک و اختلاف ‘تیرے دین میں ریاء کاری اور شہرت سے تیری پناہ میں آتے ہیں ، اے دلوں کو پھیر نے والے !ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا مت کر، اورہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی خو ب عطافرمانے والا ہے۔ (معجم اوسط طبرانی ، باب العین ، حدیث نمبر: 7787)
یہ عید کے موقع سے مناسبت رکھنے والی ایسی جامع دعاء ہے کہ اس میں ان تمام چیزوں کی درخواست ہے، جوہر کسی کیلئے دنیاو آخرت میں مسرت وشادمانی ، امن وسلامتی اور اتحاد واتفاق کا باعث ہوتی ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام اہل اسلام کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقہ وطفیل راہ حق پر گامزن رکھے اور اس عید سعید کی بھرپور خوشیاں عطافرمائے ۔
آمین بجاہ طہ و یس وصلی اللہ تعالی وبارک وسلم علیہ وعلی الہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم -
No comments:
Post a Comment