اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے قرآن و حدیث کے بعض اَلفاظ اور اِصطلاحات کو غلط طور پر اپنا رکھا ہے۔ وہ قرآن کریم کی چند آیات اور بعض اَحادیث مبارکہ کو ان کے شانِ نزول اور واقعاتی اور تاریخی سیاق و سباق سے کاٹ کر اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ تشریح و تعبیر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ یہ لوگ جہالت اور خود غرضی کے پیشِ نظر جہاد، شہادت، خلافت، دارالحرب اور دارالاسلام جیسی اِصطلاحات کو بے محل اِستعمال کرکے عام مسلمانوں اور خصوصاً نوجوانوں (Muslim youth) کو گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن و حدیث میں ہے۔ حالانکہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی طرف سے یہ اِسلام پر بہت بڑا اِلزام ہے۔ اُن کے اِس خطرناک نظریے کا قرآن، حدیث اور اِسلام کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کئی مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ وہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اِسلام، دین، جہاد، شہادت، یا اِسلامی نظام، نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نظامِ شریعت جیسی اِصطلاحات بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ پروگرام نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ قرآن، حدیث، اِسلام اور شریعت جیسی اِصطلاحات اِستعمال کرکے عوام کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں اور اپنے خود ساختہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اِسی اِلتباس و اِبہام کو دور کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی آیاتِ جہاد کے تحت جہاد کے صحیح معنی و مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
6۔ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی آیاتِ جہاد کا درست مفہوم
جہاد کے اِس جامع اور وسیع مفہوم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاد کا حکم سب سے پہلے شہرِ مکہ میں اُس وقت نازل ہوا جب کہ ابھی جہاد بالسیف کی اجازت بھی نہیں ملی تھی۔ صحابہ کرام پر جبر و تشدد کے پہاڑ ڈھائے جاتے مگر انہیں اپنے ذاتی دفاع کے لیے بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُنہیں اُس وقت تک صبر کرنے کی تلقین کی گئی جب تک اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لیے ہجرت کی صورت میں نجات کی سبیل پیدا نہ فرما دی۔ دفاعی جنگ کی ممانعت کے لیے بھی مکہ معظمہ میں ستّر (70) آیات نازل ہوئیں۔ اس کے باوجود جہاد کے متعلق پانچ آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں۔
امام رازی (م604ھ) سورۃ الحج کی آیت نمبر 39 - {اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا} - کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
وَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ أُذِنَ فِيهَا بِالْقِتَالِ بَعْدَ مَا نُهِيَ عَنْهُ فِي نَيِّفٍ وَسَبْعِيْنَ آيَةً.
رازی، التفسير الکبير، 23 : 35
اَمرِ قتال کے اِمتناع میں ستّر (70) سے زائد آیات کے نزول کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اِجازت دی گئی۔
وہ لوگ جنہیں اِس بارے میں فکری واضحیت نہیں اور وہ ذہنی اُلجھن کا شکارہیں - مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مغربی دنیا کے رہنے والے ہوں یا مشرقی ممالک کے - ان سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر جہاد کا معنی قتال اور مسلح تصادم (armed conflict) ہی ہوتا تو مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات کی کیا توجیہ ہوگی جن میں صراحتاً ’جہاد‘ کا حکم دیا گیا ہے؟ یہ آیات ہجرت سے پہلے مکی دور میں نازل ہوئیں جب اپنے دفاع میں بھی ہتھیار اٹھانے کی سختی سے ممانعت تھی اور کسی لڑائی یا مزاحمت کی اِجازت بھی نہ تھی اور نہ اُس دور میں مسلمانوں نے عملاً کوئی جنگ لڑی۔ اگر جہاد کا معنی لڑنا ہی ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقیناً ہتھیار اٹھاتے اور اپنی حفاظت اور دفاع میں کفار و مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگ کرتے۔ لیکن ان میں سے کسی کو اس کی اجازت نہ تھی جب کہ جہاد کے لیے پانچ آیات بھی نازل ہو چکی تھیں۔
اس کا درست جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے جہاد کے لیے مسلح تصادم اور کشمکش کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ہر حکمِ جہاد کے لیے مسلح تصادم ناگزیر ہوتا تو مکہ میں لفظ جہاد پر مشتمل پانچ آیات کے نزول کے بعد ذاتی دفاع کے لیے مسلح جنگ کی اِجازت مل چکی ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ جہاد کے مسلح لڑائی کے علاوہ کئی اور معانی و مفاہیم بھی ہیں جو کہ مکہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات سے مستنبط ہوتے ہیں:
1. فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِيْرًاo
الفرقان، 25 : 52
پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر (یعنی علمی طور پر انہیں توحید پر قائل کر)o
اِس آیت میں بڑے جہاد سے مراد علم و فکر اور فروغِ شعور کی جد و جہد (Jihad for promotion of knowledge and awareness) ہے۔
2. وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِط اِنَّ اﷲَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِيْنَo
العنکبوت، 29 : 6
جو شخص (راہِ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo
یہاں پر جہاد سے مراد اَخلاقی اور روحانی ترقی (Moral and spiritul uplift) کے لیے جد و جہد ہے۔
3. وَاِنْ جَاهَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا.
العنکبوت، 29 : 8
اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اِطاعت مت کر۔
سورۃ العنکبوت کی اس آیت میں جہاد سے مراد کسی بھی قسم کی علمی، فکری، نظریاتی یا اعتقادی کوشش (intellectual or idealogical effort) ہے۔
4. وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo
العنکبوت، 29 : 69
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اﷲ صاحبانِ اِحسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo
مکہ میں نازل ہونے والی اِس آیت مبارکہ میں اپنی زندگی میں اَخلاقی، روحانی اور اِنسانی اَقدار کو زندہ کرنے اور اُنہیں مزید ترقی و اِستحکام دینے کی جد و جہد کو جہاد کا نام دیا گیا ہے۔
5. وَاِنْ جَاهَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌلا فَـلَا تُطِعْهُمَا.
لقمان، 31 : 15
اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں (یعنی تیرا ذہن بدلنے کی کاوش کریں) کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو اُن کی اِطاعت نہ کرنا۔
اِس آیت مقدسہ میں بھی علمی، ذہنی، فکری اور اِعتقادی سطح پر کی جانے والی کوشش کو ’جہاد‘ کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا پانچوں آیات - جن میں واضح طور پر جہاد کا ذکر یا حکم آیا ہے - ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں، جبکہ دفاعی قتال کا حکم ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہوا تھا۔ مکی دور میں اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ مکہ معظمہ میں حکمِ جہاد کے باوجود صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے دفاع میں بھی اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر جہاد کا معنی مسلح جنگ یا آہنی اسلحہ کے ساتھ قتال ہی ہوتا تو مذکورہ آیات کے نزول کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد بالسیف کا حکم فرما دیتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ میں ہی جہاد بالسیف شروع کردیتے۔ حالانکہ اِس اَمر پر سب کا اتفاق ہے کہ جہاد بالقتال کی اِجازت ہجرت کے بعد مدینہ میں ملی۔ کیوں؟ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا معنی قتال، جنگ یا لڑائی ہے ہی نہیں۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قرآن و حدیث کے بعض الفاظ اور اِصطلاحات کو غلط معنی دے رکھا ہے۔ وہ قتل و غارت گری، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ناجائز طور پر جہاد کا نام دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment