نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا
صحیح بخاری شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے : دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی ۔ اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079)
حدیث مبارکہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آیہ کریمہ میں وہ ذات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئی اس سے مراد رب العزت ہے جو جبار ہے۔
اہل ایمان بھی اللہ کا دیدار کریں گے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیئے انکار کیوں ؟
رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بے حجاب دیدار سے بڑھ کر اور کوئی نعمت اہل ایمان کے لئے نہ ہو گی ۔
دیدار الٰہی پر متفق علیہ حدیث
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انکم سترون ربکم عيانا ۔
ترجمہ : بے شک تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1105، کتاب التوحيد، رقم : 6998)(مسند احمد بن حنبل، 3 : 16، چشتی)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا ۔
ترجمہ : تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو۔
(صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد)( سنن ابی داؤد، 2 : 302، کتاب السنة، رقم : 4729)(سنن ابن ماجه، 1 : 63، رقم : 177)(مسند احمد بن حنبل، 4 : 360، چشتی)
اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ مندرجہ بالا ارشادات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے ذات باری تعالیٰ کے مطلقاً دیدار کی نفی نہیں ہوئی۔ اب اگر بالفرض اس کے عدم امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو منطق کے اصول کے مطابق جو چیز اس جہان میں ناممکن ہے وہ عالم اخروی میں بھی ناممکن ہے لیکن بفحوائے ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مومن کے لئے آخرت میں سب سے بڑی نعمت دیدار خداوندی ہو گا ۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ہے
یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اپنے ہر ایمان دار امتی سے بدرجۂ اَتم کہیں بڑھ کر ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہر مومن کو ایمان کی دولت ان کے صدقے سے عطا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ منفرد امتیاز صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حاصل ہے کہ انہیں معراج کی شب مشاہدہ و دیدار حق نصیب ہوا جبکہ دوسرے اہل ایمان کو یہ سعادت آخرت میں نصیب ہو گی۔ احادیث میں ہے کہ معراج کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو احوال آخرت، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا جبکہ باقی سب کو ان کا چشم دید مشاہدہ موت کے بعد کرایا جائے گا۔ بلاشبہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات میں شامل ہے کہ انہیں قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی پیشگی مشاہدے کے ذریعے خبر دے دی گئی اور آخرت کے سب احوال ان پر بے نقاب کر دیئے گئے۔ اس بنا پر تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ منجملہ کمالات میں سے یہ کمال صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا کہ دیدار الٰہی کی وہ عظمت عظمیٰ جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی وہ آپ کو شب معراج ارزانی فرما دی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ چھوٹی نعمتوں کے باوصف سب سے بڑی نعمت جو دیدار الٰہی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محروم کر دیا جاتا ۔
امکان کی بات سے قطع نظر سورہ نجم کی آیات معراج میں چار مقامات ایسے ہیں جن میں ذات باری تعالیٰ کے حسن مطلق کے دیدار کا ذکر کیا گیا ہے : ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO(النجم، 53 : 8 - 9)
ترجمہ : پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)
ارشاد ربانی میں اس انتہائی درجے کے قرب کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ اور نقطہ منتہی سوائے دیدار الٰہی کے اور کچھ قرین فہم نہیں۔ اس کے بعد فرمایا : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO(النجم، 53 : 11)
ترجمہ : (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo
قرآن حکیم نے یہ واضح فرما دیا کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمال ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے بھی کیا اور سر کی آنکھ سے بھی۔
دیدارِ الٰہی کے بارے میں علماءِ امت کی تصریحات
حدیث طبرانی میں ہے کہ:ان محمدا رای ربه مرتين مرة بعينه و مرة بفواده.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے ۔ ( المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564)( المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757)(المواهب اللدنيه، 2 : 37)( نشر الطيب تھانوی صاحب: 55 ، چشتی)
اس حدیث پاک سے رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اوپر درج کی گئی قرآنی آیات کے مضمون کی بخوبی تائید ہوتی ہے۔
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ جیسے برگزیدہ اصحاب رسول کی صحبت سے فیض یافتہ نامور تابعی ہیں، ان سے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے معراج کی شب ذات باری تعالیٰ کا دیدار کیا؟ تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر اس بات کا اقر ار کیا کہ ہاں انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔
اسی طرح جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے، قد رای ربہ یعنی انہوں نے اپنے رب کودیکھا، یہاں تک کہ ان کی سانس پھول گئی ۔
یہ خیالات و معتقدات سب ممتاز اور قابل ذکر صحابہ، صحابیات، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام کے ہیں۔ قرآن حکیم نے رؤیت باری کی تائید فرماتے ہوئے شک کرنے والوں سے پوچھا ۔ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىO(النجم، 53 : 12)
ترجمہ : کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو جو انہوں نے دیکھا ۔
سرور دوجہاں، ہادی انس و جاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری آنکھ کے علاوہ ایک آنکھ باطنی دل کی بھی عطا فرمائی تھی۔ جب ساعت دیدار آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری جلوہ اور باطنی جلوہ دونوں نصیب ہوئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO(النجم، 53 : 13)
ترجمہ : اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)
کیا معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دیدار الٰہی کے قائل نہیں ہیں ۔ مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دیدار الہی کے قائل ہیں اور فرماتے ہیں : انه راه بعينه.
(مسلم شريف، 1 : 118) ۔ ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : ان الله اختص موسیٰ بالکلام و ابراهيم بالخلة و محمدا بالرؤية و حجته قوله تعالیٰ :
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۱۱ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى۱۲ وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ۱۳
(النجم : 11 تا 13)
ترجمہ : دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا ، تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو ، اور انہوں نے تو وہ جلوہ دو (2) بار دیکھا
یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کلام کے ساتھ خاص کیا، ابراہیم علیہ السلام کو خلت کے ساتھ خاص کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآ وسلم کو رؤیت یعنی دیدار کے ساتھ خاص کیا۔ اور دلیل قرآن مجید سے پیش کرتے ہیں ۔
امام عبدالرزاق بیان کرتے ہیں کہ حسن بصری رضی اللہ عنھما قسم کھا کر فرماتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اسی طرح دیدار الہی کے قائلین میں ابن مسعود اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو بھی شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ غیر قائلین میں بھی ان دونوں کو شمار کیا گیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، دیکھا ہے، اور سانسیں اتنی لمبی کرتے کہ سانس ختم ہو جاتی ۔
لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دیدار کا انکار کیا اور آیت کو حضرت جبریل کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور سند میں لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُتلاوت فرمائی ۔ یہاں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں ایک یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اثبات میں اور مثبت ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ نافی کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا نہیں اور مثبت اثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم مثبت کے پاس ہے علاوہ بریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے یہ کلام حضور سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے اپنے استنباط پر اعتماد فرمایا یہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی رائے ہے اور آیت میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے نہ رویت کی ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے، اور باقی حضرات مثلاً ام ہانی وغیرہ تو ان کا قبول معتبر ہے، یہ قوی دلیل ہے، اس بات پر کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو فرماتی ہیں یہ کسی اور واقعہ کے بارے میں ہے جو ہجرت کے بعد ہوا ہے۔
(الشفاء بتعر يف حقوق المصطفی، 1 : 195، چشتی)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اللہ کو دیکھا ہے فرمایا ہاں میں نے نور دیکھا۔( کتاب الایمان صفحہ 768 امام محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ 400 ہجری) سنہ 400 ہجری میں لکھی والی یہ کتاب امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی جس سے الحمد للہ عقیدہ اہلسنت صاف طور پر ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ (کتاب السنہ صفحہ 179 487 ہجری اور ناصر البانی وہابی لکھتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب اچھی صورت میں دیکھا ہے ۔( کتاب التوحید صفحہ 538 امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ، چشتی)
حضور اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عزّ وجل کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ ( امام اہلسنت امام شیبانی رحمۃُاللہ علیہ متوفی 412 ہجری کتاب السنہ صفحہ نمبر 184 )(اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ناصر البانی محقق وھابی مذھب نے اسے صحیح کہا ہے ، چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا اللہ اچھی صورت میں جلوہ فرما ہوا اور اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا میں نے اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں جان گیا جو زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔مفہوم حدیث ۔ ( کتاب الرّویہ حدیث نمبر 245 عربی صٖحہ 331 از الحافظ الامام ابی الحسن علی بن عمر الدّار قطنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 385 ہجری ، اس حدیث کی تمام اسناد صحیح ہیں اور تمام رجال ثقہ ہیں )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیااور رویۃ باری تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیئے تھی خلت ابراہیم علیہ السّلام کےلیئے اور کلام موسیٰ علیہ السّلام کےلیئے تھا ۔ ( کتاب السنہ صفحہ نمبر 192 امام شیبانی متوفی 487 ہجری ان احادیث کی اسناد صحیح ہیں محدث الوہابیہ البانی)
مسئلہ : صحیح یہ ہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدارِ الٰہی سے مشرّف فرمائے گئے ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اغلب صحابہ کرام کا یہی نظریہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ اس کے من جملہ دلائل میں سے چند درج ذیل ہیں:
ReplyDelete1. ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ ... الأنعام: ١٠٣﴾ کہ ’’اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں۔‘‘
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مکتوب ہے: (لا تدركه في الدنیا وإن کانت تراه في الآخرة) کہ ’’دنیا میں یہ آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں اگر چہ آخرت میں دیکھیں گی۔‘‘
2. ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ... الشوریٰ: ٥١﴾ کہ ’’کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے رو برو بات کریں، اس کی بات یا تو وحی(اشارہ)کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ۔‘‘
3. سیدنا موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے رؤیت کاسوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ لَنْ تَرَانِي ... الأعراف: ١٤٣ ﴾ کہ ’’تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔
4. سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: «مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَیٰ رَبَّهُ فَقَدْ کَذَبَ وَهُوَ یَقُولُ: لَا تُدْرِکُهُ الْأَبْصَارُ ... صحیح البخاري: ٧٣٨٠ » کہ ’’جو تمہیں یہ خبر دے کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو تحقیق اس نےجھوٹ بولا ۔ حالانکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں۔‘‘
5. سیدنا ابو ذر سے مروی ہے : (سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: « نُورٌ أَنَّیٰ أَرَاہُ» ... صحیح مسلم: ١٧٨) کہ ’’میں نے رسول کریمﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: (اس کا حجاب ) نور ہے ، میں کیسے دیکھتا؟‘‘