Monday, 12 September 2016

مختصر فضائل و سیرت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم ﷺ کے داماد، کاتب وحی اور عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔ آپ کا نام عثمان ، والد کا نام عفان اور والدہ کا نام اردی ہے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اﷲ اور لقب ذوالنورین اور غنی ہے۔آپ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔
ابتدائی زندگی:
خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ میں پیدا ہوئے۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سلسلہ نسب عبد مناف پر رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے۔ حضرت عثمان ذوالنورین کی نانی نبی پاک ﷺکی پھوپھی تھیں۔آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں چوتھے نمبرپر ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ آپ اللہ کی راہ میں دولت دل کھول کر خرچ کرتے۔ اسی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔
فضائل:
کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے نکاح میں نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔ یہ اعزاز صرف حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ جب آپ اسلام لائے تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا۔ حضرت رقیہ کے وصال کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آپ کے نکاح میں دے دیا۔ اور جب حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بھی وصال ہو گیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری تیسری صاحبزادی ہوتی تو اس کو بھی عثمان غنی کے عقد میں دے دیتا۔ اسی اعزاز کی بنا پر آپ کو ذو النورین کہا جاتا ہے۔
آپ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے جرم میں حضرت عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔
ٖفضائل عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور احادیث کریمہ:
حدیث: حضرت حفصہ رضی اﷲتعالیٰ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں( احمد بن حنبل فی المسند 26510، و الطبرانی فی المعجم الکبیر)
حدیث: حضرت عبداﷲا بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔(ابونعیم فی الحلیۃ، و ابن ابی عاصم فی السنۃ1281)
حدیث:حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہیں ان کی قوم ان کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں ۔( الطبرانی فی المعجم الکبیر 4939)
حدیث: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبیر)
خلافت:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں آپ کے خلیفہ بننے کے بارے میں پیشنگوئی موجود تھی۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ تم کو ایک کرتہ پہنائے گا۔ اگر لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ اس کرتہ کو اتار دو تو تم ہر گز اس کو نہ اتارنا۔( مشکوٰۃ، باب مناقب عثمان غنی)۔
اس پیشگوئی میں حضرت عثمان کی خلافت کی پوری تصویر کھینچ دی گئی تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے اور دورانِ خلافت کوئی فتنہ نمودار ہو گا اور فتنہ کرنے والے آپ کو خلافت چھوڑنے پر مجبور کریں گے تا کہ خلافت راشدہ کسی طرح ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی وحدت اور طاقت منتشر ہو جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایسی صورت میں اپنے منصب پر مضبو طی سے قائم رہنا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں جہاں اسلام کو مزید تر قیات نصیب ہوئیں اور سلطنت کو وسعت ملی وہاں فتنوں نے بھی سر اٹھا یالیکن آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا اور مضبوطی کے ساتھ اپنے منصب پر قائم رہے۔
آپ نے 35سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ 23سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کراسلام کی خدمات کی توفیق پائی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرفاروق کی خلافتوں کے دوران جن کا عرصہ بارہ سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے خدمات سر انجام دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں خلیفہ بن کر بھی آپ کے لئے مزید اتنے سال خدمت دین کی توفیق لکھی تھی جتنے سال مجموعی طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافتوں کا زمانہ بنتا ہے۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابہ اکرام شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمان کو کثر ت رائے سے خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔
شہادت:
اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی.وہ منافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے۔ ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا۔حضرت ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اسلام چن لیا۔ حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا خلافت کے منصب پر فائز ہونا بھی ان مسلمان نما منافقوں کے لیے صدمہ جانکناہ سے کم نہ تھا۔ انہوں نے آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ایک ایسے وقت میں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کیا جب اکثر صحابہ کرام حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے۔آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی اور چالیس روز تک محبوس رہے۔ 18 ذوالحجہ کو باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اس دلخراش سانحہ میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی انگشت مبارک بھی شہید ہو گئیں۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی نے خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ کی حییثیت سے خلافت سنبھالی۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزام اور حضرت جبیر بن مطعم بھی تھے، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دفنائے جانے کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔

1 comment:

  1. مجھے حضرت عثمان بطور تاجر مضمون چاہیے

    ReplyDelete

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...