اس اعتراض کا مختصر جواب: حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امام الانبیاء ہیں۔ جہاں خدا کی خدائی ہے وہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بادشاہی ہے ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے محتاج نہیں تھے بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے اُمتی اور خادم ہیں۔حضرت جبرائیل علیہ السلام تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وحی لے کر آتے تھے ۔ نظام قدرت کے تحت یہ سلسلہ جاری رہا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والو یہ بتاؤکہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی بھیجنے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا محتاج تھا؟ کیا وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود کلام نہیں کرسکتا تھا؟ اسی طرح کیا اللہ تعالیٰ ماں باپ کے وسیلے کے بغیر اولاد عطا نہیں کرسکتا ؟اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہر چیز کا مالک ومختار ہے لیکن ہر کام اس کے مقرر کردہ قا نونِ قدرت کے مطابق ہوتا ہے۔بے شمار احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب کا اظہار فرمایا ہے ان میں سے دو حدیث مبارکہ بطور حوالہ پیش خدمت ہیں۔
نمبر١:حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر بھی ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''ہاں عمر کی ''(نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں)میں نے عرض کیا کہ (میرے باپ حضرت )ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''عمر کی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی جیسی ہیں۔(مشکوٰۃ شریف ج سوم باب مناقب ابوبکر)
آسمان کے ستارے کتنے ہیں یہ بھی غیب کی بات ہے اور جو شخص نیکیاں کرتا ہے اس کی نیکیاں کتنی ہیں یہ بھی غیب کی بات ہے اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ عقیدہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم غیب نہیں جانتے تو کبھی ایسا سوال نہ کرتیں۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کرتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراًبغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب سے جواب ارشاد فرما یا۔
نمبر ٢:حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دو قبروں پر گزرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''اِن دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کے سبب نہیں (بلکہ) ان میں ایک پیشاب (کی چھینٹوں)سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خورتھا''۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تازہ (سبز) شاخ منگوا کر اس کو درمیان سے چیر کر دونوں قبروں پر لگا دیا۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے ایسا کیوں کیا؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''یہ شاخیں جب تک خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تحفیف ہوتی رہے گی''۔
(صحیح بخاری ،صحیح مسلم،مشکوٰۃ باب الاداب الخلاء پہلی فصل)
قبر کا معاملہ بالکل غیب اور پوشیدہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم دنیا میں کھڑے ہوکر عالم برزخ کی خبر دے رہے ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کو عذاب کیوں ہورہا ہے ۔یہ سب کچھ آپ نے بغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب سے ارشاد فرمایا۔
قرآن پاک میںحضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم (پارہ ٣ ، سورہ آل عمران)
اورمیں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر تے ہو۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام یہ غیب کی باتیں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وحی کے ذریعے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ عطائی علم غیب سے بتاتے تھے۔
اسی طرح قرآن پاک میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام پر وحی نازل نہیں ہوئی کہ آپ یہ کام کریں بلکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ عطائی علم غیب سے سب کچھ کیا۔
اعتراض کرنے والے بدعقیدہ کتنے گستاخ ہیں کہ وہ ایک خادم اور اُمتی کو امام الانبیاء حضور نبی اکرم نور مجسم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم پر فضیلت دے رہے ہیں۔ (معاذ اللہ' استغفر اللہ)
No comments:
Post a Comment