بھینس کی قربانی کا شرعی حکم
محترم قارئین کرام : قرآنِ کریم نے قربانی کےلیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے : وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ ۔ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ ۔ (سورہ الحج 22 : 28)
ترجمہ : اور اللہ کا نام لیں جانے ہوئے دنوں میں اس پر کہ انہیں روزی دی بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ ۔
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن (بھیڑ) ، مَعْز(بکری) ، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے) ، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ)کہا ۔ (سورہ الأنعام 6:144-142)
جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا ، علاقائی ناموں کا نہیں انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے ۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں ، اس کی قربانی جائز ہے ۔ مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے ۔ اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے ، لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے ، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے ۔ اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں جو دوسرے علاقوں والوں کےلیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے ۔ اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے ۔ قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر'' (گائے) بھی ہے ۔ اس کی قربانی کےلیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السّلام کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا ، لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا ۔سورہ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں ۔
انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری (310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا ۔۔۔ ان کےلیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا ۔ (جامع البیان عن تأویل آي القرآن)(تفسیر الطبری 100/2،چشتی)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل (اونٹ) کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔
بھینس گائے کی ایک قسم ہے ، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے : ⏬
امام ابن المنذر فرماتے ہیں : واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر ۔
ترجمہ : اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے ۔ (الاجماع کتاب الزکاۃ صفحہ ۴۳)
ابنِ قدامہ لکھتے ہیں : لا خلاف فی ھذا نعلمہ ۔
ترجمہ : اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں ۔ (المغنی جلد ۲ صفحہ ۲۴۰)
لیث بن ابوسلیم تابعی رضی اللہ عنہ (متوفی 138/148ھ) کا قول ہے : اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ ۔
ترجمہ : بھینس (گائے کی ایک قسم) اور بختی (اونٹ کی ایک قسم) ان آٹھ جوڑوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر ابن أبي حاتم جلد 5 صفحہ 1403)
لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد ازہری ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں : وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا ، وَأَکْرَمِھَا ، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا ، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا ۔
ترجمہ : گائے کی نسلوں میں سے جوامیس (بھینسیں) ہیں ۔ اس کی واحد جاموس ہے ۔ یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے ۔ یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے ۔(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي صفحہ 101،چشتی)
امامِ لغت علامہ ابوالحسن علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہٖ (458-398ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ (المحکم والمحیط الأعظم جلد 7 صفہ 283)
عربی زبان کے ادیب اور لغوی ابوالفتح ناصربن عبد السید معتزلی مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے ہی کی نسل سے ہے ۔ (المغرب في ترتیب المعرب صفحہ 89)
مشہور فقیہ و محدث علامہ عبد اللہ بن احمد بن محمد المعروف بہ ابن قدامہ مقدسی (620-541ھ) فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ ۔
ترجمہ : بھینسیں ، گائے کی نوع (نسل) سے ہیں اور بختی ، اونٹوں کی نوع (نسل)سے ۔ (الکافي في فقہ الإمام أحمد جلد 1 صفحہ 390)
محدث و مفسر ابوالبرکات عبد السلام بن عبد اللہ حرانی (652-590ھ) فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینسیں ، گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں ۔ (المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 215،چشتی)
شارحِ صحیح مسلم معروف لغوی حافظ ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی (676-631ھ) ابواسحاق شیرازی(474-393ھ) کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں : وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔ وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر ، مِنْھَا الجَوَامِیسُ ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے ، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں (بھینس اور گائے میں سے) ایک نسل ہو ؟ ۔ ازہری کہتے ہیں کہ بھینس ، گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے ۔ (تحریر ألفاظ التنبیہ صفحہ 106)
لغتِ عرب میں امام و حجت کا درجہ رکھنے والے علامہ ابوالفضل محمد بن مکرم انصاری المعروف بہ ابن منظور افریقی (711-630ھ)فرماتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ (لسان العرب جلد 6 صفحہ 43)
معروف لغوی علامہ ابوالعباس احمدبن محمدبن علی حموی (م:770ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ (المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر جلد 1 صفحہ 108،چشتی)
لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ”تاج العروس” میں مرقوم ہے : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ،گائے کی نسل سے ہے ۔ (تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي جلد 15 صفحہ 513)
لغتِ عرب کی معروف کتاب ”المعجم الوسیط” میں ہے : اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے ۔ (المعجم الوسیط جلد 1 صفحہ 134)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے : اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ ۔
ترجمہ : بَقَر ، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل (گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے ۔ (المعجم الوسیط جلد 1 صفحہ 65)
اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ' بھینس کا گائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں ، بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کےلیے لفظ کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ (گائے جیسی) مستعمل تھا ۔ اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ (گائے جیسی) کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر (گائے کی نسل) لکھ دیا ۔ قطعاً درست نہیں ، کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو ؟ بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور فقیر چشتی کے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے ۔ کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے ؟ بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے ۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے ، جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا ۔ کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغتِ عرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کےلیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی ۔ جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے ، ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ''بقر'' کا معنیٰ ''گائے'' کیوں ہے ؟ بھینس کا نام ہی گائے ہے بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے ۔ اگر بھینس ، گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا ، نہ کہ کچھ اور ۔ جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں ۔ ان کےلیے عرض ہے کہ بھینس کےلیے عربی میں لفظ ''جاموس'' استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیا ہے ۔ فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش'' تھا ۔ عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا ۔ اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے ۔ اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ'' (گائے) موجود ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے ۔ چونکہ گائے کی یہ نسل (بھینس) عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی ، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی ، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی ، اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا ۔
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے ۔ اگر بھینس ، گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا ، نہ کہ کچھ اور ۔ جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں ۔ ان کےلیے عرض ہے کہ بھینس کےلیے عربی میں لفظ ”جاموس” استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیا ہے ۔ فارسی میں یہ نام ”گاؤمیش” تھا ۔ عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ”جاموس” ہو گیا ۔ اس بات کی صراحت لغتِ عرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ”جاموس” کے تحت موجود ہے ۔ اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ”گاؤ” (گائے) موجود ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے ۔چونکہ گائے کی یہ نسل (بھینس) عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی ، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی ، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی ، اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا ۔ اس کی وضاحت کےلیے وہابیوں کے معروف عالم شیخ محمد بن صالح عثیمین (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں ۔ ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں) تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا (اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں) ؟
اس کے جواب میں لکھا : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ ۔
ترجمہ : بھینس ، گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے ، جو عربوں کے ہاں معروف تھے ۔ (دورِ جاہلیت میں) عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے ۔ بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی (اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں) ۔ (مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین)
غیرمقلد وہابیوں کے فتوے اور تحقیق ملاحظہ ہو قربانی کے جانور : ⏬
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِاثْنَیْنِ ۔۔۔ الایۃ ۔ وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ ۔ الایۃ ۔ (سورۃ الانعام:143)
ترجمہ : آٹھ نر مادہ ہیں دو بھیڑوں میں سے ، دوبکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اوردو گایوں میں سے ۔
نوٹ : بھینس گائے کے حکم میں ہے اور بھینس کی قربانی جائز ہے ۔
بھینس کی قربانی جائز ہے : وَاجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسَ حُکْمُ الْبَقَرَۃِ ۔
(کتاب الاجماع امام ابن منذر صفحہ 37)
ترجمہ : أئمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔(یعنی دونوں کا حکم ایک ہے) ۔
قاضی محمد عبداللہ ایم اے ایل ایل بی (خانپوری غیرمقلد وہابی) کا فتویٰ : تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب بہیمۃ الانعام (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے ۔ (ہفت روزہ الاعتصام لاہور جلد 20 شمارہ 42،43 صفحہ 9)
مولوی ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد وہابی کا فتویٰ : جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں : قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا ۔ (سورۃ الانعام:145) ۔ ان چیزوں کے سواء جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے بھینس ان میں نہیں اس کے علاوہ عرب لوگ بھینس کو بقرہ (گائے) میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تشریح : ہاں ! اگر اس (بھینس) کو جنس بقر (گائے کی جنس) سے مانا جائے یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکمِ جواز قربانی کےلیے یہ علت کافی ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 صفحہ 807،اخبار اہل حدیث صفحہ11 دہلی،چشتی)
حافظ محمد گوندلوی غیرمقلد وہابی کا فتوی : بھینس بھی بقر میں شامل ہے اس کی قربانی جائز ہے ۔ (ہفت روزہ الاعتصام جلد 20 شمارہ 9،10 صفحہ 29)
عبدالقادر حصاروی غیرمقلد وہابی ساہیوال کا فتویٰ : خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی (قربانی) مسنون ہے اور بھینس بھینسا کی قربانی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک واضح نہیں ہے ۔ (اخبار الاعتصام جلد 26 شمارہ 150 بحوالہ فتوی علمائے حدیث جلد 13 صفحہ 71)
ابوعمر عبدالعزیز نورستانی غیرمقلد وہابی کافتویٰ : مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر میری ناقص رائے میں ان علماء کا مؤقف درست اور صحیح ہے جو (بھینس کی قربانی کے) قائل ہیں ۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ از حافظ نعیم الحق ملتانی صفحہ 154)
حافظ عبدالقہار نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث کراچی غیرمقلد وہابی کا فتویٰ : واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے اور اس کی قربانی کرنا درست ہے ۔ کیونکہ گائے کی جنس سے ہے گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی ۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ صفحہ 156،چشتی)
حافظ احمداللہ فیصل آبادی غیرمقلد وہابی کا فتویٰ : میری کئی سالوں کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ بھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں ۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ صفحہ 159)
پروفیسر سعد مجتبیٰ السعیدی غیرمقلد وہابی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آخر میں لکھتے ہیں کہ لہٰذا گائے کی مانند بھینس کی قربانی بلا تردد جائز ہے ۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ صفحہ 18)
مولوی محمد رفیق الاثری غیرمقلد وہابی پیش لفظ میں لکھتے ہیں : یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا چند سال سے یہ مسئلہ اہلحدیث عوام میں قابلِ بحث بنا ہوا ہے ۔ جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ پیش لفظ)
تنبیہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھینس کی قربانی نہیں کی ، لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے ۔ ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ''بھینس'' ہی کے بارے میں کیوں ہے ؟ ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کیں ، صرف انہی کی اجازت دیں ۔ کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کی تھیں ؟ اس طرح تو دیسی ، ولائتی ، فارسی ، افریقی ، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا ۔ پھر ہر شخص قربانی کےلیے عربی گائے ، عربی اونٹ ، عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا ؟ اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس ، گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیں اور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے ۔ اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں ۔
الحاصل : بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ اس کی قربانی بالکل جائز ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ۔
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۔ (سورہ الأنعام آیت نمبر 162)
ترجمہ : آپ کہیے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کےلیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔
صلوۃ سے مراد یا تو تہجد کی نماز ہے یا نماز عید ہے اور نسک نسی کہ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے ذبیحہ اور اس کا معنی ہے حج اور عمرہ میں مینڈھا ذبح کرنا اور نماز اور ذبیحہ کو اس آیت میں اس طرح جمع کیا ہے جیسے (آیت) ” فصل لربک وانحر “۔ (الکوثر : ٢) میں جمع کیا ہے۔ حسن بصری نے کہا نس کی سے مراد ہے میرا دین۔ زجاج نے کہا اس سے مراد ہے میری عبادت۔ ایک قوم نے کہا اس آیت میں نسک سے مراد تمام نیک کام اور عبادات ہیں ۔
منسک کے معنی کی تحقیق : ⏬
منسلک کے معنی میں کئی اقوال ہیں (١) حضرت ابن عباس نے کہا اس سے مراد عید کا دن ہے جس میں وہ جانور ذبح کرتے ہیں (٢) مجاہد نے کہا منسک کا لفظ قربانی کے جانوروں کےلیے مخصوص ہے۔ (٣) کسی عبادت کی ادائیگی کے لئے عرف میں ہیں جو جگہ یا جو وقت معین ہو اس کو منسلک کہتے ہیں ۔ (٤) قفال کا مختاریہ ہے کہ منسک کا معنی ہے شریعت اور عبادت کرنے کا مخصوص طریقہ ، اور یہ معنی اس آیت کے قریب ہے : لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا ۔ (سورہ المائدۃ : ٤٨) ۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے عبادت کا ایک مخصوص منشور اور دستور مقرر کردیا ہے ۔
اور منسک کا لفظ نسک سے بنا ہے جس کا معنی عبادت ہے اور جب منسک کا لفظ ہر عبادت پر بولا جاتا ہے تو اس کو کسی ایک طریقہ عبادت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ تم نے منسلک کے لفظ کو ذبح پر محمول کیوں نہیں کیا کیونکہ عرف میں نسک کے لفظ سے قربانی کا ہی معنی سمجھا جاتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درستن ہیں ہے کہ عرف میں نسک کے لفظ سے قربانی کا ہی معنی سمجھا جاتا ہے کیونکہ عرق میں تمام افعال حج کو مناسک کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خذاواعنی منا سکم ۔ (سنن بیہقی ج ٥ ص ١٢٥) ۔ مجھ سے اپنے حج کے ارکان اور افعال کا علم حاصل کرو ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی عبادت کرنے کےلیے جو طریقہ بھی مقرر کریں اس پر کسی کو اعتراض اور بحث نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہر نبی علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے مخصوص حالات ، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے خصوص عبادت کے طریقے مقرر کیے ہیں اور ہر زمانہ کے تقاضے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کافروں نے یہ اعتراض کیا کہ جو جانور طبعی موت مر جائے تم اس کو نہیں کھاتے اور جس کو تم ذبح کرتے ہو اس کو کھا لیتے ہو ، گویا اللہ کا مارا ہوا نہیں کھاتے اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے طریقہ پر قائم رہیں اور لوگوں کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے طریقہ پر قائم رہیں اور لوگوں کو اللہ کی توحید اس کے دین اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دیتے رہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھی راہ پر ہیں اس میں کوئی کجی نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment