Thursday 20 June 2024

جشنِ غدیرِ خُم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

جشنِ غدیرِ خُم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے فریب کا جواب

محترم قارئینِ کرام : اٹھارہ (18) ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر “غدیر خم” مقام پے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ” میں جس کا مولا علی اس کا مولی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس فرمان کے ذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا ۔ اٹھارہ 18 ذی الحج جو کہ خلیفہ راشد دُہرے دامادِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے عین اُس دن رافضی شیعہ اور اب اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضی جشنِ غدیر منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟


عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفے کا اعلان کر دیا ؟

اگر خلافت کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرنا ہوتا تو اس کا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا ۔ غدیرخم مقام پے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو ، اس سے محبت کرو ، جس کو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے ۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کیا تھا ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے (اس تقسیم کی وجہ سے) ناگواری محسوس کرتے ہو…؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ ، جتنا حصہ علی نے لیا ہے حق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے ۔ بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ ۔ اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو ان کی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946،چشتی،وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106) ۔ (مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم اس پر ہم الگ سے مضمون لکھ چکے)

شیعہ کتب سے : ⏬

و خرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه ۔ یعنی بریدہ اسلمی نے رسول کریم سے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریم نے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں) لہٰذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار جلد 37 صفحہ 190)

فأصبنا سبيا قال : فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي ۔ بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا…رسول کریم کی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریم کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریم نے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو ۔ (شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی جلد1 صفحہ 293)

یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا ۔ یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔

عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں اس لیے یہ کوئی عید نہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے ۔ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں ۔

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری (جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے ۔ (یعنی 80 کوڑے مارونگا)  (فضائل الصحابہ روایت نمبر387)

یوم غدیر کے متعلق بہت کچھ شیعہ کتب میں ہے اس کا اکثر جھوٹ ہے ، شیعوں نے اپنی طرف سے لکھا اور نام اہلبیت رضی اللہ عنہم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ڈال دیا ہے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہعنہ فرماتے ہیں کہ لوگ جو (بظاہر) ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں ، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں ، تو ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو ۔ (شیعہ کتاب رجال کشی صفحہ 135 ، 195)

وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں ۔ بالکل سچ کہتے ہیں ، جس کی تائید امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے ۔ امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت بالخصوص حضرت علی ، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر ان کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر فرقہ کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں ۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بات سے ثابت ہوتا ہے فقہ جعفریہ ، فقہ شیعہ ، عقائد شیعہ ، مذہب شیعہ جھوٹ و مکاری کا پلندہ ہے ۔ کیونکہ شیعوں کی کتابیں قرآن و سنت کے خلاف سے بھری پڑی ہیں ۔ ہاں شیعوں کی وہ بات جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو وہ قابل قبول و دلیل بن سکتی ہے ۔

اکابرینِ اہلسنت علیہم الرّحمہ کا مٶقف : ⏬

امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین " میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں : رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لئے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کوذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے،  ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں: اس حدیث سے جناب علی المرتضی کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا ۔ (اصول الدین مترجم صفحہ 512 پروگریسو بکس لاہور)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب " تحفہ اثناء عشریہ " میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی سے ڈرانا لکھا ہے ۔ (تحفہ اثناء عشریہ مترجم صفحہ نمبر 418،چشتی)

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: کہ "میں جس کا مولا ہوں" اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے ۔ (السیف المسلول مترجم صفحہ نمبر 244 فاروقی کتب خانہ ملتان)

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے۔ حدیث صحیح ہے ، اور اس میں بعض علمائے شان نے جو کلام کیا مقبول نہیں ، مگر تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا ۔ (مطلع القمرین صفحہ 70 کتب خانہ امام احمد رضا راولپنڈی)

تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خُم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ہے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں : بریدہ اسلمی کے بیان واقعات و مبشرات اور اپنے مقام پر بیان شدہ نصوص قرآنیہ سے واضح ہوجاتا ہے ، کہ خُم غدیر والی حدیث کو سیدنا علی کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : سیدنا علی حدیثِ خُم غدیر کو اپنی خلافت کےلیے سند نہیں سمجھے ہوئے تھے ۔ (تصفیہ مابین سُنّی و شیعہ صفحہ 33-34)
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزد فرماتے ہیں : غدیر خم والی روایت کو مولیٰ علی رضی اللّٰه عنہ کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 3،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : غدیرِ خم کے واقعے کا پسِ منظر جو روایات میں آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حج سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف خمس وغیرہ جمع کرنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت پر امیر بنا کر بھیجا تھا ۔ واپسی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خمس کے مال میں سے ایک بہترین لونڈی اپنے لیے رکھ لی ۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پہ اعتراض کیا ۔ جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ نہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت لگا دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ علی رضی اللہ عنہ سے (اس معاملے کی وجہ سے) رنجش رکھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ، تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے جو انہوں نے رکھ لیا ہے ۔ (صحیح البخاری)

علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ  (ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 333،چشتی)

اب جن صاحب نے شکایت لگائی تھی وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وضاحت سے مطمئن اور راضی ہو گئے البتہ لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات کے متعلق عام الناس کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شبہات کو ختم کرنے کے لیے خطاب کرنا مناسب سمجھا اور اس کے لیے غدیرِ خم کے مقام کو چنا گیا ۔

غدیرِ خم مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ۔ چونکہ یہ مقام عہدِ نبوی میں ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا تھا ، یہاں سے جزیرہ نما عرب کے اطراف و اکناف کے لیے راستے نکلتے تھے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مقام کو نہایت مناسب سمجھا ۔ چنانچہ حج سے واپسی پر جب حجاج کرام کا قافلہ غدیرِ خم کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہاں مختصر قیام فرمایا اور بعد نمازِ ظہر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ کہ جس میں رسول اللہ نے فرمایا کہ "جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے ۔ جس کی مکمل تفصیل ہم بعنوان ،، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم ،، لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ مزید مختصراً چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ۔

یہ تو آ گیا غدیرِ خم کا واقعہ اور اس کا پسِ منظر ۔ اب سوال ہے کہ مولا کے معنے کیا ہیں ؟ تو عرض ہے کہ مولا ایک کثیر المعانی لفظ ہے ۔ اور بنیادی اصولِ لغت ہے کہ کسی بھی کثیر المعانی لفظ کا کوئی ایک مطلب نہیں لیا جا سکتا۔ الا یہ کہ اس کے سیاق و سباق میں کوئی واضح قرینہ موجود ہو یا پھر اس کثیر المعانی لفظ کے کہنے والی کی کوئی وضاحت موجود ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لفظِ مولا کی کوئی وضاحت تو قطعی وارد نہیں ۔ البتہ اگر اس واقعے کے پسِ منظر پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے ذہنوں سے شبہات رفع کرنا اور ان کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنا تھا ۔ سو ایسے میں لفظِ مولا کے معنے دوست یا عزیز کے بنتے ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد ”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“ کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص مجھے دوست یا عزیز رکھتا ہے وہ علی کو بھی دوست و عزیز رکھے ۔

حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب ‘‘غدیر خُم’’(کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے اللہ ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں ، اے اللہ ! جو علی سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات)کر ، اور جو علی رضی اللہ عنہ سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد 10 صفحہ 475 بحوالہ احمد،چشتی)

مذکورۃالصدر حدیث اور اس کے پسِ منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں رفقاءِ سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس کا اظہار فرمادیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے ۔

لغت کے مشہور امام ابن اثیر علیہ الرحمہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ کے تحت لکھتے ہیں : اور یہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ ایک ایسا لفظ جو کئی معانی پر بولا جاتا ہے ، پس مولیٰ کے معنیٰ پروردگار ، مالک ، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچازاد بھائی ، عہد و پیمان کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام ، اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنیٰ مراد لیا جاتا ہے ۔ (النہایۃ جلد 5 صفحہ 228)

مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ولایت کے عداوت کے ساتھ تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ‘‘مولیٰ’’اور ‘‘اولیٰ’’ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنیٰ مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا ۔

نیز’’مولیٰ‘‘ سے امامت اور خلافت کا معنیٰ مراد لینے کی صورت میں لازم آئیگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد مولیٰ ہوں گے ، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی رضی اللہ عنہ مولیٰ ہیں ۔ اگر یہاں محبت والا معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں بلکہ امامت اور خلافت کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو شیعہ و نیم شیعہ حضرات کو بھی تسلیم نہیں ۔ لہٰذا اس حدیث سے وہی معنیٰ متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔

ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ‘‘مولیٰ’’ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے فرمایا ‘‘أنت مولای و منی’’ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھ سے ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 44)

اور دوسری روایت میں ہے ‘‘أنت مولای و أحب القوم الیّ’’ ۔ (آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 11 صفحہ 227،چشتی)

اور ایک روایت میں ہے ‘‘أنت اخونا و مولانا’’ ۔ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 43)

اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنیٰ ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امام اور خلیفہ بلافصل ہوں ۔ لیکن جب یہاں یہ معنیٰ مراد نہیں تو حدیث ‘‘من کنت مولاہ الخ’’میں بھی اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ ،،جس کا میں مولیٰ اس کا علی مولیٰ،، یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ، شیعہ حضرات اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے اور اپنے خودساختہ نظریۂ امامت پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن اس حدیث کی مکمل تفصیل اور اس کے پسِ منظر کی مذکورہ وضاحت سے شیعہ حضرات کے جھوٹے استدلال کی حقیقت واضح ہو گٸی ۔

شیعہ و نیم شیعہ تفضیلی حضرات کے خود ساختہ نظریۂ امامت و خلافت کے اس حدیث کے ساتھ عدمِ تعلق کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت امام حسن کی اولاد میں سے حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم سے کہا گیا کہ کیا ‘‘من کنت مولاہ’’کی حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ نہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ خبردار ! اللہ کی قسم اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو ! یہ (حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ) میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران ہوں گے ، ان کی بات سنو اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطاکار ہوتے ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 48)(تحفۂ اثنا عشریۃ صفحہ 209)(تفسیر روح المعانی جل 6 صفحہ 195،چشتی)(التاریخ الکبیر لابن عساکر جلد 4 صفحہ 166)

ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادۂ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دیدیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو متعین فرمادیا ، اس کے بعد کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہیے ۔

اب جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ شیعہ حضرات اس دن کی مناسبت سے عید کیوں مناتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ شیعہ مذھب کے دجل و فریب میں سے ایک ہے ۔ اوپر غدیرِ خم کے پسِ منظر کی تفصیل لکھی ہے کہ یہ واقعہ دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس لونڈی والے واقعہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کی وجہ سے پیش آیا ۔ لیکن شیعہ حضرات نے اسے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان قرار دے کر اس بنیاد پر اپنا پورا مذھب گھڑ ڈالا ۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی "خلافت" کا اعلان کیا تو اللہ نے تکمیلِ دین کی آیت نازل فرمائی ۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مذکورہ آیت نو (9) ذی الحجہ کو میدانِ عرفات میں نازل ہوئی تھی ۔ جبکہ غدیرِ خم کا واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ کا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر شیعہ و نیم شیعہ حضرات کی یہ دونوں باتیں مان لی جائیں یعنی یہ کہ غدیرِ خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و ولایتِ باطنی کا اعلان ہوا اور اس پر تکمیلِ دین کی آیت نازل ہوئی تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری وصال مبارک کے فوراً بعد خلافت کے معاملے میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوا تھا کہ جسے رفع دفع کرنے کے لیے حضرے عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ، تو اس وقت کیوں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پہ اعتراض نہ کیا ؟ کہ جی خلافت کا اعلان تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو چکا لہٰذا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بن سکتے ۔ کیا حق کی گواہی دینے والا کوئی بمشول حظرت علی ایک شخص (رضی اللہ عنہم) بھی وہاں موجود نہیں تھا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تربیت معاذ اللہ اتنی ناقص تھی کہ آپ کے فوت ہوتے ہی آپ کے ساتھی سب کچھ بھول بیٹھے ؟ غدیرِ خم کے واقعے کے کوئی دو چار گواہ تو تھے نہیں ۔ کم و بیش ایک لاکھ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس واقعے کے عینی شاہد تھے ۔ حتیٰ کہ خود ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود تھے ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ "خلافت کے اعلان" کے باوجود عمر بیعتِ ابوبکر رضی اللہ عنہما کر لیں اور لوگ بھی اسے تسلیم کر لیں ۔ کسی بھی شخص ، حتیٰ کہ خود حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو غدیرِ خم کے "اعلان" کی یاد نہ دلائی کیوں ؟

عیدِ غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معز الدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے ۔سب سے پہلے اس نے رافضیوں کے ساتھ 18 ذی الحجہ 352 ھ کو بغداد میں عیدِ غدیر منائی ۔ نیز عیدِ غدیر اس نیت سے منانا کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل بنایا گیا تھا یہ روافض کی بدعت سیئہ و شنیعہ ہے جو سراسر باطل اور گمراہی پر مبتلا ہے ۔ حدیثِ غدیر کی شرح جو سیاق و سباق سے ثابت ہے اس کے مطابق مولا کے معنی خلیفہ و حاکم نہیں بلکہ دوست ، محبوب وغیرہ ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس حدیث سے خلیفہ بلافصل ماننا دیگر احادیث کے صریح خلاف ہے جوکہ گمراہی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بلا فصل ہونے پر اجماع ہے ۔ لہٰذا اہلِ سنت و جماعت پر لازم ہے کہ وہ عیدِ غدیر کے نام پر محافل منعقد کرنے سے بچیں کہ یہ بدمذہبوں کا شعار ہے ۔

غدیر کی تاریخ : ⏬

رمضان المبارک 10 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی رضی اللہ عنہ کو مالِ غنیمت کا خمس یعنی پانچواں حصہ وصول کرنے کےلیے یمن کی طرف ایک لشکر کا امیر بناکر بھیجا تھا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کےلیے مکہ مکرمہ تشریف لے آئے ، یہیں قیام کے دوران مولا علی رضی اللہ عنہ بھی مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور خمس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا ۔ اس سفر میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں کو آپ کے کچھ فیصلوں سے اختلاف ہوا ، سفر سے واپسی پر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیرخم (بمعنی تالاب خم ایک جگہ ہے حجفہ منزل سے تین میل دور ہے) کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے ان فیصلوں کو درست قرار دیا اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے اور بد گمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔

مذکورہ بالا حدیث پاک کے پس منظر کے متعلق المستدرک ، السنن الكبرى ، فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل اور کثیر کتب احادیث میں ہے ، واللفظ للاؤل : عن بريدة الأسلمى رضى الله عنه قال : غزوت مع على إلى اليمن فرأيت منه جفوة ، فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت عليا فتنقصته فرأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير، فقال: يا بريدة، ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم ؟ قلت : بلى يا رسول الله ، فقال : من كنت مولاه فعلی مولاه وذكر الحديث ، هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه ۔
ترجمہ : حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف گیا ، تو میں نے ان میں کچھ نامناسب بات دیکھی ، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مولا علی رضی اللہ عنہ کی طرف نقص کی نسبت کر دی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ، ارشاد فرمایا : اے بریدہ ! کیا میں مومنوں کا ان کی جانوں سے زیادہ مالک نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کی ، کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : جس کا میں مولی (محبوب) ہوں ، علی بھی اس کے مولیٰ (محبوب) ہیں ۔ یہ حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اور یہ مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ، لیکن اس کو شیخین نے روایت نہیں کیا ۔ (المستدرک للحاکم جلد 3 صفحہ 119 مطبوعہ دار الكتب العلميہ بيروت،چشتی)

حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ ۔ أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ ، (شَکَّ شُعْبَةُ) ۔ عَنِ النَّبِيِّ ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔ (قَالَ :) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ : ⏬

وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘ (یعنی مددگار) کیے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالین صفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ، مددگار ، آزاد شُدہ غلام ، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی ، اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۲۵)

مولىٰ کا صحیح مطلب : ⏬

علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی علیہ الرحمہ (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد ، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی ، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه) ۔ ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علی سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق لامام ابن عساکر جلد ٤٢ فحہ ٢٣٨ وسندہ صحیح،چشتی)

یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے ۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔

سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی ۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا ۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں ۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔

وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔

من کنت مولاہ فعلی مولاہ

ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصود تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔

رافضیوں اور تفضلیوں کے عقیدے کا رد : ⏬

غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کےلیے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھے ۔

شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰذا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں ) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امت کے مولا ہیں فلہزا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے ۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام امت کےلیے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔

روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے ۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد روایت ھٰذا کے معنیٰ و مفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں ۔

یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کےلیے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : قال لزید انت اخونا و مولانا ، آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول)

روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں : ⏬

النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ ( جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے ) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کیے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے ۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا ۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث جلد ۴ صفحہ ۲۳۱،چشتی)

اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے ۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔

اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ”مولا“ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔

مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (البدائیہ لابن کثیر جلد ۵ صفحہ ۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحوالہ صحیح بخاری شریف،چشتی)

اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کےلیے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے ۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں ۔ لہٰذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟

(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کر دیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرات کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے ۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے ۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی ۔ لہٰذا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔

(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی ۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کےلیے ایک اہم موقعہ تھا ۔

(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی ۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب فرمایا۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔

(6) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کےلیے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت لینے سے نکار کردیا۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ : وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ جلد ۷ صفحہ ۲۲۵ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)

اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔
ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا ۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لیے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی صفحہ ۱۸۱ مطبوعہ مصر تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)

مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرما لیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انا لکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔

(7) امام حسن رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ، زکوۃ ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں ۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح (اور افصح الناس) تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ غدیرِ خم کے مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں تھا ، بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ مقصود تھا جو مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے ، اس لیے مولا علی رضی اللہ عنہ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ارشاد فرمایا ۔ لہٰذا حدیث پاک میں لفظ مولیٰ سے مراد خلیفہ بلا فصل نہیں ، بلکہ دوست اور محبوب ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا ہوتا ، تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ۔

امام ملاعلی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : مـن كـنت مولاه فعلی مولاہ ‘‘ قیل ، معناه مـن كـنت أتولاه فعلى يتولاه من الولى ضد العدو أي : من كنت أحبه فعلى يحبه ، وقيل معناه : من يتولاني فعلى يتولاه ، كذا ذكره شارح من علمائنا ۔
ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کے معنیٰ ہیں : جس سے میں دوستی رکھتا ہوں اس سے علی دوستی رکھتے ہیں ۔ دوست بمقابلہ دشمن یعنی جس سے میں محبت کرتا ہوں اس سے علی محبت کرتے ہیں ۔ اور یہ معنیٰ بھی اس کے کیے گئے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے دوستی رکھی تو علی اس سے دوستی رکھتے ہیں ۔ ہمارے شارحین علما نے ایسا ہی ذکر کیا ہے ۔
اس حدیث سے مولی علی کی امامت پر استدلال کرنے والے شیعوں اور ان کے چھوٹے بھاٸیوں تفضیلیوں کو جواب دیتے ہوئے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قالت الشيعة :هو متصرف، وقالوا : معنى الحديث أن عليا رضي الله عنه يستحق التـصـرف فـي كـل مـا يستحق الرسول ۔ التـصـرف فـيـه ، ومن ذلك أمور الـمـؤمنين فيكون إمامهم أقول:لا يـسـتـقـيـم أن تـحـمل الولاية على الإمامة التي هي التصرف في أمور المؤمنين، لأن المتصرف المستقل في حياته هو هو لا غير فيجب أن يحمل على المحبة وولاء الإسلام ونحوهما ۔
ترجمہ : شیعہ نے کہا کہ وہ متصرف ہیں اور کہا کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ علی ہر اس معاملہ میں تصرف کاحق رکھتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تصرف کا حق رکھتے ہیں ۔ اور انہی میں سے مسلمانوں کے معاملات ہیں پس وہ ان کے امام ہوئے ۔ میں کہوں گا کہ ولایت کو اس امامت پر جو مومنین کے معاملہ میں تصرف ہے محمول کرنا درست نہیں اس لیے کہ مستقل متصرف اپنی حیات میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں کوئی غیر نہیں تو واجب ہے کہ اسے محبت اور اسلام کی ولاء اوران دونوں کے مثل پر محمول کیا جائے ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح کتاب المناقب باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ فصل ثانی جلد 11 صفحہ 247 مطبوعہ رشیدیہ،چشتی)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : مولی کے معنی میں دوست ، مددگار ، آزاد شد و غلام ، آزاد کر نے والا مولی ۔ اس کے معنی خلیفہ یا بادشاہ نہیں علی کہتے ہیں رب فرماتا ہے ” فان الله هو مولية و جبريل و صلح المؤمنين “ شیعہ کہتے ہیں کہ مولا بمعنی خلیفہ ہے اور اس حدیث سے لازم ہے کہ بجز حضرت علی کے خلیفہ کوئی نہیں آپ خلیفہ بلافصل ہیں مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے ۔
ایک یہ کہ مولی بمعنی خلیفہ یا بمعنی اولی بالخلاف کبھی نہیں آتا بتاؤ اللہ تعالی اور حضرت جبریل کس کے خلیفہ ہیں حالانکہ قرآن مجید میں انہیں مولی فرمایا ” فإن الله هو مولاہ و جبريل ۔
دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے خلیفہ ہیں پھر من کنت مولاہ کے کیا معنی ہوں گے ۔
تیسرے یہ کہ حضرت علی حضور کی موجودگی میں خلیفہ نہ تھے حالانکہ حضور نے اپنی حیات شریف میں میں فرمایا پھر مولی بمعنی خلیفہ کیسے ہوگا ۔
چوتھے یہ کہ اگر مان لو کہ مولی بمعنی خلیفہ ہی ہو تو بھی بلافصل خلافت کیسے ثابت ہوگی ۔ واقعی آپ خلیفہ ہیں مگر اپنے موقعہ اپنے وقت میں ۔
پانچویں یہ کہ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ ہوتا تو جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، الخلافۃ فی القریش، خلافت قریشی میں ہے ۔ تم لوگ چونکہ قریش نہیں لہٰذا تم امیر نہیں بن سکتے ، وزیر بن سکتے ہو ۔ اس وقت حضرت علی نے یہ واقعہ لوگوں کو یاد کیوں نہ کرادیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مجھے خلافت دے گئے میرے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ آپ خاموش رہے اور تینوں خلفاء کے ہاتھ پر باری باری بیعت کرتے رہے ۔ معلوم ہوا کہ آپ کی نظر میں بھی یہاں مولی بمعنی خلیفہ نہ تھا ۔
چھٹے یہ کہ حضور کے مرض وفات میں حضرت عباس نے جناب علی سے کہا کہ چلو حضور سے خلافت اپنے لیے لے لو حضرت علی نے انکار کیا کہ میں نہیں مانگوں گا ورنہ حضور مجھے ہرگز نہ دیں گے۔ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ تھا تو یہ مشورہ کیسا ۔
ساتویں یہ کہ خلافت کےلیے روافض کے پاس نص قطعی الثبوت او قطعی الدلالت چاہیے یہ حدیث نہ تو قطعی الثبوت ہے کہ حدیث واحد ہے نہ قطعی الدلالت کہ مولی کے بہت معنی ہیں اور مولی بمعنی خلیفہ کہیں نہیں آتا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشكاة المصابیح جلد 8 صفحہ 353 ، 354 قادری پبلشرز لاہور،چشتی)

عید غدیر منانا کب شروع ہوئی : ⏬

یوم غدیر اہل تشیع کی عید اکبر ہے ۔اور اس کو وہ خاص اس لئے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق اس دن حضرت علی کو خلافت بلافصل ملی تھی بلکہ امامت کے بھی قائل ہیں۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن چونکہ حضرت عثمان غنی کی شہادت ہوئی تھی اس لئے وہ اس دن جشن مناتے ہیں۔یہ ساری وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ اصل وجہ حضرت علی کی خلافت بلافصل اور امامت ہے ۔

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے : ثم دخلت سنة ثنتين وخمسين وثلاثمائة. ..وفي ثامن عشر ذي الحجة منها أمر معز الدولة بـإظهـار الـزينـة ببغداد وأن تفتح الأسواق بالليل كما في الأعياد، وأن تضرب الدبادب والبـوقـات، وأن تشعل النيران بأبواب الأمراء وعند الشُرَط فرحا بعيد الغدير ۔ غدير خم ۔ فكان وقتا عجيبا ويوما مشهودا، وبدعة ظاهرة منكرة ۔
ترجمہ : سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر بغداد سجانے اور رات کو عیدوں کی راتوں کی طرح بازار کھولنے کاحکم دیا ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور حکام کے دروازوں اور فوجیوں کے پاس چراغاں کیا گیا عید غدیر کی خوشی میں ، تو وہ وقت عجیب اور دیکھنے کا دن تھا اور ظاہری بری بدعت کا دن تھا ۔ (البداية والنهاية لابن الكثير جلد 15 صفحہ 161 بحوالہ عید غدیر کی حقیقت صفحہ 77 ، 78،چشتی)

امام ابن اثیر جزری لکھتے ہیں :بوفيهـا فـي الثامن عشر ذي الحجة، أمر معز الدولة بإظهار الزينة في البلد، وأشعلت الـنـيـران بـمـجـلـس الشرطة، وأظهر الفرح، وفتحت الأسواق بالليل ، كما يفعل ليالي الأعيـاد فـعـل ذلك فرحا بعيد الغدير ، (یعنی غدیر خم) ، وضربت الدبادب والبوقات ، وكان يوما مشهودا ۔
ترجمہ : اور سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا ۔ اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا اور بازار کھولے گئے رات کو جس طرح عیدوں کی راتوں کو کھولے جاتے خوب خوشی منائی گئی عید غدیر خم میں ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور وہ دیکھنے کا دن تھا ۔ (الکامل فی التاریخ جلد 7 صفحہ 246)

امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : سنة اثنتين وخمسين وثلاثمئة ۔ وفيها يوم ثامن عشر ذي الحجة، عملت الرافضة عيد الغدير ، غدير خم ، ودقت الكوسات وصلوا بالصحراء صلاة العيد ۔
ترجمہ : اور سن 353 ہجری 18 ذی الحجہ کو روافض (ابتداء میں معزالدین کا ذکر ہے) نے عید غدیر منائی ڈھول بجائے گئے ۔ اور میدان میں نماز عید پڑھی ۔ (العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 90،چشتی)

الغرض عید غدیر اہلِ تشیع کا تہوار ہے ۔ اہلِ تشیع کے نزدیک جس کی اصل بنیاد یوم غدیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مولی علی کو خلافت و امامت دینا ہے ۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے ۔ واقعہ غدیر خم سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ حدیث خم سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اجاگر ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے خلافت و امامت مراد لینا جہالت ہے ۔حالانکہ اس سے قبل بھی متعدد مقامات پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوازا مگر اس دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دیا جاتا ہے ؟

اہل تشیع واقعہ غدیر خم کے جن الفاظ کواپنے مقصد پر استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہیں : من كنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ حالانکہ اس جملہ سے کسی طرح بھی خلافت و امامت کا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا ہے ۔ مولا کے معنیٰ خلیفہ یا امام کے کہیں نہیں آتے بلکہ اس کے متعدد معانی میں سے ایک اہم معنیٰ جو یہاں مراد ہے وہ ہے ناصر و مددگار ۔ خلیفہ یا امام کا مفہوم محض فاسد ہے ۔ فقیر یہاں لفظ مولا پر شارحین حدیث علیہم الرحمہ کے ارشادات پیش کرتا ہے تا کہ مفہوم واضح ہو جائے ۔ اہل تشیع نے حدیث غدیر خم سے جو باطل و ناحق وہم اختیار کیا اس کا رد کرتے ہوئے علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ “غدیر خم” کا خطبہ یہ “حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی خلافت بلافصل کا اعلان تھا ” مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک “تک بندی” کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے خلافت بلافصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منی کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا ۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا ۔ نہ کہ غدیرخم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا ۔ (سیرت مصطفی صفحہ 535 مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کےلیے نصِ صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادر ہوا اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کر دیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلافصل ماننا جامع ترمذی میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ ۔
ترجمہ : کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 208 مطبوعہ کراچی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے : وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة ۔
ترجمہ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی ، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا ۔ (مرقاۃ المفاتیح کتاب المناقب باب مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ جلد 11 صفحہ 182 مطبوعہ کوئٹہ)

جامع ترمذی اور المستدرک میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر ۔
ترجمہ : میرے بعد ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کی پیروی کرنا ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 207 مطبوعہ کراچی)

صحیح بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کنا نخیر بین الناس فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فنخیر ابا بکر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ۔
ترجمہ : ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل سمجھتے تھے ، پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو (رضی اللہ عنہم اجمعین) ۔ (صحیح البخاری ابواب المناقب باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد 1 صفحہ 516 مطبوعہ کراچی)

شرح فقہ اکبر میں ہے : افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر صدیق ثم عمر بن خطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب واولی ما یستبدل بہ علی افضلیہ الصدیق فی مقام التحقیق نصبہ علیہ الصلوہ والسلام لامامہ الانام مدہ مرضہ فی اللیالی والایام ولذا قال اکابر صحابہ رضیہ صلی اللہ علیہ وسلم لدیننا افلا نرضاء لدنیانا ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین اور پہلی دلیل جس سے افضلیت ابوبکر صدیق پر استدلال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تکلیف کے دنوں اور راتوں میں لوگوں پر امام مقرر کیا اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارا دینی رہنما پسند فرمایا ہم ایسے دنیاوی رہنما کیوں نہ پسند کریں ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 182 تا 186 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے : وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر رضي الله تعالى عنه لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع ۔
ترجمہ : اور اگر کوئی فضیلت دے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر تو وہ کافر نہیں ہے مگر وہ مبتدع (بدعتی) ہے ۔(فتاوى الهندية كتاب السير الباب التاسع في أحكام المرتدين جلد 2 صفحہ 276 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ردالمختار میں ہے : ان کان یفضل علیاکرم اللہ تعالی وجھہ علیھما فھو مبتدع ۔
ترجمہ : اگرکوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔(ردالمحتارمع در مختار جلد 6 صفحہ 363 مطبوعہ کوئٹہ)

افضلیت علی رضی اللہ عنہ کا قائل گمراہ ، اور خلافت صدیق و عمر رضی اللّٰہ عنہما کا منکر عند الفقہاء کافر ثابت کرتے ہوئے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر اور فتاوی بزازیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں : في الروافض من فضل عليا على الثلاثة فمبتدع وان انكر خلافة الصديق اوعمررضی الله عنهما فهو كافر ۔
ترجمہ : رافضیوں میں جو شخص مولی علی کو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالی عنہم سے افضل کہے گمراہ ہے اور اگر صدیق یا فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو کافر ہے ۔
وجیز امام کردری علیہ الرحمہ میں ہے : مـن انـكـر خلا فة ابي بكر رضى الله تعالى عنه فهو كافر فى الصحيح ومن انكر خلافة عمر رضى الله تعالى عنه فهو كافر في الاصح ۔
ترجمہ : خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا منکر کافر ہے ، یہی صحیح ہے ، اور خلافت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 250 ، 251 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

عید غدیر میں شرکت : ⏬

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من تشبه بقوم فهو منهم ۔
ترجمہ : جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب اللباس رقم الحدیث : 4031 جلد 2 صفحہ 203 مطبوعہ لاہور)

اعلی حضرت امام ملا علی قاری علیہما الرحمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : اناممنوعون من التشبيه بالكفرة واهل البدعة المنكرة في شعار هم ۔
ترجمہ : ہمیں کافروں اور منکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 533 رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : جو بات کفار یا بد مذہباں اشرار یا فساق فجار کا شعار ہو بغیر کسی حاجت صحیح شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے ۔ اگرچہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہو گا اس قدر منع کو کافی ہے اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 535 ، 536 رضا فاؤنڈیشن لاہور) ۔ (طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...