Thursday, 13 June 2024

لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب

لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب









محترم قارئینِ کرام : مرزا جہلمی اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے : علماء کا نظریہ : خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب (جو خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی صاحب کے) ایک دفعہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں مرید ہونے آیا ہوں ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا : جو کچھ ہم کہیں گے کرے گا اگر یہ شرط منظور ہے تو مرید کروں گا ۔ اُس نے کہا جو کچھ آپ کہیں گے وہی کروں گا۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے فرمایا:تو کلمہ اسطرح پڑھتا ہے ۔ [لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ] تو اب ایک بار اس طرح پڑھ [لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ] چونکہ راسخ العقیدہ تھا اس نے فوراً پڑھ دیا ۔خواجہ صاحب نے اس سے بیعت لی اور بہت کچھ خلعت و نعمت عطا فرمایا اور کہا : میں نے فقط تیرا امتحان لیا تھا کہ تجھ کو مجھ سے کس قدر عقیدت ہے ورنہ میر امقصود نہ تھا کہ تجھ سے اس طرح کلمہ پڑھواٶں ۔ [بزرگ(بریلوی+دیوبندی) خواجہ فرید الدین گنج شکر صاحب ، ہشت بہشت (فوائد السالکین) صفحہ ۱۹ شبیر برادرز]

وحی کا فیصلہ : ترجمہ صحیح حدیث:سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اسلام کی بنیاد ۵ چیزوں پر رکھی گئی ہے:۱ گواہی دینا(لا الہ الا اللہ) اور یہ کہ (محمد رسول اللہ ﷺ) اور ۲۔نماز قائم کرنا ،اور ۳ زکوٰۃ ادا کرنا،اور ۴ حج کرنا اور ۵ رمضان کے روزے رکھنا ۔[صحیح بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۸،صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر ۱۱۳]


جواب : فقیر چشتی کی رائے میں اس انداز میں یہ جملہ خواجہ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ۔ یہ جملہ نہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ بول سکتے ہیں اور نہ خواجہ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ لکھ سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے بزرگوں سے ایسی توقع ہے اور نہ ہی ان کی طرف منسوب ایسی باتیں درست ہیں ۔ جس نے بھی یہ جملہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے اس نے کذب بیانی کی ہے ۔ اگر یہ کسی کتاب میں ہے تو اسے نکال باہر کرنا چاہیے ۔ ہمارا معیار کتاب و سنت ہے ، جو چیز بھی اس کے موافق ہوگی ہم قبول کریں گے اور جو کسی بھی طرح ان سے ٹکرائے گی ہم اسے مسترد کریں گے ۔ جو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ چشتی رسول اللہ والا ملفوظ وضعی ہے فواد الفواد شریف میں نہیں ہے ۔ اس کا ذکر شاید سب سے پہلےحضرت نصیر الدین چراغ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کسی نے بہت بعد میں یا اردو ترجمہ کرتے ہوٸے حضرت نصیر الدین چراغ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں داخل کیا ہے ۔ وجوہات درج ذیل ہیں : ⬇


(1) خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یہ سلسلہ ابھی چشتی کے نا م سے معروف ہی نہیں تھا ۔


(2) آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نامی کے ساتھ کبھی چشتی استعمال ہی نہیں فرمایا ۔


(3) اس زمانے میں عموماً بزرگان دین اور اہلِ علم اپنے نام کے ساتھ شہروں یا خطوں کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔


(4) آپ معین الدین حسن سنجری یا سجزی رحمۃ اللہ علیہ سے معروف تھے ۔


(5) جو دیوان آپ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کیا جاتا ہے اس میں معینی تخلص سے ۔


(6) اگرچہ حضرت علو ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت میں سلسلہ کے نام کی بھی پیشین گوئی ہے لیکن بطور سلسلہ یہ نام بہت بعد میں رائج ہوا ۔


(7) شروع میں جو مشائخ قصبہ چشت صوبہ ہرات سے تعلق رکھتے تھے وہ اور ان کی اولاد چشتی کہلاتی تھی ۔


(8) حضرت خواجہ قطب الدین مودو چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سلسلہ حضرت حاجی شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا ان سے حضرت حضرت عثمان ہرونی رحمۃ اللہ علیہ جو اب ہارونی مستعمل ہے یہ اور ان کے خلفا اپنے نام کے ساتھ چشتی نہ لکھتے یا کہلاتے تھے ۔


(9) بلوچستان اور دکن وغیرہ میں حضرت مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی جو اولاد امجاد آئی وہ بھی بالعموم مودودی کہلاتی ہے ۔


(10) چشتی لفظ کا استعمال ہمیں برصغیر میں سب سے پہلے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں ملتا ہے اور آج بھی سرائیکی علاقوں میں چشتی سے مراد باوا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد ہوتی ہے نامور برزگ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ جن کے دربار پراکبر حاضر ہوا باوا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں ہیں ۔


(11) خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے مشائخ کا ذکر کرتے ہیں تو خواجگان ما یا مشائخ ما سے فرماتے ہیں مشائخ چشت یا خوجگان چشت کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے ۔


(12) سلسلوں کےحوالے سے تشخص برِ صغیر میں غالباً سلاطین کے آخری دور میں شروع ہو گیا اور عہد اکبری تک چار بڑے نام رائج ہو گۓ ۔


(13) حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرعی امور میں حد درجہ احتیاط کے عادی تھے حتیٰ کہ اس ان معاملات میں کوئی ان کے شیخ کا حوالہ بھی دیتا تو بلاتکلف فرماتے (اس میں) قول شیخ حجت نہیں ہے قرآن اور حدیث سے دلیل لاؤ اور ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ان کی اس بات پر مسرت اور تصدیق بھی فرماتے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا محتاط انسان اس ملفوظ کے مضمرات کی طرف متوجہ نہ ہو ۔


جہاں تک تعلق ہے ملفوظات کی کتابوں کا ان پر تو جامعات کی سطع پر تحقیقات ہو چکی ہیں ۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ڈاکٹر حبیب احمد ڈاکٹر خلیق نظامی پروفیسر محمد اسلم اور دیگر کئی ایک محقق فواد الفواد کے علاوہ سب کو جعلی سمجھتے ہیں ۔ لیکن علامہ اخلاق حسین دھلوی اور صباح الدین عبدالرحمن ان کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن ان میں قطع و برید کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت احتیاط سے ان سے بات اخذ کرنی چاہیے ۔ فقیر چشتی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب برِ صغیر میں اشرف علی رسول اللہ کے حوالے سے لے دے شروع ہوئی تو بعض لوگوں نے چپکے سے ملفوظات کے ایک مختصر نسبتاً غیر معروف اور اس وقت غیر مطبوعہ مجموعے میں اسے شامل کر دیا تاکہ معاملہ بیلنس ہو جاۓ ۔ اور سب سے پہلے جواباً اس ملوظ کو اجاگر بھی انہوں نے کیا ہے اور طبع بھی ادھر سے ہی ہوا ۔ فافہم ۔ (چشتی)


اس طرح کا ایک قول حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کہ طرف بھی منسوب ہے اب سوال یہ ہے اسے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کس مقصد سے جوڑا گیا شاید برِ صغیر کے عوامی مزاج میں ان کی شخصیت اتنی معروف نہیں تھی کہ متاثر کن حوالہ بنے اس لیے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام استعمال کیا ۔ اب مرزا جہلمی اور اُس کے ہمنوا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ یہ بریلویوں کا عقیدہ ہے ۔ بریلویوں کا اس میں کیا عمل دخل ؟ اول تو کتاب کا انتساب ہی مشکوک ہے کب نقل ہوئی کتنے لوگوں سے نقل ہوئی کب پہلی بار منظر عام پر آئی اور کب ترجمہ ہوئی کس نے طبع کی ؟


بریلوی علماء و عوام میں نہ یہ واقعہ رائج ہے نہ محفلوں میں بیان ہوتا ہے نہ ان کے مسلک اور عقیدے کا حصہ ہے اور نہ ہی وہ اسے کسی تاویل سے جائز کہتے ہیں جب کہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و کرامات کا بیان بہت عام بھی ہے ۔ اب کوئی یہ کہے کہ کتاب چھپ کیوں رہی ہے تو اس میں عوام و علماء کا کیا قصور یہاں تو بہت کچھ غیر معیاری چھپ رہا ہے تاجر ۔ جسے سیلز آئٹم سمجھتے ہیں طبع کر دیتے ہیں کوئی ان کا احتیاط سے انتخاب مرتب کردے تو وہ بھی شائع کر دیں گے ۔ کئی کتابیں ایسی ہیں بہت سے لوگوں پورے وثوق اور تیقن سے کہتے ہیں کہ ان کی نہیں ہے یا اکثر حصہ جعلی ہے لیکن چھپ رہی ہیں ۔ اگر مرزا جہلمی اور اُس کے ہمنوا علمی کتابی ہونے کے دعویدار ہیں تو انہیں اعلیٰ پایہ کے محقین کی آراء نظر کیوں نہ آئیں اور انہوں نے علمی دیانت داری سے یہ بیان کیوں نہ کیا کہ یہ علماء و اہلِ تحقیق کا مصدقہ یا متفقہ واقعہ نہں ہے اس مطلب کہ وہ بھی اپنے پیرکاروں میں بس اپنا مطلوبہ مقصد ہی سامنے لاتے ییں تصویر کے دونوں رخ نہیں ۔


اور یہ کہ مرزا جہلمی نے فوائد السالکین کا حوالہ دے کر کون سا اہم کام کر دیا ہے ۔اس حوالہ کی بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں ۔


اول : یہ کہ کسی بھی اعتراض کے جواب کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک تحقیقی ۔ دوسرا الزامی اور تیسرا کسی بھی اعتراض کو فرضاً مان کر جواب ۔


دوم : چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھوانا کسی بھی سند صحیحہ کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں ۔ اگر اعتراض کرنا ہے تو یہ بات با سند صحیح ثابت کریں ۔ کیونکہ یہ فوائد السالکین نامی کتاب تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی نہیں ہے ۔ (چشتی)


سوم : اگر کوئی یہ جواب دے کہ فوائد السالکین تو حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں جو ان کے مرید اور خلیفہ حضور فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیے ہیں ۔ تو اس بارے میں جواباً عرض یہ ہے کہ فوائد السالکین نامی کتاب کا حضرت قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے طرف انتساب اورحضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا ان ملفوظات کو جمع کرنا بھی مشکوک ہے غیر معتبر ہے ۔ کیونکہ اس کتاب کے جتنے بھی نسخے ابھی تک دریافت ہوئے یا جن لوگوں نے فوائد السالکین کا انتساب ان لوگوں کی طرف کیا ہے وہ سنداً ثابت نہیں ۔ فوائد الساکین میں درج تمام مجلسیں ۵۸۴ھ کی ہیں ۔ اور کسی نسخہ کے سند نہ تو متصل ہے اور نہ ہی اس دور کا لکھا یا مدون ہونا ثابت ہو سکا ۔ لہٰذا جو کتاب سنداً بھی ثابت نہ ہو تو ایک جید عالمِ دین اور عالمِ باصفا صوفی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس عبارت کا انتساب انتہائی جرات مندی ہوگی ۔


چہارم : اگرچہ فوائد السالکین کا انتساب بحیثیت ملفوظاتِ حضرت خوابہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف چند شخصیات نے کیا ہے ۔مگر اس بارے میں عرض یہ  کہ اگر یہ احتمال درست مان بھی لیا جائے تو موجود ہ فوائد السالکین میں موجود کلمہ چشتی رسول اللہ کا اس کتاب میں ہونا تحریف اور گڑ بڑ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ موجود دستیاب فوائد السالکین میں بہت ساری باتیں نہ تاریخی طور پر ثابت ہیں اور نہ تحقیقاً ۔ اور بہت سارے واقعات تو گھڑے ہوئے لگتے ہیں ۔ فوائد السالکین نامی موجودہ کتاب میں ایسے واقعات لکھے ہیں جو اس کتاب کے مدون ہونے کے بہت عرصے بعد رونما ہوئے تو یہ کیسے ہو گیا کہ ۵۰ یا ۱۰۰ سال بعد کے واقعے اس کتاب میں بیان کر دیے جائیں ۔ جس سے موجود ہ فوائد السالکین نامی کتاب غیر معتبر اور نا قابل اعتبار ٹھہرتی ہے ۔


لہٰذا تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کتاب کا انتساب ان بزرگ ہستیوں علیہم الرحمہ کے طرف انتساب جعلی اور موضوع ہے ۔ فوائد السالکین نہ تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں اور نہ ان کے جامع حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہو سکتے ہیں ۔بلکہ صرف یہ کتاب ہی نہیں بلکہ صوفیاء کرام علیہم الرحمہ کے دیگر ملفوظات مثلاً فوائد الفوائد ، اسرار الاولیاء وغیرہ بھی کافی مشکوک اور سنداً غیر ثابت ہیں ۔ (چشتی)


محترم قارئینِ کرام : یہ بات کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت اور صوفیاء کرام علیہم الرحمہ کی کتابوں میں تحریف اور تدسیس ہوتی رہی ہے ۔ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کےساتھ بھی یہ ہوا ۔ جبکہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ان کی حیات میں ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اورشاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے ساتھ ان کی حیات میں جو ہوا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ لہٰذا جب تک کوئی بات سنداً ثابت نہ ہو اس پر کسی قسم کا کلام اور اعتراض اصول اور انصاف کے منافی اور جہالت ہے ۔


پنجم : اہل سنت و جماعت نے چشتی رسول اللہ کے کلمہ کا جو جواب دیا ہے [(کہ یہ واقعہ شطیحات کے قبیل میں سے ہے لہٰذا س پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے) ان جوابات سے یہ اخذ کرنا کہ یہ عالم اس بات کوصحیح ثابت سمجھتے ہیں ۔ تو ایسی بات کرنا بھی جہالت ہے کیونکہ ان علماء کرام نے ایسی عبارتوں کو ہرگز صحیح نہیں مانا بلکہ ان کو بالفرض محال صحیح مان کر اس کے جوابات دیے ہیں جو اپنی جگہ پر درست ہیں ۔ مگر یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ان بزرگوں سے ایسے اقوال ثابت کرنے کےلیے قطعی ثبوت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ایسی کتابوں کا انتساب کرنا بھی غلط ہے ۔ دوسری طرف ناشرین حضرات ایسی مشکوک طبع کرواتے ہیں ان کا الزام علماء کرام پر ڈالنا غلط اور لغو ہے ۔ علماء اور مشائخ ایسی کتابوں کے مندرجات سے بری الذمہ ہیں جن کا انتساب صحیح ثابت نہ ہو سکے ۔ اور ان کتابوں سے بری الذمہ ہونے کا اقرار خود اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مقامات پر فتاویٰ رضویہ میں کیا ہے ۔ اور محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسی کتابوں کا انتساب ان بزرگان دین کی طرف کرنے پر بڑی شدد سے رد کیا ہے ۔ لہٰذا اہل سنت و جماعت کے علماء پر ایسے اعتراض کرنا جہالت ہے ۔


الزامی جواب : اہل سنت و جماعت پر اگر مخالفین اعتراض کرتے ہیں تو پھر غیر مقلد عالم قاضی سلیمان پوری پر اعتراض کر کے دکھائیں ۔ جنہوں نے خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک شعر لکھا ہے : ⬇


مرشد کامل است سال وفات

سر تسلیم تاج رفعت یافت


اور حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے : ⬇


آل شیخ فرید دین و دنیا

گنج شکرو خازنئی اصفیا


اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی  رحمۃ الله عليه کے بارے میں لکھا ہے : ⬇


معین الدین حسن آں سید پاک

کہ از سنجر سوئے اجمیر آمد


ز شرع پاک مفتاح بقا یافت

زہیر باغ فانی اُو بقایافت


فقیر چشتی اُمید کرتا ہے کہ قارئین کرام اس تحقیق کو بغور مطالعہ کر کے حق اور سچائی کا ساتھ دیں گے اور مسلک حقہ اہلسنت و جماعت کی طرف اپنی توجہ ضرور مبذول کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان جدید فتوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...