Saturday, 15 June 2024

ایام قربانی تین دن ہیں احادیث مبارکہ اور غیر مقلدین سے ثبوت

ایام قربانی تین دن ہیں احادیث مبارکہ اور غیر مقلدین سے ثبوت











محترم قارئینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : :وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۃ الحج)

ترجمہ : ہم نے ہر امت کےلیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں ۔


قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے : عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن۔ ابن ابی الدنیا ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرمایا کرتے تھے : قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے ۔ (کنزالعمال کتاب الحج باب فی واجبات الحج ومندوباتہ حدیث نمبر 12676)


مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں : 10 ، 11 ، 12 ذی الحجہ ، قربانی کاوقت 10 ذی الحجہ نماز عیدُالاضحٰی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے ۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص) (تنویر الابصار مع الدرالمختار جلد 5 صفحہ 219)


حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عید کے دو دن بعد قربانی ہے اور حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے ۔ (موَطا امام مالک مترجم اردو صفحہ 552 )


عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رازی جلد 6 صفحہ261،چشتی)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں ۔


عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ ۔ (احکام القرآن امام طحاوی جلد 2 صفحہ 205)

ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قربانی تین دن ہے ۔


عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قربانی (دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے  ۔  (سنن کبریٰ بیہقی جلد 9 صفحہ 297 باب من قال الاضحی یوم النحر)


قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین سے ثبوت : ⏬


حافظ زبیر علی زئی (غیر مقلد) لکھتے ہیں : قول راجح میں قربانی تین ہیں ۔ (مقالات علی زئی جلد 2 صفحہ 219)(ماہنامہ الحدیث حضرو 44 صفحہ 6 تا11)


نیز لکھتے ہیں : ’سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ ) اور جمہور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحٰی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (فتاوی علی زئی جلد 2 صفحہ 181)


علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔(قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 137)


عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں : ⏬


علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10 ،11 ، 12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں ۔ ( قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 141)


وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأنْعَامِ ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 28)

ترجمہ : اور الله کا نام لو معلوم دنوں میں چوپایوں پر جو اس نے تم کو دیے ہیں ۔


یوم عرفہ ، یوم الحج الاکبر ، ٩ ذو الحجہ ۔ یوم نحر ، یوم عید الاضحی ، ١٠ ذو الحجہ ۔


ایام التشریق منی میں حج کے بعد کے تین دن ہیں امام مالک موطا میں ایام تشریق کی وضاحت کرتے ہیں : أَيَّامِ التَّشْرِيقِ إِنَّهُ لَا يُجَمِّعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ ، ایام التشریق کیونکہ ان دنوں میں کوئی چیز جمع نہ کی جائے


علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وقد اختلف في كونها يومين أو ثلاثة، وسميت أيام التشريق؛ لأن لحوم الأضاحي تشرق فيها أي تنشر عند الشمس ۔ (فتح الباری جلد ٤ صفح ٢٨٥)

ترجمہ : اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو دن ہیں یا تین ہیں، اور ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا گوشت سورج نکلتے ہی پھیل جاتا (بٹ جاتا) ہے ۔


بعض کہتے ہیں یہ تین دن ہیں : اس میں اختلا ف ہے کہ یہ کون کون سے دن ہیں بعض کے نزدیک یہ ١٠، ١١ اور ١٢ ہیں اور بعض کے نزدیک ایام التشریق میں یوم عید کے بعد کے تین دن ہیں یعنی ١١ ، ١٢ اور ١٣ ذو الحجہ ۔ اس سلسلے میں ترمذی کی حسن حدیث پیش کی جاتی ہے کہ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ اپنے باپ على بن رباح بن قصير اللخمى سے وہ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام ، وهي أيام أكل وشرب ۔

ترجمہ : کھانے پینے کے دن ، اہل اسلام کےلیے ہیں یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق ۔


اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ایام تشریق کا یوم نحر سے الگ ذکر کیا ہے لہذا یہ الگ ہیں ۔ اس روایت کو امام احمد بھی مسند میں بیان کرتے ہیں الطحاوی اس روایت کو خاص کرتے ہیں یعنی حاجیوں کے لئے کہتے ہیں : فلما ثبت بهذه الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم : النهي عن صيام أيام التشريق وكان نهيه عن ذلك بمنى والحجاج مقيمون بها ۔


إسحاق بن منصور بن بهرام نے امام احمد سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کتنے دن ہے ۔کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق ۔ قلت: كم الأضحى ؟ [ثلاثة أيام ، قال: ثلاثة أيام، يوم النحر، ويومان بعده ۔


احمد نے کہا تین دن ، يوم النحر اور اس کے بعد دو دن یعنی ١٠ ، ١١ اور ١٢ ذو الحجہ ہوئے ۔عصر حاضر کے حنابلہ ابن تیمیہ کی تقلید میں ایام تشریق میں ١٣ کو بھی شامل کرتے ہیں ۔


ترمذی کی حسن روایت کو امام احمد مسند میں نقل کرتے ہیں لیکن فتوی اس کے بر خلاف دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں ، قربانی کا گوشت تو یوم نحر میں ہی بٹنا شروع ہو جائے گا لہٰذا اس کو ایام تشریق سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔


کتاب شرح مختصر الطحاوي از أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370 هـ) کے مطابق امام طحاوی کہتے ہیں : وأيام النحر ثلاثة أيام، يوم النحر ويومان بعده، وأفضلها أولها ۔ 


اور ایام النحر تین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن اور افضل شروع میں ہے ۔ اس کے بر خلاف امام الشافعی کا کتاب الام میں قول ہے کہ یہ تین دن سے زیادہ ہے ۔


قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالْأُضْحِيَّةُ جَائِزَةٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنًى كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ ، قربانی جائز ہے یوم النحر اور سارے ایام منی میں کیونکہ یہ قربانی کے دن ہیں ۔ امام الشافعی کی رائے میں منی کے تمام ایام میں کی جا سکتی ہے ۔ امام الشافعی کی رائے قیاس پر مبنی ہے لہذا قرآن کی آیت میں ہے : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۔ (البقرۃ : 203)

اور معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔


شوافع میں أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ کو أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ سے ملا کر بحث کی جاتی ہے کہ قربانی کے دن تمام ایام منی ہیں – اس کے برعکس احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف ہے کہ قربانی تین دن ہے یہاں سے فقہاء کا اختلاف شروع ہوتا ہے ۔ غیر مقلدین شوافع سے ایک ہاتھ آگے جا کر تشریق کے دنوں کی تعریف بدلنے کے بعد اس میں زبردستی ١٣ ذو الحج کو داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ١٣ تاریخ میں سورج غروب ہونے سے پہلے قربانی جائز ہے ۔


امام محمّد کتاب الأَصْلُ میں کہتے ہیں​ : باب التكبير في أيام التشريق : قلت: أرأيت التكبير في أيام التشريق متى هو، وكيف هو، ومتى يبدأ ، ومتى يقطع؟ قال: كان عبد الله بن مسعود يبتدئ به من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر ، وكان علي بن أبي طالب يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ، فأي ذلك ما فعلت فهو حسن ، وأما أبو حنيفة فإنه كان يأخذ بقول ابن مسعود، وكان يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر، ولا يكبر بعدها، وأما أبو يوسف ومحمد فإنهما يأخذان بقول علي بن أبي طالب. ۔

تشریق کے ایام میں تکبیر کہنا …. کہا تکبیر ، عبد الله ابن مسعود صلاة الغداة (نماز فجر) یوم عرفہ کے دن سے یوم نحر میں عصر کی نماز تک کرتے اور علی بن ابی طالب صلاة الغداة (نماز فجر) میں تکبیر کہتے ایام تشریق نماز عصر کے آخر تک اور اسی طرح حسن کرتے اور جہاں تک ابو حنیفہ کا تعلق ہے تو وہ ابن مسعود کا عمل کرتے اور … اور امام ابو یوسف اور محمد علی بن ابی طالب کا قول لیتے ۔


قال الإمام محمد: أخبرنا سلام بن سليم الحنفي عن أبي إسحاق السبيعي عن الأسود بن يزيد قال كان عبد الله بن مسعود – رضي الله عنه – يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. )انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 310؛ ورواه من وجه آخر. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 308. وانظر: الآثار لأبي يوسف، 60؛ والمصنف لابن أبي شيبة، 1/ 488؛ ونصب الراية للزيلعي، 2/ 222،چشتی) ، یعنی علی رضی الله عنہ ١٣ نمازوں میں تکبیر کہتے اور ابن مسعود ٨ نمازوں میں تکبیر کہتے ۔


کتاب النتف في الفتاوى از أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461هـ کے مطابق : قَالَ ابْن مَسْعُود يَنْتَهِي بهَا الى الْعَصْر من يَوْم النَّحْر وَهِي ثَمَانِي صلوَات ، وَبِه أَخذ أَبُو حنيفَة وَحده ، وَقَالَ عَليّ بل يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الْعَصْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ ثَلَاثَة وَعِشْرُونَ صَلَاة وَكَذَلِكَ قَول عمر فِي رِوَايَة وَعَلِيهِ الْعَامَّة وروى عَن عمر ايضا انه يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الظّهْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ صَلَاة ۔


وَقَالَ ابْن عمر وَابْن عَبَّاس يَبْتَدِئ بِالتَّكْبِيرِ عَن صَلَاة الظّهْر من يَوْم النَّحْر ۔


وَقَالَ لَا تَجْتَمِع التَّلْبِيَة والتكبيرات مَعًا فاذا انْقَطَعت التَّلْبِيَة اخذ فِي التَّكْبِير ۔


وَقَالَ ابْن عَبَّاس يَنْتَهِي بهَا الى آخر أَيَّام التَّشْرِيق عِنْد صَلَاة الظّهْر فَهِيَ عشرَة صَلَاة ۔


وَقَالَ ابْن عمر يَنْتَهِي بهَا الى غداه آخر ايام التَّشْرِيق فَهِيَ خَمْسَة عشر صَلَاة ۔


تکبیرات کی تعداد بتاتی ہے کہ تشریق کے ایام اکابر صحابہ کے نزدیک ١٠، ١١، اور ١٢ ہی تھے ۔


غیر مقلدین ، امام الشافعی کی تقلید میں تین دن کی بجائے چار دن قربانی کرنے کے قائل ہیں لہذا وہ ١٣ ذو الحجہ کو بھی قربانی کرتے ہیں ۔


ابن قیم نے زاد المعاد میں روایت پیش کی ہے : ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528) ۔ نیز دیکھیے زاد المعاد: 2؍ 291،چشتی)


لیکن کنز العمال جیسی کتاب میں سند تک تو موجود نہیں ہے اور باوجود تلاش کے اس کی سند دریافت نہ ہوسکی ۔


بیہقی سنن الکبری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ ۔


اس روایت میں ہے کہ ایام التشریق میں قربانی ہے ۔


کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں سليمان بن موسى الدمشقي کےلیے ہے ۔


قال البخاري هو مرسل لم يدرك سليمان أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ۔

بیہقی سنن الکبری میں یہی راوی سليمان بن موسى کہتے ہیں کہ قربانی تین دن ہے ۔


قَالَ: وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ ۔

غیر مقلدین امام الشافعی، امام النووی کے حوالے دیتے ہیں جو سب شافعی فقہ پر تھے لہذا یہ سب چار دن قربانی کی قائل ہیں – ان کے مقابلے میں حنابلہ ، مالکیہ اور احناف تین دن قربانی کے قائل ہیں ۔


قربانی 3 دن ہے چوتھے دن کوئ قربانی نہیں بلکہ خلاف سنّت ہے ۔


عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رازی جلد 6 صفحہ 261،چشتی)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ایام معلومات ۔ چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں ۔


عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ ۔ (احکام القرآن امام طحاوی جلد 2 صفحہ 205)

ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ قربانی تین دن ہے ۔


عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ ۔ (سنن کبریٰ بیہقی جلد 9 صفحہ 297 باب من قال الاضحی یوم النحر،چشتی)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قربانی (دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔


سنن ابن ماجہ میں ہے : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ ‌أَيَّامٍ، فَكُلُوا وَادَّخِرُوا ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمھیں قربانی کے گوشت 3 دن سے زیادہ استعمال کرنے سے منع کرتا تھا اب کھا بھی سکتے ہو اور رکھ بھی سکتے ہو ۔ (سنن ابن ماجہ،ابواب الاضاحی باب الذبح بالمصلی حدیث نمبر 331 جلد 4 صفحہ 316 دارالرسالہ العالمیہ)


امام نووی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وَأَمَّا آخِرُ وَقْتِ التَّضْحِيَةِ فَقَالَ الشَّافِعِيُّ تَجُوزُ فِي يَوْمِ النَّحْرِ وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ الثَّلَاثَةِ بَعْدَهُ وَمِمَّنْ قَالَ بِهَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طالب وجبير بن مطعم وبن عَبَّاسٍ وَعَطَاءٌ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى الْأَسَدِيُّ فَقِيهُ أَهْلِ الشَّامِ وَمَكْحُولٌ وَدَاوُدُ الظَّاهِرِيُّ وَغَيْرُهُمْ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ وَأَحْمَدُ تَخْتَصُّ بِيَوْمِ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ وَرُوِيَ هَذَا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وعلى وبن عُمَرَ وَأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔

ترجمہ : اور قربانی کا آخری وقت تو امام شافعی علیہ الرحمہ کے ہاں یوم نحر اور اس کے بعد کے 3 ایام تشریق اور اسی طرح جس نے کہا کہ اسی پرحضرات علی و جبیر و ابن عباس و عطا و حسن بصری و عمر بن عبد العزیز و سلیمان بن موسی اسدی جو کہ اہل شام کے فقیہ و مکحول و داود ظاہری وغیرہ ہیں ۔ اور امام ابوحنیفہ و مالک و احمد نے فرمایا کہ قربانی ایام نحر اور اس کے بعد کے دو دنوں کے ساتھ خاص ہے اور یہی عمر بن خطاب و علی و عمر و انس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی کتاب الاضاحی باب وقتھا جلد 13 صفحہ 111، داراحیا التراث العربی بیروت،چشتی)


مبسوط میں ہے : النحر عندنا ثلاثة أيام أفضلها أولها ۔ بلغنا ذلك عن علي بن أبي طالب وعن ابن عباس ۔

ترجمہ : نحر ہمارے ہاں 3 دن تک ہے جن میں افضل یوم اول ہے کہ ہمیں حضرت علی بن طالب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اسی طرح کی روایات پہنچیں ۔ (الاصل،کتاب الصید والذبائح باب من تجب علیہ الاضحیہ جلد 5 صفحہ 413)


مبسوط سرخسی میں ہے : ثم يختص جواز الأداء بأيام النحر وهي ثلاثة أيام عندنا قال عليه الصلاة والسلام أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها ۔ فإذا غربت الشمس من اليوم الثالث لم تجز التضحية بعد ذلك. وقال الشافعي رضي الله تعالى عنه تجوز في اليوم الرابع وهو آخر أيام التشريق ، وهذا ضعيف فإن هذه القربة تختص بأيام النحر دون أيام التشريق ألا ترى أن الأفضل أداؤها في اليوم الأول وهو العاشر من ذي الحجة وهو يوم النحر لا أيام التشريق ۔ 

ترجمہ : پھر قربانی کی ادائیگی ایام نحر میں درست ہے اور ہمارے (احناف) کے نزدیک یہ 3 ہیں ۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایام نحر 3 ہیں اور ان میں پہلا افضل ہے ۔ تو جب تیسرے دن کا سورج غروب ہو جائے تو اب قربانی درست نہیں ۔ امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ چوتھے دن بھی درست ہے اور وہ آخری یومِ تشریق ہے ، یہ قیاس ضعیف ہے کہ قربانی وہ عبادت ہے جو ایام نحر کے ساتھ خاص ہے ایام تشریق سے اس کا تعلق نہیں ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ قربانی میں پہلا دن افضل ہے اور وہ 10 ذوالحج ہے جو کہ ایام نحر میں سےہے ایام تشریق میں سے نہیں ۔ (مبسوط سرخسی باب الاضحیہ جلد 9 صفحہ 12 دارالمعرفہ بیروت)


بدائع صنائع میں ہے : والصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي و ابن عباس و ابن سيدنا عمر و أنس بن مالك رضي الله تعالى عنهم أنهم قالوا : أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع ۔

ترجمہ : اور صحیح ہمارا قول ہی ہے کیونکہ حضرات عمر و علی و ابن عباس و عمر و انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایام نحر 3 ہیں اور پہلا افضل ہے ، اور ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے یہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے ہی سنا ہوگا کہ عبادات کے اوقات سمع سے ہی جانے جا سکتے ہیں ۔ (بدائع صنائع کتاب التضحیہ فصل فی وقت وجوب الاضحیہ جلد 5 صفحہ 65 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)


ہدایہ میں ہے : ولنا ما روي عن عمر وعلي وابن عباس رضي الله عنهم أنهم قالوا : أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها وقد قالوه سماعا لأن الرأي لا يهتدي إلى المقادير، وفي الأخبار تعارض فأخذنا بالمتيقن وهو الأقل ، وأفضلها أولها كما قالوا ولأن فيه مسارعة إلى أداء القربة وهو الأصل إلا لمعارض ۔

ترجمہ : ہمارے پاس حضرات عمر و علی و عباس رضی اللہ عنہم سے مروی روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ایام نحر 3 ہیں جن میں پہلا افضل ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے سن کر ہی کہا ہو گا کیونکہ قیاس سے تو مقادیر کی راہ نہیں ہوتی ، اور اخبار میں تعارض ہے تو ہم نے اس مقدار کو لیا جو یقینی ہے اور وہ اقل مقدار ہے ، اور اول پہلا ہے جیسا کہ ان بزرگوں کا قول گزرا کیونکہ اس میں عبادت کی ادائیگی میں جلدی کرنا ہے اور یہی اصل ہے مگر جب کوئی عارضہ ہو تو ۔ (ہدایہ کتاب الاضحیہ علی من تجب الاضحیہ جلد 4 صفحہ 357 دار احیائ التراث العربی بیروت،چشتی)


بنایہ میں ہے : م : (ولنا ما روي عن عمر وعلي وابن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أنهم قالوا أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها) ش: قال الزيلعي في ” تخريج أحاديث الهداية “ : هذا غريب جدا، يعني عن هؤلاء الأصحاب الثلاثة، وليس كذلك. قال الكرخي: قال في ” مختصره “: حدثنا أبو بكر محمد بن الجنيد قال: حدثنا أبو خيثمة قال: حدثنا هشيم قال: أخبرنا ابن أبي ليلى عن المنهال ابن عمرو عن زر بن حبيش وعباد بن عبد الله الأسدي عن علي – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -: أنه كان يقول: أيام النحر ثلاثة أيام أولهن أفضلهن. وعن ابن عباس وعن ابن عمر مثله قال: ” النحر ثلاثة أيام أولها أفضلها “. وروي: ” النحر ثلاثة أيام ” عن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – وأنس بن مالك وسعيد بن المسيب وسعيد بن جبير، وعن الحسن وعن إبراهيم النخعي. وقال محمد في كتاب ” الآثار “: أخبرنا أبو حنيفة عن حماد عن إبراهيم عن علقمة قال: الأضحى ثلاثة أيام يوم النحر ويومان بعده. وحديث مالك – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – في ” الموطأ ” عن نافع عن ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – أنه كان يقول: الأضحى يومان بعد يوم الأضحى. وفي ” سنن البيهقي ” عن قتادة عن أنس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الذبح بعد يوم النحر يومان ۔

ترجمہ: ہمارے دلائل : (1) حضرات عمروعلی و ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اقوال ہیں کہ ایام نحر 3 ہیں اور پہلا افضل ہے ۔ امام زیلعی نے تخریج احادیث ھدایہ میں کہا یہ حدیث بہت زیادہ غریب ہے یعنی ان 3 صحابہ سے لیکن معاملہ ایسا نہیں ۔ (2) امام کرخی نے کہا:حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ایام نحر 3ہیں اور پہلا افضل ہے اور ابن عباس و ابن عمر نے بھی اسی طرح فرمایا ۔ (3) حضرت عمرو انس بن مالک و سعید بن مسیب و سعید بن جبیر و حسن و ابراھیم نخعی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نحر 3دن تک ہے ۔ (4) امام محمد نے کتاب الاٰثار میں فرمایا کہ امام اعظم نے حماد ، انہوں نے ابراھیم ، انہوں نے علقمہ سے روایت کی کہ قربانی 3 دن ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن ۔ (5) سنن بیھقی میں قتادہ سے وہ انس رضی اللہ عنہم سے راوای فرمایا : ذبح یوم نحر کے بعد دو دن تک ہے ۔ (6) امام مالک نے اپنی موطا میں ابن عمر سے روایت کیا کہ عید الاضحٰی کے بعد دو دن تک قربانی ہے ۔ (7) سنن بیھقی میں انس رضی اللہ عنہ روایت فرمایا ذبح یوم نحر کے بعد 2 دن تک ہے ۔ (بنایہ کتاب الاضحیہ ایام النحر و افضل ھذہ الایام جلد 12 صفحہ 28 دارالکتب العلمیہ بیروت)


بنایہ میں ہے : قال القدوري: الأضحية جائزة في ثلاثة أيام: يوم النحر أولها، والثاني والثالث: وهما يومان بعد يوم النحر. وبه قال مالك، وأحمد، والثوري، وهو قول ستة من الصحابة – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ -، وهم عمر، وعلي، وابن عباس، وابن عمر، وأبو هريرة، وأنس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ۔۔۔۔ وفي ” نوادر الفقهاء ” لابن بنت نعيم: أجمع الفقهاء أن التضحية في اليوم الثالث عشر غير جائز إلا الشافعي فإنه أجازها فيه ۔۔۔ لقوله – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «أيام التشريق كلها أيام ذبح» ش: هذا الحديث أخرجه أحمد في ” مسنده ” وابن حبان في ” صحيحه ” من حديث عبد الرحمن بن أبي جبير عن جبير بن مطعم عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «كل أيام التشريق ذبح))۔۔۔ والجواب عن هذا: أن فيه اضطرابا كثيرًا بين صاحب الشعر وبين البيهقي أيضا بعضه. قال: ورواه سويد بن عبد العزيز وهو ضعيف عند بعض أهل النقل. قلت: هو ضعيف عند كلهم أو أكثرهم،۔۔۔ فإن قلنا: أخرجه أحمد أيضا والبيهقي عن سليمان بن موسى عن جبير بن مطعم عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -. قلت: قال البيهقي سليمان بن موسى لم يدرك جبير بن مطعم فيكون منقطعا. فإن قلت: أخرج ابن عدي في ” الكامل ” عن معاوية بن يحيى الصدفي عن الزهري عن ابن المسيب – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – عن أبي سعيد الخدري – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «أيام التشريق كلها ذبح» قلت: معاوية بن يحيى ضعفه النسائي وابن معين وعلي بن المديني، وقال ابن أبي حاتم في كتاب ” العلل “: فإن هذا حديث موضوع بهذا الإسناد. فإن قلت: أخرج البيهقي من حديث طلحة بن عمر وعن عطاء وعن ابن عباس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الأضحى ثلاث أيام بعد أيام النحر. قلت: أخرج الطحاوي بسند جيد عن ابن عباس – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قال: الأضحى ثلاثة أيام ويومان بعد يوم النحر ۔

ترجمہ : امام قدوری نے فرمایا : قربانی 3 دن تک جائز ہیں یوم نحر کے بعد دو دن تک ۔ یہی امام مالک و احمد و ثوری و چھ صحابہ (عمر و علی و ابن عباس و ابن عمر و ابو ھریرہ و انس) رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے ۔ ابن نعیم کی نوادر الفقھا میں ہے : امام شافعی علیہ الرحمہ کے علاوہ فقھا کا اجماع ہے کہ قربانی 13 تاریخ کو درست نہیں ہے ۔ امام شافعی کے احادیث اور انکا جواب : اور امام شافعی اس حدیث پاک کو اختیار کرتے ہیں کہ ایام تشریق ایام ذبح بھی ہیں ۔ اس حدیث کی تخریج امام احمدنے اپنی مسند اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی اور یہ عبد الرحمن بن ابو جبیر سے انہوں نے جبیر بن مطعم سے انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ سارے ایام تشریق ایام ذبح ہیں ۔ (1) اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کثیر اضطراب ہے ۔ اس حدیث کو سوید بن عبد العزیز نے بھی روایت کیا اور (2) وہ بعض کے نزدیک ضعیف ہے ۔ میں کہوں گا وہ تو سب یا اکثیر کے نزدیک ضعیف ہے ۔ اور جو ہم نے کہا کہ اس کو امام احمد و بیھقی نے سلیمان بن موسی سے انہوں نے جبیر بن مطعم سے انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیاتو جواب یہ ہےکہ : (3) امام بیھقی نے کہا کہ سلیمان بن موسی نے تو جبیر بن مطعم سے ملاقات ہی نہیں کی تو یہ حدیث منقطع ہے ۔ اور اگر اس کی تخریج ابن عدی نے اپنی کامل میں معاویہ بن یحی سے کی انہوں نے زھری سے انہوں سے سعید بن مسیب سے انہوں نے ابو سعید خدری سے انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے تو جواب یہ ہے کہ (4) معاویہ بن یحیٰی کی تضعیف امام نسائی وابن معین و علی بن مدینی کرچکے ہیں ۔ (5) اور ابن ابو حاتم نے کتاب العلل میں کہا کہ یہ حدیث اس اسناد سے موضوع ہے ۔ اور جہاں تک بیھقی نے حدیثِ طلحہ ابن عمر سے انہوں نے عطا سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کیا تو جواب یہ ہے کہ (6) حضرت ابن عباس سے ہی بہتر سند سے امام طحاوی نے حدیث بیان کی کہ قربانی 3 دن ہے اور یوم نحر کے بعد 2 دن تک ۔ (بنایہ کتاب الاضحیہ ایام النحر وافضل ھذہ الایام جلد 12 صفحہ 26-27 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)


فتح القدیر میں ہے : وَلَنَا مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُمْ قَالُوا: أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا وَقَدْ قَالُوهُ سَمَاعًا لِأَنَّ الرَّأْيَ لَا يَهْتَدِي إلَى الْمَقَادِيرِ، وَفِي الْأَخْبَارِ تَعَارُضٌ فَأَخَذْنَا بِالْمُتَيَقَّنِ وَهُوَ الْأَقَلُّ ۔

ترجمہ : حضرات عمرو علی و ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اقوال یقیناً نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے سن کر ہی وارد ہوئے ہونگے کہ مقدار قیاس سے بیان نہیں کی جا سکتی ، نیز اخبار میں تعارض ہے تو ہم نے اقل مدت جو یقینی ہے اس کو اختیار کرلیا ۔ (فتح القدیر کتاب الاضحیہ جلد 9 صفحہ 513 دارالفکر لبنان)


فالمروي عنهم كالمروي عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔

ترجمہ : جب مقادیر میں قیاس کا عمل دخل نہیں تو ان صحابہ سے روایت ایسے ہی ہوئی جیسے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے ۔ (بنایہ کتاب الاضحیہ ایام النحر وافضل ھذہ الایام جلد 12 صفحہ 28 دارالکتب العلمیہ بیروت)


امام اہلسنت اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک فتوے میں فرماتے ہیں : قربانی یومِ نحر تک یعنی دسویں سے بارھویں تک جائز ہے ، آخر ایامِ تشریق تک کہ تیرھویں ہے جائز نہیں ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 354 مطبوعہ رضا فاٶنڈیشن لاہور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...