اجتماعی قربانی کی شرائط احکام و مسائل
محترم قارئینِ کرام : اجتماعی قربانی کے درست ہونے کےلیے ضروری ہے کہ تمام حصہ داروں کی نیت قربت اور نیکی کی ہو اگرچہ قربت الگ الگ قسم کی ہو یعنی کسی کی نیت گوشت حاصل کرنے کی نہ ہو نہ ہی ان میں کوئی غیر مسلم ہو،لہذا اجتماعی قربانی میں اگر کوئی غیر مسلم یا ایسا بدمذہب شامل ہوگیا جس کی بدمذہبی حد ک ف ر تک پہنچی ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی کیونکہ غیر مسلم اہل قربت سے نہیں اور جب بعض کی طرف سے قربت واقع نہیں ہوگی تو کسی کی طرف سے نہیں ہو گی کیونکہ قربانی میں قربت کے حصے نہیں ہو سکتے ۔ اگر آپ کسی بھی ، ادارے ، ٹرسٹ یا تنظیم میں اجتماعی قربانی کےلیے حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ معلومات کر کے کسی ایسے ادارے ، ٹرسٹ یا تنظیم میں حصہ ڈالیں جس پر آپ کو اعتماد اور دلی اطمینان ہو کہ وہ واقعی اجتماعی قربانی کرتا ہے ، اور اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ جانور کسی صحیح العقیدہ سنی مسلمان سے ہی ذبح کرواتا ہے اور اجتماعی قربانی کے شرکاء میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان ہوں اور کسی کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ اس کی کمائی حرام کی ہے اسے قربانی میں شریک نہ کرتا ہو ۔ چنانچہ کسی بھی ایسے ادارے ، ٹرسٹ یا تنظیم میں قربانی کا حصہ ڈالنے سے آپ کی قربانی درست ہو جائے گی اور آپ بری الذمہ ہو جائیں گے ، آپ کا اپنی آنکھوں سے قربانی ہوتے ہوئے دیکھنا شرط نہیں ہے ، اسی طرح یہ معلوم ہونا کہ دیگر شرکاء کا پیسہ حلال ہے یا نہیں ، یہ بھی شرط نہیں ، البتہ اگر یہ معلوم ہو کہ یقیناً کسی شریک کا پیسہ حرام ہے تو پھر قربانی درست نہیں ہوگی ۔ اگرشرکت میں گائے کی قُربانی کی تو ضَروری ہے کہ گوشْتْ وَزْن کر کے تقسیم کیاجائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ، کریں گے تو گنہگار ہوں گے ۔بخوشی ایک دوسرے کو کم زیادہ مُعاف کر دینا کافی نہیں ۔(بہارِ شریعت جلد ۳ صفحہ ۳۳۵) ۔ ہاں اگر سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں کہ مل کر ہی بانٹیں گے اور کھائیں گے یاشُرَکاء اپنا اپنا حصّہ لینا نہیں چاہتے ، ایسی صورت میں وَزْن کرنے کی حاجت نہیں ۔
شرح النقایۃ میں ہے : و ان کان احدھم ای احد السبعة کافرا اور مریدا اللحم لا اى لا یصح عن احد لان الکافر لیس من اھل القربة و قصد اللحم ینافیھا و اذا لم یقع البعض قربة لم یقع الکل،اذ الاراقة لا تجزي فی حق القربة ۔
ترجمہ : اگر (قربانی کرنے والے) سات شریکوں میں سے کوئی ایک بھی غیر مسلم ہو یا اس کا ارادہ صرف گوشت حاصل کرنے کا ہو تو کسی ایک کی قربانی بھی نہیں ہوگی اس لیے کہ غیر مسلم اہلِ قربت سے نہیں اور گوشت کا ارادہ کرنا قربت کے منافی ہے اور جب بعض کی طرف سے قربت نہ ہوئی تو سب کی طرف سے قربت نہیں ہو گی کیونکہ حق قربت میں قربانی متجزی نہیں ۔ (فتح باب العنایة جلد 3 کتاب الاضحیة صفحه 78 دار ارقم)
الاختیار میں ہے: “وإِن اشترك سبعة في بقرة أو بدنة جاز إن كانوا من أهل القربة يعني مسلمين و يريدونها یعني يريدون القربة، حتى لو كان أحدهم كافرا أو أراد اللحم لا القربة لا يجزئ واحدا منهم لأن الدم لا يتجزأ ليكون بعضه قربة و بعضه لا”ترجمہ:اگر گائے یا اونٹ میں سات افراد شریک ہوئے تو جائز ہے جبکہ وہ سب اہل قربت سے ہوں یعنی مسلمان ہوں اور وہ قربت کا ارادہ بھی رکھتے ہوں یہاں تک کہ اگر ان میں سے ایک بھی غیر مسلم ہو یا فقط گوشت کا ارادہ رکھتا ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی اس لئے کہ قربانی اس اعتبار سے متجزی نہیں کہ بعض کی طرف سے قربت ہو اور بعض کی طرف سے نہ ہو ۔ (الاختیار لتعلیل المختار جلد 5،کتاب الاضحیہ،صفحہ 18،دارالفکر)
جو بدمذہب اپنی بدمذہبی میں حدِ کفر تک پہنچا ہو وہ مرتد ہے اور مرتد اگر اجتماعی قربانی میں حصہ دار ہو تو کسی کی بھِی قربانی نہیں ہو گی ۔ جو بدمذہب حد کفر تک نہیں پہنچا اس کو اگر حصہ دار بنایا تو قربانی ہو جائے گی لیکن بدمذہب کو اجتماعی قربانی میں شامل نہیں کرنا چاہیے ۔
فتاوی ھندیہ میں ہے: أو کان شریك السبع من یرید اللحم أو کان نصرانیا ونحو ذلك لا یجوز للآخرین أیضا کذا في السراجیة ۔
ترجمہ : اور اگر ان سات حصہ داروں میں سے کسی کا ارادہ گوشت کا ہو یا ان میں سے کوئی نصرانی ہو یا اسی طرح کےمثلا کافر و مرتد تو یہ قربانی باقیوں کے لئے جائز نہیں اور اسی طرح سراجیہ میں ہے ۔ (فتاویٰ ہندیہ کتاب الأضحیة جلد ٥ صفحہ ٣٧٦ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
بہار شریعت میں ہے :گائے کے شرکا میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی ۔ (بہار شریعت جلد ٣ حصصہ ١٥ صفح ٣٤٣)
بڑے جانور کی قربانی کے حصوں میں سے ایک حصہ میں بھی اگر کوئی دیوبندی یا اور کوئی مرتد شامل ہو گیا؛ تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اگرچہ ذبح کرنے والا سنی ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اگر معاذ اللہ ذبح کرنے والا دیوبندی ہی ہے تب تو وہ جانور ہی مردہ ہو گیا اس کا کھانا بھی حرام ۔ چونکہ قربانی کے شرکا میں سے ہر ایک کا مسلمان ہونا ضروری ہے بلکہ مسلمان ہونا ہی کافی نہیں ، قربت (ثواب) کی نیت ہونا بھی ضروری ہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی ایک شریک ثواب کی نیت نہ کرے ، یعنی اس کا مقصود گوشت لیناہو تو اس صورت میں بھی کسی کی قربانی نہیں ہوگی ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ٥ صفحہ ۳۰۴)
ان دیابنہ کے مولویوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں صریح گستاخیاں کی ہیں ، جن کے کفر سے متعلق علمائے حرمین شریفین نے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ کہ جو ان کے کفر میں اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ۔ اس کی تفصیل فتاویٰ حسام الحرمین میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد برصغیر کے جن جن علمائے اہلسنت سے ان سے متعلق حکم پوچھا گیا تو تمام نے وہی حکم دیا ، جو فتاویٰ حسام الحرمین میں ہے ۔ اس کی تفصیل الصوارم الھندیہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔ فتاویٰ حسام الحرمین اور الصوارم الھندیہ کے بعد ماضی قریب اور دورہ حاضر کے علمائے اہل سنت کے فتاویٰ جات میں بھی یہی مذکور ہے ۔
مفتئ جامعہ اشرفیہ مبارکپور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ایک استفتا کے جواب میں رقم فرماتے ہیں : یہاں کے روافض مرتد ہیں ، عالمگیری میں ہے : أحكامهم احكام المرتدين ۔ یہاں سے مراد آج کل ہندوستان میں پائے جانے والے روافض ہیں ، اسی طرح وہابی ، دیوبندی بھی کافر و مرتد ہیں اس لیے کہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد 3 صفحہ81)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ کے تصدیق شدہ فتوے کا بھی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں : جب نصرانی کی شرکت کے ساتھ قربانی جائز نہیں تو غیر مقلد و دیوبندی جو کہ نصرانی سے بدتر اور خبیث تر ہیں اس کی شرکت کے ساتھ بدرجہ اولی جائز نہیں۔ سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کفر اصلی کی ایک سخت قسم نصرانیت ہے اور اس سے بدتر مجوسیت ، اس سے بدتر بت پرستی، اس سے بدتر وہابیت ، ان سب سے بدتر اورخبیث تر دیوبندیت ، اھ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 3) ۔ لہٰذا غیر مقلد اور دیوبندی کچی شرکت کے ساتھ بڑے جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فقیہ ملت جلد 2 صفحہ 249)
بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی مصباحی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قربانی کے جانور میں دیوبندی شریک ہو تو سنی کی قربانی نہیں ہو گی ، دیوبندیوں پر علمائے عرب و عجم نے کفر کا فتوی دیا ہے ۔ اسی طرح سنی کی شادی بھی دیوبندی سے نہیں ہو سکتی مرد ہو یا عورت ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاویٰ بحر العلوم كتاب الأضحية جلد ۵ صفحہ ۱۸۹)
محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہا حضرت مفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے تصدیق شدہ فتوے کا بھی اقتباس ملاحظہ فرمائیں : ⏬
دیوبندی مذہب کے مولوی اشرف علی تھانوی ، قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد انبیٹھوی کو ان کے کفریات قطعیہ کی بنا پر مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ ، ہند و پاک ، بنگلہ دیش اور برما کے سینکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام نے کافر و مرتد قرار دیا ہے جس کی تفصیل ”فتاویٰ حسام الحرمین“ اور ”الصوارم الھندیہ“ میں ہے ۔ اور سارے دیوبندی ان کو اپنا پیشوا اور مسلمان مانتے ہیں اور ان کے حامی ہیں تو وہ بھی مرتد کے حکم میں ہیں ۔ لہٰذا بڑے جانور کی قربانی میں وہابی ، دیوبندی تبلیغی ، رافضی وغیرہ ان میں کا کوئی بھی شریک ہوگا تو ہرگز کسی کی قربانی نہ ہو گی اور واجب ان کے ذمے سے ساقط نہ ہو گا ۔ اس لیے ہرشخص پر لازم ہے کہ پوری تحقیق سے معلوم کرے کہ کوئی بدمذہب حصے میں شریک تو نہیں ۔ (فتاویٰ مرکزی تربیت افتا جلد 2 صفحہ 328 / 329،چشتی)
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ”اب جو علما ہیں وہ ان عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں اس لیے ان کا ذبیحہ بھی جائز اور حصے میں شریک کرنا بھی درست“ ۔ یہ کہنا کسی لحاظ سے درست نہیں، تاویل کی گنجائش صریح میں نہیں ہوتی ۔ شفا شریف میں ہے : التأويل فِي لفظ صراح لَا يقبل ۔ (الشفا بتعريف حقوق المصطفى وحاشية الشمني جلد ۲ صفحہ ٢١٧)
آج کے دیوبندی فارغین و علما جو ان کے عقائد کفریہ پر مطلع ہو کر بھی انہیں مسلمان ، بلکہ اپنا پیشوا سمجھتے ہیں وہ بھی اسی حکم میں ہیں ۔ یہاں تک کہ ہر وہ شخص جو ان دیوبندی علماء (جن پر علماے عرب و عجم نے کفر و ارتداد کا حکم لگایا) کے عقائد کوصحیح ٹھہراے یا ایسے کفریہ عقائد والے کو ان کے عقائد پر مطلع ہو کر مسلمان سمجھے خواہ وہ اس دور کا ہو، یا ماضی کا، یا مستقبل میں آئے ۔ اگرچہ اپنے آپ کو سنی قادری چشتی کہے ، سب کا حکم ایک ہے ۔ یعنی وہ کافر و مرتد ہے ۔ ایسے شخص کو بھی قربانی کے جانور میں شریک کرنے سے کسی کی قربانی نہیں ہو گی ، اور اگر ایسا شخص جانور ذبح کرے تو جانور ہی حرام ۔
اندازے سے گوشت تقسیم کرنے کے دو حِیلے : ⏬
اگر شُرَکاء اپنا اپنا حصّہ لے جانا چاہتے ہوں تو وَزْن کرنے کی مَشَقَّت سے بچنے کےلیے یہ دو حیلے کر سکتے ہیں : (1) ذَبْح کے بعد اِس گائے کا سارا گوشت ایک ایسے بالِغ مسلمان کوہِبہ (یعنی تحفۃً مالِک) کر دیں جو ان کی قربانی میں شریک نہ ہو اوراب وہ اندازے سے سب میں تقسیم کر سکتا ہے ۔ (2) دوسرا حِیلہ اس سے بھی آسان ہے جیسا کہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم فرماتے ہیں : گوشْتْ تقسیم کرتے وَقْت اس میں کوئی دوسری جِنْس (مَثَلاً کلیجی مغز وغیرہ) شامل کی جائے تو بھی اندازے سے تقسیم کر سکتے ہیں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۹ صفحہ ۵۲۷) اگر کئی چیزیں ڈالی ہیں تو ہر ایک میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا لازمی نہیں ۔ گوشْتْ کے ساتھ صِرْف ایک چیز دینابھی کافی ہے ۔ مَثَلاً ، تلّی ، کلیجی ، سری پائے ڈالے ہیں تو گوشْتْ کے ساتھ کسی کو تلّی دیدی ، کسی کو کلیجی کا ٹکڑا ، کسی کو پایہ، کسی کو سری ۔ اگر ساری چیزوں میں سے ٹکڑا ٹکڑا دیناچاہیں تب بھی حَرَج نہیں ۔
قُربانی کے گوشت کے تین حصّے : ⏬
قربانی کا گوشْتْ خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی (یعنی مالدار)یا فقیر کو دے سکتا ہے کِھلا سکتا ہے بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کےلیے مُستحب ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ گوشْتْ کے تین حصّے کرے ایک حصّہ فُقَراء کےلیے اور ایک حصّہ دوست و اَحباب کےلیے اور ایک حصّہ اپنے گھر والوں کےلیے ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۵ صفحہ ۳۰۰،چشتی)
اگر سارا گوشْتْ خود ہی رکھ لیا تب بھی کوئی گناہ نہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تین حصّے کرنا صِرْف اِسْتِحْبابِی اَمر ہے کچھ ضَروری نہیں ، چا ہے توسب اپنے صَرْف (یعنی استعمال) میں کر لے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ، یا سب مساکین کو بانٹ دے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۰ صفحہ ۲۵۳)
وَصیّت کی قُربانی کے گوشت کا مسئَلہ : مَنّت یا مرحوم کی وصیَّت پر کی جانے والی قُربانی کا سب گوشت فُقَراء اور مساکین کو صَدَقہ کرنا واجِب ہے نہ خود کھائے نہ مالداروں کو دے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۳ صفحہ ۳۴۵)
اجتماعی قربانی کرنے والے منتظمین اپنی حیثیت اپنی مرضی سے خود متعین کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں اور اس حیثیت کے فرق کی وجہ سے اُن کا منافع رکھنے یا نہ رکھنے کے حکم میں فرق آئے گا ۔
خرید وفروخت کی صورت : اس کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے اپنے پیسوں سے قربانی کا جانور خرید لیں ، اور اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اسے مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک ، دو یا تین وغیرہ) اپنا منافع رکھ کرفروخت کر دیں ، اجتماعی قربانی والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے ، پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے قربانی کی جائے اور قربانی کے بعد خریدار کو گائے میں سے اس کے حصے کے بقدر دے دیا جائے ۔
وعدۂ بیع کی صورت : اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں تو وہ جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کر لیں اور ان سے وعدہ بیع کر لیں ، پھر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے وعدہ بیع کر لیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں ، پھر آخر میں جانور خرید لیں اور جانور خریدنے کے بعد ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کرلیا جائے ۔
وکالت : اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خریدا جائے ، اور اس صورت میں جو جو اخراجات آتے ہیں ، وہ سب بھی ان کو بتا کر ان سے لے لیے جائیں ، قربانی کا جانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات کے بعد جو رقم بچ جائے وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے ، اس رقم کو ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھ لینا بالکل ناجائز ہے ، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارے کو عطیہ کر دیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہے ۔ وکالت والی صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت ، سروس چار جز کے نام سے اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جا سکتی ہے ۔
جن حضرات کی آمدنی بینک انویسمینٹ ، بینک ملازمت ، انشورنس ، بیمہ پالیسی ہولڈر اوردوسرے ناجائز کاروبار سے ہو ، وہ اجتماعی قربانی میں ہرگز حصہ نہ لیں ۔ کسی بھی قسم کے حرام مال سے اجتماعی قربانی میں حصہ نہ لیا جائے ، تاکہ اس میں مزید عموم ہو جائے ۔ اور یہ کہ اگر ایسے افراد کو حصہ لینا ہے تو حلال رقم سے لیں ، اور اگر حلال رقم نہیں ہے تو کسی سے حلال رقم قرضہ لے کر حصہ ملا لیں ۔
اجرت کی رقم متعین کر کے لکھ لیں ، اس صورت میں طے شدہ اجرت کے علاوہ اگر کچھ رقم مزید بچ جائے تو حصہ داروں کو واپس کرنا لازم ہے ، شرکا کی اجازت کے بغیر بچی ہوئی رقم رکھنا جائز نہیں ، ہاں اگر وہ بعد میں خوش دلی سے وہ رقم ادارے کو عطیہ کردیں تو ادارے کےلیے اس کو لینا درست ہے ۔
حصہ دار کی طرف سے اس کی اجازت ہو اور وہ اس کو قبول کرتا ہو کہ : میں کسی بھی وجہ سے مقررہ وقت پر گوشت لینے نہ آ سکوں تو وہ میرے حصے کے گوشت کو میری طرف سے مستحق افراد میں تقسیم کردیں “ تو اس صورت میں اس پر عمل جائز ہو گا ، اس کےلیے شروع میں یہ شرائط لکھ کر معاہدہ پر دستخط کرانا کافی ہو گا ، نیز یہ کہ اس میں ”مستحق افراد“ کے بجائے صرف ”لوگوں“ لکھ دیا جائے ، تاکہ قربانی کا گوشت امیر اور غریب دونوں میں تقسیم کیا جا سکے ۔ لیکن اگر حصہ دار نے اس کو باقاعدہ قبول کر کے اجازت نہ دی ہو تو اس صورت میں ادارہ اگر کسی ضرورت مند کو اس کا گوشت دے گا تو اس کے بعد حصہ دار کو بتانا ضروری ہو گا کہ آپ کا گوشت صدقہ کر دیا گیا ، اگر وہ قبول کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ ادارہ اس کا ضامن ہو گا ، اور اگر حصہ دار کے تاخیر کے آنے کی وجہ سے ادارے کی طرف سے تمام تر احتیاط کے باوجود گوشت خراب ہو گیا تو ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا ۔
بعض حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو گوشت کے بڑے ٹکڑے یابہتر گوشت مل جائے اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر آپ کسی گائے میں حصہ دار ہیں تو شریعت کے حکم کے مطابق گوشت کے ٹکڑے کرنے کے بعد گوشت برابر تقسیم کیا جائے کسی کو گوشت اور کسی کو ہڈیاں دینا جائز نہیں ۔
ہر حصہ دار کو اس کا حصہ شرعی اعتبار سے تقسیم کر کے دیا جائے ۔ پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کر دیں ۔
اجتماعی قربانی کرنے والا ادارہ ، اگر اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خرید کر ان کی طرف سے ذبح کرتا ہو تو ایسی صورت میں ادارہ کی حیثیت ”وکیل“ اور ”امین “ کی ہے ، اس صورت میں ضابطہ یہ ہے کہ قربانی کے حصہ اور انتظامات پر جو اخراجات آئیں ، وہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کو بتا کر ان سے لینا جائز ہے ، قربانی کا جانور خریدنے اور اس پر آنے والے تمام اخراجات کے بعد جو رقم بچ جائے وہ حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے ، اس رقم کو ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے ، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کردیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہے ۔نیز اس صورت میں پہلے سے ہی طے کر کے حق الخدمت ، سروس چار جز کے نام سے اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جا سکتی ہے ۔ (ماخوذ : مشكاة المصابيح 1/253، باب الإفلاس و الإنظار، الفصل الثاني، ط؛ قدیمی)(درر الحکام في شرح مجلة الأحکام 3/ 573 ،الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:1467، ط:دارالجیل)(الفقہ الإسلامي وأدلتہ 4/151، الفصل الرابع : نظریة العقد، الوکالة، الوکالة باجر، ط: دارالفکر)(الدر المحتار 5/ 664،کتاب الایداع، ط:سعید)(فتاویٰ قاضی خان)(فتاویٰ شامی)(فتاویٰ رضویہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment