ﻋﺰﺕ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﺖ ﭘﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ پر اعتراض کا جواب مع ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے دیابنہ اور وہابیہ بھی ہر مخلوق میں شامل ہیں ۔ ایک تحقیقی جائزہ
محترم قارئینِ کرام : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے عرض کیا : ⬇
کثرتِ بعدِ قِلّت پہ پہ اکثر درود
عزّتِ بعدِ ذلّت پہ لاکھوں سلام
اِس شعر میں کثرت و عزت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور قِلَّت سے مراد نورِ ہدایت ہے جبکہ ذِلّت سے مراد کفر وضلالت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت سے پہلے کفر و ضلالت کا بول بالا تھا اور نورِ ہدایت بے نام ہو چلا تھا کفر اپنی کثرت پر نازاں تھا اور ہدایت اپنی قِلّت پر اشک افشاں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو نورِ ہدایت کی کثرت ہوگئی لوگوں کو کفر وضلالت کی ذلت کے بعد ایمان کی عزت نصیب ہوگئی، تاریکی کے بعد اجالا پھیل گیا اور رات کے بعد دن آگیا، خود اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ نے اپنے متعدّد کلاموں میں اس کی صراحت کی ہے مثلًا : ⬇
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجہ نور کا
شعر میں مُسَبَّب بول کر سبب مراد لیا گیا ہے چنانچہ کثرت و عزت مُسَبَّب ہیں معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کی قلت اور زمانۂ کفر وضلالت کے بعد تشریف لائے تو آپ حق و صداقت کی کثرت کا سبب ہوئے اور کفر و ضلالت کی ذلت مٹاکر حق کی عزت کا سبب ہوئے ، مذکورہ شعر میں قِلَّت و ذِلّت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے نہیں ہے اسے زبردستی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فِٹ کرنا درپردہ کسی دشمنی کی بھڑاس نکالنا ہے ۔
انبیاۓ کرام علیہم السلام و اولیا کے لیے ذِلَّت کا لفظ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے نہیں استعمال کیا البتّہ وہابیوں اور دیوبندیوں کے مُتَّفِقہ پیشوا اسماعیل دہلوی نے ضرور استعمال کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ” ہر مخلوق بڑا ہو یاچھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان صفحہ 41 مطبوعہ فرید بک ڈپو،چشتی)
اس شعر کی ایک توجیہ یہ دیکھنے کو ملی کہ شعر میں ”قلت و ذلت ” سے اسلام و اہلِ اسلام کی ابتدائی حالت مراد ہے ۔ لیکن یہ توجیہ کمزور ہے اس لیے کہ اِس شعر سے پہلے اور بعد کا کلام خود ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہے بیچ میں صرف ایک شعر اِسلام سے یا صحابہ رضی اللہ عنم سے متعلق ہو یہ غیر معقول ہے ۔ اسلام کی ابتدائی حالت کو ذلت سے تعبیر کرنا یا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ذلیل کہنا امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے مُتصور نہیں ۔
یہ بھی کہا گیا کہ ”وأنتم أذلۃ ” میں خود اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ”أذلَّہ” کہا ہے اور ”أذلَّہ”ذلیل کی جمع ہے ۔ یہ توجیہ بھی کمزور ہے اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوں یا انبیا علیہم السلام سب اللہ کے بندے ہیں اللہ ان کے حق میں جو چاہے فرمائے کسی دوسرے کو یہ حق نہیں کہ وہ بھی انھیں ”أذلہ” کہے ، البتہ اقتباس کی صورت میں اس کا استعمال ممکن ہے لیکن یہاں اقتباس ظاہر نہیں ۔
نیز آیت میں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلام ”وأنتم أذلۃ ” ”فی نظرِھم”پر محمول ہو ۔
یہ بھی کہا گیا کہ یہاں “بَعد” نہیں ہے ، بلکہ “بُعد” بالضم ہے جوکہ ” بعید اَز ” کے معنی میں ہے ۔ یہ توجیہ نہیں ، تبدیلی ہے ۔ “بُعد” بالضّم کی ایسی ترکیب عُرف اور اصول کے خلاف ہے اِس معنی میں اُس کی ایسی ایک بھی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی ، البتہ اگر بُعد کا معنیٰ طول ، عرض اور عُمْق (لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی) لیا جائے تو اصولًا اس کا استعمال درست تو ہو گا لیکن معنیٰ کس قدر فاسد ہو جائیں شاید یہ کسی پر مَخفی نہ ہو ۔
ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯾﺖ ﻭ ﻭﮨﺎﺑﯿﺖ ﯾﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﺎﮨﻞ ﻗﻮﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ، ﺟﻦ ﮐﯽ ، ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽِ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺍﻭﺭ ﺑُﻐﺾِ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ رحمة الله علیه ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﻋﻘﻠﯿﮟ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮯ ﺑﮩﺮﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺱ لیے ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺁﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻟﯿﺠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺟﺎﮨﻼﻧﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ : ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺍﯾﻮﺏ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ 3 ﺟﻠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺳﺖ ﻭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﻧﺎﻣﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﻭ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺏ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺍﯾﻮﺏ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ : ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﺎ ﺷﻌﺮ ﮨﮯ ﻋﺰﺕ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﺖ ﭘﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ ﺷﻌﺮ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻋﮧ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻋﺰﺕ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﺁﭖ (ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﮐﻮ ﺫﻟﺖ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯼ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ ﮨﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ (ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺫﻟﺖ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﺗﮭﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ٙ ﻧﻮﺍﺯﺍ ۔ ( ﺩﺳﺖ ﻭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﺻﻔﺤﮧ 92 ۔ 93 ۔ 130 ۔ 247)
جوﺍﺏ : ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 4 ﺟﮕﮧ ﺍﺱ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﻣﮑﻤﻞ ﺷﻌﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ : ⬇
ﮐﺜﺮﺕ ﺑﻌﺪ ﻗﻠﺖ ﭘﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﺭﻭﺩ
ﻋﺰﺕ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﺖ ﭘﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ ۔ (ﺣﺪﺍﺋﻖ ﺑﺨﺸﺶ ﺣﺼﮧ ﺩﻭﻡ ﺻﻔﺤﮧ 36 ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺑﮏ ﺳﯿﻠﺮﺯ ﻻﮨﻮﺭ )
ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﻌﻨﯽ ﭘﺮ ﻣﺤﻤﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ” ﺑﻌﺪ ” ﺯﺑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺫﻟﺖ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ۔ ﺑﺎﻟﻔﺮﺽ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ”ﺑﻌﺪ” ﮐﻮ ﺯﺑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﺮﮔﺰ ﺧﻄﺎﺏ معاذ الله ﷻ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﻣﺼﺮﻋﮧ ﻣﯿﮟ ”ﻗﻠﺖ ﻭ ﮐﺜﺮﺕ” ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﮨﻞ ﻋﺮﺏ ﮨﯿﮟ ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻢ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺜﯿﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﮨﻞ ﻋﺮﺏ ﺫﻟﺖ ﻭ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ۔ الله ﷻ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﺮﺕ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ۔ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﮨﮯ : ﺍﮮ ﮔﺮﻭﮦ ﻋﺮﺏ ۔ ﺗﻢ ﺫﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﮐﯽ ﺟﺲ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻﺋﯽ ۔ ( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ۔ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ۔ ﺟﻠﺪ 9 ۔ ﺻﻔﺤﮧ 57 ۔ ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﺩﺍﺭ ﻃﻮﻕ ﺍﻟﻨﺠﺎﺕ،چشتی)
دیوبندی ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺍﯾﻮﺏ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ : ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻟﻔﻆ ”ﺑﻌﺪ” ( ﭘﯿﺶ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ) ﮨﮯ ۔ ”ﺑﻌﺪ” ( ﺯﺑﺮ ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺣﺪﺍﺋﻖ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﯽ ﮐﺌﯽ ﺷﺮﺣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﻔﺘﯽ ﻏﻼﻡ ﺣﺴﻦ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﻻﮨﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﻌﯿﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﺻﻮﻓﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺗﻮ "ﺑﻌﺪ” (ﺯﺑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ) ﻣﺎﻧﺎ ﮨﮯ ۔ (ﺩﺳﺖ ﻭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﺻﻔﺤﮧ 92)
جوﺍﺏ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻟﻔﻆ "ﺑﻌﺪ” ﺯﺑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ایوب دیوبندی ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺯﻟﯽ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﮯ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺟﻮ فقیر ﻧﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﺷﺎﺭﺣﯿﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻮﻟﻮﯼ ایوب دیوبندی ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺷﺎﺭﺣﯿﻦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﺑﻌﺪ ﺯﺑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﮐﯽ ﻭہی ﺗﺸﺮﯾﺢ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﻮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ایوب دیوبندی ﻧﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺜﻼً ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﻌﯿﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ : ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺑﺎﺑﺮﮐﺎﺕ ﮐﮯ ﻃﻔﯿﻞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﻠﺖ ﮐﻮ ﮐﺜﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ۔ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺳﺮﻭﺳﺎﻣﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﺒﮧ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﻭ ﻏﻠﺒﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺍ ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺮ ﻭ ﺷﺮﮎ ﮐﯽ ﺫﻻﻟﺖ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺋﯽ ۔ (ﺷﺮﺡ ﺳﻼﻡ ﺭﺿﺎ ﺻﻔﺤﮧ 58 ۔ 59 ﺍﻭﯾﺴﯽ ﺑﮏ ﺳﭩﺎﻝ 2011،چشتی)
کعبہ کرتا ہے طواف درِ والا تیرا ۔ پر اعتراض کا جواب : امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر منقبت غوث اعظم رحمۃ اللہ میں ایک شعر ہے : ⬇
سارے اقطابِ جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف
کعبہ کرتا ہے طواف درِ والا تیرا
یعنی شان غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ میں منقبت لکھی ۔ جس پر جاہل دیوبندیوں اور غیر مقلد وہابیوں نے اعتراض کرتے کیا اور بعض انتہائی گھٹیا انداز کی پوسٹیں فقیر کی ڈاکٹر فیض احمد چشتی کی نظر سے گذریں فقیر مدللّ جواب لکھنے کا ارادہ کر چکا تھا مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں مل پایا سر دست یہ مختصر جواب حاضر ہے ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں مزید حوالہ جات بھی شامل کیئے جائیں گے ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ بے ادبوں ، گستاخوں کے فتنہ و شر سے بچائے آمین ۔
اس شعر میں جس بات پر ان جہلاء کو اعتراض ہے جس میں اعتراض کی کوئی تُک بنتی ہی نہیں آیئے جواب پڑھتے ہیں ۔
خانہ کعبہ بعض اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جاتا ہے
خانہ کعبہ شریف کا بعض اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جانا کرامت کے طور پر جائز ہے ۔ فقہاء علیہم الرّحمہ نے بھی اسکی تائید کی ہے ۔ چنانچہ امام حصکفی رحمتہ اللہ علیہ متوفیٰ 1088ھ در مختار مین فرماتے ہیں کہ مفتی جن و انس امام نسفی رحمۃ اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ سنا ہے خانہ کعبہ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی زیارت کو جاتا ہے ، کیا یہ کہنا شرعاً جائز ہے ؟
امام نسفی علیہم الرّحمہ نے فرمایا (خرق العادۃ علی سبیل الکرامۃ لا ھل الولایۃ جائز عند اھل السنۃ) یعنی۔ خرق عادت کرامت کے طور پر اولیاء اللہ کے لیئے اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ (الدُّرُّ المختار کتاب الطلاق صفحہ نمبر 253)
مفتی بغداد امام سیّد محمود آلوسی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کعبۃ اللہ بعض اولیاء اللہ کی زیارت کو جاتا ہے اور یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 13 صفحہ 14 امام آلوسی رحمۃُ اللہ علیہ،چشتی)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کا طواف بیت اللہ کرتا ہے ۔ (احیاء العلوم جلد اوّل صفحہ 450)
مشہور دیوبندی عالم علامہ محمد زکریا کاندہلوی صاحب لکھتے ہیں : بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں کہ خود کعبہ ان کی زیارت کو جاتا ہے ۔ (فضائل حج صفحہ 93 دارالاشاعت) ۔ حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی صاحب بوادر النوادر میں یہی بات لکھی ہے ۔
ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے دیابنہ اور وہابیہ بھی ہر مخلوق میں شامل ہیں ۔ ایک تحقیقی جائزہ : ⏬
محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ تفویۃُ الایمان کی ایک عبارت کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ اس مضمون میں ہم مختصرا اس عبارت کا تحقیقی جائزہ پیش کر رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ خود کیجیئے :
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے : ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا ﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تفویۃُ الایمان صفحہ نمبر 41 مطبوعہ مکتبہ خلیل اردو بازار لاہور پاکستان)(تفویةُ الایمان مع تذکر الاخوان صفحہ نمبر ۲۰۔چشتی)
محترم قارئین کرام : اس عبارت میں انبیائے کرام علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کو چمار سے بھی ذلیل کہا گیا ہے یعنی چمار اتنا ذلیل نہیں جس قدر اللہ عزّ و جل کے نزدیک انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ ذلیل ہیں ۔ (عبارات اکابر کا تنقیدی جائزہ)،(الحق و مبین)،(ظفر السلام)،(تعارف علمائے دیوبند)
اس کے جواب میں دیابنہ اور وہابیہ کے کچھ مضامین اور کمنٹس میری نظر سے گذرے جن میں یہ کہا گیا کہ : یہ عبارت عمومی ہے اور (علمائے اہلسنتّ و جماعت) بریلویوں کو یہ بات مسلّم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات ۔
اس کا جواب : یہ دیابنہ اور وہابیہ کی غلط فہمی اور فریب ہے کہ یہ عبارت عمومی ہے امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔ تقویۃ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علمائے وہابیہ دیابنہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تفویۃُ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵)
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ لکھتا ہے کہ : اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں ۔ (تفویۃُ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳،چشتی)
معاذ اللہ عزوجل ۔ لہٰذا اس سے واضح ہو گیا کہ امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا ۔
تفویۃُ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1) ایک چھوٹی مخلوق (2) اور دوسری بڑی مخلوق ۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیا لیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے ۔ (تفویۃُ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ نمبر ۳۲۔چشتی)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتا ہے ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں ۔ (تفویۃُ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ نمبر ۵۹،چشتی)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویۃ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔ بڑی اور چھوٹی ۔ بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں ۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
تفویۃُ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد
دیوبندی وہابی علماء نے ’ تفویۃُ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ : تو اس سبب سے صاحب تقویۃ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء ﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جوچاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا ﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔ لہٰذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے ۔
ثناء اللہ امرتسری اور چھوٹی بڑی مخلوق
علماء اہلحدیث وہابیہ کے ثناء ﷲ امرتسری سے کسی نے پوچھا کہ ’’ کیا اس ہرمخلوق کے لفظ میں انبیاء کرام و اصحاب عظام و اولیاء ذی شان داخل ہیں یا نہیں ؟ اگر داخل ہیں تو اس سے اہانت انبیاء السلام و صالحین کرام ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟ ‘‘ تو ثناء ﷲ اہلحدیث نے جواب دیتے ہوئے لکھاکہ ’’ یعنی چمار بادشاہ کے سامنے بہت کم حییثت رکھتے ہیں تاہم انسان ہونے کی حیثیت سے بادشاہ کے برابر ہے لیکن انسان چھوٹے اور بڑے خدا کے ساتھ ہم کفوی کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ ولم یکن لہٗ کفوا احد ، اس کلام ہدایت التیام ، سے حضرات انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی توہین یا منقصت منظور نہیں بلکہ شان خدا ارفع بتانی مقصود ہے ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد اول صفحہ۲۹۲،چشتی)
نذیر حسین دہلوی اور چھوٹی بڑی مخلوق
علمائے وہابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب لکھتے ہیں : شریعت سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کالانعام کے عقیدے کی اصلاح ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اولیا اللہ جناب باری تعالی کے مختار کل ہیں ، جو چاہیں کرسکتے ہیں ، کسی کو ذلیل کریں،کسی کو عزت بخشیں ،۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے ہیں ، ان کے نام کا وظیفہ کرتے مثلا یا شیخ جیلانی شیئا للہ ، یا علی ، یا حسین ۔ (فتاوی نذیریہ ج ۱ ص۶۹)
بہرحال ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی کی عبارت میں انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی تخصیص ہے اور خود دیوبندی لکھتے ہیں کہ : یہ بات مسلم ہے کہ اگر انبیاء علیہم السّلام کا نام لے کر ذلت کو ان طرف منسوب کیا جائے تو یہ گستاخی ہے ۔ (ماہنامہ ضرب حق صفحہ نمبر ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱،چشتی)
لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ دہلوی کی عبارت گستاخانہ ہے ۔
اس کے دفاع میں دیابنہ اور وہابیہ نے جو آیت اور عبارتیں پیش کی ہیں ان سب کا سادہ سا مجموعی جواب یہ ہے کہ ان عبارات میں عموم ہے اور خود دیوبندیوں نے یہ تسلیم کیا کہ عموم میں انبیاء علیہم السّلام کو استثنا حاصل ہے ۔ بہرحال ان کا جواب حاضر ہے ۔
(1) بے شک تم اور جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن ہو ۔ (انبیا،۹۸) اس آیت کو اکثر مفسرین نے بتوں سے خاص کیا ہے ملاحظہ ہو فتح القدیر ۔
(2) لوگ اللہ کے سواجن کو پوجتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں ۔ (الملفوظ) یہاں معبودیت کو جھوٹا کہا گیا ہے ہم حضرت عیسی علیہ السّلام کو اللہ عزّ و جل سچا نبی مانتے ہیں معبود نہیں ۔
(3) اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
اورقد می ھذ اعلٰی رقبۃ کل ولی ﷲ
یہاں پر دیابنہ اور وہابیہ نے تفضیلہ والی جہالت کا مظاہرہ کیا ۔ ان کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ : شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے ۔ (تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴،چشتی)
لہٰذا یہاں انبیاء علیہم السّلام کا ذکر نہیں ۔
نوٹ : اس اعتراض کا تفصیلی جواب جلد ہم لکھیں گے ان شاء اللہ ۔
(4) فوائد الفواد کی پیش کی جانی والی عبارت میں عموم ہے جبکہ اسماعیل دہلوی کی عبارت میں انبیاء علیہم السّلام کی تخصیص ہے ۔
الزامی جوابات کا رد
پہلا اعتراض اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش حصہ دوم صفحہ 36 مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور)
دیوبندیوں اور وہابیوں نے اس شعر کو انتہائی باطل معنی پر محمول کیا ہے ۔ دراصل اس شعر میں لفظ "بعد " زبر کے ساتھ نہیں بلکہ پیش کے ساتھ ہےجس کا مطلب دوری ہوتا ہے ۔ تو مطلب ہو گا ذلت سے دور ۔
بالفرض اگر اس لفظ "بعد " کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو ہرگز خطاب معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے پچھلے مصرعہ میں "قلت و کثرت " کا ذکر ہے جس سے مراد اہل عرب ہیں ۔ تو اس شعر کا مطلب ہے کہ پہلے مسلمانوں کا گروہ کم تھا پھر کثیر ہو گیا ۔ اور اسلام سے پہلے اہل عرب ذلت و گمراہی میں تھے ۔ اللّہ عزّ و جل نے ان کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کر کے عزت و بلندی اور کثرت عطا فرمائی ۔
یہ شعر بخاری شریف کی اس حدیث پاک کی شرح ہے : اے گروہ عرب تم ذلت اور گمراہی کی جس حالت میں تھے وہ تمہیں معلوم ہے ۔ اللّہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذریعے نجات دلائی ۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الفتن۔ جلد 9۔ صفحہ نمبر 57 مطبوعہ دار طوق النجات،چشتی)
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔ تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ذلت منسوب نہیں کی ۔ بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔ یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے ۔ باقی پیر ںسیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں ۔ اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے ۔ (اس کا ہم تفصیلی جواب پوسٹ کر چکے ہیں)
بعض دیوبندیوں اور وہابیوں نے ہماری پوسٹوں کے کمنٹس میں صوفیائے کرام علیہم الرّحمہ کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا پڑھیئے وابیہ کے امام ابنِ تیمیہ کا فتوی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸)
باقی رہ گیا اوراقِ غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا مصنف علیہ الرّحمہ اس سے بری ہیں ۔ اور یہ (فازلھماالشیطن) سے اقتباس ہے لہٰذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے امید ہے تشفی ہوگی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment