Wednesday, 5 June 2024

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مومنوں کا ماموں کہنا

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مومنوں کا ماموں کہنا

محترم قارئین کرام : خال عربی لفظ ہے جس کے معنی ماموں کے ہوتے ہیں خال المومنین سے مراد "مومنوں کے ماموں" حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں اور قرآن مجید نے ازواج مطہرات کو امت کی مائیں فرمایا ہے : اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ ۔

ترجمہ : یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں ۔ (سورہ احزاب آیت نمبر 6)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ عنہن کو مومنوں کی مائیں  فرمایا گیا، لہٰذا اُمَّہاتُ المومنین رضی اللہ عنہن کا تعظیم و حرمت میں  اور ان سے نکاح ہمیشہ کےلیے حرام ہونے میں  وہی حکم ہے جو سگی ماں  کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں  جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں  کی وراثت میں  وہ بطورِ ماں  شریک نہ ہوں  گی ، نیز امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں  کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا ۔ (تفسیر بغوی سورہ الاحزاب تحت الآیۃ: ۶ جلد ۳ صفحہ ۴۳۷)


یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کےلیے ہے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح فرمایا، چاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد انہوں  نے وفات پائی ہو ۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں  ہیں اور ہر امتی کےلیے اس کی حقیقی ماں  سے بڑھ کر لائقِ تعظیم و واجبُ الاحترام ہیں ۔ (زرقانی علی المواہب المقصد الثانی الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔۔ الخ جلد ۴ صفحہ ۳۵۶-۳۵۷،چشتی)


اسی لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امت کی ماں کے بھائی یعنی امت کے ماموں کہلائے اس نسبت سے بہت سے ائمہ و محدثین علیہم الرحمہ نے ان کو "خال المومنین" لکھا ہے ۔ جب رافضیوں اور اُن کے ہمنوا تفضیلیوں نے حضرت امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کیں اور آپ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا اکابرینِ اسلام نے آپ رضی اللہ عنہ کی عزت و تکریم میں آپ رضی اللہ عنہ کو بلند ناموں سے ذکر کیا ان ناموں میں سے دو نام بہت مشہور ہوئے "خال المسلمین" اور "کاتب وحی" اور یہ دونوں نام آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس طرح مخصوص ہو گئے کہ جب بھی "کاتب وحی" یا "خال المسلمین" کہا جائے تو ذہن صرف امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہوتا ہے ، اور یہ بلکل اس طرح ہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں "کرم اللہ وجہہ" صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخصوص ہو گیا ہے ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ“ کہنے کی وجہ علماء نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ خوارج اپنی خباثت سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو سود اللہ وجہہ سے یاد کرتے تھے اسی واسطے اہل سنت نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کےلیے "کرم اللہ وجہہ" مقرر کیا ، جس طرح حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی "کرم اللہ وجہہ" کہنا جائز ہے لیکن کہا نہیں جاتا ہے ۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ عبد اللہ ابن عمر اور عبد الرحمان بن ابی بکر اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کو بھی خال المسلمین کہنا جائز تو ہے لیکن ان حضرات کو اس نام سے یاد نہیں کیا جاتا ہے ، مزید وضاحت کےلیے ایک اور مثال سمجھیے حضرت موسی علیہ السلام کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے اور یہ نام حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہو گیا ہے حالانکہ دیگر انبیاء علیہم السلام کو بھی اللہ تعالی سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ہے اور انہیں کلیم اللہ کہنا جائز ہے لیکن انہیں کلیم اللہ کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا ، اس طرح کی دیگر بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔


امہات المومنین رضی اللہ عنہن میں جہاں بہت ساری خصوصیات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی کہ یہ مومنین کےلیے اس طرح ماں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد بھی امت کے کسی فرد کےلیے ان میں سے کسی سے بھی نکاح جائز نہیں لیکن ان کے بھائی اس معنیٰ میں ماموں نہیں ہوں گے کہ امت کے کسی عورت سے نکاح حرام ہو اور وہ عورت ان کی بھانجی کہلائے کیونکہ یہ حکم امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ سیر اعلام النبلا میں ہے : وذهب العلماء في أمهات المؤمنين أن هذا حكم مختص بهن ولا يتعدى التحريم إلى بناتهن ولا إلى إخوتهن ولا أخواتهن ۔ (سير أعلام النبلاء جلد ١ صفحہ ٤٦٩)

ترجمہ : امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے بارے میں علما کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم (تحریم نکاح) انہیں کے ساتھ خاص ہے ، اور یہ تحریم نہ ان کی بیٹیوں کی طرف متعدی ہو گی اور نہ ہی ان کے بھائیوں اور بہنوں کی طرف ۔


رہی بات حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ماموں کہنا تو یہ بالکل جائز ہے بلکہ علما نے کہا ہے ۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر در منثور میں امام بیہقی اور ابن عساکر کے حوالے سےاس آیت مبارکہ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةًؕ-وَ اللّٰهُ قَدِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  کے تحت یہ فرمایا:وَأخرج عبد بن حميد وَابْن الْمُنْذر وَابْن عدي وَابْن مرْدَوَيْه وَالْبَيْهَقِيّ فِي الدَّلَائِل وَابْن عَسَاكِر من طَرِيق الْكَلْبِيّ عَن أبي صَالح عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {عَسى الله أَن يَجْعَل بَيْنكُم وَبَين الَّذين عاديتم مِنْهُم مَوَدَّة} قَالَ: كَانَت الْمَوَدَّة الَّتِي جعل الله بَينهم تَزْوِيج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أم حَبِيبَة بنت أبي سُفْيَان فَصَارَت أم الْمُؤمنِينَ وَصَارَ مُعَاوِيَة خَال الْمُؤمنِين ۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریم ”عَسَی اللهُ اَنْ یَجْعَلَ“ کی تفسیر میں فرمایا : جو محبت اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان پیدا فرمائی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانا ہے ۔ تو حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا مومنوں کی ماں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہوئے ۔ (سُورَة الممتحنة آيت نمبر ٧ الدر المنثور جلد ٨ صفحہ ١٣٠)(الخصائص الکبری جلد ۱ صفحہ ۳۸۳،چشتی)


هو معاوية بن أبي سفيان صخر بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي أبو عبد الرحمن القرشي الأموي، خال المؤمنين، وكاتب وحي رب العالمين، أسلم هو وأبوه وأمه هند بنت عتبة بن ربيعة بن عبد شمس يوم الفتح ۔

ترجمہ : معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب یہ ہے : معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی ۔ آپ قرشی اموی ہیں ، کنیت ابو عبد الرحمن ہے اور آپ مومنوں کے ماموں ہیں اور وحی الٰہی کے کاتب ہیں ۔ آپ اور آپ کے والد اور آپ کی والدہ ہند بن عتبہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ٢١ فضل معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه)


امام ابو يعلى رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاويہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں ایک عظیم کتاب لکھی جس کا نام ہے (تنزيه خال المؤمنين معاوية بن أبي سفيان من الظلم والفسق في مطالبته بدم أمير المؤمنين عثمان رضي الله عنهما) ، کتاب کےنام کا مطلب یہ ہے کہ (خال المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ کے خون کا مطالبہ کرنے کے حوالے سے ظلم اور فسق سے پاک ہیں) آپ اپنی اس کتاب کے اندر فرماتے ہیں : ويسمى إخوة أزواج رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أخوال المؤمنين ولسنا نريد بذلك أنهم أخوال في الحقيقة كأخوال الأمهات من النسب ، وإنما نريد أنهم في حكم الأخوال في بعض الأحكام ، وهو التعظيم لهم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے بھائیوں کو خال المؤمنین کہا جائے گا ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں (نسبی) ماموں ہیں جس طرح ماں کے بھائی نسبی اعتبار سے حقیقت میں ماموں ہوتے ہیں ہمارا ارادہ یہ ہے کہ وہ ماموں کی طرح ہیں بعض احکام میں ، وہ یہ کہ ان کےلیے تعظیم ہے ۔ (تنزيه خال المؤمنين معاوية بن أبي سفيان من الظلم والفسق في مطالبته بدم أمير المؤمنين عثمان رضي الله عنهما صفحہ 106)


امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان : قال المحدث الخلال رحمۃ اللہ علیہ "أخبرني محمد بن أبي هارون ومحمد بن أبي جعفر أن أبا الحارث حدثهم قال وجهنا رقعة إلى أبي عبد الله ما تقول رحمك الله فيمن قال لا أقول إن معاوية كاتب الوحي ولا أقول أنه خال المؤمنين فإنه أخذها بالسيف غصبا قال أبو عبد الله هذا قول سوء رديء يجانبون هؤلاء القوم ولا يجالسون ونبين أمرهم للناس ۔

ترجمہ : ابو حارث رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک رقعہ( چٹھی ) بھیجی اور پوچھا آپ کیا کہتےہیں؟ اس شخص کے بارے میں (آپ پر اللہ تعالی رحم کرے) جو کہتا ہے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو خال المومنین نہیں مانتا اور انہوں نے تلوار کے زور پر خلافت کو غصب کیا تھا ۔ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : یہ بہت ہی گندی سوچ ہے ایسی قوم سے بچا جائے اور ان کے ساتھ نہ بیٹھاجائے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کے معاملے کو لوگوں کے سامنے واضح کریں(کہ یہ لوگ گندی سوچ کے حامل انسان اور صحابہ کے گستاخ ہیں) ۔ (السنۃ للخلال الرقم:659 وإسناده صحيح قالہ المحقق،چشتی)


اخبرنا أبو بكر المروذي قال سمعت هارون بن عبد الله يقول لأبي عبد الله جاءني كتاب من الرقة أن قوما قالوا لا نقول معاوية خال المؤمنين فغضب وقال : ما اعتراضهم في هذا الموضع يجفون حتى يتوبوا ۔

ترجمہ : ابو عبداللہ (احمد بن حنبل ) رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رقہ ( علائقہ) سے خط آیا کہ بے شک ایک قوم نے کہاں ہے کہ ہم معاویہ کو خال المومنین نہیں کہیں گے ۔ تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو غصہ آگیا اور کہا ان کا اس جگہ اعتراض کیا ہے ؟ ان کے ساتھ سختی کی جائے یہاں تک کہ توبہ کریں ۔ (السنہ للخلال الرقم:658،قال المحقق، إسناده صحيح)


أخبرني أحمد بن محمد بن مطر و زكريا بن يحيى أن أبا طالب حدثهم أنه سأل أبا عبد الله أقول معاوية خال المؤمنين وابن عمر خال المؤمنين قال نعم معاوية أخو أم حبيبة بنت أبي سفيان زوج النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و رحمهما وابن عمر أخو حفصة زوج النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورحمهما قلت أقول معاوية خال المؤمنين قال نعم ۔

ترجمہ : ابو طالب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوعبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا میں معاویہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خال المؤمنین کہ سکتا ہوں ؟ تو احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جی ہاں ٫ کیوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلیہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلیہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔میں نے کہا : میں کہہ سکتا ہوں معاویہ خال المومنین ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ۔ (السنہ للخلال الرقم:657؛قال المحقق :إسناده صحيح)


امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  معاويه خال المؤمنين و كاتب وحي الله و احد خلفاء المسلمين. رضي الله تعالى عنه ۔

ترجمہ : (مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ) معاویہ رضی اللہ عنہ خال المؤمنین ، وحی الہی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک ہیں ۔ (لمعۃ الاعتقاد صفحہ 40،چشتی)


عن أبي طالب أنه سأل أبا عبد الله ، أحمد بن حنبل ، أقول : معاوية خال المؤمنين "و" ابن عمر خال المؤمنين ؟ قال : نعم ، معاوية أخو أم حبيبة بنت أبي سفيان زوج النبي صلى الله عليه وسلم ورحمهما ، وابن عمر أخو حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ورحمهما ، قلت : أقول معاوية خال المؤمنين ؟ قال : نعم ۔

ترجمہ : ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت معاویہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کو خال المؤمنین کہہ سکتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ، معاویہ ام حبیبہ بنت ابوسفیان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں ۔ (السنَّة للخلال ( 2 / 433 ) طبعة دار الراية)


لہذا دونوں حضرات کو خال المؤمنین کہنا درست ہے ۔ البتہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شرف و تعظیم و تکریم میں یہ لفظ خاص ہو گیا ہے ان کے ساتھ ، جیسے سیدنا حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرم اللہ وجہہ خاص ہے ۔


امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ، وحی الہی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے اللہ ان سب سے راضی ہو ۔ (لمعۃ الاعتقاد الہادی الی سبیل الرشاد صف ۳۳،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں لہٰذا مومنو کی ماں کے بھائی مومنو کے ماموں ہوئے اور کئی معتبر علماے کرام نے یہ بات صرف لکھی ہی نہیں ہے بلکہ اس پر اعتراض کرنے والوں کو منہ توڑ جواب بھی دیا ہے تفصیل ان کتب میں ملاحظہ فرماٸیں : (اسکات الکلاب العاویۃ بفضائک خال المؤمنین معاویہ، الفصل الرابع فی اقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم والتابعین ومن بعدھم فی فصل معاویۃ رضی اللہ عنہ، صفحہ نمبر75 و معاویہ بن ابی سفیان شخصیتہ وعصرہ الدولۃ السفیانۃ، ثالثا، ثناء العلماء علی معاویہ، صفحہ نمبر214)

الشریعہ، باب ذکر مصاھرۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم...... جلد5، صفحہ نمبر2448، رقم1930-

تفسیر ابن عباس، تحت تفسیر سورہ ممتحنہ، آیت نمبر7-

الثقات للعجلی، باب الحاء، صفحہ نمبر127، 128، رقم218-

البدء والتاریخ، ام حبیبۃ بنت ابی سفیان بن حرب، جلد5، صفحہ نمبر13-

ایضاً، صفحہ نمبر149-

الشریعہ، باب ذکر مصاھرۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم..... جلد5، صفحہ نمبر2431، 2448، رقم1930-

الاعتقاد، اعتقاد فی الصحابۃ، صفحہ نمبر43-

الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ اہل السنۃ، امھات المؤمنین الطاہرات وان معاویۃ بن ابی سفیان کاتب وحی اللہ....... ،جلد1، صفحہ نمبر248-

الاباطیل والمناکیر والصحاح والمشاھیر، باب فی فضائل طلحۃ والزبیر ومعاویۃ، صفحہ نمبر116، رقم191-

کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین الی منازل المتقین او الاربعین الطائیۃ، الحدیث التاسع والعشرون...... ، صفحہ نمبر174-

تاریخ دمشق، ذکر من اسمہ معاویۃ، جلد59، صفحہ نمبر55، رقم7510-

مثنوی مولوی معنوی، دفتر دوم، بیدار کردن ابلیس معاویہ راکہ بر خیز کہ وقت نماز بیگاہ شد، صفحہ نمبر63-

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ، الفصل الثالث، جلد4، صفحہ نمبر1557-

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب ذکر اللہ، جلد3، صفحہ نمبر320-

امیر معاویہ کے حالات، پہلا باب، صفحہ نمبر40-

لعمۃ الاعتقاد، صفحہ نمبر40-

مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، جلد2، صفحہ نمبر284-

البدایہ والنھایہ، جلد4، صفحہ نمبر163-

ایضاً، جلد8، صفحہ نمبر125-

اتعاظ الحنفاء باخبار الائمۃ الخ، جلد1، صفحہ نمبر131-

الصواعق المحرقہ، صفحہ نمبر355-

مرقاۃ للقاری، جلد8، صفحہ نمبر3258، رقم5203-

غذاء الالباب، جلد2، صفحہ نمبر457-

تحقیق الحق از پیر مہر علی، صفحہ نمبر159-

(من ھو معاویہ بحوالہ السنۃ، ذکر ابی عبدالرحمن معاویہ، جلد2، صفحہ نمبر434، رقم659-ایضاً، رقم658- ایضاً، صفحہ نمبر 433، رقم657- اسنادہ صحیح)


امام عِجلی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الثقات ہے اس میں فرماتے ہیں الحکم بن ہشام رحمۃ اللہ علیہ (جو دوسری صدی ہجری کے امام ہیں) سے پوچھا گیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو فرماتے ہیں وہ تو ہر مومن کے ماموں ہیں ۔ (معرفہ الثقات جز الاول صفحہ 314)


امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کسی نے پوچھا کہ کیا میں اِن کو "خال المومنین" کہہ سکتا ہوں تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جی ہاں کہہ سکتے ہیں ۔ (السنہ روایت نمبر 657 صفحہ 433)


امام آجری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الشریعہ میں باب فضائل معاویہ بن ابی سفیان کے تحت لکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ام حبیبہ ام المؤمنین بن گئیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خال المومنین بن گئے ۔ (کتاب الشریعہ جلد 5 صفحہ 2431،چشتی)


قاضی ابی یعلی الفراء رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "تنزیہ خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان" میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ظلم و فسق سے بری ہونا ثابت کیا ہے اور کتاب کے ٹائٹل میں ہی خال المومنین لکھا ۔ (تنزیہ خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان صفحہ 83)


امام ابو الحسین ابن ابی یعلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (کتاب الاعتقاد صفحہ 43)


قاضی ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب العوام من القواصم میں لکھتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (کتاب العوام من القواصم صفحہ 213)


محمد بن محمد بن علی ابو الفتوح طائی الھمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الأربعين في إرشاد السائرين إلى منازل المتقين میں لکھتے ہیں اس روایت کو کاتب وحی اور مومنوں کے ماموں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ۔ (كتاب الأربعين في إرشاد السائرين إلى منازل المتقين صفحہ 59،چشتی)


امام ابو محمد ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں اور کاتب وحی ہیں اور خلفائے راشدین میں سے ہیں ۔ (المعتہ الاعتقاد صفحہ 155)


امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں امت کے علماء میں سے ایک گروہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے خال المومنین کا لفظ بولا ہے تو بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ حرمت میں بلکہ صرف اور صرف سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہونے کی وجہ سے انہیں خال المومنین کہا جاتا ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن جلد 14 صفحہ 126)


امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا بڑا مقام و احترام ہے خصوصا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اور ان کے ہاں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا جو رشتہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے تھا اس وجہ ان کو خال المومنین کہا گیا ۔ (کتاب سیر اعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 479،چشتی)


علامہ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنھایہ میں لکھتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ہیں اور مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (کتاب البدایہ والنھایہ جلد 11 صفحہ 146)


امام ابن ملقن رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ہیں اور مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (التوضیح الجامع الصحیح جلد 3 صفحہ 343)


امام ابن حجر الھیتمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے تمام صحابہ محترم ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (الصواعق المحرقہ) 


امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے کہتے ہیں وہ مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (مرقاة مفاتیح شرح مشکاة المصابیح جلد 9 صفحہ 397)


امام ابو العوان محمد بن احمد بن سالم السفارینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کشف اللثام شرح عمدة الاحکام میں لکھتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہیں ۔ (کتاب کشف اللثام شرح عمدة الاحکام جلد 3 صفحہ 472)


امام محب الدین خطیب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب العوام من القواصم میں لکھتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جن کو جنت کی بشارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ملی وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جو مومنوں کے ماموں ہیں سے افضل ہیں ۔ (کتاب العوام من القواصم صفحہ 213،چشتی)

 

ابن عاشور اپنی تفسیر التحریر التنویر میں لکھتے ہیں کہ مومنین کے خلیفہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہونے کی وجہ سے خال المومنین کہا جاتا ہے ۔ (تفسیر التحریر التنویر صفحہ 268)


اعتراض : رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ خال المومنین قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے ؟ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی کا بھائی امت کا ماموں ہے ایسی کوئی بات قرآن و حدیث میں موجود نہیں یہ ایک جعلی فضیلت ہے ۔

جواب : کہ کیا ہر لقب کےلیے اس کا قرآن و حدیث میں ہونا ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو بتائیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو صدیقہ کہا جاتا ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کو "صدیقہ" کا لقب کہاں سے ملا ؟ ۔ کیا قرآن میں اس لقب کا ذکر ہے ؟ ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ عائشہ کو "صدیقہ" کہہ کر بلایا ؟ ۔ اور اگر معترضین یہ کہیں کہ امت نے کہا ہے اور محدثین نے کہا ہے تو خال المومنین بھی علمائے امت و محدثین ہی نے کہا ہے ۔

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فاروقِ اعظم کہا جاتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو "فاروقِ اعظم" کا لقب کس نے دیا ؟ ۔ کیا عمر رضی اللہ عنہ کےلیے "فاروقِ اعظم" قرآن و حدیث میں بولا گیا ؟ ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو "فاروقِ اعظم" کہہ کر بلایا ؟ ۔ یہاں بھی علمائے امت اور محدثین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو "فاروقِ اعظم" کہا ہے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو "ذوالنورین" کا لقب کس نے دیا ؟ ۔ کیا قرآن میں اس کا کہیں ذکر ہے ؟ ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عثمان کو "ذوالنورین" کہا ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو المرتضی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "المرتضی" کا لقب کس نے دیا ؟ ۔ کیا قرآن میں اس کا کہیں ذکر ہے ؟ ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "المرتضی" کہا ؟

لہٰذا اگر ائمہ اور محدثین اتفاقی طور پر کسی صحابی کےلیے کوٸی لقب منتخب کر لیں اور متقدمین میں سے اس کا کوئی انکار نا کرے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔

رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ خال المومنین صرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کیوں ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بھائی بھی تھے ۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جوکہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے تو انہیں امت کا ماموں کیوں نہیں کہا جاتا ؟ ۔ اگر اسی طرح خال المومنین کہا جائے تو امت کے 20 سے زیادہ ماموں بنتے ہیں ان 20 میں سے صرف ایک کو ماموں کہا جاتا ہے  ۔ اگر رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات کی یہی لاجک مان لی جائے تو پھر رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات یہاں اعتراض کیوں نہیں کرتے کہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی "صدیقہ" (صدیقہ سے مراد سچی) کیوں ہیں باقی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن صدیقہ کیوں نہیں ؟ ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروقِ اعظم (مراد حق و باطل میں فرق کرنے والا) ہیں تفضیلی حضرات یہاں بھی اعتراض کریں نا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت باقی تمام صحابہ بھی تو الفاروق ہیں صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی الفاروق کیوں ؟ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "المرتضی" کہا جاتا ہے تو یہاں بھی سوال بنتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی المرتضی کیوں ؟ ۔ باقی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تو المرتضی ہیں (المرتضی یعنی اللہ کے چنیدہ و پسندیدہ بندے) ۔ علمائے امت محدثین نے جس صحابی میں جو وصف زیادہ دیکھا اسی کو ان کا لقب کہہ دیا اس پر اعتراض کرنا جہالت ہے ۔ اور یہ بات بھی بلکل غلط ہے کہ صرف ایک (معاویہ رض) کو ہی ماموں کہا جاتا ہے بلکہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ جو پہلے 300 سال کے مسلمانوں میں سے ہیں جن کی گارنٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی خال المومنین کہتے ہیں ۔ امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کسی نے پوچھا کہ کیا میں اِن کو "خال المومنین" کہہ سکتا ہوں تو امام احمد رحمة اللہ علیہ نے فرمایا جی ہاں کہہ سکتے ہیں ۔ (السنہ روایت نمبر 657 صفحہ 433)

اور آخر میں اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خال المومنین کہنا ناصبیت ہے تو وہ تمام ائمہ و محدثین علیہم الحمہ ناصبی ہیں جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خال المومنین کہا ؟

دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہ کے بھائیوں کےلیے بھی یہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہےجیسا کہ سلف سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ الفاظ مروی ہیں ،جبکہ دیگر کےلیے بھی یہ الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔ باقی معترضین کا یہ کہنا کہ دیگر خال المومنین نہیں ہیں یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ بسا اوقات کوئی لقب کسی صحابی ضی اللہ عنہ کےلیے مشہور ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ وصف دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اندر موجود نہیں جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےلیے صدیق لقب مشہور ہو گیا ہے اب کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ کیا دیگر صحابہ صدیق نہیں تھے ؟ عمر ، عثمان ، علی رضی اللہ عنہم صدیق نہیں تھے ؟ ۔ قطعاً یہ اعتراض فضول ہے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی صدیق ہیں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کہنے سے دیگر صحابہ صدیق کے لقب سے خارج نہیں کیے جا سکتے ۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے خال المومنین کا لقب مشہور ہو چکا ہے جبکہ دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے بھائی بھی اسم لقب میں شامل اور داخل ہیں ۔

اعتراض : رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات کا یہ ایک اعتراض بھی ہے کہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خال المسلمین کا رشتہ ہے تو پھر ام المونین صفیہ رضی اللہ عنہا کے یہودی باپ حیی بن اخطب کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رشتہ ہوا ؟
جواب : عقیدت و احترام کے رشتوں کی بنیاد ایمان اور اسلام پر قائم ہوتی ہے کفر و شرک پر قائم نہیں ہوتی ، امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے جو رشتہ دار مسلمان ہیں ان کے ساتھ تو عقیدت کا رشتہ چلایا جاتا ہے لیکن جو رشتہ دار کافر  ہیں ان  سے نہیں چلایا جاتا ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسلمانوں کا باپ کہا ہے "ملة أبيكم ابراهيم" اور بلاشبہ عقیدت اور احترام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمارے آباء سے بھی بڑھ کر ہیں لیکن ان کے بت تراش چا آزر سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ، اب ہم رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات سوال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کے بھی چچا ہوئے پس جو رشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا آزر سے رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات اپنے لیے پسند فرمائیں گے وہی رشتہ حیی بن اخطب سے ہمیں بھی پسند ہو گا ، امید ہے کہ رافضی اور ان کے ہمنوا تفضیلی حضرات جلد جواب دینگے ۔

جنابِ من جب کسی شخصیت کے ساتھ مخصوص نام جڑ جائے جس سے صرف ان کی پہچان ہوتی ہو تو اس قسم کے ناموں میں علت مشترکہ تلاش نہیں کی جاتی ہے تاکہ وہ علت کسی دوسری شخصیت میں پائی جائے تو اسے بھی اس نام سے ذکر کیا جائے یہ نہ صرف عرف کے خلاف ہے بلکہ عقل بھی اسے درست قرار نہیں دیتی ، فقیر اس پر بہت سی مثالیں پیش کر سکتا ہے سرِ دست طوالت سے بچنے کےلیے صرف تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خرباق کو ذوالیدین (دو ہاتھوں والا) کا نام دیا ، عبد الرحمان بن صخر کو ابو ھریرۃ (بلیوں والا) اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ابو تراب (خاک والا) کا نام دیا ، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر دو ہاتھ والے کو ذوالیدین ، ہر بلیاں پالنے والے کو ابو ھریرۃ اور ہر خاک پر سونے والے کو ابو تراب کے ناموں سے یاد کیا جانا چاہیے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مختصر فضاٸل و مناقب : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے (ایمان والے) لوگ ہیں ، ان کے بعد دوسرے اور تیسرے زمانے کے لوگ سب سے بہترین ہیں ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 2652)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ میری امت کےلیے باعث امن ہیں ، جب یہ گذر جائے گیں تو امت میں وہ فتنے ظاہر ہو جائیں گے جن کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ (صحيح مسلم حدیث نمبر 2531)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود امت کےلیے باعث برکت ہے ، صحابہ کرام کی برکت سے امت کو کامیابی اور فتح نصیب ہوتی ہے (صحيح بخاری حدیث نمبر 3649)(صحيح مسلم حدیث نمبر 2532)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے (بحالت ایمان) مجھے دیکھا ہوگا ۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 3858)

قبیلہ قریش کے فضائل میں جتنی بھی احادیث مروی ہیں ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اس لیے کہ آپ کا تعلق بھی قبیلہ قریش سے تھا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : كُلُّ سَبَبٍ ونَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ القِيامَةِ إلّا سَبَبِي ونَسَبِي ۔
ترجمہ : قیامت کے دن ہر سببی اور نسبی تعلق منقطع ہو جائے گا مگر (ایمان و اسلام پر مشتمل) میرا سببی اور نسبی تعلق روز قیامت بھی برقرار رہے گا ۔ (المعجم الكبير للطبراني حدیث نمبر ١١٦٢١،چشتی)(السنن الكبرى للبيهقي حدیث نمبر ١٣٣٩٤)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سببی (سسرالی) اور نسبی (خاندانی) دونوں ہی تعلق تھے اور وہ قیامت کے دن بھی قائم رہیں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلے رحمت والی نبوت ہو گی ، اس کے بعد رحمت والی خلافت ہو گی ، پھر اس کے بعد رحمت والی بادشاہت ہو گی پھر رحمت والی امارت ہوگی ۔ (المعجم الکبير للطبرانی حدیث نمبر 11138،چشتی)(المعجم الاوسط حدیث نمبر 3270)

یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت والا قرار دیا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس جس میں ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے کے پاس آکر رکے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔ (صحيح مسلم حدیث نمبر 2701)

یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان شخصیات میں سے ہیں جن پر اللہ رب العالمین فخر کرتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا ، وَاهْدِ بِهِ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! معاویہ کو ہادی اور مھدی بنا دے یعنی خود بھی ہدایت یافتہ ہوں اور دوسروں کےلیے بھی ہدایت کا سبب بن جائیں ۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 3842،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جن کےلیے اللہ تعالی نے جنت کو واجب کر دیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا ۔
ترجمہ : میری امت کا وہ پہلا لشکر جو سمندری جہاد کرے گا ان کےلیے جنت واجب ہے ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 2924)

یہ جہاد جس کا ذکر اس حدیث میں ہے یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 6283، 2789، 7001)(صحیح مسلم حدیث نمبر 1912)

اور اس سمندری جہاد میں خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 2800)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے جو لوگ یہ سمندری جہاد کریں گے انہیں میں نے جنت میں بادشاہوں کی طرح ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 2877-2878)(صحیح مسلم حدیث نمبر 1912)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رمضان کے مہینے میں رات کے آخری حصہ میں جو قبولیت کا وقت ہوتا ہے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سحری کےلیے آواز لگاتے سنا اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے ان الفاظ میں دعا فرمائی : اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَالْكِتَابَ وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ ۔
ترجمہ : اے اللہ تو معاویہ کو (اپنی ) کتاب (قرآن ) کا علم اور حساب کا علم عطا فرما اور انہیں عذاب سے بچا ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 17152)(صحيح ابن خزيمة حدیث نمبر 1938)

یہ بات دلائل سے ثابت ہے کہ رات کے آخری پہر میں ، اور خصوصاً رمضان کے مہینے میں ایک عام مسلمان کی دعا بھی قبول کی جاتی ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں اس دعا کے کیا ہی کہنے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر عرض کی : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے (تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرما لیجیے) آپ نے جواب دیا : ہاں ۔ 1 میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے ، میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ 2 اور معاویہ (میرا بیٹا) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کاتب بنا دیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ 3 آپ مجھے کسی دستے کا امیر (بھی) مقرر فرمائیں تاکہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا ، اسی طرح کافروں کے خلاف بھی جنگ کروں ۔ آپ نے فرمایا : ہاں (صحيح مسلم حدیث نمبر 2501،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبر الامہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ : اُدْعُ لِيۡ مُعاوِيَةَ وَكَانَ يَكْتُبُ الۡوَحْيَ ۔
ترجمہ : آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو میرے پاس لے آؤ اور وہ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اللہ تعالی کی وحی لکھنے کا کام کرتے تھے ۔ (دلائل النبوة للبيهقی جلد 2 صفحہ 243)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کتنا بڑا مقام تھا اور آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بے انتہا اعتماد اور بھروسہ رکھتے تھے اور انہیں اتنا امانتدار سمجھتے تھے کہ کاتب وحی مقرر فرمایا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے سگے بھائی تھے ، مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر نسبتی یعنی سالے تھے اور خال المومنین یعنی تمام ایمان والوں کے ماموں ہیں ، امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: میں یہی کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی مؤمنوں کے ماموں ہیں ۔ (السنة جلد 2 صفحہ 433)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے لوگوں کو فتنے میں دیکھا تو ہمیشہ میری یہی خواہش رہی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دے ۔ (المنتقی من ڪتاب الطبقات لابی عروبه جلد 1 صفحہ 41)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر مبارک اور آپ کے بال مبارک کا سوال کیا تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے چادر مبارک بھی دی اور بال مبارک بھی پانی میں بھگو کر دیے جسے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اور برکت کی خاطر اپنے جسم پر بہانے لگے ۔ (تاريخ دمشق جلد 62 صفحہ 106،چشتی)

بصرہ میں کابس بن ربیع نام کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکلی مشابہت رکھتا تھا ، جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے بصرہ کے گورنر کو خط لکھ کر اس شخص کو اپنے پاس بلوایا ، جب وہ شخص آپ کے پاس پہنچا : فَلَمَّا دَخَلَ إِلىٰ مُعَاوِيَةَ نَزَلَ عَنۡ سَرِيۡرِهٖ وَمَشَيٰ إِلَيۡهِ حَتّىٰ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وأقْطَعَهُ المَرْغابَ ۔
ترجمہ : آپ اس کا استقبال کرنے کےلیے اپنے تخت سے نیچے اتر کر اس کی طرف چلے اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب علاقے میں جاگیر عطا فرمائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشابہت کی وجہ سے ۔ (کتاب المحبر لابن حبيب رحمه الله المتوفی 245ھ صفہ 46 ، 47 ، 62)(أنساب الأشراف للبلاذری جلد 11 صفحہ 32،چشتی)(تاريخ دمشق لابن عساكر جلد 50 صفحہ 4)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : میں نے (خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم) کے بعد حکومت کے لائق سب سے بہتر انسان حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پایا ہے ۔ (تاريخ دمشق جلد 22 صفحہ 161)(السنة للخلال صفحہ 677 مصنف عبدالرزاق)

یاد رہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے جو بھی اختلاف تھا وہ خلافت اور حکومت کی لالچ و حرص کےلیے نہیں تھا ۔

حضرت ابو مسلم الخولانی رحمة اللہ علیہ اپنے ساتھیوں سمیت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کی کہ کیا آپ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف اس لیے ہے کہ آپ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہتر و افضل اور خلافت کے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں ؟ جس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ایسی بات نہیں ہے بلکہ میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بہتر و افضل اور خلافت کا بھی زیادہ اہل اور حقدار سمجھتا ہوں ۔ لیکن تمہیں بھی علم ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مظلومانہ طور پر شہید کر دیا گیا ہے اور وہ میرے قریبی رشتے دار اور کزن تھے ۔ بس میرا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہی مطالبہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قصاص کےلیے میرے حوالے کیا جائے تاکہ میں اللہ کا حکم قصاص ان پر نافذ کر سکوں ۔ (تاريخ دمشق جلد 59 صفحہ 132)

بلکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو علمی مسائل معلوم کرنے کےلیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، جیسا کہ شام میں زنا کے الزام میں قتل کیے گئے شخص کے بارے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر مسئلہ معلوم کیا ۔ (الموطا لمالک جلد 2 صفحہ 737- 738 حدیث نمبر 1486،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے بارے میں سچ کہتے ہیں کیونکہ آپ خود فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3765)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر کچھ اعتراض کیے جن کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کافی و شافی جواب دیے ، جس پر حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ سے زور ہیں ! اور پھر وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کےلیے دعائیں کیا کرتے تھے کہ : اے اللہ ! تو معاویہ کی مغفرت فرما ۔ (تاريخ بغداد جلد 1 صفحہ 108- 109)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور خلفائے راشدین) کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر سخی ، حلیم یعنی بردبار کسی اور کو نہیں دیکھا ۔ (تاريخ دمشق جلد 59 صفحہ 173،چشتی)

مزید فرمایا کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر شان و شوکت والا کوئی نہیں دیکھا ۔ (تاريخ دمشق جلد 59 صفحہ 173)

شیعہ رافضی حضرات حضرت سیدنا امام حسن بن مولا علی رضی اللہ عنہما کو معصوم امام یعنی جن کا ہر عمل اور فیصلہ خطا سے محفوظ اور بالکل حق اور سچ قرار دیتے ہیں ، تو پھر یہ بتائیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی ، آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو کیا رافضی حضرات حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو بھی حق اور سچ تسلیم کرتے ہیں ؟

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق اور سچ کے مطابق فیصلہ کرنے والا نہیں دیکھا ۔ (تاريخ دمشق جلد 59 صفحہ 160- 161 وسنده حسن)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے تمہارے اس امام یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق نماز پڑھتے نہیں دیکھا ۔ (المعجم الصحابه للبغوی جلد 5 صفحہ 367 وسنده صحيح،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ، اتباعِ سنت ، خشیت اور تقوی کے کچھ واقعات کے دیکھیے : (صحيح بخاری: 587 ، 914 ،3468 ، 2003 ، 1730)(صحيح مسلم: 883 )(جامع ترمذی: 3653. 2382 ، 1580)(سنن ابوداؤد : 2759 )

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھر پور اعتماد کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی اور سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہم کے دور خلافت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتنے ہی سال شام کے علاقے میں حکمران اور گورنر رہے ۔

حضرت امام عبدالله بن مبارک رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زیادہ افضل ہیں یا امیر المومنین عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ؟
حضرت امام عبدالله بن مبارک رحمة اللہ علیہ نے حالت غصہ میں ارشاد فرمایا : وہ غبار جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ناک پر لگی عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے ہزار درجے بہتر ہے ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو وہ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نمازیں پڑھی ہیں( پھر عمر بن عبدالعزیز کا سیدنا معاویہ کے ساتھ موازنہ و مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے) ۔ (تاريخ دمشق جلد 59 صفحہ 211)(وفيات الأعيان لابن خلقان جلد 3 صفحہ 33)(الشريعه للآجری)

حضرت امام عبدالله بن مبارک رحمة اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام ہمارے لیے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ایک درپردہ امتحان اور آزمائش کی مانند ہے جو شخص بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف میلی آنکھ یعنی تنقیص والی بری نظر سے دیکھے گا تو وہ اس امتحان میں ناکام ہو جائے گا ، پھر وہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کا بھی مرتکب بن جائے گا ۔ (البداية والنهاية جلد  8 صفحہ 139)

اللہ عزوجل ہمیں جملہ صحابہ کرام ، ازاجِ مطہرات اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...