Thursday, 13 June 2024

سب گھر والوں کی طرف سے ایک بکری یا حصہ قربانی کر دینا کافی نہیں

سب گھر والوں کی طرف سے ایک بکری یا حصہ قربانی کر دینا کافی نہیں

محترم قارئینِ کرام : اگر ایک گھر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہو تو گھر کے ایک فرد (سربراہ) کا سب کی طرف سے ایک بکری یا ایک حصہ قربانی کر دینا کافی نہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : من وجد سعة ولم یضح فلایقربن مصلانا ۔ (مسند احمد رقم الحدیث 8273)

ترجمہ : جو شخص قربانی کی وسعت رکھے (صاحب نصاب ہو) اور قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔


اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ہر استطاعت رکھنے والے (صاحب نصاب) پر ضروری ہے لہٰذا ایک کی قربانی دوسرے کی طرف سے کافی نہ ہو گی ۔جیسا کہ ایک کی فرض نماز ، حج ، روزہ وغیرہ دوسرے کی طرف سے کافی نہیں اس سلسلے میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی جو حدیث بیان کی جاتی ہے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان سب افراد پر قربانی واجب تھی یا نہیں تھی ۔ ممکن ہے کہ ان پر قربانی واجب ہی نہیں تھی اور ایسی صورت میں ایک فرد ایک قربانی گھر کے سب افراد کی طرف سے کرے تو یہ جائز ہے ۔ لہٰذا ایک محتمل حدیث کو لے کر ایک واضح حدیث پر عمل چھوڑنا خلاف احتیاط ہے ۔ ایک سے زیادہ افراد پر قربانی واجب ہونے کی صورت میں ان سب کی طرف سے صرف ایک بکری یا صرف ایک حصے کی قربانی کرنا درست نہیں ، بلکہ ان سب پر لازم ہو گا کہ الگ الگ بکری یا بڑے جانور میں الگ الگ حصے کی قربانی کریں ، کیونکہ بکرے یا بکری کی قربانی میں ایک سے زیادہ حصے نہیں ہو سکتے ، لہٰذا ایک قربانی کسی ایک طے شدہ فردہی کی طرف سے کی جا سکتی ہے ، اسی طرح بڑے جانور میں سے ایک حصے کی قربانی بھی صرف ایک شخص ہی کی طرف سے کی جا سکتی ہے ، ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے نہیں کی جا سکتی ۔ لہٰذا ایک گھر یا ایک خاندان کے مختلف افراد پر واجب ہونے کے باوجود اگر ان  سب کی طرف سے صرف ایک قربانی یا صرف ایک حصے کی قربانی کی جائے گی ، تو کسی کی بھی قربانی ادا نہیں ہو گی ۔


حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کان الرجل یکون محتاجا فیذبح الشاۃ الواحدۃ یُضحّی بھا عن نفسہ فیاکل و یطعم اھلہ ، فاما شاۃ واحدۃ تذبح عن اثنین او ثلثۃ اضحیۃ فھذہ لا یجزئ و لا یجوز شاۃ الا عن واحد و ھو قول ابی حنیفۃ و العامۃ من فقھائنا ۔

ترجمہ : ایک شخص مالکِ نصاب نہیں ہوتا تھا ، تو وہ ایک بکری ذبح کرتا جس کی قربانی وہ اپنی طرف سے کرتا تھا ، تو وہ خود بھی کھاتا اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا تھا۔ بہرحال ایک بکری جو واجب قربانی کے طور پر دو یا تین افراد کی طرف سے ذبح کی جائے تو یہ کافی نہیں ہے ، ایک بکری ایک ہی شخص کی طرف سے جائز ہے اور یہ امامِ اعظم اور ہمارے جمہور فقہا رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے ۔ (المؤطا للامام محمد صفحہ282 مطبوعہ کراچی،چشتی)


ایک قربانی سب گھر والوں کی طرف سے جائز نہیں ہے ۔ حضرت شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک حدیث یہ بھی مروی ہے کہ ایک بکری سب گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے ، مگر اس کا حکم بھی وہی ہے جو بیان کیا گیا کہ یہ بھی منسوخ ہے ۔ (اشعۃ اللمعات مترجم جلد 2 صفحہ 693 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)


ایک بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے ہو سکتی ہے کے قاٸلین دو احادیثِ مبارکہ سے استدلال کیا کرتے : ⏬


(1) : عطا بن یسار علیہ الرحمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں ؟ انہوں نے فرمایا : ایک آدمی اپنی طرف سے اور گھروالوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا ، پس وہ اس کو کھاتے تھے ، اور دوسروں کو کھلاتے تھے ، یہاں تک کہ لوگوں میں مُفاخرت شروع ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ صورتِ حال ہوگئی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔


(2) : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا : اللہم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد ۔ 

ترجمہ : اے اللہ ! تو اس قربانی کو میری طرف سے اور آل محمد (میرے گھر والوں) کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما ۔


اِن دو حدیثوں کو بنیاد بناکر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک بکری کی قربانی پوری فیملی کی طرف سے درست ہے ۔ جب کہ مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ استدلال صحیح و درست نہیں ہے ، کیوں کہ حدیث اول میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا قول : کان الرجل في عہد النبي یضحي بالشاة عنہ وعن أہل بیتہ ۔ ایک آدمی عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی طرف سے ، اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا ۔ یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے ، اِجزاء و اِسقاطِ واجب پر نہیں ۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربانی فرمایا ، اس لیے اب امت کی طرف سے قربانی ساقط ہو گئی ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ میں اِس قربانی کے ثواب میں ساری امت کو شریک کرتا ہوں ، اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایتِ مذکورہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مال وزر کی کثرت نہیں تھی ، بعض اوقات گھر کے اندر ایک ہی شخص کے ذمے قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگ چوں کہ صاحبِ نصاب نہیں ہوتے تھے، اس لیے اُن کے ذمے قربانی واجب نہیں ہوتی تھی ، لیکن قربانی کرنے والا اپنی واجب قربانی کے ثواب میں گھر کے تمام افراد کو شریک کرلیا کرتا تھا ، جسے شرکت فی الثواب تو کہا جاسکتا ہے ، شرکت فی الواجب نہیں ۔ اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں کہ جس شخص پر قربانی واجب ہوتی تھی ، وہ اپنی اس واجب قربانی کے ثواب میں گھر کے تمام افراد کو شامل کرلیا کرتا تھا ، یہاں تک کہ لوگوں نے مفاخرت شروع کر دی ، اور مفاخرت کے طور پر اُن افراد کی طرف سے بھی قربانی شروع کر دی ، جن کے ذمہ قربانی واجب نہیں تھی ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی مفاخرت پر  نکیر فرمارہے ہیں ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اس طرح مفاخرت کے طور پر قربانی کرنے کا رَواج نہیں تھا ، جیسا کہ آج رائج ہے ، یہ مراد ہرگز نہیں کہ جب گھر کا سربراہ یا ایک فرد ، جس پر قربانی واجب ہے ، وہ اپنی طرف سے قربانی کر دے ، تو گھر کے اُن تمام افراد کی طرف سے بھی قربانی ساقط ہو گی جن پر قربانی واجب ہے ۔


اسی طرح حدیثِ ثانی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا : اللّٰہم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد “ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری طرف سے اور آل محمد (میرے گھر والوں) کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما ۔ یہ حدیث اور اِس جیسی دیگر حدیثوں کا صحیح محمل و مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آل محمد اور پوری امت کو صرف ثواب میں شریک فرمایا ہے ، اداء واجب میں نہیں ، جیسا کہ فتح الودود علی ہامش أبی داود کی عبارت سے واضح ہوتا ہے : یحمل الحدیث علی الاشتراک في الثواب والأجر بحیث لا ینقص بہ أجر المضحي ، قیل : وہو الأوجہ في الحدیث عند الکل ۔ (فتح الودود علی ہامش أبی داود صفحہ ۳۸۸، حاشیہ نمبر ۷)


اسی طرح علامہ رملی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک بکری صرف ایک شخص کی  طرف سے کافی ہوگی، رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان : اللہم ہذا عن محمد وأمة محمد “ تو یہ نفسِ ثواب میں شرکت پر محمول ہے ، واجب قربانی کی ادائیگی میں نہیں ۔ ”والشاة عن واحد فقط ……وأما خبر: اللہم ہذا عن محمد وأمة محمد فمحمول علی أن المراد التشریک في الثواب لا في الأضحیة ۔ (تکملة فتح الملہم جلد ۳ صفحہ ۵۶۴)


امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی قربانی میں امت کو شریک کرنا اگرثواب میں شریک

کرنے پر محمول ہے ، تو اس پر کوئی اشکال نہیں ، اور اگر حقیقت (واجب قربانی میں شریک کرنے) پر محمول ہے ، تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ ”ثم المشارکة أما محمولة علی الثواب، وأما علی الحقیقة فیکون من خصوصیة ذلک الجناب ۔ (مرقاة شرح مشکوة جلد ۳ صفحہ ۵۶۸،چشتی)

نیز امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی ذاتِ شریفہ کی طرف سے کی ، اور دوسری قربانی اپنی امت کے اُن لوگوں کی طرف سے فرمائی ، جو قربانی نہیں کرسکتے تھے ۔ ”والأظہر أن یکون أحدہما عن ذاتہ الشریفة، والثاني عن أمتہ الضعیفة ۔ (مرقاة شرح مشکوة جلد ۳ صفحہ ۳۶۹)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث مختصر ہے ، پوری روایت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مینڈھے قربان کیے تھے ، ایک اپنی طرف سے واجب قربانی کی تھی ، اور دوسری نفل قربانی کی تھی ، جس میں اپنے آل اور امت کو بھی حصولِ ثواب میں شریک کیا تھا، اور نفل قربانی میں کئی افراد کو حصولِ ثواب میں شریک کرنا جائز ہے ۔ امام ملا علی قاری رحمہ اللہ کے مذکورہ قول : والأظہر أن یکون أحدہما عن ذاتہ الشریفة، والثاني عن أمتہ الضعیفة “ سے ہوتی ہے ۔ عقل و قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک بکرا یا بکری کی واجب قربانی میں کئی لوگوں کا شریک ہونا ، جائز ودرست نہ ہو، کیوں کہ اگر ایک بکرا یا بکری میں کئی لوگوں کاشریک ہونا جائز ہوگا، تو ایک بڑے جانور میں سات سے زائد لوگوں کا شریک ہونا بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا ، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شریعت نے بڑے جانور میں سات لوگوں کی شرکت کی جو تحدید کی ، وہ باطل ہو گی ، اس لیے حق اور صحیح بات یہی ہے کہ ایک بکرا ، بکری ، دنبہ دنبی اور بھیڑ ایک ہی شخص کی طرف سے کافی ہو گی ، پورے اہلِ خانہ کی طرف سے نہیں ، اور امام نووی رحمة اللہ علیہ نے اسی پر اجماع بھی نقل فرمایا ہے ۔ وأجمعوا علی أن الشاة لا یجوز الاشتراک فیہا ۔ (نووی شرح مسلم جلد ۱ صفحہ ۴۲۴،چشتی)


ایک بکری کی قربانی ایک شخص ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے ۔ مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ میں ہے : الغنم الواحد لا یکفی عن اثنین فصاعدا ۔

ترجمہ : دو اور دو سے زیادہ افراد کی طرف سے ایک بکری کفایت نہیں کرتی ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 3 صفحہ561 مطبوعہ ملتان)


بنایہ شرحِ ہدایہ میں ہے : و اعلم ان الشاۃ لا تجزئ الا عن واحد  و قد روی عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ قال الشاۃ عن واحد ۔

ترجمہ : اور جان لو کہ ایک بکری صرف ایک شخص ہی کی طرف سے کافی ہو گی اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایک بکری ایک ہی کی طرف سے (جائز) ہے ۔ (البنایۃ مع الھدایۃ جلد 14 صفحہ353 مطبوعہ ملتان،چشتی)


بڑے جانور میں کل سات حصے کیے جا سکتے ہیں ، جن میں سے ہر حصہ ایک شخص ہی کی طرف سے قربان کیا جائے گا ، اگر ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے قربان کیا جائے ، تو ان کی شرکت ایک سے کم حصے میں ہو گی جو کہ ناجائز ہے ، لہٰذا کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہو گی ۔ چنانچہ تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے : (تجب شاۃ او سبع بدنۃ) ھی الابل و البقر  و لو لاحدھم اقل من سبع لم یجز عن واحد ۔

ترجمہ : ایک بکری یا بدنہ یعنی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے اور اگر شرکا میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو ، تو قربانی کسی ایک کی طرف سے بھی جائز نہیں ہو گی ۔ (تنویر الابصار و الدر المختار جلد 9 صفحہ 521۔525 مطبوعہ ملتان)


خلاصۃ الفتاوی میں ہے : لو کانت الشرکاء فی البدنۃ او البقرہ ثمانیۃ لم یجزھم ، و لو کانوا اقل من ثمانیۃ الا ان نصیب واحد منھم اقل من السبع لا یجوز ۔

ترجمہ : اگر اونٹ یا گائے میں آٹھ لوگ شریک ہوں ، تو یہ جائز نہیں ہو گا ، اور اگر وہ آٹھ سے کم ہوں لیکن ان میں سے کسی ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو ، تو بھی جائز نہیں ہو گا ۔ (خلاصۃ الفتاوی جلد 4 صفحہ 315 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)


حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں ہر صاحبِ استطاعت کی طرف سے قربانی دینا لازم ہے۔حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : من کان لہ سعۃ فلم یضحَّ فلا یقر بن مصلا نا ابن ماجہ جلد ۲ حدیث نمبر ۱۰۴۴ طبع حلبی)


اور ہدایہ کتاب الاضحیۃ میں ہے : قال الاضحیۃ واجبۃ علی کل حر مسلم مقیم موسر فی یوم الاضحی عن نفسہ ۔

ترجمہ : اگر ایک گھر میں ایک سے زائد ، سوال میں مذکور افراد صاحبِ استطاعت ہوں تو ہر ایک کی طرف سے قربانی دینا ہو گا ۔ ایک قربانی سب کی طرف سے درست نہیں ۔ جب سب ائمہ کا اتفاق اس بات پر ہے کہ بڑا جانور سات افراد سے زائد کےلیے کافی نہیں تو چھوٹا ایک جانور پورے گھر والوں کی طرف سے کیسے کافی ہوگا ؟ حدیث شریف میں جو ذکر ہے وہ نفل قربانی سے متعلق ہے ۔


شرعًا ایک صاحب نصاب فرد کی طرف سے ایک بکرا ، بکری ، بھیڑ دینا ہے اور بڑے جانوروں (بیل ، بھینس ، کھلگا ، اونٹ) میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں ، اس سے زائد نہیں ۔ ہدایہ کتاب الاضحیۃ میں ہے : ویذبح عن کل واحد منھم شاۃ اویذبح بقرۃ اوبدنۃ عن سبعۃ وتجوز عن خمسۃ اوستۃ او ثلاثۃ ولا تجوزعن ثمانیۃ ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الجزء الخامس صفحہ ۸۲)


حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ایک قربانی نہ سب کی طرف سے ہو سکتی ہے ، نہ سوا مالکِ نصاب کے کسی اور پر واجب ہے ، اگر اس کی بالغ اولاد میں کوئی خود صاحبِ نصاب ہو ، تو وہ اپنی قربانی جدا کرے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 20 صفحہ 369 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)


سنن ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں یہ کلمات بهی ہیں : اللھم منک ولک عن محمد و امتہ بسم اللہ واللہ اکبر ۔

ترجمہ : اے اللہ (عزوجل) یہ تیرے لیے ہی ہے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امت کی طرف سے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الضحایا باب مایستحب من الضحایا : سنن ابن ماجہ ابواب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی  سے مروی ایک حدیث پاک میں یہ کلمات ہیں : بسم اللہ واللہ اکبر هذا عنی وعمن لم یضح عن امتی ۔

ترجمہ : اے اللہ (عزوجل ) یہ میری طرف سے ہےاور میری امت میں سے اس کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کر سکے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الضحایا باب فی الشاتہ یضحی بہا عن جماعتہ،چشتی)


حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بهی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کر سکے ان کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی ۔ یہ شبہ کہ ایک مینڈها ان سب کی طرف سے کیونکر ہو سکتا ہے یا جو لوگ ابهی پیدا ہی نہ ہوئے ان کی قربانی کیونکر ہوئی اس جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خصائص سے ہے ۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ  مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلیے جائز فرمادی اوروں کےلیے اس کی ممانعت کردی ۔ (صحیح بخاری کتاب العیدین، باب کلام الامام والناس فی الخطبہ : صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب وقتها)اسی طرح اس میں خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 15)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان : من وجد سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا “ جو شخص قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ نہ آئے ۔ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت پر مستقل قربانی واجب ہے ، ایک بکرا یا بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو کوئی شخص بھی اس وعید کا مصداق نہ بنتا ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان میں موجود ہے ، کیوں کہ اس صورت میں ایک بکرا ، بکری میں سو اور دو سو سے زائد لوگ بھی شریک ہو سکتے تھے ، اور یہ ہر کسی کے بس میں ہوتا ، کوئی بھی اس سے عاجز نہ ہوتا ۔ لہٰذا امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ اس طرح کی گمراہ کن اور کارِخیر سے دُور کرنے والی ویڈیوز اور پوسٹوں پر توجہ نہ دیں ، اور ہر وہ شخص جس پر قربانی واجب ہے ، وہ بطیبِ خاطر قربانی کرے ، واجب قربانی سے انحراف ، اعراض اور فرار کی راہ تلاش نہ کرے ، کہ اسی میں اُس کی دنیا وآخرت کی کامیابی وفلاح ہے ، اور یہی ایک مومن کی صفت بھی ہے کہ وہ نیک کاموں میں دوسروں پر سبقت کی کوشش کرتا ہے ۔ اللہ عزوجل جملہ فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...