میں کب وفات پاؤں گا ؟ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے ہیں
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت فضالہ بن ابی فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت مولا علی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام ”ینبع” میں بہت سخت بیمار ہوگئے تو میں اپنے والد کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیئے گیا ۔ دوران گفتگو میرے والد نے عرض کیا : اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ اس وقت ایسی جگہ علالت کی حالت میں مقیم ہیں اگراس جگہ آپ کی وفات ہوگئی توقبیلہ ”جہینہ” کے گنواروں کے سوا اور کون آپ کی تجہیز و تکفین کریگا ؟ اس لئے میری گزارش ہے کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے چلیں کیونکہ وہاں اگر یہ حادثہ رونما ہوا تو وہاں آپ کے جاں نثار مہاجرین وانصاراور دوسرے مقدس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی نمازجنازہ پڑھیں گے اوریہ مقدس ہستیاں آپ کے کفن ودفن کا انتظام کریں گی ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اے ابوفضالہ رضی اللہ عنہ تم اطمینان رکھو کہ میں اپنی بیماری میں ہرگز ہرگز وفات نہیں پاؤں گا ۔ سن لو اس وقت تک ہر گز ہرگز میری موت نہیں آسکتی جب تک کہ مجھے تلوار مار کرمیری پیشانی اورداڑھی کو خون سے رنگین نہ کردیا جائے ۔ (ازالۃ الخفاء،مقصد۲،ص۲۷۳،چشتی)
چنانچہ ایسا ہی ہواکہ بدبخت عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس پیشانی پر تلوار چلادی ، جو آپ کی پیشانی کو کاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی ۔ اس وقت آپکی زبان مبارک سے یہ جملہ ادا ہوا : فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ (یعنی کعبہ کے رب کی قسم! کہ میں کامیاب ہوگیا) اس زخم میں آپ شہادت کے شرف سے سرفراز ہوگئے اور آپ نے حضرت ابوفضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقام ینبع میں جو فرمایا تھا وہ حرف بحرف صحیح ہوکررہا ۔ اسی خارجی کی نسل آج بھی مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھتی اور علوم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انکار کرتی ہے جب علم مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ شان ہے تو مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم کی کیا شان ہوگی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment