انگریزوں کے ایجنٹ دیوبندی کہتے تھے انگریز کی صفوں میں خضر علیہ السلام موجود ہیں
دیوبندی لکھتے ہیں : انگريزوں كے مقابلے ميں جو لوگ لڑ رهے تهے ان ميں حضرت مولانا شاه فيصل ارحمن گنج مراد آبادى رحمۃ الله بهى تهے اچانك ايك دن مولانا كو ديكها گيا كہ خود بهاگے جا رہے تهے اور كسى چودهرى كا نام لے كر جو باغيوں كى فوج كى افسرى كر رهے تهے كہتے جاتے تهے كہ لڑنے كا كيا فائده, خضر كو تو ميں انگريزوں كى صف ميں پا رہا ہوں - نواب صاحب دوسرے واقع كا ذكر بهى فرماتے تهے كہ غدر كے بعد جب گنج مراد آباد كى ويران مسجد ميں حضرت مولانا جا كر مقيم ہوئے تو اتفاقاً اسى راستہ سے جس كے كنارے مسجد ہے كسى وجہ سے انگريزى فوج گذر رہى تهى , مولٰنا مسجد سے ديكھ رہے تهے اچانك مسجد كى سيڑهيوں سے اتر كرديكها گيا كہ انگريزى فوج كے ايك سايئس سى جو باگ دوڑ كهونٹے وغيره گهوڑے كا لئے ہوئے تها اس سے باتيں كر كے مسجد واپس آ گئے , اب ياد نہيں رہا كہ پوچهنے پر خود بخود فرمانے لگے كہ سايئس جس سے ميں نے گفتگو كى يہ خضر عليہ السلام تهے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔ ( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
یہاں تک تو روایت تھی اب اس روایت کی توثیق و تشریح ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں باقی خود خضر کا مطلب کیا ہے ؟ نصرت حق کی مثالی شکل تھی جو اس نام سے ظاہر ہوئی تفصیل کے لیے شاہ ولی اللہ وغیرہ کی کتابیں پڑھیے گویا جو کچھ دعکھا جارہا تھا اسی کے باطنی پہلو کا یہ مکاشفہ تھا ۔
( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)
بات ختم ہوگئی لیکن یہ سوال سر پر چڑھ کے آواز دے رہا ہے کہ جب حضرت خضر کی صورت میں نصرت حق انگریزی فوج کے ساتھ تھی تو ان باغیوں کیلئے کیا حکم ہے جو حضرت خضر کے مقابلے میں لڑنے آئے تھے ؟ کیا اب بھی انہیں غازی اور مجاہد کہا جاسکتا ہے اپنے موضوع سے ہٹ کر ہم بہت دور نکل آئے لیکن آپ کی نگاہ پر بار نہ ہو تو اس بحث کے خاتمے پر اکابر دیوبند کی ایک دلچسپ دستاویز اور ملاحظہ ہو :
خط لکھتے لکھتے شوق نے دفتر کئے رواں
افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات
دیوبندی حلقے کے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں انگریزی حکومت کے ساتھ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی تصویر کھنچتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں آپ سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بیکانہ ہوگا اور اگر مارا بھی آگیا تو سرکار مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے ۔ (تذکرۃ الرشید ج 1 ص 80 ادارہ اسلامیات لاہور )
کچھ سمجھے آپ ؟
کس الزام کو یہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے علم جہاد بلند کیا تھا میں کہتا ہوں کہ گنگوہی صاحب کی یہ پر خلوص صفائی کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کم از کم ان کے معتقدین کو تو ضرور ماننا چاہیے لیکن غضب خداکا کہ اتنی شد و مد کے ساتھ صفائی کے باوجود بھی ان کے ماننے والے یہ الزام ان پر آج تک دھرا رہے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو اور سرکار مالک ہے سرکار کو اختیار ہے یہ جملے اسی کی زبان سے نکلتے ہیں جو تن سے لیکر من تک پوری طرح کسی کے جذبہ غلامی میں بھیگ چکا ہو ۔
آہ دلوں کی بد بختی اور روحوں کی شقاوت کا حال بھی کتنا عبرت انگیز ہوتا ہے سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ خدا کے باغیوں کے لیے جذبہ عقیدت کا اعتراف یہ کہ وہ مالک بھی ہیں اور مختیار بھی : لیکن احمد مجتبٰی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ان حضرت کے عقیدے کی زبان یہ ہے جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار ( مالک ) نہیں ۔ ( تقویۃ الایمان ص 70 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
بے شک یہ بتانے کا حق مخلوق ہی کو ہے کہ اس کا مالک کون ہے کون نہیں جو مالک تھا اس کے لیے اعتراف کی زبان کھلنی تھی اور جو مالک نہیں تھا اس کا انکار ضروری تھا ہوگیا ۔ اب یہ بحث بالکل عبث ہے کہ کس کا مقدر کس مالک کے ساتھ وابستہ ہو یہاں پہنچ کے ہمیں کچھ نہیں کہنا تھا تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے ہیں مادی منفحت کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ دلوں کی اقلیم پر کس بادشاہ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یا تاج برطانی کا ؟ بات چلی تھی گھر کے مکاشفہ سے اور گھر ہی کی دستاویز پر ختم ہوگئی ۔ یہ ہیں انگریز کے اصل خیر خواہ دیوبندی پہچانیے انہیں آج فضل الرحمٰن کیوں کہتا ہے جشن آزادی نہیں منایں گی اصل وجہ کو پہچانیے ان لوگوں نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ۔
No comments:
Post a Comment