Tuesday, 23 January 2018

اقامتِ نماز کے وقت کب کھڑے ہوں

اقامتِ نماز کے وقت کب کھڑے ہوں
محترم قارئینِ کرام : احناف کے نزدیک اس بارے میں حکم یہ ہے کہ امام و مقتدی جب مسجد میں موجود ہوں تو اس صورت میں امام و مقتدی سب حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑے ہوں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا سنّتِ مستحبہ اور اسے صرف سنّت ہی کہہ لیا جائے توبھی کچھ حرج نہیں اور یوں بھی ٹھیک ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ پر کھڑا ہونا شروع کریں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر مکمل کھڑے ہو جائیں ۔

حضرت عبد اللہ بن ابی قتادۃ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ اپنے والد گرامی حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اذا اقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی ترونی ۔
ترجمہ : جب اقامت کہی جائے تو اس وقت تک نہ اٹھو جب تک تم مجھے نہ دیکھ لو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۳۶، ۸۳۶، ۹۰۹، صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۹۳۱،چشتی)(سنن ابی داود حدیث نمبر ۹۳۵)(جامع ترمذی حدیث نمبر ۲۹۵)(سنن النسائی حدیث نمبر ۷۸۶)(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۰۴۶۲۲، ۹۴۶۲۲، ۶۶۶۲۲، ۵۷۶۲۲، ۲۰۷۲۲)

بخاری و مسلم کی یہ صحیح حدیث اعلان کر رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے ۔

عملِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : ⏬

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کان اذا قال بلال: قد قامت الصلاۃ نھض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فکبر ۔
ترجمہ : جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ”قد قامت الصلاۃ“ کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اٹھتے ، پھر ”اللہ اکبر“ کہتے ۔ (مسند البزار حدیث نمبر ۱۷۳۳،چشتی)(السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر ۰۹۳۲)

خلیفہ راشد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ان عثمان کان اذا سمع المؤذن قال قد قامت الصلاۃ، قال: مرحبا بالقائلین عدلا وبالصلاۃ مرحبا واھلا، ثم ینھض الی الصلاۃ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جب مؤذن کو ”قد قامت الصلاۃ“ کہتے سنتے تو کہتے: حق کہنے والوں کو مرحبا، نماز کو مرحبا وخوش آمدید، پھرنماز کے لیے اٹھ کر کھڑے ہوتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۱۸۳۲، ۲۹۳۰۲)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل : ⏬

حضرت ابو یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رأیت انس بن مالک اذا قیل: قد قامت الصلاۃ وثب فقام ۔
ترجمہ : میں نے حضرت انس بن مالک ص کو دیکھا کہ جب ”قد قامت الصلاۃ“ کہا جاتا تو فورا اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ۔ (الاوسط لابن المنذر حدیث نمبر ۲۲۹۱)

امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد رحمہم اللہ علیہم کا نظریہ
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اذا کان الامام معھم فی المسجد فانی احب لھم ان یقوموا فی الصف اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : جب امام جماعت کے ساتھ مسجد میں موجود ہو تو میرے نزدیک محبوب یہ ہے کہ جب مؤذن ”حی علی الفلاح“ کہے تو سب لوگ صف میں کھڑے ہو جائیں ۔ (المبسوط للشیبانی ج۱ص۸۱،چشتی)

محیطِ برھانی اور اس کے علاوہ کئی ایک معتبر کتابوں میں امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ علیہم کا یہی نظریہ ذکر فرمایا اور اسی کو صحیح قرار دیا ۔ یہ مبارک احادیث اور پاکیزہ جملے ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اقامت شروع ہوتے ہی اٹھ کر کھڑے نہ ہو جائیں ۔ بلکہ ”حی علی الفلاح“ پہ اٹھنے کی ابتداء کریں اور ”قد قامت الصلاۃ“ تک بالکل سیدھے کھڑے ہو جائیں ۔

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ مؤذن کے قول قدقامت الصلوۃ کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور علمائے کوفہ اسی بات پر ہیں کہ وہ صف میں مٶذن کے قول ’’حیّ علی الفلاح‘‘ کے وقت کھڑے ہوتے تھے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم شرح مسلم جلد 2 صفحہ 557)

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : لوگوں کےلیے یہی مناسب ہےکہ جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اپنی صفیں سیدھی کریں اور اپنے کندھوں کو کندھوں سے ملائیں ۔ (مؤطا امام محمد مترجم صفحہ 74)

لہٰذا جمہور اہلِ اِسلام کا اِقامتِ نماز کے وقت مسنون اور مستحب طریقہ کے مطابق حی علی الصلوۃ حیّ علی الفلاح اورقد قامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہونے کا معمول ہے ۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشادفرمایا : جب نماز کی تکبیر کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو حتی کہ مجھے نکلتے دیکھ لو ۔ (جامع الاحادیث الکبیر جلد 1 صفحہ 172 رقم الحدیث : 1073،چشتی)

حکیم الا مت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت رقم طراز ہیں کہ : تکبیر کے وقت صف میں پہلے سے نہ کھڑے ہو جاؤ بلکہ جب مجھے حجرہ شریف سے نکلتے دیکھو تب کھڑے ہو تاکہ نماز کے قیام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے قیام تعظیمی بھی ہو جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ’’ حی علی الفلاح ‘‘ پر حجرے سے باہر جلوہ گر ہوتے تھے ۔ اب بھی سنت یہی ہے کہ مقتدی صف میں بیٹھ کر تکبیر سنے’’ حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں ۔ (مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 400)

ایک اور جگہ اسی حدیث پاک ’’لاتقوموا حتی ترونی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : اس زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صف بنا کر بیٹھ جاتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے حجرے میں رونق افروز ہوتے ، مکبرکھڑے ہو کر تکبیر شروع کرتا ، جب ’’حی علی الفلاح‘‘ پر پہنچتا تو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حجرے سے باہر تشریف لاتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نظر آتے ، فقہاء فرماتے ہیں : کہ نمازی صف میں ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں ان کا ماخذ یہ حدیث ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 391 مطبوعہ قادری پبلشرز اردو بازار لاھور)

عن قتادة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا اقيمت الصلوة فلا تقوموا حتیٰ ترونی.(مسلم شريف جلد 1 صفحہ 240)
ترجمہ : حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جب اقامت پڑھی جائے تو تم نماز کےلیے مت کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھو ۔

عن عبدالرحمن بن عوف سمع ابا هريرة يقول اقيمت الصلوٰة فَقُمْنا فَعَدَّلنا الصفوف قيل ان يخرج الينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ۔ (مسلم شريف جلد 1 صفحہ 240)
ترجمہ : عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ جب اقامت پڑھی جاتی تو ہم کھڑے ہو جاتے اور صفوں کو برابر کرتے اس سے پہلے کہ آپ تشریف لاتے ۔

مذکورہ دونوں احادیثِ مبارکہ پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (شارح مسلم) فرماتے ہیں کہ علمائے کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ یعنی ہمیں کس وقت نماز باجماعت کےلیے کھڑا ہونا چاہیے ؟
فرماتے ہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ جب مؤذن اقامت سے فارغ ہو تو تب امام اور مقتدی نماز کےلیے کھڑے ہوں ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اقامت شروع ہونے کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قد قامت الصلوۃ کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور بعد علماء کے نزدیک حیَّ علی الصلوۃ کے وقت کھڑے ہونا مستحب ہے ۔
ہمارے احناف علماء نے نزدیک حیَّ علی الفلاح پر کھڑا ہونا مستحب ہے یہ مسئلہ فقط استحباب کا ہے فرض یا واجب کا نہیں ہے ۔ يقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثه.امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حی علی الفلاح کہے ۔ ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک یعنی امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ عنہم یہ مستحب ہے ۔ (الدر المختار مع ردالمختار جلد 1 صفحہ 479)

امام قاضی عیاض بن موسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفّٰی544ھ) لکھتے ہیں : وروی عن انس انہ کان یقوم اذا قال المئوذن قدقامت الصلوۃ وذھب الکوفیون الی انھم یقومون فی الصف اذا قال حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ مٶذن کے قول قدقامت الصلوۃ کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور علمائے کوفہ اسی بات پر ہیں کہ وہ صف میں مئوذن کے قول ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ ‘‘کے وقت کھڑے ہوتے تھے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم شرح مسلم قاضی عیاض جلد 2 صفحہ 557 مطبوعہ دار الوفاء بیروت،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی911 ھ)لکھتے ہیں : قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وعن ابی قتادۃ قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوۃ ’’ فلا تقوموا حتی ترونی ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب نماز کی تکبیر کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو حتی کہ مجھے نکلتے دیکھ لو ۔ (جامع الاحادیث الکبیر جلد 1 صفحہ 172،رقم الحدیث 1073مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)

شروح اربعہ ترمذی میں ہے : حی علی الفلاح کے وقت سب نمازیوں کو جماعت کےلیے کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسی وقت حجرہ پاک سے باہر تشریف لاتے تھے اور فقہاء بھی یہی فرماتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے ’’لاتقومو ا ‘‘  فرمانے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ (شروح اربعہ ترمذی صفحہ221)

حاشیہ ترمذی میں ہے : قولہ لا تقومو ا حتی ترونی خرجت قال الشیخ فی اللمعات قال الفقھا ء یقومون عند قولہ حی علی الصلاۃ ولعل ذالک عند حضور الامام ویحتمل انہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کان یخر ج عند ھذ القول الخ ۔
ترجمہ  : اس ’’ لا تقومو ‘‘ والی حدیث مبارکہ کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لمعات میں فرمایا :کہ فقہاء فرماتے ہیں : نماز کی جماعت کو شروع کرنے کےلیے حی علی الصلاۃ پر کھڑا ہونا چاہیے اور شاید یہ حکم امام کے حاضر ہونے کے وقت کا ہے یہ بھی احتما ل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حی علی الفلاح کے وقت حجر ہ مقدسہ سے باہر تشریف لاتے تھے ۔ (حاشیہ 3 جامع ترمذی جلد 1 صفحہ 76 مطبوعہ مکتبہ اکرمیہ پشاور)

علامہ شہاب الدین شبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قا ل فی الوجیز والسنۃ ان یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح ۔۔۔ ۱ہ ۔۔ مثلہ فی المبتغی ۔
ترجمہ :  وجیز میں کہا کہ جب مکبر ’’حی علی الفلاح ‘‘ کہے اس وقت امام او رمقتدی کا کھڑا ہونا سنت ہے مبتغی میں بھی اس طرح ذکر کیا گیا ہے ۔ (حاشیہ تبیین الحقائق جلد 1 صفحہ 283-284 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

محقق اسلام شیخ الحدیث علامہ محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادگر امی ’’لا تقومو احتی ترونی‘‘ کے پیش نظر پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ تکبیر (اقامت ) شروع ہونے سے پہلے ہی کھڑا ہونا خلاف سنت ہے اب کس وقت کھڑا ہونا چاہئے تو اس بارے میں امام مالک کی ایک روایت کو چھوڑ کر سبھی ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے میں متفق ہیں ۔ (شرح موء طا امام محمد ، جلد1 ، صفحہ 128 مطبوعہ فرید بک اسٹال اردو بازار لاہور )

علامہ شہاب الدین احمد شبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی دوسری کتا ب میں لکھتے ہیں : قال فی الوجیز والسنۃ ان یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : وجیز میں کہا کہ جب مکبر ’’حی علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت امام اور مقتدی کا کھڑا ہونا سنت ہے ۔ (شبلی حاشیہ زیلعی 108 مطبوعہ مصر)

در مختار میں ہے : یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ ۔
ترجمہ : امام اور مقتدی حضرات جب مٶذن حی علی الفلاح کہے اس وقت کھڑے ہوں علمائے ثلاثہ (یعنی امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، اور امام محمد رحمہم اللہ علیہم) کے نزدیک ۔ (کشف الا ستار علی الدر مختار صفحہ 73 مطبوعہ مجتبائی پاکستان ہسپتال روڈ لاہور،فتاوی عالمگیری مترجم ، جلد 1 ، صفحہ 89  مطبوعہ دار الاشاعت کراچی،چشتی)(مجمع الا نہر شرح ملتقی الا بحر جلد1 ، صفحہ 118،  مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)(ایضاح شرح اصلاح صفحہ،45  بحوالہ :  افازۃ جد ا لکرامۃ بسنۃ جلوس موتم حین الا قامۃ)

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : کہ لوگوں کےلیے یہی مناسب ہے کہ جب مئوذن حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اپنی صفیں سیدھی کریں اور اپنے کندھوں کو کندھوں سے ملائیں ۔ ( مٶطا امام محمد مترجم صفحہ 74 مطبوعہ مکتبہ حسان کراچی)

علامہ شہاب الدین بزاز کردری )متوفّٰی867 ھ)لکھتے ہیں : ودخل المسجد وھو یقیم یقعد ولا یقف قائما ۔
ترجمہ : کوئی شخص مسجد میں آیا اس حال میں کہ مٶذن تکبیر کہہ رہا ہے تو بیٹھ جائے کھڑا نہ رہے ۔ (فتاوی بزازیہ برحاشیہ عالمگیری جلد 4 صفحہ 25 مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

وعن ابی حنیفۃ یقومون اذا قال حی علی الفلاح ۔ ترجمہ : یعنی امام اعظم ابو حنیفہ( رضی اللہ تعالی عنہ) سے مروی ہے کہ سب لوگ حی علی الفلاح کہنے کے وقت کھڑے ہوں ۔ (تحفۃ الا حوزی شرح جامع ترمذی جلد 3 صفحہ 165 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

اصلاح اور اس کی شرح ایضا ح میں ہے : یقو م الامام والقوم عند حی علی الفلاح قال فی الذخیرۃ یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح عند علمائناالثلاثۃ ۔
ترجمہ  :  امام اور قوم حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہوں ۔ ذخیرہ میں کہا گیا ہے کہ امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مٶذن حی علی الفلاح کہے ۔ علمائے ثلاثہ (یعنی امام اعظم ،امام ابویوسف ، اور امام محمد رحمہم اللہ علیہم) کے نزدیک ۔ (ایضاح شرح اصلاح صفحہ 45 بحوالہ افازہ جد الکرامۃ بسنۃ جلوس موتم حین الاقامۃ ،چشتی)

علامہ عبد الرحمن بن احمد ابن رجب الحنبلی علیہ الرّحمہ  (متوفی795 ھ) لکھتے ہیں : اذا قال (حی علی الفلاح ) وحکی عن ابی حنیفہ ومحمد ،
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ و امام محمد قدس سرہما کے نزدیک جب مٶذن حی علی الفلاح کہے (تو لوگ کھڑے ہوجائیں) ۔ (فتح الباری ابن رجب الحنبلی شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 327 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

امام عبد الرشید ابن حنیفہ (متوفی540 ھ) لکھتے ہیں : رجل دخل المسجد والمئوذن یقیم ینبغی ان یقعد ولایمکث قائما لان ھذا لیس اوان الشروع فی الصلوۃ ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوجائے اور مٶذن اقامت کہتا ہو تو اس کو چاہیے کہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہو کر انتظا ر نہ کرے کیوں کہ یہ  نماز شروع کرنے کا وقت  نہیں ہے ۔  (فتاوی الواجیہ جلد 1 صفحہ 71 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ،چشتی)

امام ابو الحسن علی بن خلف المالکی علیہ الرّحمہ (متوفّٰی449 ھ) لکھتے ہیں : وقال ابو حنیفۃ ومحمد یقومون فی الصف اذا قال المئوذن حی علی الفلاح واذا قال قد قامت الصلوۃ کبر الامام وھو فعل اصحاب عبد اللہ والنخعی ۔
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ و امام محمد قدس سرھما فرماتے ہیں : کہ لوگ صف میں اس وقت کھڑے ہونگے جب مٶذن حی علی الفلاح کہے اور جب قد قامت الصلوۃ کہے امام تکبیر کہے اور یہ عبد اللہ اور امام نخعی کے ساتھیوں (شاگردوں ) کافعل ہے ۔ (شرح ابن ابطال شرح صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 331 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

علامہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اذا دخل المسجد رجل والمئوذن یقیم ینبغی ان یقعد ولا یمکث قائما ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو جائے اور مٶذن اقامت کرتا ہو تو اس کو چاہیے کہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہو کر انتظار نہ کرے ۔ (فتاوی سراجیہ صفحہ 9 مطبوعہ میرمحمد کتب خانہ کراچی)

امام شمس الدین بخاری علیہ الرّحمہ متوفّٰی 926ھ)لکھتے ہیں : وفی الکلام ایماء الی انہ لو دخل المسجد احد عند الا قامۃ یقعد لکراھۃ القیام والانتظارکما  فی المضمرات ۔
ترجمہ : اور اس کلام میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی شخص تکبیر کے دوران مسجد میں داخل ہوا تو وہ بیٹھ جائے اس لیے کہ کھڑا رہنا اور انتظار کرنا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات میں ہے ۔ (جامع الرموز جلد 1 صفحہ 127 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

حاشیۂ شلبی علی التبیین میں ہے : قال فی الوجیز : والسنۃ ان یقوم الامام و القوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح اھ۔ و مثلہ فی المبتغی ۔
ترجمہ : وجیز میں ہے : سنّت یہ ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مٶذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے ۔ اسی بات کے مثل ”المبتغی“ میں ہے ۔ (حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق جلد 1 صفحہ 283)

کتاب مَا لَا بُدَّ مِنْہُ میں ہے : طریق خواندن نماز بر وجہ سنت آنست کہ اذان گفتہ شود واقامت ونزد حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ امام برخیزد (ومقتدیاں نیز بر خیزد) ۔
ترجمہ : نماز پڑھنے کا سنّت طریقہ یہ ہے کہ اذان و اقامت کہی جائے اور اقامت کہنے والے کے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کے ساتھ امام کھڑا ہو (اور مقتدی بھی) ۔ (ما لا بد منہ فارسی صفحہ 28،چشتی)

عمدۃ المحققین حضرت علامہ مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اقامت شروع کرنے سے پہلے مقتدی مسجد میں حاضر ہوں اور امام بھی اپنے مصلے پر یا اس کے قریب میں موجود ہو اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو اس صورت میں سب کو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ یا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا چاہیے ، یہی مسنون و مستحب ہے ۔ اس صورت میں ابتدائے اقامت سے کھڑے ہونے کو حنفی مسلک میں ہمارے فقہائے کرام نے مکروہ تحریر فرمایا ہے ۔ (حبیب الفتاویٰ صفحہ 134)

اس حالت میں کھڑے کھڑے اقامت سننا مکروہ ہے ۔ رد المحتار میں ہے : یکرہ لہ الانتظار قائماً و لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : کھڑے ہو کر انتظارِ نماز نہ کرے کہ مکروہ ہے ، بلکہ بیٹھ جائے پھر جب مؤذن ”حَیَّ عَلَی الْفَلَاح“ کہے تو کھڑا ہو ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 88)

بخاری شریف کی حدیث پاک ”اذا اقیمت الصلٰوۃ فلاتقوموا حتی ترونی“ کے تحت عمدۃ القاری شرح بخاری میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے بارے میں ہے : وکان انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یقوم اذا قال المؤذن قد قامت الصلٰوۃ “ یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت کھڑے ہو تے تھے جب مؤذن قد قامت الصلٰوۃ کہتا مزید اسی صفحہ پر ہے ”و فی المصنف کرہ ھشام یعنی ابن عروہ ان یقوم حتی یقول المؤذن قد قامت الصلٰوۃ “ یعنی مصنف میں ہے کہ ہشام بن عروہ اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ سے پہلے کھڑے ہو نے کو مکروہ جانتے تھے ۔ (عمدۃ القاری جلد 4 صفحہ 215)

علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں : والجملۃ فیہ ان المؤذن اذا قال حی علی الفلاح فان کا ن الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوم فی الصف ۔
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو سب کو اس وقت کھڑا ہو نا مستحب ہے جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے ۔ (بدائع الصنائع جلد 1 صفحہ 467،چشتی) ۔ تَبْیِیْنُ الْحَقَائِق میں ہے : والقیام حین قیل حی الفلاح لانہ امر بہ و یستحب المسارعۃ الیہ ۔ (تبیین الحقائق جلد 1 صفحہ 283)

ا مام اہلسنت امام شاہ احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : اگر تکبیر ہو رہی ہو اور (کوئی شخص) مسجد میں آیا تو بیٹھ جائے اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے اس وقت سب کھڑے ہوجائیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 2 صفحہ 419 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

صدر الشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بیٹھے رہیں اس وقت اٹھیںجب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے یہی حکم امام کےلیے ہے ۔ (بہار شریعت جلد1 حصہ سوم مطبوعہ مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور)

شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں : جب امام و مقتدی مسجد ہی میں ہو ں تو اقامت کے وقت سب بیٹھیں رہیں جب مئوذن حی علی الفلاح تک پہنچے تو کھڑا ہونا شروع کرے حی علی الفلاح پر سیدھے کھڑے ہو جائیں کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے ، جیسا کہ مضمرات ، عالمگیر اور شامی میں ہے ۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 126 ناشر برکاتی پبلشرز کھارادر کراچی) ۔

اقامت کے وقت کب کھڑا ہوا جائے ؟ فقہاء احناف نے اقامت میں کھڑا ہونے کے بارے میں تین صورتیں بیان کی ہیں ان کا جاننا ضروری ہے، تاکہ محل اختلاف متعین ہوجائے ۔ 1۔ اول یہ کہ امام وقتِ اقامت جانب محراب سے مسجد میں آئے ۔ 2 ۔ دوسرا یہ کہ امام پیچھے یا اطراف مسجد سے آئے ۔ 3 ۔ تیسرا یہ کہ امام و مقتدی وقتِ اقامت مسجد میں موجود ہوں ۔ پہلی دو صورتوں میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے ، لیکن تیسری صورت میں ہمارا اختلاف ہے ۔ تیسری صورت جس میں امام و مقتدی مسجد میں موجود ہوں تو اس کا حکم یہ ہے کہ ’’حی علی الصلوٰۃ یا حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا امام اور مقتدی کےلیے مستحب ہے اور اس سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے ۔ اس کے متعلق فقہاء احناف صراحتاً بیان کرتے ہیں : ⏬

علامہ ابوبکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 557ھ) لکھتے ہیں : ولجملۃ فیہ ان الموذن اذا قال حی الفلاح فان کان الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوموا فی الصف ۔
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو امام و مقتدی سب کو صف میں اس وقت کھڑا ہونا مستحب ہے جو موذن حی علی الفلاح کہے ۔ (بدائع الصنائع جلد 1 صفحہ 200 طبع مصر)

تنویر الابصار‘ میں ہے : والقیام لامام وموتم حین قیل حی الفلاح ان کان الامام بقرب المحراب ۔
ترجمہ : جب امام محراب کے قریب ہو تو امام اور قوم حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں گے ۔ (تنویر الابصار برحاشیہ شامی صفحہ جلد 1 354 طبع کوئٹہ)

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ’’فتاویٰ شامی‘‘ میں لکھتے ہیں : کذا فی (۳) الکنز (۴)ونور الایضاح (۵) والاصلاح (۶) والظہیریہ (۷) والبدائع وغیرہا والذی فی (۸) الدررمتنا و شرحا عند حیعلۃ الاولیٰ یعنی حین یقال حی الصلاۃ اہ وعزاہ الشیخ اسماعیل فی شرحہ الیٰ (۹) عیون المذاہب (۱۰) والفیض (۱۱) والوقایۃ (۱۲) والنقایۃ (۱۳) والحاوی (۱۴) والمختاراہ قلت وعتمدہ فی متن (۱۵) الملتقی وحکی الاول بقیل لٰکن نقل ابن الکمال لصحیح الاول ونص عبارتہ قال فی (۱۶) الذخیرۃ یقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی الفلاح عند علمائنا الثلاثہ ۔
ترجمہ : یعنی ایسا ہی کنزالدقائق، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ اور بدائع وغیرہ میں ہے اور ’’الدرر‘‘ کے متن اور شرح میں ہے کہ ’’حی الصلوٰۃ‘‘ پر قیام کیا جائے۔ الشیخ اسماعیل نے اپنی شرح ’’عیون المذاہب‘‘ فیض، وقایہ، نقایہ، حاوی اور مختار میں نقل کیا: میں (ابن عابدین شامی) کہتا ہوں کہ ملتقی کے متن میں اسی کو بیان کیا گیا ہے اور ابن کمال نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے اور ذخیرہ میں کہا گیا ہے کہ امام اور مقتدی حضرات جب موذن حی الفلاح کہے اس وقت کھڑے ہوں ۔ علماء ثلاثہ (امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد رحمہم اللہ علیہم) کے نزدیک۔(ردالمحتار شامی ۲/۱۷۷ کتاب الصلوٰۃ طبع الریاض،چشتی)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت میں (۱۴) مستند کتابوں کا حوالہ پیش کیا کہ حی علی الصلوٰۃ یا حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے۔ اسی طرح : (۱۷) تبیین الحقائق ۱/۱۰۸ (۱۸) درر شرح غررا ۱/۸۰ (۱۹) عمدۃ القاری شرح بخاری ۸/۲۱۱ (۲۰) شرح مسلم نووی ۱/۲۲۱ (۲۱) فتح الباری شرح بخاری ۲/۱۲۰ (۲۲) کرمانی شرح بخاری ۵/۳۲ طبع بیروت (۲۳) ارشاد الساری شرح بخاری ۲/۱۳۱ (۲۴) بحر الرائق ۳/۲۰۸ (۲۵) ملتقی الابحرا ۱/۲۶۹ (۲۶) مجمع الانہرا ۱/۷۸ (۲۷) محیط البرہانی ۲/۱۷ (۲۸)

فتاویٰ ہندیہ المعروف فتاویٰ عالمگیری ۱/۵۷ طبع کوئٹہ میں ہے : یقول الامام والقوم اذا قال الموذن حی الفلاح عند علمائنا الثلاثہ ہو الصحیح ۔
ترجمہ : یعنی ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں گے جب موذن ’’حی علی الفلاح‘‘ کہے اور یہی صحیح ہے۔
مذکورہ بالا کتب میں صراحتاً یہ بات موجود ہے کہ ’’حنفیہ‘‘ کا مذہب یہ ہے کہ اقامت کے وقت ’’حی علی الصلوٰۃ یاحی علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا مستحب ہے ۔

اقامت میں امام و مقتدی کا ’’حی الصلوٰۃ‘‘ سے پہلے کھڑا ہونا کیسا ہے ؟

ملا نظام الدین متوفی ۱۱۶۱ھ نے فتاویٰ عالمگیری میں جو فقہ حنفی میں مستند اور متفق علیہ فتاویٰ ہے ، نے لکھا : ویکرہ الانتظار قائما ولٰکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ الموذن قولہ حی الفلاح کذا فی المضمرات ۔
ترجمہ : اور کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے لیکن بیٹھ جائے پھر کھڑا ہو جب موذن اپنے حی الفلاح پر پہنچے ۔ (فتاویٰ عالمگیری ۱/۵۷ کتاب الصلوٰۃ طبع کوئٹہ)

علامہ سید احمد طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واذا اخذ الموذن فی الاقامۃ ودخل رجل المسجد فانہ یقعد ولا ینتظر قائما فانہ مکروہ کما فی المضرات قہستانی ویفہم منہ کراہۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہا غافلون ۔
ترجمہ : اور جب موذن نے اقامت شروع کی اور کوئی شخص مسجد میں داخل ہوا تو وہ بیٹھ جائے، کھڑے ہوکر انتظار نہ کرے کیونکہ یہ مکروہ ہے جیسا کہ قھستانی کی مضمرات میں ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں ۔ (حاشیہ مراقی الفلاح شرح نورالایضاح ۱/۱۸۶ طبع مصر،چشتی)

لہٰذا لوگوں کو اس غفلت سے نکل کر اپنے امام کے مذہب پر عمل کرنا چاہیے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا عمل واقوال اس مسئلہ میں حدیث وآثار کافی تعداد میں موجود ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقومواحتی ترونی ۔
ترجمہ : جب اقامت کہی جائے کھڑے نہ ہو حتی کہ مجھے نکلتاہوا دیکھو
(۱) صحیح بخاری باب یقوم الناس ۱/۱۶۴ رقم ۶۳۸ (۲) صحیح مسلم ۲/۱۰۱ رقم ۱۳۹۵ (۳) جامع ترمذی ۱/۶۵۱ رقم ۵۱۷ (۴) سنن ابو دائود / ۱۴۸ رقم ۵۳۹ (۵) سنن نسائی ۲/۳۱ رقم ۶۸۷ (۶) صحیح ابن حبان ۵/۵۱ رقم ۱۷۵۵ (۷) فتح الباری شرح بخاری ۲/۱۲۰ (۸) مسند احمد ۵/۳۰۴ رقم ۲۲۶۲۰ (۹) صحیح ابن خزیمہ ۳/۱۴ رقم ۱۵۲۶ (۱۰) مسند الطیالسی ۱/۵۰۸ رقم ۶۲۳ (۱۱) مستخرج ابی عوانہ ۲/۹ رقم ۱۰۴۸،چشتی) (۱۲) سنن الدارمی ۱/۳۲۳ رقم ۱۲۶۲ (۱۳) مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۵ رقم ۴۱۱۶ (۱۴) مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۴ رقم ۹۳۲ (۱۵) معجم ابن العرابی ۲/۴۳۰ رقم ۹۲۹ (۱۶) الاوسط ابن المنذرا ۱/۱۶۹ رقم ۱۹۲۳)

امام بزار اپنی ’’مسند‘‘ میں، امام ابوالقاسم الطبرانی اپنی ’’معجم‘‘ میں، ’’امام بیہقی اپنی‘‘ سنن الکبریٰ‘‘ میں ، محدث سیمویہ علیہم الرحمہ اپنی کتاب میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اذا قال بلال قد قامت الصلوٰۃ نہض فکبر۔
ترجمہ : جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت میں ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کہنے لگتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اٹھ کھڑے ہوتے پھر اللہ اکبر کہتے ۔ (۱) المسند البزار ۸/۲۹۸ مسند عبداﷲ بن ابی اوفیٰ طبع مدینہ منورہ (۲) مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۲/۱۰۶ طبع دارالفکر بیروت (۳) میزان الاعتدال ۱/۴۶۴ (۴) کنزالعمال ۷/۵۴ رقم الحدیث ۱۷۹۲۲ طبع حلب (۵) سنن الکبریٰ بیہقی ۲/۲۲ طبع دکن (۶) سوالات ابن الجنید لابی ذکریا یحیی بن معین ۱/۴۳۴ رقم ۷۹۶ (۷) تحفۃ الاحوذی ۲/۱۲۹ (۸) الشمائل الشریفۃ للسیوطی ۱/۸۰ رقم ۲۹۳ (۹) الاوسط لابن المنذر ۶/۱۷۴ رقم ۱۹۲۷) ۔ اکابر علماء دیوبند میں مولوی اشرف علی تھانوی اور ان کے خلیفہ ظفر احمد عثمانی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ’’وہو حدیث حسن الاسناد‘‘ (اعلاء السنن ۴/۳۲۶ طبع کراچی،چشتی)

امام عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ اپنی اسناد کے ساتھ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت فرماتے ہیں : عبدالرزاق عن ابن التیمی عن الصلب عن علقمۃ عن امہ عن ام حبیبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کان فی بیتہا فسمع الموذن فقال کما یقول فلما قال حی علی الصلوٰۃ نھض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الی الصلوٰۃ ۔
ترجمہ : حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گھر میں تھے ، موذن نے اقامت کہی ، جب اس نے (حی الصلوٰۃ) کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت نماز کےلیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ (۱) مصنف عبدالرزاق ۱/۴۸۱ رقم ۱۸۵۱ طبع بیروت (۲) معجم الکبیر اللطرابی ۲۳/۲۴۴ رقم ۴۸۵ (۳) جامع الاحادیث ۴۰/۲۳۴ رقم ۴۳۵۴۳ (۴) کنزالعمال ۸/۳۶۲ رقم ۲۳۲۷۳،چشتی)

حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا عمل : ⏬

امام عبدالرزاق اپنی سند سے نقل کرتے ہیں : فاقام الموذن بالصلوٰۃ فلما قال قد قامت الصلوٰۃ قام حسین ۔
ترجمہ : موذن نے نماز کےلیے اقامت کہی تو جب وہ ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کہنے لگا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے (۱) مصنف عبدالرزاق ۱/۵۵۰ رقم ۱۹۳۷ (۲) اخبار مکۃ للفاکھی ۲/۷۲ رقم ۱۱۷۲)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ ’’سنن الکبریٰ‘‘ میں لکھتے ہیں : وعن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انہ کان یفعل ذلک وہو قول عطاء والحسن ۔
ترجمہ : اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے اور یہی قول عطاء اور حسن کا ہے (جیسا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں پہلے لکھا ہے ، یعنی قد قامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہوتے) (سنن الکبریٰ ۲/۲۰ تحت رقم ۲۳۸۰)

حضرت انس رضی اللہ  عنہ کا عمل : ⏬

امام بیہقی لکھتے ہیں : وروینا عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ انہ اذا قیل قد قامت الصلوٰۃ وثب فقام ۔
ترجمہ : ہم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ جس وقت ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کہا جانے لگا تو آپ تیزی سے کھڑے ہو جاتے ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۲۰ تحت رقم ۲۳۸۰)

محدث (ابن المنذر) رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عن انس انہ کان یقوم اذا قال الموذن قد قامت الصلوٰۃ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ اس وقت کھڑے ہوتے جب موذن قد قامت الصلوٰۃ کہنے لگتا ۔ (۱) فتح الباری شرح بخاری ۲/۱۲۰ تحت حدیث ۶۱۱ طبع بیروت (۲) تحفۃ الاحوذی ۳/۱۶۵ (۳) کمال المعلم شرح صحیح مسلم للقاضی عیاض ۲/۳۱۰ (۴) نیل الاوطار ۳/۲۳۴ (۵) شرح الزرقانی علی موطا امام مالک ۱/۲۱۴ (۶) عون المعبود وحاشہ ابن القیم ۲/۱۷۳ (۷) الثمر المستطاب للالبانی ۱/۲۳۱ (۸) الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی ۱/۶۳۴ (۹) سبل السلام ۱/۱۳۰ (۱۰) بستان الاخبار للابن تیمیۃ ۲/۱۰۱ تحت حدیث ۱۴۲۹ (۱۱) شرح البلوغ للعبدالرزاق الصنعانی ۱/۵۴،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی تاکید : ⏬

امام عبدالرزاق الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عطیہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے جونہی موذن نے اقامت کہنا شروع کی ہم اٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹھ جاٶ پس جب موذن قد قامت الصلوٰۃ کہنے لگے تب کھڑے ہونا ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۶ رقم ۱۹۴۰)

اصحاب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول : ⏬

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھ کر اقامت سننے اور ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے نزدیک کھڑا ہونے کا مسئلہ بیان کر کے لکھتے ہیں : امام سعید بن مسعود رحمۃ اللہ علیہ نے بطریق ابی اسحاق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب سے ایسا ہی روایت کیا ہے ۔ (فتح الباری ۲/۱۲۰ تحت حدیث ۶۱۱ طبع بیروت،چشتی)

صحابہ و اکابر تابعین رضی اللہ عنہم کا مذہب : ⏬

معاویہ ابن قرۃ کہتے ہیں (صحابہ و تابعین) اسے مکروہ جانتے تھے کہ موذن کے اقامت شروع کرتے ہی آدمی نماز کےلیے اٹھ کھڑا ہو ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱/۴۸۰ رقم ۱۸۵۰ طبع بیروت)

تابعی حضرت ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا عمل : ⏬

حضرت معمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا ۔ وہ مسجد کے پڑوسی تھے، وہ گھر سے جماعت میں شمولیت کےلیے اس وقت تک نہ نکلتے جب تک اقامت نہ سن لیتے نیز فرمایا کہ میں نے (تابعین میں سے) اور بھی بہت سے لوگوں کو دیکھا جو ایسا ہی کرتے تھے ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۵ رقم ۱۹۳۵ طبع بیروت،چشتی)

مشہور تابعی حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کا فتویٰ و عمل : ⏬

ابن جریح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا لوگ کہتے ہیں کہ جب موذن ’’قدقامت الصلوٰۃ‘‘ کہنے لگے لوگوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہیے فرمایا ، ہاں درست ہے ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۵ رقم ۱۹۳۶ طبع بیروت)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کرتے تھے (جیسا روایت بالا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہوا ہے) اور امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۲۰ تحت حدیث ۲۳۸۰ طبع حیدرآباد انڈیا)

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال و عمل : ⏬

امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ امام کے کھڑے ہونے کو مکروہ سمجھتے تھے جبکہ موذن قد قامت الصلوٰۃ نہ کہنے لگے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۶ رقم ۴۱۲۲) ۔ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۵ رقم ۴۱۱۳ میں ہے ۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کرتے تھے (جیسا روایت بالا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہوا ہے) اور امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۲۰ تحت حدیث ۲۳۸۰ طبع حیدرآباد انڈیا،چشتی)

خلیفہ راشد و اول ، تابعی ، امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان : ابو عبید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مقام (حناصرہ) میں، میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سنا جس وقت موذن ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کہتا تو فرماتے کھڑے ہوجائو نماز قائم ہوگی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۶ رقم ۴۱۲۱)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدوں میں آدمی بھیجے (اور یہ فرمان جاری کیا) کہ جس وقت قد قامت الصلوٰۃ کہا جائے تو نماز کےلیے کھڑے ہو جایا کرو ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۶ رقم ۱۹۳۹ طبع بیروت)

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا عمل : ⏬

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ موذن جب حی الصلوٰۃ کہتا آپ اس وقت کھڑے ہوتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۵ رقم ۴۴۱۴)

حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جب موذن (اقامت کہتے ہوئے) حی الفلاح کہے تو نمازی صفوں میں کھڑے ہو جائیں ۔ (کتاب الآثار لابی یوسف ص ۱۹، رقم ۸۹ طبع بیروت)

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب موذن (اقامت میں) حی الفلاح کہے تو اس وقت چاہئے کہ لوگ کھڑے ہو جائیں پھر صفیں درست کریں ۔ (کتاب الآثار امام محمد ۱/۱۰۷ رقم ۳۶۳ طبع بیروت، جامع المسانید للخوارزمی ۱/۴۳۴ طبع فیصل آباد)

تابعی جلیل امام الفقہاء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب : ⏬

امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت بالا کے متصلاً بعد ، امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت علیہما الرحمہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے امام محمد بن حسن الشیبانی لکھتے ہیں : اور یہی (جو امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے) ہمارا مذہب ہے اور یہی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے اور اگر امام موذن کے اقامت سے فارغ ہونے کا انتظار کرے گا پھر اس کے بعد اللہ اکبر کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ سب درست ہے ۔ (کتاب الآثار امام محمد ۱/۱۰۷ رقم ۶۳،چشتی)(جامع المسانید للخوارزمی ۱/۴۳۴)(موطا امام محمد مترجم ص ۸۷ طبع لاہور)

امام ابو عیسٰی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا اعلانِ حق : ⏬

امام ابو عیسٰی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علماء صحابہ کرام اور دیگر لوگوں کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اہل علم صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے کھڑے ہوکر امام کی انتظار کو مکروہ کہا ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جب امام مسجد میں ہی ہو اور تکبیر کہی جائے تو لوگ قد قامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہوں یہ عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے (۱) جامع ترمذی ۱/۷۳۱ تحت رقم ۵۹۲ طبع بیروت (۲) مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ۳/۱۹۲ (۳) مسند الصحابۃ فی الکتب التسعۃ ۳۵/۴۶۶ (۴) الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب ۱/۳۳۰ (۵) الاختیارات الفقیہۃ للترمذی ۱/۲۸۹)

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی کا اعترافِ حق : ⏬

علامہ انورشاہ کشمیری دیوبندی اپنی کتاب (فیض الباری شرح بخاری) میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کچھ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اقامت پوری ہونے کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے اور کچھ حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ درمیان اقامت میں (حی علی الصلوٰۃ) پر کھڑے ہوا کرتے تھے اور ہماری کتابوں میں بھی ایسا ہی لکھا ہے (فیض الباری شرح بخاری باب متی یقوم الناس ۲/۱۹ طبع انڈیا)

مفتی عزیز الرحمن مفتی دارالعلوم دیوبند کااعترافِ حق : ⏬

اقامت کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : نمازکے آداب میں سے فقہاء نے لکھا ہے کہ حی علی الفلاح کے وقت سب کھڑے ہوجائیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر پہلے سے مقتدی کھڑے ہوجائیں تو کوئی محل اعتراض نہیں ہے کیونکہ ترک استحباب اور ترک آداب پر کچھ طعن نہیں ہوسکتا۔ البتہ بہتر یہی ہے جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے اور در مختار میں بھی یہی لکھا ہے اور اگر امام آگے کی طرف سے یعنی سامنے کی طرف سے آوے جس وقت امام پر نظر پڑے، مقتدی کھڑے ہوجائیں۔ بہرحال اس میں ہر طرح وسعت ہے مگر اتباع تصریحات فقئا کا اولیٰ و افضل ہے (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۲/۷۹ مفتی عزیز الرحمن طبع مکتبہ امدادیہ ملتان)

مفتی فرید دیوبندی اکوڑہ خٹک کا اعترافِ حق : ⏬

مفتی فرید صاحب سے وقت اقامت حی علی الصلوٰۃ پر کھڑے ہونے کے بارے میں سوال ہوا تو جواب میں لکھتے ہیں (حی الصلوٰۃ پڑھنے کے وقت قیام کرنا ادب اور افضل ہے الخ) ۔ (فتاویٰ فریدیہ المعروف فتاویٰ دیوبند پاکستان مفتی اعظم مفتی فرید جامع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ۲/۱۸۸ طبع صوابی پاکستان،چشتی)

مفتی محمد شفیع مفتی دارالعلوم دیوبند کا اعترافِ حق : ⏬
مفتی محمد شفیع دیوبندی سے بھی اقامت کے بارے میں حی علی الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہونے کے بارے میں سوال ہوا تو جواباً لکھتے ہیں (جس وقت تکبیر پڑھنے والا حی الصلوٰۃ پر پہنچے اس وقت مقتدیوں کو کھڑا ہونا چاہیے ۔ الخ ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند المعروف امداد المفتین کامل ۲/۲۹۲ طبع دارالاشاعت کراچی)

احسن نانوتوی دیوبندی کا اعترافِ حق : ⏬

احسن نانوتوی صاحب لکھتے ہیں (اور مستحب ہے کھڑا ہونا امام اور مقتدی کو جبکہ تکبیر میں حی علی الفلاح کہا جائے ۔ (غایۃ الاوطار ۲/۲۴۲ طبع کراچی)

سید امیر علی دیوبندی کا اعترافِ حق : ⏬

سید امیر علی دیوبندی لکھتے ہیں (اگر موذن امام کے سوا کوئی اور ہو اور نمازی مع امام کے مسجد کے اندر ہوں تو موذن جس وقت امامت میں حی علی الفلاح کہے اس وقت ہمارے تینوں علماء کے نزدیک امام اور مقتدی کھڑے ہوجاویں یہ وہی صحیح ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری مترجم ترجمہ سید امیر علی ۱/۸۹ طبع دارالاشاعت کراچی)

فقہاء علیہم الرحمہ نے اقامت میں پہلے کھڑے ہونے کو جس وجہ سے مکروہ فرمایا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : جب اقامت کہی جائے کھڑے نہ ہو ،حتیٰ کہ مجھے نکلتا ہوا دیکھو ۔ (۱) صحیح بخاری باب یقوم الناس ۱/۱۶۴ رقم ۶۳۸ (۲) صحیح مسلم ۲/۱۰۱ رقم ۱۳۹۵ (۳) جامع ترمذی ۱/ ۶۵۱ رقم ۵۱۷ (۴) سنن ابو دائود ۱/۱۴۸ رقم ۵۳۹ (۵) سنن نسائی ۲/۳۱ رقم ۶۸۷ (۶) صحیح ابن حبان ۵/۵۱ رقم ۱۷۵۵ (۷) فتح الباری شرح بخاری ۲/۱۲۰ (۸) مسند احمد ۵/۳۰۴ رقم ۲۲۶۴۰ (۹) صحیح ابن خزیمہ ۳/۱۴ رقم ۱۵۲۶ (۱۰) مسند الطیالسی ۱/۵۰۸ رقم ۶۲۳ (۱۱) مستخرج ابی عوانہ ۲/۹ رقم ۱۰۴۸ (۱۲) سنن الدارمی ۱/۳۲۳ رقم ۱۲۶۲،چشتی (۱۳) مصنف ابن ابی شیبہ ۱/۴۰۵ رقم ۴۱۱۶ (۱۴) مصنف عبدالرزاق ۱/۵۰۴ رقم ۹۳۲ (۱۵) معجم ابن الاعرابی ۲/۴۳۰ رقم ۹۲۹ (۱۶) الاوسط ابن المنذرا ۱/۱۶۹ رقم ۱۹۲۳)

حجرہ شریف سے مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے صحابہ کرام کے شروع اقامت میں کھڑے ہوجانے کی وجہ سے منع فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناگوار گزرا کہ صحابہ میرے آنے سے پہلے کھڑے ہوں چنانچہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قرین تحقیق یہ ہے کہ لوگ (بوقت اقامت) نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مسجد میں تشریف آوری سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوتے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے ہی اپنے کھڑے ہونے کی جگہ سنبھال لیتے ۔ تب آپ ان پر تخفیف کرتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ (جس وقت اقامت شروع ہو تو) وہ فورا ہی نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ، تاوقتیکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تشریف لاتے ہوئے نہ دیکھ لیں ۔ امام حافظ احمد بن حجر عسقلانی نے ۔ (فتح الباری ۲/۱۲۰) ۔ امام حافظ بدر الدین عینی نے (عمدۃ القاری ۵/۱۵۳) ۔ امام نووی نے (شرح صحیح مسلم ۱/۲۲۰) ۔ قاضی شوکانی نے (نیل الاوطار ۲/۲۳۴) اور خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی نے (بذل المجہود ۱/۳۰۷) نے حدیث ابی قتادۃ کی شرح کرتے ہوئے امام بیہقی ہی والی بات لکھی ہے ۔

یہ واقعہ ایک دو بار کا ہے : امام المحدثین قاضی عیاض مالکی ، امام بدرالدین عینی ، امام محی الدین نووی علیہم الرحمہ ، شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد نے کہا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا آغازِ اقامت میں کھڑا ہو جانے کا عمل ایک بار یا دو بار ہوا ، دیکھیے ۔ (عمدۃ القاری ۵/۱۵۳، شرح صحیح مسلم نووی ۱/۲۲۰، عون المعبود ۱/۲۱۲،چشتی)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اقامت میں پہلے کھڑے ہونے کو منع فرمایا جس وجہ سے فقہاء مکروہ فرماتے ہیں تو پھر علماء دیوبند اور غیر مقلدین کا شروع اقامت میں کھڑا ہونا کیا معنی رکھتا ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی منسوخ روایت پیش کرنا صرف ضد ہی نہیں تو اور کیا ہے ؟

ایک شبہ اور اس کا ازالہ : ⏬

بعض لوگ صفیں درست کرنے کا بہانہ بنا کر آغاز اقامت ہی میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اگر اقامت بیٹھ کر سنیں تو صفیں درست کرنے کی سنت ہم کب ادا کریں ؟
ان کی خدمت میں جواباً عرض ہے کہ صحیحین وغیرہا کی احادیث مرفوعہ ۔ نیز صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے صاف ظاہر ہے کہ سب مقتدین آخر اقامت میں صفیں درست کا اہتمام فرماتے تھے ، جب صفیں درست ہو جاتیں ، تو پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع فرماتے ، یہ بات متعدد احادیث میں موجود ہے لہٰذا اتباع سنت کا تقاضا یہی ہے کہ اقامت بیٹھ کر ہی سنی جائے اور امام و مقتدی (حی علی الصلوٰۃ) پر یکبارگی کھڑے ہونا شروع کردیں اور (قد قامت الصلوٰۃ) پر مکمل کھڑے ہوجائیں۔ اگر صفیں درست نہ ہوں تو اس وقت صفیں بھی درست کرلی جائیں تاکہ صفیں درست کرنے کی اہم سنت بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، سنت خلفاء راشدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے مطابق انجام پائے اور جب صفیں درست ہو جائیں تو امام اللہ اکبر کہہ کر نماز کا آغاز کر دے تاکہ سب کام سنت کے مطابق پورے ہو جائیں ۔ فقہاء علیہم الرحمہ نے چونکہ اقامت کھڑے ہو کر سننے کو مکروہ کہا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پہلے کھڑے ہو کر اقامت سننا منع فرمانا ثابت ہے لہٰذا یہ کم از کم خلافِ سنت ضرور ہے لہٰذا مستحب پر عمل کر کے اور اتباعِ سنت اپنا کر ثواب حاصل کریں ۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد اس کو قبول و عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...