توسل بعد از وصال قرآن وسنت کی روشنی میں
توسل بعد از وصال قرآن وسنت سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃ النساء آیۃ ٤٦ میں اللہ عزمجدہ کا فرمان ہے : ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما(سورۃ النساء آیۃ 64)
ترجمہ : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حافظ عماد الدین ابن کثیر منکرین وسیلہ کے ممدوح مذکورہ آیۃ کے تحت رقمطراز ہیں : یرشد اللہ تعالیٰ العصاۃ والمذنبین اذا وقع منہم الخطاء والعصیان ان یاتوا الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فیستغفروا اللہ عندہ ویسالوہ ان یغفرلہم فانہم اذا فعلوا ذالک تاب اللہ علیہم و رحمہم وغفرلہم.
ترجمہ : اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں ،خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تورسول اللہ ؐ کے پاس آکر (آپکی قبر انور کے پاس)ا للہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔
مزید لکھتے ہیں : وقد ذکر جماعۃ منہم الشیخ ابو منصور الصباغ فی کتابہ الشامل الحکایۃ المشہورۃ عن العتبی قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فجاء اعرابی، فقال السلام علیک یارسول اللہ سمعت اللہ یقول:ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما(النساء/٦٤) وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربی ۔
ترجمہ : شیخ ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں عتبی کہتے ہیں میں قبر انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہؐ میں نے اللہ تعالیٰ کا ارشادسنا ہے (اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریںتو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ (عزمجدہ)سے معافی چاہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) ان کی شفاعت فرمائیں تو (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر)ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں)۔میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ عتبی قائل ہیں کہ وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں نبی اکرم ؐ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپؐنے فرمایا:''یا عتبی، الحق الأعرابی فبشرہ أن اللہ قد غفر لہ'' عتنی جاؤ اس اعرابی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء زیرآیۃ 64)
نیز اس آیت مبارکہ کا حکم صرف زمانہ نبوی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بعدا زارتحال تک حکم جاری ہے کہ اصولی قاعدہ ہے:العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب''کہ عموم لفظ کا اعتبار ہو تا ہے ،خصو ص محل کا اعتبار نہیں ہو تا '' لھذامتذکرہ بالا آیۃ کریمہ میں قبل از وصال کی کو ئی قید نہیں نیز لفظ (اِذ ْ ) ظرفیہ ہے جو اپنے معنی عموم پر دلالت کر رہا ہے جوقبل اور بعد از وصال دونوں کو شامل ہے،اس لیے جناب رسول اللہ ؐ ہرمجرم کے لیے ہر وقت تا قیامت وسیلہ مغفرت ہیں ۔
سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انبیاء سابقین سے توسل
بعد از وصال صاحب مزار سے توسل خود سید المرسلین ؐ کے فعل سے مبرھن ہے کہ آپ ؐنے جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کے لیئے انبیاء سابقین کے توسل سے دعا مانگی ۔
جیسا کہ أبو القاسم سلیمان بن أحمد بن أیوب الطبرانی اپنی معجم میں رقمطراز ہیں : اللہ الذی یحیی ویمیت وہو حی لایموت أغفر لأمی فاطمۃ بنت أسد۔۔۔۔۔۔ ووسع علیہا مدخلہا بحق نبیک والأنبیاء الذین من قبلی فإنک أرحم الراحمین ۔
ترجمہ : اللہ وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتاہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کوموت نہیں ،اے اللہ! تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان کی قبر کو کشادہ فرما اپنے نبی اور مجھ سے پہلے تمام انبیا کے وسیلے سے یقینا تو بڑا رحم فرمانےوالا ہے ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،مسند النساء ،باب الفاء فاطمۃ بنت أسد بن ہاشم أم علی بن أبی طالب : ٤ ٢/٣٥١،الرقم: ٨٧١،المعجم الاوسط ج ١ ص ١٥٢،کنز العمال،کتاب الفضائل،فاطمۃ أم علی رضی اللہ عنہما من الإکمال، مجمع الزوائد للھیثمی کتاب المناقب ،باب مناقب فاطمۃ بنت أسد أم علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہا،جامع الاحادیث للسیوطی،حرف الراء)
اہل مدینہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کا بحکم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا حضور پرنور ؐ کی مزار پر انوار سے توسل
امام أبو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی اپنی سنن میں رقمطراز ہیں : حدثنا ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال قحط اہل المدینہ قحطاً شدیداً فشکوا الی عائشۃ، فقالت انظر قبر النبی ؐ فاجعلوا منہ کووا الی السماء حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشہم فسمی عام الفتق (رجالہ ثقات)۔
ترجمہ : اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے جناب عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک کھڑکی بایں طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ روای قائل ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے فربہ ہوگئے کہ محسوس ہوتا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ بایں وجہ اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا۔
(سنن الدارمی،المقدمہ ،باب ما أکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم بعد موتہ ج١، ص :٤٣، الرقم٩٣،مطبوعہ دمشق،مشکاۃ المصابیح،باب فضائل سید المرسلین)
کبار صحابہ کرام علیھم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد بھی آپکے وسیلہ سے بارگاہ ایزدی میں التجائیں کرتے تھے جیسا کہ جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق امام أبو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسابوری اپنی مستدرک میں ارقام فرماتے ہیں : عن داود بن أبی صالح قال أقبل مروان یوما فوجد رجلا واضعا وجہہ علی القبر فأخذ برقبتہ و قال:أتدری ما تصنع ؟ قال:نعم فأقبل علیہ فإذا ہو أبو أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ فقال جئت رسول اللہ ؐ و لم آت الحجر۔۔۔۔۔۔ہذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاہ ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح سے مروی ہے کہ ایک روز مروان (خلیفہ وقت ) آیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور پر ایک شخص کو چہرہ رکھے ہوئے پایا تو کہا کیا تو جانتا ہے کیا کر رہا ہے جب وہ شخص مروان کیطرف متوجہ ہوا تو وہ ''صحابی رسول'' ابو ایوب انصاری تھے اور آپ نے جوابًا فرمایا (ہاں میں جانتا ہوں) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں پتھر کے پاس نہیں آیا۔
(المستدرک علی الصحیحین/کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم/کتاب الفتن و الملاحم ٤:٥٦٠،الرقم٨٥٧١)
صحابی رسول بلال بن حارث کا بعد از وصال حضور سید المرسلین سے توسل
حافظ عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ اپنی مصنف میں رقمطراز ہیں : عن مالک الدار ، قال :أصاب الناس قحط فی زمن عمر ، فجاء رجل إلی قبر النبی ؐ فقال یا رسول اللہ !استسق لامتک فإنہم قد ہلکوا فأتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فأقرئہ السلام ، وأخبرہ أنکم مسقیون وقل لہ:علیک الکیس علیک الکیس فأتی عمر فأخبرہ فبکی عمر ثم قال یا رب لا آلوإلا ما عجزت عنہ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار کہتے ہیں خلافت فاروقی میں لوگ قحط میں مبتلاء ہوئے تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ) حضور ؐ کی مرقد انور پر حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیے کہ امت ہلاک ہورہی ہے ۔ آپ ؐ خواب میںاس صحابی کے پاس تشریف لائے ارشاد فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور خبر دو کہ بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔۔۔پھر وہ صحابی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور خبر دی توجناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ روپڑے اورکہا اے میرے پروردگا ر !میں کوتاہی نہیں کرتا سوائے اس کے جس سے میں عاجز ہوجاؤں۔ (المصنف لابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل،باب ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب٦:٣٥٦الرقم٣٢٠٠٢،)
بعد از وصال وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والی روایت جس میں مالک دار رضی اللہ عنہ کی متابعت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کر رکھی ھے اگر بلفرض مالک کو مجھول مان لیا جائے تو مضرنھیں اور دوسری سند میں اعمش بھی نھیں ھے لہٰذا تدلیس والا بھی بہانہ ختم ھو جاتاھے ۔ نجدی منکرو اب تمہارا کیا بنے گا ؟ ( الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ نمبر678باب ذکراحالتہ من سائلہ فی منامہ الدعاء علیہ ( مترجم اردو جلد اوّل کے صفحات نمبر 668 ، 669 مطبوعہ مکتبہ نور حسینیہ بلال گنج لاہور )
اگر توسل بعد از وصال ناجائز وبدعت اور شرک ہوتااللہ عزاسمہ اس متعلق ارشاد نہ فرماتا نیز نہ ہی محبوب رب کائنات ؐ انبیاء سابقین کے توسل سے دعاء مانگتے نہ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مصائب وآلام سے چھٹکارے کے لیئے آپکی مرقد انور سے توسل کرنے کو فرماتیں اور نہ ہی صحابہ کرام توسل کرتے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment