حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ تبرک و وسیلہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ اور مدینہ منور کے درمیان جعرانہ کے مقام پر قیام پذیر تھے اور اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے تو بارگاہِ نبوت میں ایک اعرابی آ کر کہنے لگا : (یارسول اﷲ!) کیا آپ اپنا وہ وعدہ پورا نہیں فرمائیں گے جو آپ نے مجھ سے کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگا کہ آپ اکثر مجھے صرف یہی فرما دیتے ہیں۔ پس آپ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس نے تو بشارت قبول نہیں کی، کیا تم دونوں اسے قبول کرتے ہو؟ دونوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ) ہم نے اسے قبول کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگایا اس میں اپنے دستِ اقدس اور چہرہ مبارک دھویا اور پھر اس میں کلی فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا : تم دونوں اسے پی لو۔ باقی اپنے چہروں اور سینوں پر چھڑک لو اور دونوں (جنت کی) بشارت حاصل کرو پس دونوں حضرات نے برتن لے کر حکم کی تعمیل کی۔ تو حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنھا نے (جو کہ پردے کے اندر سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہیں تھیں) انہیں آواز دی کہ اس (بابرکت) پانی میں سے (کچھ حصہ) اپنی ماں کے لیے بھی ضرور چھوڑنا۔ تو ان دونوں صحابہ نے (وہ پانی بچا کر) ان کی خدمت میں بھی بطورِ تبرک پیش کر دیا ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، 4 / 1573، الرقم : 4073، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعريين رضي اﷲ عنهما، 4 / 1943، الرقم : 2497، وأبو يعلی في المسند، 13 / 301، الرقم : 7314، والفاکهي في أخبار مکة، 5 / 63، الرقم : 2845، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 32 / 39. 41، والعيني في عمدة القاري، 17 / 306، الرقم : 4328.)
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بہت زیادہ بیمار پڑ گیا، تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے پیدل تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنے وضو سے بچا ہوا (متبرک) پانی میرے اوپر چھڑکا تو اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں تو میں عرض گزار ہوا : یارسول اﷲ! (مرنے سے قبل) میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ یا میں اپنے مال کا فیصلہ کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کوئی جواب مرحمت نہ فرمایا یہاں تک کہ آیتِ میراث نازل ہو گئی ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح کتاب : المرض، باب : عيادة المغمی عليه، 5 / 2139، الرقم : 5327، وفي کتاب : الفرائض، باب : قول اﷲ تعالی : يوصيکم اﷲ في أولادکم للذکر مثل حظ الانثيين، 6 / 2473، الرقم : 6344، وفي کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : يوصيکم اﷲ في أولادکم، 4 / 1669، الرقم : 4301، وفي کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما کان النبي صلی الله عليه وآله وسلم يسأل مما لم ينزل عليه الوحي، 6 / 2666، الرقم : 6879، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفرائض، باب : ميراث الکلالة، 3 / 1234. 1235، الرقم : 1616، والترمذي في السنن، کتاب : الفرائض عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ميراث الأخوات، 4 / 417، الرقم : 2097، وقال أبو عيسی : هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب : الفرائض، باب : في الکلالة، 3 / 119، الرقم : 2886، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 69، الرقم : 6322. 6323، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 307، الرقم : 14337، وأبو يعلی في المسند، 4 / 15، الرقم : 2018.)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبر کے اندر ان پر گزرنے والے حالات سے باخبر ہو کر) فرمایا : انہیں عذاب ہو رہا ہے اور وہ بھی کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلیاں بہت کھاتا پھرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی تو ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوء باب : ما جاء في غسل البول، 1 / 88، الرقم : 215، وفي کتاب : الجنائز، باب : الجريد علی القبر، 1 / 458، الرقم : 1295، وفي کتاب : الأدب، باب : الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، وفي باب : النميمة من الکبائر، 5 / 2250، الرقم : 5708، ومسلم في الصحيح، کتاب : الطهارة، باب : الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والترمذي في السنن، کتاب : الطهارة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ماجاء في التشديد في البول، 1 / 102، الرقم : 70، وقال : هذا حديث حسن صحيح، و أبو داود في السنن، کتاب : الطهارة، باب : الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20، والنسائي في السنن، کتاب : الطهارة، باب : التنزاه عن البول، 1 / 28، الرقم : 31، وفي کتاب : الجنائز، باب : وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2068.2069، وفي السنن الکبری، 1 / 69، الرقم : 27، وابن ماجه في السنن، کتاب : الطهارة باب : التشديد في البول، 1 / 125، الرقم : 247، 349، والدارمي في السنن، 1 / 205، الرقم : 739، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 225، الرقم : 1980، 5 / 35، الرقم : 20389، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 115، الرقم : 1304، وأبو يعلی في المسند، 4 / 43، الرقم : 2050، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 32، الرقم 55، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 588، الرقم : 6753.7654، وابن حبان في الصحيح 7 / 398، الرقم : 3128، والطبری في تهذيب الآثار، 2 / 600، الرقم : 898.)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (عورت یا جوان کو کچھ عرصہ ) مفقود پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت یا نوجوان کے بارے میں دریافت فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو آپ لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا : یہ قبریں ان قبروں والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی تاریک قبور میں) روشنی فرما دے گا ۔ اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میرا اس نوجوان کا جنازہ پڑھانا اس کے لئے باعث رحمت ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : کنس المسجد، 1 / 175. 176، الرقم : 446، 448، و في کتاب : الجنائز، باب : الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، 1 / 448، الرقم : 2172، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : الصلاة علی القبر، 2 / 659، الرقم : 956، وأبوداود في السنن، کتاب : الجنائز، باب : الصلاة علی القبر، 3 / 211، الرقم : 3203، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء في الجنائز، باب : ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 / 489، الرقم : 1527.1529، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 651، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 388، الرقم : 9025، وأبو يعلی في المسند، 11 / 314، الرقم : 6429، وابن حبان في الصحيح، 7 / 355، الرقم : 3086، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 46.47، الرقم : 6802.6806.)
حضرت اُمّ عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کے وصال کے بعد) انہیں غسل دے رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ، مرتبہ غسل دینا، اور کافور کو آخر میں رکھنا۔ اورجب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کر دینا۔ جب ہم فارغ ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع کر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور فرمایا : انہیں اس میں لپیٹ دو ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما يستحب أن يغسل وترا، 1 / 423، الرقم : 1196، وفي باب : يجعل الکافور في آخره، 1 / 424، الرقم : 1200، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنائز باب : في غسل الميت، 2 / 646، الرقم : 939، والترمذي في السنن، کتاب : الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في غسل الميت، 3 / 315، الرقم : 990، وقال أبو عيسی : حديث أم عطية حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : غسل الميت وترا، 4 / 30.33، الرقم : 1885. 1894، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء في الجنائز، باب : ما جاء في غسل الميت، 1 / 468، الرقم : 1458، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 84، الرقم : 20809.)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور عمر رسیدہ حضرات بائیں طرف تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) عمر رسیدہ لوگوں کو پہلے دے دوں؟ وہ لڑکا عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پیالہ اُسی پہلے عنایت فرمایا ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : وہ نوجوان حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما تھے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المساقاة الشرب، باب : في الشرب، 2 / 829، الرقم : 2224، وفي باب : من رأی أن صاحب الحوض والقرية أحق بمائة، 2 / 834، الرقم : 2237، وفي کتاب : المظالم والغصب، باب : إذا أذن له أو أحله ولم يبين کم هو، 2 / 865، الرقم : 2319، وفي کتاب : الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب : الهبة المقبوضة وغير المقبوضة والمقسومة وغير المقسومة، 2 / 920، الرقم : 2464، وفي کتاب : الأشربة، باب : هل يستأذن الرجل من عن يمينه في الشرب ليعطي الأکبر، 5 / 2130، الرقم : 5297، ومسلم في الصحيح، کتاب : الأشربة، باب : استحباب إدارة الماء واللبن ونحوهما عن يمين المبتدئ، 3 / 1604، الرقم : 2030، ومالک في الموطأ، 2 / 926، الرقم : 1656، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، 338، الرقم : 22875، 22918، وابن حبان في الصحيح، 12 / 151، الرقم : 5335، والربيع في المسند، 1 / 149، الرقم : 375، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 162.)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو (سر مبارک منڈوانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے (دائیں طرف کے) بال مبارک مونڈے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں وہ بال عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، تو اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمی ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 948، الرقم : 1305، والترمذي في السنن، کتاب : الحج عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء بأي جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم : 912، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 449، الرقم : 4116، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم : 12113، وابن حبان في الصحيح، 9 / 191، الرقم : 1743، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 299، الرقم : 2928، والحاکم في المستدرک، 1 / 647، الرقم : 1743، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 134، الرقم : 9363، وابن عساکر في تاريخ مدينه دمشق، 19 / 413، والعسقلاني في فتح الباري، 1 / 274، الرقم : 169.)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منٰی کے مقام پر تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منٰی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے وہاں قربانی ادا کی اور حجام سے سر مونڈنے کے لیے فرمایا اور اسے دائیں جانب کی طرف اشارہ فرمایا(کہ پہلے اس طرف سے مونڈو) پھر بائیں جانب اشارہ فرمایا (اور اس طرف سے) مونڈنے کا حکم دیا، پھر اپنے موئے مبارک لوگوں کو (تبرکاً) عطا فرمائے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 947، الرقم : 1305، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 103، الرقم : 9183، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 198، الرقم : 198، وفي شرحه علي صحيح مسلم، 9 / 52، والعيني في عمدة القاري، 10 / 62، الرقم : 6271، 15 / 31، الرقم : 5013، والوادياشي في تحفة المحتاج، 2 / 181، الرقم : 1129، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 258، الرقم : 1055، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 79، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 148.)
ور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے دائیں جانب اشارہ کر کے حجام سے فرمایا : یہاں سے (مونڈو)، پھر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں وہ بال مبارک تقسیم کر دیئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجام کو بائیں جانب اشارہ کیا، اس نے اس طرف سے بال مبارک مونڈے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ موئے مبارک حضرت امّ سلیم رضی اﷲ عنہا کو عطا فرمائے۔ اور ابو کریب کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں جانب سے شروع کیا اور لوگوں میں ایک ایک دو دو بال تقسیم فرمائے، پھر بائیں جانب اشارہ کیا اور اس طرف بھی ایسا کیا (یعنی سر منڈایا) پھر دریافت فرمایا : یہاں ابو طلحہ ہیں؟ اور (ان کے حاضر ہونے پر) وہ بال مبارک حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 947، الرقم : 1305، وأبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : الحلق والتقصير، 2 / 203، الرقم : 1981، وابن حبان في الصحيح، 4 / 206، الرقم : 1371، وأبو يعلی في المسند، 5 / 210، 227، الرقم : 2827، 2840، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 427، الرقم : 4031، وابن عبد البر في التمهيد، 7 / 267، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 19 / 413، وابن حزم في حجة الوداع، 1 / 123، 194، 201، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 608، وفي فتح الباري، 1 / 274، الرقم : 169، 3 / 566، الرقم : 1643، والعيني في عمدة القاري، 3 / 38، 10 / 62، 67.)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمرہ عقبہ میں کنکریاں ماریں، پھر اونٹوں کی طرف گئے اور انہیں نحر کیا، حجام بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے سر کی طرف اشارہ فرمایا اس نے دائیں جانب مونڈ دی، جو لوگ قریب بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں وہ بال مبارک تقسیم کر دیئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسری جانب مونڈو اور دریافت فرمایا : ابو طلحہ کہاں ہیں؟ (ان کی آمد پر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ موئے مبارک انہیں عطا فرمائے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 947، الرقم : 1305، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 445، الرقم : 4102، والعسقلاني في فتح الباري، 1 / 274، الرقم : 169، والعيني في عمدة القاري، 3 / 38، 10 / 62، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 32.)
سیدنا حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم وفد کی صورت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یارسول اﷲ!) ہماری بستی میں ایک گرجا ہے (ہم اب قبولِ اسلام کے بعد اسے گرا کر اس جگہ مسجد بنانا چاہتے ہیں اجازت ملنے کے بعد) پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی برکت کے لئے مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی طلب کر کے ہاتھ دھوئے اور کلی فرمائی پھر ایک ڈول میں پانی ڈال دیا اور حکم فرمایا کہ جاؤ تم اپنی بستی میں پہنچو تو گرجے کو گرا دینا اور اس جگہ یہ پانی چھڑک کر مسجد تعمیر کر لو۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا شہر دور ہے اور راستے میں بھی سخت گرمی پڑتی ہے پانی خشک ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس میں مزید پانی ملاتے رہنا یہ اس (نئے پانی کی) پاکیزگی (اور برکت) میں بھی اضافہ ہی کرے گا۔ بہر حال ہم وہاں سے چل کر اپنے شہر پہنچے اس گرجے کو مسمار کیا اس جگہ وہ پانی چھڑکا اور مسجد تعمیر کی۔ پھر ہم نے وہاں اذان دی قبیلہ بنی طی میں سے ایک پادری نے جب اذان سنی تو کہنے لگا۔ کہ یہی حق کی صدا ہے پھر وہ ایک جانب بلندی پر چلا گیا اور اس کے بعد ہم نے اسے کبھی (وہاں) نہیں دیکھا ۔ اور ایک روایت میں بیان کیا کہ پھر ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے، تو ہم میں سے ہر ایک اس بات کی حرص و تمنا رکھتا تھا کہ وہ مقدس پانی اسے اٹھانے کو مل جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں سے ہر ایک کی دن رات میں اسے اٹھانے کے لئے باری مقرر فرما دی۔‘‘ اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه النسائي في السنن، کتاب : المساجد، باب : اتخاذ البيع المسجد، 2 / 38، الرقم : 701، وفي السنن الکبری، 1 / 258، الرقم : 780، وابن حبان في الصحيح، 3 / 405، الرقم : 1123، 4 / 479، الرقم : 1602، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 423، الرقم : 4870، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 332، الرقم : 8241، وابن عبد البر في التمهيد، 5 / 229، وفي الاستيعاب، 2 / 776، الرقم : 1300، وابن سعد في الطبقات الکبری، 5 / 552، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 317، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 162. 163، الرقم : 175. 176، إسناده صحيح، والقزويني في التدوين، 2 / 281.)
عبید اللہ بن ابی رافع سلمی زوجہ ابی رافع سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کے اوپر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سلمی! میرے پاس وضو کے لیے پانی لاؤ۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک برتن لائی جس میں بیری کا پانی تھا۔ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس پانی کو صاف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھٹنوں کے بل گدے پر بیٹھ گئے۔ جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر پانی بہا رہی تھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور دھویا اور میں ہر اس قطرہ کو غور سے دیکھ رہی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور سے برتن میں ٹپک رہا تھا اور وہ یوں لگ رہا تھا گویا کہ وہ چمکدار(نایاب) موتی ہو۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (مزید) پانی لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور دھویا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سرِ انور کے) غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سلمیٰ! جو کچھ اس برتن میں ہے اسے کسی ایسی جگہ پر گرا دو جہاں اس کے اوپر کسی کا پاؤں نہ آئے۔ پس انہوں نے برتن کو پکڑ لیا اور اس (غسل والے پانی) میں سے کچھ پی لیا اور باقی زمین پر (اک جگہ) گرا دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : جو کچھ برتن میں تھا تم نے اس کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے زمین پر اس پانی کے حوالے سے حسد کیا (یعنی زمین کی قسمت پر رشک کیا) تو اس میں سے کچھ تو میں نے پی لیا ہے اور باقی (پاک) زمین پر گرا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اس (مقدس پانی) کی وجہ سے آگ حرام کر دی ۔
(أخرجه الطبراني فيالمعجم الأوسط، 9 / 92، الرقم : 9221، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 270.)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment