حدیث تہتر (73) فرقے ھونگے کذاب وقت اجہل مرزا محمد علی کی ہفوات کا جواب
یہ اجہل مرزا محمد علی کذاب کہتا ہے سب صحیح ہیں اور سب غلط ہیں یہ کذّاب منکر حدیث بھی ہے یہ حدیث پاک کو جعلی کہتا کذّاب اعظم اور وقت کا بہت بڑا فتنہ ہے اسے پہچانیئے ۔
جواب پیش خدمت ہے : ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحبل الّلہ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ۔ (اٰل عمران: ١٠٣)
ترجمہ : اورتم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے "قرآن" مراد ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے "جماعت" مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھام نے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے ۔
مزید اسی سورۃ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے : وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ ( آل عمران،آیت:١٠٥)
ترجمہ : ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائ دسے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیا اس لئے کہ حضور اکرمؐ نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایاگیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا۔
حدیث یہ ہے: اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار (رواہ ابن ماجہ)
یعنی سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔
اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقہ پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔ اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73 فرقے ہوں گے ۔
وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی ۔ (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داود)
عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔
ترجمہ : یعنی،بے شک بنی اسرائیل کے بہتر72 فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نےعرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو۔
دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں'' نبی اسرائیل کے سارے 72 فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72 فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔
مسلم شریف اور ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عیسائیوں نے بہتر (72) بنالئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی (72) فرقے ناری ہوں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا اور وہ جماعت جو میری سنت پر اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرے گی۔ حضور غوث پاک علیہ الرحمۃ اور حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی شرح میں ناجی فرقے سے مراد اہلسنت و جماعت لیئے ہیں ۔
لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذي نفس محمد بيده! لتفترقن أمتي علي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار. قيل : يارسول اﷲ! من هم؟ قال : الجماعة.
ترجمہ : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : يا رسول اﷲ! من هم ؟ یارسول اللہ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الجماعة.’وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے۔
(ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992) (لالکائي، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149)
نوٹ جو کہتے ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں در اصل وہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں میرا کوئی فرقہ نہیں کا نعرہ ملحدین اور منکرین حدیث کا ہے امت فرقوں میں بٹے گی یہ حدیث پاک میں موجود ہے حق پر ایک جماعت ہوگی اور وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے جیسے وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد وغیرہ دشمن سید الانبیاء ہیں...
غرض اس حدیث کا ظہور یوں پوری طرح ہورہا ہے۔') ما انا علیہ واصحابی(کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا) 173/2 (پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے۔ خیال رہے کہ ماسے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ،شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ،مدرسہ اسل
امی نہ بنائے تھے ،ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کئے تھے ۔ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو بشرطہ کے اسی درخت کے پھل ہو ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے آیت کریمہ یوم تبیض وجوه کی تفسیر پوچهی گی تو آپ نےفرمایا : جن کے چہرے قیامت کے دن روشن ہوں گے وه اہل سنت و جماعت ہیں ۔ اور حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ نے بهی یہی ارشاد فرمایا ۔
(تفسیر ابن کثیر:3/139)( تفسیر ابن ابی حاتم)(تفسیر الدر المنثور: 2/63)(تفسیر قرطبی: 5/255)(تفسیر خازن: 1/286)
ان مذکوره بالا حدیث سے معلوم هوا کہ ناجی فرقہ ) نجات والی کامیاب جماعت ( وه هے جو حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت پرعمل پیرا هوگی یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ماأنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة فرمایا یعنی سنت رسول پر عمل کے ساتھ ساتھ سنت صحابہ پر بهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں "وأصحابي " فرمایا ۔
حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا معیارِ حق وباطل ہوناکوئی قیاسی مسئلہ نہیں؛
بلکہ منصوص مسئلہ ہے۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ تشریح سے یہ بات بَیِّنْ طریقہ سے واضح ہوتی ہے کہ اہل السنة والجماعة کا مصداق وہ جماعت ہے جو کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حجت ِشرعیہ مانتی ہو اور امت کا سوادِ اعظم اسی زمرہ میں آتا ہے؛ کیونکہ پوری دنیا میں زیادہ تر ائمہٴ اربعہ کے ماننے والے اور ان کے مقلدین ہیں ، جو بالاتفاق اصولِ ثلاثہ کو حجت مانتے ہیں اور طریقہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ ساتھ اقوالِ صحابہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، افعالِ صحابہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بالخصوص اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دلیلِ شرعی مان کراتباع کرتے ہیں ایک دوسری حدیث میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا : عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَتَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ ۔ (مشکاة المصابیح:۳۰)
ترجمہ : تم لوگ میرےطریقہ اور رہنمائی کرنے والے اور راہ یافتہ خلفاء کے طریقہ کو لازم پکڑلو اور اس کومضبوطی سے تھام لو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقوں اور ان کے اعمال واقوال کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مساوی قرار دے رہے ہیں کہ دونوں پر سنت کا لفظ لانا اور پھر بہا میں ضمیر واحد لانا بتاتا ہے کہ حجت شرعیہ ہونےکی حیثیت سے دونوں میں فرقِ مراتب نہیں؛ بلکہ دونوں مساوی اور برابر ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوتا کہ اہل حق صرف اہل السنة والجماعة ہیں اور اہل السنة والجماعة کا صحیح مصداق ائمہ ٴاربعہ علیہم الرّحمہ کے مقلدین؛ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی حضرات ہیں ۔
نبی کریم اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طرز زندگی اور طریقہ عمل کو "سنّت" کہتے ہیں.
"جماعت" کے لغوی معنى تو گروہ کے ہیں، لیکن یھاں جماعت سے مراد "جماعت_صحابہ" رضی الله عنھم ہے . اس لفظی تحقیق سے اہل_سنّت و جماعت کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے ۔
حافظ ابن_رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ٧٩٥ھ) نے تحریر فرمایا : سنّت" اس راہ کا نام ہےجس راہ پر چلا جاۓ، اور یہ اس(راہ کا) تمسک کو مضبوط پکڑنا ہے جس پر وہ)رسول الله صلی الله علیہ وسلم( اور آپکے" خلفاء راشدین عامل تھے، )عام اس سے کہ( وہ )باتیں( اعتقادات ہوں یا اعمال و اقوال، اور یہی سنّت_کاملہ ہے.
(جامع العلوم والحکم: ١/١٩١)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
شاہ عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:١٠٥٢ھ) اسکی شرح میں لکھتے ہیں:جس چیز کے بارے میں حضرات_خلفاء_راشدین نے حکم دیا ہے،اگرچہ وہ ان کے قیاس و اجتہاد سے صادر ہوا ہو، وہ بھی سنّت کے موافق ہے اور اس پربدعت کا اطلاق ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ گمراہ فرقہ کرتا ہے . (أشعة اللمعات: ١/١٣٠)
اہلِ سنّت و جماعت تین لفظوں سے مرکب هے
(1) اهل .....کا مطلب هے اشخاص ، مقلدین ، اتباع ، پیرو .
(2) سنّت..... معنی راسته مجازا روش .
طرز زندگی اورطرز عمل کےمعنی میں بهی آتا هے .
(3) جماعت. لغوی معنی تو گروه کے هیں ۔
لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابه رضی اللہ عنہم ہے ۔ اس لفظی یعنی اهل سنت و جماعت کا اطلاق ان اشخاص پر هوتا هے جن کے عقائد و نظریات اور اعمال و مسائل کا محور پیغمبر اسلام کی سنت صحیحه اور صحابه کرام کا اثر مبارک هے.
سنت کا مقابل لفظ بدعت ہے : بدعت کے معنی نئی بات کے ہےکه اصطلاح شریعت میں بدعت کهتے ہیں مذهب کے عقائد یا اعمال میں کوئی ایسی بات داخل هو جس کی تلقین صاحب مذهب نے نه فرمائی هو اور نه ان کے کسی حکم یا فعل سے اس کا منشا ظاهر هوتا هو.
اس سے صاف معلوم هوگیا که : اهلسنت و جماعت کے عقائد کے علاوه سب تمام عقائد و نظریات بدعت ، ضلالت و گمراهی هیں .
قرآن و سنت کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت و جماعت اسی راستہ پہ گامزن ہیں : اللہ تعالی نے منع فرمایا فرقہ مت بناؤ مگر وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں : ان لوگوں کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقائد کے خلاف ہیں تو ہم انھیں دعوت سخن پیش کرتے ہیں آجاؤ اپنی اصل لائن پہ جس پہ اہل سنت سواد اعظم ہیں فرقوں میں تم بٹے ہو نہ کہ اہل سنت ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment