تصویر کے شرعی احکام و مسائل
محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے گزارش یہ ہے کہ اس مسلہ میں علماء کے دو آراء ہیں فقیر نے احباب کے حکم پر مختصر مضمون لکھ دیا ہے اہلِ علم اختلافِ رائے کا حق رکھتے ہیں اور جہاں کہیں صریح غلطی پائیں تو فقیر کو مطلع فرما کر اصلاح فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
تصویر کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ، بلکہ کوئی جیب اس سے خالی ہو ۔ فقہاء کرام کے ہاں ایک اصطلاح مستعمل ہے ، جسے عموم بلوٰی کہتے ہیں ۔ اس کا معنیٰ ہے عام لوگوں کا کسی مسئلہ میں گرفتار ہونا۔ علماء و فقہا کرام دیکھتے ہیں کہ اگر اس صورت میں جواز کی گنجائش ہو ، تو وہ جواز پر فتوی دیتے ہیں ۔ بہت سارے مسائل میں فقہاء کرام نے عموم بلوٰی کی وجہ سے جواز پر فتوی دیا ہے۔ تصویر کے بارے میں احادیث میں مذمت بھی آتی ہے اور جواز کی صورت بھی موجود ہے ۔ کرنسی نوٹ، ٹکٹیں ، لفافے ، رسالے ، دستاویزات ، ویزا ، پاسپورٹ ، شناختی کارڈ ، ملازمت ، سفر ، شادی بیاہ اور لین دین وغیرہ کا جواز عموم بلوٰی ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں امام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیا۔ اس سے میں نے دو گدے بنا لیے ۔ آگے فرماتی ہیں : فکانتا فی البيت يجلس عليها ۔ (بخاری، الصحیح، 1: 337،چشتی)
ترجمہ : دوں گدےگھر میں تھے، ان پر سرکارِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے ۔
اب اگر مطلقاً ہر تصویر حرام ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان گدوں پر نہ بیٹھتے ، اور فرماتے کہ اس کو ختم کر دو ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان گدوں پر بیٹھا کرتے تھے ۔ پہلی صورت میں یعنی پردے کی صورت میں یہ اس وقت تکبر کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ ایک طرف لوگوں کو بدن ڈھاپنے کے لیے کپڑا نہیں ملتا ، دوسری طرف پردوں کے لیے کپڑا استعمال کرنا مناسب نہیں تھا ۔
فقہاء کرام نے تصویر کی حرمت یوں بیان کی ہے ۔ فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں وہ کتا یا تصویر ہو جسے رکھنا حرام ہے ۔ رہا وہ جس کا رکھنا حرام نہیں مثلا شکاری کتا، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والا کتا اور جو تصویر قالین اور تکیہ وغیرہ پر روندھی جاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں ، ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں ہوتا ۔
علاّمہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صاحب الوری اپنی کتاب " جدید شرعی مسائل" میں تفصیل سے اس مسلہ پر لکھا ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں :
تصویر کے بارے میں امام ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس بارے میں علماء کے چار اقوال ہیں ۔ لیکن یہاں اس میں سے صرف مطلوبہ قول کے بارے میں بات کروں گا ۔ کہ چار نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ تصویر مطلقاً جائز ہے خواہ وہ آدھے جسم کی ہو ۔ یا پورے جسم کی وہ کسی کپڑے پر ، کاغذ پر ، بستر پر ، یا تکیہ پر چھپی ہوئی ہو ہر قسم کی تصویر جائز ہے ۔
اور اس کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے : حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت طلحہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک جس گھر میں تصویر ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے بسر کہتے ہیں حضرت زید بیمار ہو گئے ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ان کے دروازے پر ایک پردہ ہم نے دیکھا جس میں تصویر تھی ۔ وہ کہتے ہیں میں نے عبید اللہ خولانی رضی اللہ تعالٰی جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے تھے ان سے پوچھا کہ پہلے زید ہم کو تصویروں سے منع کرتے تھے اس پر عبید اللہ نے کہا کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ کپڑوں پر منقش تصویروں کا استثناء کرتے تھے ۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع ترمذی میں بیان فرمایا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور صحیح ہے ۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ مطلقا تصویر کے جواز کے قائل ہیں ۔ وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ حنبلیوں کے مذہب میں کپڑوں پر منقش تصاویر مطلقا جائز ہیں ۔
دوسری حدیث مبارکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس جبریل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ رات آپ کے پاس آیا تھا ۔ مجھے آپ کے پاس آنے سے جس چیز نے روکا وہ دروازہ پر مورتیاں اور مجسمے تھے اور گھر میں سرخ اون کا تصویروں والا پردہ پڑا ہوا تھا ۔ اور گھر میں ایک کتا بھی تھا ۔ پس حکم دیجئے مورتیوں کے سر کاٹ دئیے جائیں ، تاکہ وہ درختوں کی طرح ہو جائیں ۔ اور تصویر دار پردہ کے لئے حکم فرمائیں کے ان پردوں کو کاٹ کر مسندیں بنالی جائیں ۔ جو زمین پر ڈال کے پاؤں سے روندی جائیں ۔ (مسند ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن النسائی ، ابن حبان)
ام المومنین حضرت سیددتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے کھڑکی پر ایک تصویر والا منقش پردہ ڈال دیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ نے اس کو پھاڑ دیا اور فرمایا کے قیامت کے روز ان لوگوں پر سخت عذاب ہوگا جو اللہ کی خلق سے مشابہت پیدا کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے اس پردے کے ایک یا دو تکیے بنائے ۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس کے دو گدے بنا لیے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا تھا ۔ اسی طرح کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ۔۔۔ آثار صحابہ کرام اور تابعین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے گھر میں عجائب مخلوق کی تصویریں تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی انگوٹھی میں دو مکھیوں کی تصویریں تھیں ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی انگوٹھیوں کے نگینوں میں دو شیرنیوں کی تصویریں تھیں ۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ایک قول ہے ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے جن کپڑوں فرش تکیوں میں تصویریں ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں البتہ پردوں میں ممنوع ہے ۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ وہ تصاویر جن کی تعظیم نہ کی جائے تو وہ جائز ہیں ۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردوں کو مسندیں (بیٹھنے کے گدے) بنانے کا حکم دیا ۔ اور کھڑکی کے پردے سے جو تکیہ بنا اس کو بھی استعمال کیا ، جبکہ اس پر تصویر بنی ہوئی تھی ۔ لیکن یہ یاد رہے بلا ضرورت گھروں میں تصویریں لٹکانا درست نہیں ۔ حتی کہ مذہبی شخصیات کی بھی ، بلا ضرورت تصاویر کو رواج دینے بچنا چاہیے ۔ (جدید شرعی مسائل،چشتی)
صاحب ھدایہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولا باس ان يصلَّیَ علی يساط فيه تصاوير لان فی استهانة بالصور ۔ (هداية، 1 : 142)
ترجمہ : جس قالین میں تصاویر بنی ہوں اس پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں تصویروں کی توہین ہے (نہ کہ تعظیم) ۔
تصاویر کے اوپر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے
صاحب ھدایہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولا يسجُدُ التصاوير لانه يشبه عبادة الصورة ۔ (هدايه، 1 : 142)
ترجمہ : اور تصاویر پر سجدہ نہ کرے کیونکہ اس میں تصویر کی عبادت سے مشابہت ہے ۔
لہذا جس مکان میں نمازی کے سامنے کوئی تصویر ہو تو وہ ناجائز ہے اگر دوسری طرف ہو اور نماز میں اس کی تعظیم نہ ہو تو جائز ہے کیونکہ ممانعت تصویر میں اصل علت وہ بت پرستوں سے عبادت میں مشابہت ہے لہذا مشابہت کا خوف نہ ہو تو جائز ہے ۔ (فتح القدير، 1 : 362،چشتی)
اسی طرح جدید آلات میں فی نفسہ کوئی خوبی ہے نہ خرابی ، ان کا استعمال انہیں اچھا یا بُرا بناتا ہے ۔ اگر خطبہ جمعہ یا مسجد میں منعقد ہونے والے کسی پروگرام کی ویڈیوگرافی کی جائے ، پھر اسے یوٹیوب پر اَپ لوڈ کردیا جائے ، تاکہ پوری دنیا میں اس سے استفادہ عام ہو ، تو اس عمل کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام میں تصویر سازی حرام ہے ، اس بنا پر مجسّمے تیار کرنا ، اسٹیچو کھڑے کرنا ، جانداروں کی تصویریں بنانا ، انہیں دیواروں یا نمایاں مقامات پر آویزاں کرنا جائز نہیں ، لیکن موبائل یا کیمرے سے ویڈیو بنانے پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا . یہ حقیقت میں کسی چیز کا عکس ہوتا ہے ، جسے مشین کے ذریعے روک لیا جاتا ہے ، اس پر جواز یا عدمِ جواز کا حکم اس کے استعمال کو دیکھ کر لگایا جائے گا ، چنانچہ فحش اور گندی چیزوں یا پروگراموں کی ویڈیوگرافی کرنا ، انہیں اَپ لوڈ کرنا اور انہیں دیکھنا سب ناجائز ہوگا ، جبکہ اچھے دینی ، سماجی اور تعلیمی پروگراموں کی ویڈیوگرافی کرنا ، انھیں اَپ لوڈ کرنا اور انہیں دیکھنا جائز ہوگا ۔ یہی بات مسجد میں ہونے والے دینی پروگراموں اور خطباتِ جمعہ کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ ان کی ویڈیوگرافی کرنا اور ان سے افادہ و استفادہ کے مواقع فراہم کرنا بالکل جائز ہے ۔ البتہ اس معاملے میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے :
(1) مسجد میں ویڈیوگرافی کے وقت مسجد کے تقدس اور احترام کا خصوصی خیال رکھا جائے ، وہاں ویڈیو گرافی اتنی خاموشی اور سکون سے کی جائے کہ مسجد کی پاکیزہ فضا مجروح نہ ہو ، وہاں شوروغل اور دوڑبھاگ نہ ہو ، نمازی بےسکونی محسوس نہ کریں اور ان کی نمازوں میں خلل نہ ہو ۔
(2) کسی جائز کام کی زیادتی اور اس کا بلاضرورت استعمال اسے نا پسندیدہ بنا دیتا ہے ، اس لیے اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف حسبِ ضرورت کرنا چاہیے ، اس میں افراط سے پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے اور وقت بھی اور یہ دونوں چیزیں اللہ عزّ و جل کی امانت ہیں ، جن کے ضائع کرنے پر مؤاخذہ ہوگا ۔
تمام مکاتبِ فکر کی ملّی مجلس شرعی کا فتویٰ
اسلامی مقاصد کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال جائز ہے ! سارے مسالک کے علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ۔
کنوینر : مولانا ڈاکٹر محمدسرفرازنعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ)
ملی مجلس شرعی کے زیراہتمام ١٣/اپریل ٢٠٠٨ء کو سارے مسالک کے علمائے کرام کا ایک اجتماع جامعہ اسلامیہ نزد ٹھوکر نیاز بیگ لاہور میں مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب (شہید رحمۃ اللہ علیہ) کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تصویر کی شرعی حیثیت کے پس منظر میں الیکٹرانک میڈیا کے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال پر بحث ہوئی اور خصوصاً یہ مسئلہ زیرغور آیا کہ علمائے کرام کو ٹی وی کے دینی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے یانہیں ؟ اور ایسے ٹی وی پروگرام تیار کرنا جائز ہے یا نہیں جن میں شرعی ممنوعات سے اجتناب کیا گیا ہو ؟
اجلاس دن بھرجاری رہا ، جس میں مختلف شہروں : ملتان ، سرگودھا ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور لاہور کے سرکردہ علماء نے بحث میں حصہ لیا ۔ اجلاس کے آخر میں متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کی گئی کہ دعوت واصلاح اور اسلامی مقاصد کے حصول خصوصاً اسلام کے دفاع اور دین مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال جائز ہے ، خواہ بہ اِکراہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اس فیصلے پر جن سرکردہ علماء کرام نے دستخط کیے ، ا ن میں سے چند اہم یہ ہیں :
مولانا ڈاکٹر سرفرازنعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ) ، علاّمہ حافظ عبدالرحمن مدنی
علاّمہ حافظ فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ ، علاّمہ عبدالمالک منصورہ ، مولانا مفتی ڈاکٹر غلام سرور قادری (رحمۃ اللہ علیہ) لاہور ، علاّمہ رشید میاں تھانوی جامعہ مدنیہ لاہور ، علاّمہ حافظ صلاح الدین یوسف ، علاّمہ عبدالعزیز علوی فیصل آباد ،
مولانا مفتی شیر محمد خان بھیرہ ، مولانا مفتی محمد خان قادری ، مفتی محمد حفیظ اللہ نقشبندی ملتان ، علاّمہ غلام حسین ملتان ، علاّمہ مفتی محمد طاہر مسعود سرگودھا ، مولانا حافظ حسن مدنی لاہور ، ڈاکٹر محمد امین رابطہ سیکرٹری ۔
اس سیمینار میں تین مجالس بالترتیب ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ)(مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور) ، علاّمہ حافظ عبد الرحمن مدنی مہتمم جامعہ لاہور الاسلامیہ رحمانیہ اور علاّمہ حافظ فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ ، لاہور کے زیر صدارت منعقد ہوئیں جس میں :
اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی مکتب ِفکر سے
(1) مفتی محمد خاں قادری مہتمم جامعہ اسلامیہ ، ٹھوکر نیاز بیگ ، لاہور
(2) ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری (رحمۃ اللہ علیہ) ، مہتمم جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن، لاہور
(3) مفتی شیر محمد خاں ، شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ ، بھیرہ
(4) مفتی غلام حسین ، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ خیرالمعاد ، ملتان
دیوبندی مکتب ِفکر سے
(1) علاّمہ رشید میاں تھانوی ، مہتمم جامعہ مدنیہ ، لاہور
(2) قاری احمد میاں تھانوی ، نائب مہتمم دار العلوم اسلامیہ ، لاہور
(3) علاّمہ محمد یوسف خاں ، اُستاذِ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور
(4) علاّمہ عتیق الرحمن ، مہتمم جامعہ عبد اللہ بن عمر ، لاہور
(5) مفتی محمد طاہر مسعود ، مہتمم جامعہ مفتاح العلوم ، سرگودھا
غیرمقلد اہل حدیث مکتب ِفکر سے
(1) علاّمہ حافظ عبد العزیز علوی ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
(2) حافظ صلاح الدین یوسف ، مدیر ترجمہ وتحقیق ، دارالسلام ، لاہور
(3) علاّمہ محمد رمضان سلفی ، نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ رحمانیہ
(4) علاّمہ محمد شفیق مدنی ، اُستاذِ حدیث وفقہ ،جامعہ لاہور الاسلامیہ ، لاہور
(5) شیخ الحدیث مولانا عبد المالک مہتمم مرکز ِعلوم اسلامیہ ، منصورہ لاہور ۔
اجلاس کی ریکارڈنگ 'ملی مجلس شرعی' کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد امین صاحب سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment