Thursday, 19 December 2019

آذر حضرت سیّدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ اوّل

آذر حضرت سیّدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِذْ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ۔ ﴿سورہ مریم آیت نمبر 42﴾
ترجمہ : جب اپنے باپ سے فرمایا اے میرے باپ تم کیوں ایسے کی عبادت کر رہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔

اِذْ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ : جب اپنے باپ سے فرمایا اے میرے باپ تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں دینے والا ہو اور وہ صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لئے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے ، جبکہ تم جن بتوں کی عبادت کررہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں بلکہ یہ خود تمہارے محتاج ہیں کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں جاسکتے اور تم نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تھا یا چچا ؟

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام ‘ نسب اور تاریخ پیدائش
امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن العساکر متوفی ٥٧١ ھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نسب اس طرح لکھا ہے : ابراہیم بن تارخ ہیں بن ناحور بن شاروغ بن ارغوبن فالع بن عابرشالخ بن ارفخشذبن سام بن نوبن لمک بن متوشلح بن خنوخ اور وہ ادریس ہیں ‘ بن یاردبن مھلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم ۔
حضرت ابراہیم خلیل الرحمن ہیں ‘ اور آپ کی کنیت ابو الضیفان ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عراق کے شہر بابل کے موضع کو ثی میں پیدا ہوئے ۔ مجاہد نے کہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ نہیں تھے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ‘ ٣٤٤ مطبوعہ دارالفکر‘دمشق‘١٤٠٤ ھ)

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد کوتوحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں اس کا نام آزر بھی مذکور ہے ، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں میں تارخ کو آزر بولا جاتا تھا ، بعض کہتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ علمائے اہلسنّت میں سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اجداد میں کوئی کافر نہ تھا ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک خواتین کے رحموں میں مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں جبکہ مشرک تونَجَس ہیں ۔ اورامام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کا مذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی ۔ علمائے اہلسنّت کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے ۔ (روح المعانی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴/۲۵۳،چشتی)

علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَلَیْہ فرماتے ہیں : قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں ہے (جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا ، چنانچہ ارشاد کیا ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) مراد ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد محترم کا نام حضرت تارخ علیہ السلام تھا ۔ (البداية والنهاية، جلد اول، ص 141)،(السيرة النبوية، ص 9)

لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا مسلمان ہونا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ربنا اغفرلی ولوالدی واللمؤمنین یوم یقوم الحساب ۔
ترجمہ : (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی) اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب ہوگا ۔ (سورہ ابراہیم ،پارہ ۴،آیت نمبر ۱۳)

اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد تارخ مومن ، مؤحد اور جنّتی تھے آزر بُت پرست آپ کا چچا تھا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے والد کی مغفرت کے لئے دعا کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمان تھے کیونکہ کافر کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جاتی ۔


وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَقَوْمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔
ترجمہ : اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔

یہاں آیت میں آزر کیلئے ’’اَبْ‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کا ایک معنی ہے ’’باپ‘‘ اور دوسرا معنی ہے ’’چچا‘‘ اور یہاں اس سے مراد چچا ہے ، جیسا کہ قاموس میں ہے : آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ (القاموس المحیط، باب الرائ، فصل الہمزۃ، ۱/۴۹۱، تحت اللفظ: الازر)

امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاء ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ نیزچچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اور قرآن و حدیث میں بھی چچا کو باپ کہنے کی مثالیں موجود ہیں ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وّٰحِدًا‘‘ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 133)
ترجمہ : ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ و اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے ۔

اس میں حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ‘‘ میرے باپ کو میرے پاس لوٹا دو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث فتح مکۃ، ۸/۵۳۰، الحدیث:۳،چشتی) یہاں ’’اَبِی ْ‘‘ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مراد ہیں جو کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں ۔

علامہ نیشاپوری ‘ علامہ سیوطی اور علامہ آلوسی علیہم الرّحمہ کی تحقیق یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے آباء کرام مومن تھے اور ہمارے نبی کریم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء اور امہات مومن تھے ۔

اب ہم وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا اور آزر آپ کا چچا تھا ‘ اور عرب محاورات میں چچا پر باپ کا اطلاق ہوتا رہتا ہے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تارخ تھا نہ کہ آزر ۔

امام ابو اسحاق زجاج متوفی ٣١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نسب بیان کرنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا ۔ (معانی القرآن واعرابہ للزجاج ‘ ج ٢‘ ص ٢٦٥)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجاہد نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں ہے ‘ وہ بت کا نام ہے ۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٣١٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)

امام ابو عبدالرحمن بن ادریس رازی بن حاتم متوفی ٣٢٧ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد بیان کرتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا ۔ ضحاک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے کہا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں سے مدد مانگتے ہو ایسا نہ کرو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ‘ ج ٤‘ ص ١٣٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو الشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آزر بت ہے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ نہیں ہے ‘ وہ ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن شاروغ بن عابر بن فالع ہیں۔
قرآن مجید میں آزر کے اوپر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اب (باپ) کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ عرب میں ” اب “ کا اطلاق عم پر بہ کثرت کیا جاتا ہے ‘ اگرچہ یہ مجاز ہے ۔ قرآن مجید میں ہے ؛ (آیت) ” ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبینہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابائک ابرھیم واسمعیل واسحق “۔ (سورۃُ البقرہ : ١٣٣)
ترجمہ : کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ‘ انہوں نے کہا ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ۔
اس آیت میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ حالانکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ نہیں ‘ بلکہ چچا ہیں اور امام ابو العالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اس آیت میں چچا پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے اور انہوں نے محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ماموں والد ہے اور چچا والد ہے اور اس آیت کی تلاوت کی ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور ‘ پاکستان،چشتی)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کے مومن ہونے پر دلیل

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ حضرت سلیمان بن صرد سے روایت کیا ہے کہ جب کفار نے حضرت ابرہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا وہ لکڑیاں جمع کرنے لگے ‘ حتی کہ ایک بوڑھی عورت بھی لکڑیاں جمع کرنے لگی ۔ جب وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے کہا (آیت) ”۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل “۔ اور جب انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ (آیت) ” ینار کونی برداوسلاما علی ابراھیم “۔ (سورۃُ الانبیاء : ٦٩)
ترجمہ : اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا نے کہا میری وجہ سے ان سے عذاب دور کیا گیا ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کی ایک چنگاری بھیجی جو اس کے پیر پر لگی اور اس کو جلا دیا ۔ اس اثر میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا اور اس اثر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آزر اس وقت میں ہلاک کیا گیا تھا جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہوگیا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس کے لیے استغفار کرنا ترک کر گیا ‘ اور احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ حالت شرک میں مرگیا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دشمن خدا ہونا معلوم ہوگیا اور انہوں نے پھر اس کے لیے استغفار نہیں کیا ۔

امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے (عرفی) باپ کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے اور جب وہ مرگیا تو ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے۔ پھر انہوں نے اسکے لیے استغفار نہیں کیا اور انہوں نے محمد بن کعب ‘ قتادہ ‘ مجاہد اور حسن وغیرہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کی حیات میں اس کے ایمان کی امید رکھتے تھے اور جب وہ شرک پر مرگیا تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ پھر آگ میں ڈالے جانے کے واقعہ کے بعدحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ‘ پھر ہجرت کے کافی عرصہ بعد وہ مصر میں داخل ہوئے اور وہاں حضرت سارہ کے سبب سے ظالم بادشاہ کے ساتھ ان کا واقعہ پیش آیا اور انجام کار حضرت ہاجرہ آپ کی باندی بنادی گئیں اس کے بعد پھر شام کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور اس کے بیٹے حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مکہ میں منتقل کردیں اور وہاں آپ نے یہ دعا کی : (آیت) ” ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون، ربنا انک تعلم مانخفی وما نعلن وما یخفی علی اللہ من شیء فی الارض ولا فی السماء، الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسمعیل واسحق ان ربی لسمیع الدعآء، رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء، ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب ، (سورہ ابراہیم : ٤١۔ ٣٧)
ترجمہ : اے ہمارے رب ‘ بیشک میں نے اپنی بعض اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ‘ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘ سو تم کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو بعض پھل عطا فرماتا کہ وہ شکر ادا کریں ‘ اے ہمارے رب ! بیشک تو جانتا ہے جس کو ہم چھپاتے ہیں اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں اور آسمان اور زمین میں سے کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘ بیشک میرا رب ضرور میری دعا سننے والا ہے ‘ اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد (سے) بھی ‘ اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور سب ایمان والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا ۔
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کے فوت ہونے کے طویل عرصہ بعد اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں جس شخص کے کفر اور اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیزار ہونے کا ذکر ہے وہ ان کے چچا تھے نہ کہ ان کے حقیقی والد ۔
امام محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے الطبقات میں کلبی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بابل سے شام کی طرف ہجرت کی تو ان کی عمر سینتیس (37) سال تھی ‘ پھر انہوں نے کچھ عرصہ حران میں قیام کیا ‘ پھر کچھ عرصہ اردن میں قیام کیا پھر وہاں سے مصر چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کیا ‘ پھر وہاں سے شام کی طرف لوٹ گئے اور ایلیا اور فلسطین کے درمیان قیام کیا ۔ پھر وہاں کے لوگوں نے آپ کو ستایا تو آپ رملہ اور ایلیا کے درمیان چلے گئے اور امام ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے واقدی سے روایت کیا ہے کہ نوے سال کی عمر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور ان دونوں اثروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کے بعد جب آپ نے بابل سے ہجرت کی تھی اور مکہ مکرمہ میں جو آپ نے دعا کی تھی انکے درمیان پچاس اور کچھ سال کا عرصہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ١‘ ص ٢١٥۔ ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)

خلاصہ یہ ہے کہ آزر کے مرنے کے پچاس سے زیادہ سال کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ہے اور جب کہ آزر سے وہ بیزار ہوچکے تھے اور اس کے لیے دعا کو ترک کرچکے تھے تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ آزر اور شخص تھا اور ان کے والد اور شخص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کے چچا آزر کو اب (عرفی باپ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ان کے حقیقی باپ کو والد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ‘ تاکہ تغییر عنوان تغییر معنون پر دلالت کرے ۔ ہم نے علامہ سیوطی کے جس استدلال کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ‘ علامہ آلوسی نے بھی اس کا خلاصہ ذکر کیا ہے ۔ (روح المعانی ‘ جز ٧‘ ص ١٩٥‘ طبع بیروت) ۔ (مزید تحقیق جاری ہے حصّہ دوم میں پیش کی جائے گی ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...