نَنْگِ اَسْلاف ، تعارف ، معنی و مفہو اور ایک پیغام
ننگ اسلاف (نَنْگِ اَسْلاف)
(نَن (ن غنہ) + گے + اَس + لاف)
معانی
پرکھوں کی رسوائی کا باعث ، خاندان کو رسوا کرنے والا شخص ار ، عیب ، شرم نیز بے عزتی، رسوائی، ذلت ۔ (اردو لُغت)
شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی صاحب اپنے نام کے ساتھ ’ننگ اسلاف‘ لکھا کرتے تھے ۔ : ننگ اسلاف حسین احمد غفر لہ دارالعلوم دیوبند ۔ (پانچ (5) ربیع الثانی 1377ھ ) ماخوذ از شیخ الاسلام نمبر 167)
امام مالک ابن انس مجتہد العصر والزمان سے مولانا مدنی افضل ، امام موصوف صرف مصداق حدیث تھے اور مولانا موصوف آیت ربّانی ۔ وہ حدیث جس کے مصداق امام مالک ہیں اس کا مصداق مولانا مدنی کو قرار دینا مولانا کی توہین اور میری عقیدت و محبت کے خلاف ہے ۔ مفتی بجنور مولانا عزیز الرحمٰن صاحب کا فتوٰی ۔ میں اپنی صحیح و صادق عقیدت اور محبت کی وجہ سے مجبور ہوں کہ مندرجہ ذیل حدیث کا مصداق آپ کو قرار نہ دوں ، لو شک ان یضرب الناس اکباد الابل یطلبون العلم فلا یجدون اعلم من عالم المدینہ الحدیث رواہ مالک والترمذی ۔
قریب ہے کہ لوگ اونٹوں پر سفر کر کے دور دراز سے علم حاصل کرنے کے لئے آئیں گے ، پس وہ عالم مدینہ سے بڑھ کر کسی کو عالم نہ پائیں گے ۔ نسائی اور حاکم نے حدیث مذکورہ کی تحسین کی ہے اور سفیان ابن مہدی اور عبد الرزاق نے فرمایا ہے کہ مصداق اس حدیث کا امام مالک ابن انس ہیں میں کہتا ہوں کہ ہمارے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اٰ یۃٌ مِّنَ اٰ یاتِ اللہ ہیں اور موجودہ زمانے میں اس حدیث کا مصداق ہیں ۔ (شیخ الاسلام نمبر 72 کالم 21،چشتی)
میں اس طرح کی روایات صرف اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ ابھی تک جو کچھ ہوا ، ہوا ، مگر اب آپ علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کو سمجھنے میں نہ چوکیں ۔ دیکھئے ! اس مقام پر ایک مقلد کو مجتہد کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے ؟ نقل کردہ اقتباس پڑھئے ، سفیان ابن مہدی اور عبد الرزاق حدیث مذکورہ کا مصداق سیدنا الامام حضرت مالک بن انس کو قرار دیتے ہیں ، مگر حضرت شیخ کے محب صادق مفتی بجنور مولانا مدنی کو نہ صرف امام مالک کے برابر کرنے کے لئے ان کو مصداق حدیث کہتے ہیں ، بلکہ مولانا موصوف کو آیات ربانیہ میں شمار کر کے حضرت سیدنا امام مالک مجتہد العصر والزمان سے آگے بڑھانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں ، خدارا آپ انصاف کریں ، آخر علمائے دیوبند اپنے شیخ کو ‘‘ خدا کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ‘‘ یا معمولی انسان یا ہماری طرح بشر کیوں نہیں کہتے ؟ ان کو کبھی انسانیت سے بالاتر کبھی امام الرسول ، کبھی الوہیت کا پیکر اور کبھی امام مالک سے افضل کیوں لکھا اور کہا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اب بھی علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کو سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے ؟؟
جس طرح وہ شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جو بشریت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منکر ہو ، اسی طرح اس شخص کے بھی ایمان و اسلام کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنی طرح بشر سمجھے ۔ مگر افسوس نجد سے دیوبند یا سہانپور چلے جائیے یہ الفاظ آپ کے کانوں سے ٹکراتے رہیں گے کہ ۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہماری طرح بشر تھے ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معمولی انسان تھے ۔ اور اگر آپ بدقسمتی سے یہ پوچھ لیں کہ اے حضرت ! آپ ایسا کیوں فرماتے ہیں ؟ تو بڑی قرآت سے تلاوت فرمائیں گے ، اِنِّمَا اَنا بَشَرٌ مِثلُکُم ۔ اس کے بعد یوں استدلال کریں گے کہ دیکھو دیکھو بہ چشم عبرت دیکھو خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تسلیم ہے کہ میں تمھاری طرح بشر ہوں ۔ بشر کے کیا معنٰی ہیں ، اور مثلیت کی کیا حقیقت ہے ، اس پر گفتگو کئے بغیر میں بھی حضرات علمائے دیوبند سے صرف ایک سوال کرنے کی جسارت کروں گا ۔ ‘‘ بقول آپ کے رسول ہماری طرح بشر ہیں ‘‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ بات تسلیم تھی تو کیا مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے گی کہ مولانا مدنی ناکارہ ، علم و فضل سے خالی ، اور ننگ اسلاف تھے ،کیونکہ یہ باتیں خود مولانا موصوف کو بھی تسلیم تھیں ۔ مولانا خود ہی فرماتے ہیں : میں تو بالکل ہی ناکارہ اور خالی تھا اور آج تک خالی ہی ہوں ۔ (نقش حیات صفحہ 15 جلد 1،چشتی)
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں : ننگ اسلاف حسین احمد غفر لہ دارالعلوم دیوبند ۔ (پانچ (5) ربیع الثانی 1377ھ ) ماخوذ از شیخ الاسلام نمبر 167)
غور فرمائیے کہ مولانا مدنی خود کو ناکارہ علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف لکھ رہے ہیں اور ان کا ننگ اسلاف ہونا مدیر الجمیعۃ کو تسلیم ہے جبھی تو شائع کیا ، اور آج تک مولانا کے کسی مرید و معتقد نے ‘‘ننگ اسلاف ‘‘ ہونے پر غم و غصہ کا اظہار نہیں کیا ، اور جب تک مولانا مدنی زندہ تھے کسی نے یہ شکایت نہیں کی کہ حضرت جب آپ ننگ اسلاف نہیں ہیں تو جھوٹ بول کر ننگ اسلاف کیوں لکھتے ہیں ؟ اور نہ کسی مرید نے یہ سوچ کر کہ جب حضرت شیخ کو خود اقرار ہے کہ میں ننگ اسلاف اور ناکارہ ہوں ، تو لاؤ ان کی بیعت توڑدی جائے ، ان تمام حقائق کے باوجود اگر ہم مولانا مدنی کو ان کے ہی فرمودات کی روشنی میں ناکارہ علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف لکھ دیں یا کہہ دیں تو ہر چہار طرف سے آواز اٹھے گی کہ دیکھو دیکھو وہ بدعتی اور قبر پُجوارہا ہے ۔ اس سے کسی کو بحث نہیں کہ میں خود بدعت کو ضلالت اور قبر پرستی کو شرک سمجھتا ہوں ۔ بس انھیں بدعتی اور قبر پرست کہنے میں ہی سکون ملتا ہے ، نہ یہ دیکھیں گے کہ خود حضرت شیخ کو اپنا ‘‘ننگ اسلام‘‘ ہونا تسلیم ہے ۔ اگر افہام و تفہیم کا لب و لہجہ اختیار کیجئیے تو کم از کم 640 گالیاں تو ضرور سُننی پڑیں گی ۔ مثال کے طور پر مولانا مدنی ہی کو لے لیجئے شہاب ثاقب لکھنے بیٹھے تو 640 گالیاں دئیے بغیر دم نہ لیا ۔ جس کا اعتراف فاضل دیوبند مولانا عثمانی کو بھی ہے ۔ فرماتے ہیں : مصنّف (مولانا شاہ اجمل صاحب سنبھلی علیہ الرحمۃ ) نے شروع میں شہاب ثاقب میں سے 640 ایسے الفاظ کی فہرست دی ہے جو ان کے الفاظ میں موٹی موٹی گالیاں ہیں ، واقعی مولانا مدنی نے اس کتاب میں جس طرح کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں انہیں موٹی موٹی گالیاں نہ سہی مہذّب گالیاں کہنا ضرور حق بجانب ہے ۔ (ماہنامہ تجلّی فروری ،مارچ 1959ء دیوبند،چشتی)
واہ رے شیخ پرستی ! کہیں گالیاں بھی مہذّب ہوتی ہیں ؟
گالیوں کو مہذّب دیوبندی کہہ سکتے ہیں مگر اس کے لئے جس کا دل و دماغ اسلامی ہے آپ کا یہ ارشاد ناقابل قبول ہے ۔ اچھا آئیے ذرا ان گالیوں پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال دی جائے ۔ جو فاضل دیوبند مولانا عامر عثمانی کے نزدیک ‘‘مہذّب گالیاں ‘‘ ہیں ۔ ‘‘دھوکہ باز ، فریبی ، مکّار ، دجّال ، بریلوی ، افتراء ، پرواز ، دروغ گو ، بہتان تراش ، دجّال ناپاک ، روافض کے چھوٹے بھائی ، ابلیس لعین کا شاگرد ، گمراہ ، بے دین ، کج فہم ، بے عقل ، بے علم ، بے شعور ، مجدد الکتفیر ، مجدد التضلیل ، مجدد المفترین ، شیطٰنیت کا جال پھیلانے والا ، اہل ہوا و بدع وغیرہ وٍغیرہ ۔(120 صفحے کی کتاب الشہاب الثاقب میں اسی طرح کی 640 گالیاں مولانا عامر کے نزدیک مہذّب گالیاں ہیں ۔ میں چلینج کرتا ہوں ، اگر انہیں الفاظ کو اس طرح لکھ کر کوئی دیوبندی علماء کے پاس بھیج دے کہ :
جناب علمائے دیوبند
مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ آپ مولانا اسمٰعیل دہلوی اور مولانا مودودی سے عقیدت رکھتے ہیں ، اس لئے کہ یہ دونوں حضرات ۔ ‘‘د ھوکہ باز ، فریبی ، مکّار ، دجّال ، دیوبندی ، افتراء ، پرواز ، دروغ گو ، بہتان تراش ، دجّال ناپاک ، روافض کے چھوٹے بھائی ، ابلیس لعین کا شاگرد ، گمراہ ، بے دین ، کج فہم ، بے عقل ، بے علم ، بے شعور ، مجدد الکتفیر ، مجدد التضلیل ، مجدد المفترین ، شیطٰنیت کا جال پھیلانے والا ، اہل ہوا و بدع ہیں ۔ امیّد قوی ہے کہ آپ بُرا نہیں مانیں گے ، بلکہ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے ۔ فقط آپ کا ۔۔۔۔۔۔ فلاں
تو دیوبندی حضرات کا جام صبر و ضبط چھلک اٹھے گا ، اور بدقسمت ‘‘فلاں ‘‘کو اس طرح لیتھیڑیں گے کہ ان الفاظ کو ‘‘ بدترین ‘‘ گالی یقیناً قرار دیں گے ، مگر جب یہی گالیاں مولانا مدنی کے قلم سے نکلتی ہیں تو مہذّب کہی جاتی ہیں ۔
ناظرین ! پھر سنبھلئے اور غور کیجئے ! گالیاں بہر حال گالیاں ہیں چاہے میری زبان و قلم سے نکلیں یا مولانا مدنی کی زبان و قلم سے ، خواہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو دی جائیں یا مولانا اسمٰعیل دہلوی یا مولانا ابو الاعلٰے مودودی کو ۔ گالیوں کو مہذّب قرار دینا غیرمہذّب ہونے کی دلیل ہے ، مگر قربان جائیے فاضلانِ دیوبند پر، وہ گالیاں جو مولانا احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ یا سنیوں کو دی جائیں وہ تو مہذّب ہیں اور جو مولانا حسین احمد دیوبندی اور دیوبندیوں کو دی جائیں وہ بدترین ہیں ۔
گفتگو بہت طویل ہو گئی ، ہاں تو میں کہہ رہا تھا ، کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم کو اپنے جیسا بشر کہنے کے لئے حضرت کا ارشاد ! انما انا بشر مثلکم کو پیش کیا جاتا ہے ، اسی طرح ہمیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا کہ ہم لوگ بھی مولانا مدنی کے ارشاد مبارک کو پیش کرتے ہوئے اُن کو ناکارہ ، علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف کہہ سکیں ۔
محترم قارئین کرام
ذرا ٹھرئیے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ مولانا مدنی جب اپنے کو ناکارہ اور ننگ اسلاف کہتے ہیں تو کوئی ان کو ناکارہ اور ننگ اسلاف نہیں کہتا بلکہ تواضح پر محمول کرتا ہے ۔
لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم اپنے آپ کو انما انا بشر مثلکم فرماتے ہیں تو ہر شخص ان کو ‘‘اپنے جیسا بشر ‘‘ کہنے لگتا ہے ، کوئی بھی اللہ کا بندہ تواضح پر محمول کرتے ہوئے یہ نہیں کہتا کہ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و الہ وسلّمبشر تو ہیں مگر ہماری طرح نہیں ، حضرت نے مثلکم تواضعاً فرمایا ہے ۔
دیکھا آپ نے علمائے دیوبند کا نقطئہ نظر ۔ مولانا مدنی اپنے آپ کو ناکارہ اور ننگ اسلاف کہیں تو تواضح ہوجائے اور رسول مقبول بشر مثلکم فرمائیں تو تواضح نہیں بلکہ ہماری ہی طرح بشر ہو جائیں ۔ واہ رے علمائے دیوبند کی دو رخی پالیسی ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment