Friday, 21 June 2019

مشتی زنی کا شرعی حکم

مشتی زنی کا شرعی حکم

محترم قارئین کرام : مشت زنی کیا ہے ؟ اور اس کا اسلام میں حکم مشت زنی کو عربی میں جلق (ہاتھ کی مدد سے منی خارج کرنا ، مشت زنی، ہتلس، مٹھولے لگانا یا استمناء بالید جلق، ہتھ رس) کہتے ہیں جب کہ مٹھ مارنا، اردو میں مستعمل ہے ، (انگریزی:Mastrubation) ایک انسانی شہوانی عمل ہوتا ہے ، جس میں ایک مرد یا عورت بغیر کسی دوسرے انسان کےاپنی شرمگاہ کو ہاتھ ، انگلیاں یا کسی اور چیز کی مدد سے متحرک رکھے اور جس میں انسان کی شرمگاہ سے منی نکل آئے ۔ اس کا ارتکاب انسان عام طور پر اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنی شہوت کے دباؤ کو نہ سنبھال سکے ۔ كئی احادیث میں اس فعل ِ بد (مشت زنی (Musterbation) ، ہینڈ پریکٹس) پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظرِکرم فرمائے گا ۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے ) ، اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے ہاتھ حاملہ ہوں گے ۔

اوراس کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) ۔ (سورہ المؤمنون)
ترجمہ :اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔

ہم جنس پرستی ، مشت زنی اور مُتعہ حرام ہے

اس سے معلوم ہو اکہ شریعت میں صرف بیویوں اور شرعی باندیوں سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجاز ت ہے ، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی دیگر صورتیں جیسے مرد کا مرد سے ، عورت کا عورت سے ، شوہر کا بیوی یاشرعی باندی کے پچھلے مقام سے ، اپنے ہاتھ سے شہوت پوری کرنا حرام ہے یونہی کسی عورت سے متعہ کرنا بھی حرام ہے ۔

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ اپنے ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے ۔ (تفسیر خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۳/۳۲۱)

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہو اکہ متعہ حرام ہے کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے وہ مرد کی بیوی نہیں کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا اس کا وارث نہیں بنتا ، اگر وہ عورت بیوی ہوتی تو مرد کے انتقال کے بعد اس کی وارث بھی بنتی کیونکہ بیوی کی وراثت قرآن سے ثابت ہے ۔ لہٰذا جب واضح ہو گیا کہ متعہ کروانے والی عورت مرد کی بیوی نہیں تو ضروری ہے کہ وہ مرد کے لئے حلال نہ ہو ۔ (تفسیر کبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۸/۲۶۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت : تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھے اسے شادی کرنی چاہیے ، اورجوطاقت نہيں رکھتا وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400،چشتی)
اگر مشت زنی جائز ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی فرماتے ، اس لیئے مکلف کےلیئے ایسا کرنا آسان ہے ، لیکن روزے میں مشقت ہے ، توجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی راہنمائی فرمائي تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشت زنی کرنا حرام ہے اورجائز نہيں ۔

حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلون النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا ممن تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل , والمفعول به، ومدمن الخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره ۔
مفہوم حدیث : سات شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ پاک روز محشر نہ نظر کرم سے دیکھیں گے، نہ پاک کریں گے اور نہ لوگوں کے ساتھ جمع کریں گے اور وہ جہنم میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ ان میں سے ایک ناکح ید ہے۔(جزء ابن العرفہ 1۔64 ط دار الاقصی)
اسی مفہوم کی ایک اور حدیث : وأخبرنا محمد بن الحسين قال: حدثنا الفريابي , قال: حدثنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا عبد الله بن لهيعة , عن عبد الرحمن بن زياد بن أنعم , عن أبي عبد الرحمن الحبلي , عن عبد الله بن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة , ولا يزكيهم , ويقول ادخلوا النار مع الداخلين: الفاعل والمفعول به , والناكح يده , وناكح البهيمة , وناكح المرأة في دبرها , وجامع بين المرأة وابنتها , والزاني بحليلة جاره , والمؤذي لجاره حتى يلعنه "(ذم اللواط 1۔72 ط مکتبۃ القرآن)

سئل ابن عباس رضی الله عنه عن رجل يبعث بذکره حتی ينزل فقال ابن عباس ان نکاح الامة خير من هذا و هذا خير من الزنا.
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنے آلہ تناسل سے کھیلتا ہے، حتی کہ اس کو انزال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے اور یہ زنا سے بہتر ہے۔
ناکح اليد ملعون. ترجمہ : ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے ۔ (ردالمختار، 2 : 137-136،چشتی)

علامہ علاء الدین حنفی لکھتے ہیں کہ استمناء بالید مکروہ تحریمی ہے۔

امام شافعی کا قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ البتہ بیوی یا باندی کے ہاتھ سے استمناء کرانا جائز ہے۔

صاحب در مختار یہ نقل کرتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔

انسان اگر حصول شہوت کے لیے یہ عمل کرے گا تو گنہگار ہوگا ۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے اور پانی کو بہانا اور شہوت کو غیر محل میں پورا کرنا حرام ہے ۔

علامہ ابو للیث نے کہا ہے کہ شہوت کی توجہ، حصول اور تجسس کی خاطر استمناء گناہ ہے ۔

علامہ ذیلعی نے استمناء بالکف کے عدم جواز پر اس سے استدلال کیا ۔

انسان کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے عضو خاص کو رگڑے، کیونکہ اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے عضو کا علی الاطلاق مالک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنے وجود کا، جسم کا، حتی کہ اپنے اعضاء کا مالک ہی نہیں تو وہ ان اعضاء کو شہوت، غلط کاری یا گناہ کے لیے استعمال نہیں کر سکتا ۔

علامہ ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے استمناء بالکف کیا تو اس نے حرام کام کیا اور اس کا یہ فعل حرام تصور ہوگا۔ ہاں اگر اس کا انزال ہوگیا تو اس کا روزہ بھی فاسد ہو جائے گا ۔ (المغنی، جلد 3)

جمہور کے نزدیک استمناء بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے’’،یعنی مشت زنی ناجائز اور حرام ہے ۔ لہٰذا اس بناء پر جمہور علماء ِ کرام کے نزدیک لذت حاصل کرنے کے لئے مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے ، البتہ اگر کسی غیر شادی شدہ شخص پر یا بیوی سے دور شخص پر شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو تو درج ذیل صورتوں پر عمل کرے ۔

(1) غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے ، اگر شادی شدہ ہے اور بیوی سے کہیں دور ہے تو بیوی کے پاس آنے کی فوری کوئی صورت اختیار کرے ، اور اگر رخصتی نہیں ہوئی تو رخصتی کا انتظام کرے ، لیکن واضح رہے کہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے بیوی کے ساتھ تعلق رکھنا شرعا ً جائز ہے ۔

(2) روزہ رکھے ،کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے ۔

(3) تسکین بخش دوائی اور غذا استعمال کرے ،جب ان مذکورہ صورتوں پر عمل کرنے سے بھی شہوت مغلوب نہ ہو، اوربیوی کے پاس آنے یا رخصتی کا فوری کوئی انتظام بھی نہ ہورہا ہو،اور زنا میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، تو اگر ایسا شخص زنا سے بچنے کی غرض سے مشت زنی کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ توقع ہے کہ ا س پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا ،کیونکہ اس کا مقصد زنا سے بچنا ہے ، نہ کہ لذت حاصل کرنا ،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار بھی کرے ۔ (مأخذہٗ تبویب۷۴؍۱۲۴)
شعب الإيمان (7/ 329) ۔ عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول [ص:330] الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره ۔
شعب الإيمان (7/ 330) ۔ عن أنس بن مالك قال: ” يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى ” ۔
التفسير المظهري (10/ 68) ۔ وفيه دليل على ان الاستمناء باليد حرام وهو قول العلماء قال ابن جريح سالت عطاء عنه فقال مكروه سمعت ان قوما يحشرون وأيديهم حبالى فاظن انهم هؤلاء وعن سعيد بن جبير قال عذب الله امة كانوا يعبثون بمذاكيرهم قلت وفى الباب حديث انس رض قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ملعون من نكح يده رواه الأزدي فى الضعفاء وابن الجوزي من طريق الحسن بن عرفة فى جزئية المشهور بلفظ سبعة لا ينظر الله إليهم فذكر الناكح يده ۔
تفسير ابن كثير (5/ 404) ۔ وقد استدل الإمام الشافعي رحمه الله ومن وافقه على تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة والذين هم لفروجهم حافظون إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال الله تعالى: فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...