دیوبندی ملاّں قبر سے اٹھ کر مدد کرنے آگیا آخر یہ شرک کیوں نہیں ہے ؟
محترم قارئین کرام : وفات کے بعد بانی دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کا جسم کے ساتھ مدرسہ دیوبند میں آنا : قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند بیان کرتے ہیں کہ جس زمانے میں مولوی رفیع الدین صاحب مدرسہ کے مہتمم تھے ، دارالعلوم کے صدر مدردین کے درمیان آپس میں کچھ نزاع چھڑ گئی آگے چل کر مدرسہ کے صدر مدرس مولوی محمود الحسن صاحب بھی اس ہنگامے میں شریک ہو گئے اور جھگڑا طول پکڑ گیا . اب اس کے بعد کا واقعہ قاری طیب صاحب ہی کی زبانی سنیے. لکھتے ہیں : اسی دوران میں ایک دن علی الصبح بعد نماز فجر مولانا رفیع الدین صاحب نےمولا نا محمد الحسن صاحب کو اپنے حجرہ میں بلایا (جو دارالعلوم دیو بند میں ہے) مولانا حاضر ہوئے اور حجرہ کے کواڑ کھول کر اندر داخل ہوئے . مولانا رفیع الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے میرا یہ روئی کا لبادہ دیکھ لو . مولانا نے لبادہ دیکھا تو تر تھا اور خوب بھیگ رہا تھا فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا ناتوتوی جسد عنصری (جسم ظاہری) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے جس سے میں ایک دم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا اور یہ فرمایا کہ محمود الحسن کو کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے بس میں نے یہ کہنے کے لیے بلایا ہے . مولانا محمودالحسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کی اس کے بعد میں اس قصے میں کچھ نہ بولوں گا ۔ ( (ارواحِ ثلاثہ صفحات 193 ، 194 حکایت نمبر 246)
ایک دیوبندی مولوی صاحب کا مناظرہ تھا گھبرائے تو پہلو میں ایک اجنبی آکر بیٹھ گیا اور کہا گفتگو کرو جب گفتگو شروع کی تو جیت گیا حلیہ بتانے پر معلوم ہوا وہ بانی دیوبند نانوتوی صاحب تھے جو قبر سے آکر مدد کررہے تھے اور حاشیہ میں لکھا ارواح اولیاء سے مدد کے ہم دیوبندی بھی اہلسنت کی طرح قائل ہیں یہ مسلہ قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے۔ ارواح اولیاء کا مدد کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (سوانح قاسمی حصّہ اوّل صفحات 331 ،332،چشتی)
دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں مجبورا : پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت و جماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)۔(مزید آپ خود اصل اسکینز میں پڑھیں)
مولوی نانوتوی صاحب کا خدائی تصرف (استغفراللہ)
اب ایک نیا تماشہ اور ملاحظہ فرمائیے قاری صاحب کی اس روایت پر دیوبندی مذہب کے پیشوا حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنا ایک نیا حاشیہ چڑھایا یے جس میں بیان کردہ واقعہ کی توثیق کرتے ہوئے موصوف نے تحریر کیا ہے : یہ واقعہ روح کا تمثل تھا اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ جسد مثالی تھا مگر مشابہ جسد عنصری کے. دوسری صورت یہ کہ روح نے خود عناصر میں تصرف کر کے جسد عنصری تیار کر لیا ہو ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحات 193 ، 194 حکایت نمبر 246،چشتی)
محترم قارئین کرام دیکھ رہے ہیں آپ ؟ اس واقعہ کے ساتھ کتنے مشرکانہ عقیدے لپٹے ہوئے ہیں . پہلا عقیدہ تو مولوی قاسم صاحب کے حق میں علم غیب کا ہے کیونکہ ان حضرات کے تئییں اگر انہیں علم غیب نہیں تھا تو عالم برزخ میں انہیں کیونکر خبر ہو گئی کی مدرسہ دیوبند میں مدرسین کے درمیان سخت ہنگامہ ہو گیا ہے یہاں تک کہ مدرسہ کےصدر مدرس مولوی محمودالحسن صاحب بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں چل کر انہیں منع کر دیا جائے ۔
اور پھر ان کی روح کی قوت تصرف کا کیا کہنا کہ تھانوی صاحب کے ارشاد کے مطابق اس جہان خاکی میں دوبارہ آنے کےلیے اس نے خود ہی آگ ، پانی اور ہوا ، مٹی کا ایک انسانی جسم تیار کیا اور خود ہی اس میں داخل ہو کر زندگی کے آثار اور نقل و حرکت کی قوت ارادی سے مسلح ہوئی اور لحد سے نقل کر سیدھے دیوبند کے مدرسہ میں چلی آئی ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولوی قاسم صاحب نانوتوی کی روح کے لیے یہ خدائی اختیارات کو بلا چون و چرا مولوی رفیع الدین صاحب نے بھی تسلیم کر لیا مولوی محمودالحسن صاحب بھی اس پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آئے اور تھانوی صاحب کا کیا کہنا کہ انھوں نے تو جسم انسانی کا خالق ہی اسے ٹھہرا دیا اور اب قاری طیب صاحب اس کی تشہیر فرما رہے ہیں ۔
ان حالات میں ایک صحیح الدماغ آدمی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ روح کے تصرفات و اختیارات اور غیبی علم و ادراک کی جو قوتیں سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم اور ان کے مقربینرضی اللہ عنہم کے حق میں تسلیم کرنا یہ حضرات کفر و شرک سمجھتے ہیں وہی "اپنے مولانا" کے حق میں کیونکر اسلام و ایمان بن گیا ہے اور توحیدِ خالص بن گیا ؟ کیا یہ صورتحال اس حقیقت کو واضح نہیں کرتی کہ ان حضرات کے یہاں کفر و شرک کی یہ تمام بحثیں صرف اس لیے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی حرمتوں کے خلاف جنگ کرنے کےلیے انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے ورنہ خالص عقیدہ توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی ۔ امید ہے کہ دیوبندی حضرات بھی گالم گلوچ کی بجائے اس پر غور فرمائیں گے اور مہذب انداز میں علمی جواب دینگے ، اللہ پاک ہم سب کو اصل اور نقل کی پہچان فرمائے آمین ۔
ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نہیں جانتے کون کس حال میں ہے آکر مدد نہیں کر سکتے اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ قبر سے مدد نہیں کر سکتے یہ کہتے ہیں دیوبندی مگر جب اپنے مردہ مولویوں کی باری آتی ہے تو سب کچھ جائز بلکہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت بھی کرتے ہیں آخر یہ دہرا معیار و منافقت کیوں ؟
کیوں امت مسلمہ میں یہ دہرا معیار اہنا کر فتوے بازی کے بازار گرم کر کے تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟
اہلسنت و جماعت کے قرآن و حدیث سے ثابت شدہ عقائد و نظریات کو متانزعہ کیوں بنایا جاتا ہے اور جب اپنی باری آتی ہے تو سب کچھ جائز کیوں ہو جاتا ہے ؟
ہم منتظر رہیں گے بحوالہ مہذب علمی جواب کے اوٹ پٹانگ اور جاہلانہ کمنٹ کرنے والے جہلاء ہماری پوسٹ سے دور رہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشی)
No comments:
Post a Comment