معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ شششم
مسلمہ امور سے انحراف کر کے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی روش نے جہاں فکری مغالطوں کو جنم دیا ہے وہاں بعض خود ساختہ دانشوروں نے اپنے قاری کے ذہن کو غبار تشکیک میں لپیٹ کر اعتقادی بے راہروی کی بنیاد بھی رکھی ہے ۔ برصغیر میں برطانوی استعمار نے ہماری اسی مجلسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو بھی مباحثوں اور مناظروں کا موضوع بنا کر جس گھناؤنی سازش کا ارتکاب کیا تھا ہم اس کے منحوس اثرات سے آج تک چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے بلکہ یہ غلط روش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناآسودہ امت کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ان کی اجتماعی قوت کو مفلوج کرنے کا باعث بنی ہے ۔ اَفراط و تفریط کے اِسی موسم ناروا میں فرقہ واریت کا تھوہڑ خوب پنپا ہے ۔ آیتِ معراج کی تشریح کرتے ہوئے کچھ علماء تفسیر رؤیت کے بارے میں سخت مغالطے کا شکار ہوئے ہیں ۔ وہ آیہ کریمہ میں دو کمانوں یا اس سے بھی کم باہمی قرب کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کے درمیان قرب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ رؤیت باری تعالیٰ کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے اس گمان میں مبتلا ہیں کہ مقام دنی فتدلی اور قاب قوسین او ادنی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام کا قرب اور اصل صورت میں دیدار نصیب ہوا ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ بفرض محال اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو کیا قرب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی عظمت کا آئینہ دار ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا عکاس ، جنہیں خالق موجودات نے بطور مہمان خصوصی معراج کےلیے بلوایا تھا ، جبرئیل علیہ السلام ان گنت بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور وہ بارگاہ حریمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بغیر اجازت داخل نہ ہوتے تھے ۔ اگر معراج میں جبرئیل علیہ السلام کی عظمت کا اظہار مقصود ہوتا تو فی الواقع یہ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے جبرئیل علیہ السلام کی ہوتی ۔ صحیح بخاری میں آیہ کریمہ مذکورہ کی تفسیر ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد رقم : 7079چشتی)
اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ حدیث مبارکہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آیہ کریمہ میں وہ ذات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئی اس سے مراد رب العزت ہے جو جبار ہے ۔
علماء میں ایک ایسا گروہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوا ۔
انکارِ رؤیت کی دو ممکنہ صورتیں
پہلی صورت : پہلی صورت یہ کہ اللہ کا دیدار سرے سے ممکن ہی نہیں اور انسانی آنکھ کو اتنی تاب کہاں کہ وہ اللہ کا دیدار کر سکے ۔
دوسری صورت : یہ کہ امکان تو موجود ہے لیکن شب معراج ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔
ان دونوں امکانی صورتوں کو جن کی بنا پر رؤیت باری تعالیٰ سے انکار کیا جاتا ہے ہم علماء کی طرف سے پیش کردہ ہر صورت کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں گے ۔
لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَار کی تشریح
پہلی صورت میں قرآن حکیم کی جس آیہ مقدسہ کو رؤیت باری تعالیٰ کے عدم امکان کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ درج ذیل ہے ۔
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۔ (سورہ الانعام، 6 : 103)
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
مذکورہ آیہ مقدسہ کا بالعموم یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ کسی آنکھ کو اتنی قدرت حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکے ۔ اس آیت سے یہ معنی مراد لینا اسے نہ سمجھنے کے مترادف ہے اس لیے کہ اس میں رؤیت کا نہیں بلکہ ادراک، کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ آیت کا معنی یہ ہوا کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ سب آنکھوں کا ادراک کر سکتا ہے اور ادراک دیکھنے کے معنی میں نہیں بلکہ کسی شئے کے احاطہ کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ دیکھنا اور بات ہے اور کسی چیز کا احاطہ کرنا دوسری بات ہے ۔ مذکورہ آیہ کریمہ میں رب ذوالجلال نے اپنے دیکھے جانے کی نفی نہیں کی بلکہ ارشاد یہ ہوا ہے کہ عالم امکان میں ساری آنکھیں بھی مل کر اس کی ذات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں اور صرف اسی کی ذات ہر چیز کا احاطہ کرنے پر قادر ہے لہٰذا ادراک سے دیکھنا مراد لے کر آیت کا یہ معنی نکالنا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی آنکھ کےلیے ممکن ہی نہیں ، چنداں درست نہیں ۔ (مدارج النبوة جلد 1 صفحہ 207)(شرح مسلم جلد 1 صفحہ 97،چشتی)
مثال : اس نکتہ کو سمجھنے کےلیے ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے ۔ ایک مقرر جم غفیر سے خطاب کر رہا ہے ۔ مجمع دور تک پھیلا ہوا ہے جسے وہ دیکھ تو سکتا ہے لیکن سب حاضرین جلسہ کا وہ احاطہ نہیں کر سکتا ۔ جو لوگ سامنے اس کے قریب ہیں انہیں وہ دیکھتا ہے لیکن جو لوگ پس دیوار ہیں وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہیں ۔ اس سے یہ نکتہ کھلتا ہے کہ کوئی محدود وجود غیر محدود وجود کو دیکھ تو سکتا ہے مگر اس کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ کسی جزو کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ کل کا احاطہ کر سکے ۔ پس ذات خداوندی جو غیر محدود اور کل ہے اس کا احاطہ سب انسانی آنکھیں جو محدود اور جزو ہیں مل کر بھی نہیں کر سکتیں جبکہ وہ ذات ہر شئے کا احاطہ کرنے پر قادر ہے ۔ اس ساری گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار اور مشاہدہ عین ممکن ہے مگر اس کا ادراک ممکن نہیں ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف
اس سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برگزیدہ صحابی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جن کی قرآن فہمی مشہور خاص و عام تھی اور جنہیں صاحب قرآن نے ترجمان القرآن کے خطاب سے نوازا تھا ، انہوں نے ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو مذکورہ آیت سے نفی رؤیت کی دلیل لاتے تھے اختلاف کیا اور فرمایا کہ اس آیت میں رؤیت کی نہیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کے ادراک کی نفی کی گئی ہے ۔
دوسری آیت کی تشریح
دوسری آیہ کریمہ نفی رؤیت کےلیے جس کا سہارا لیا جاتا ہے وہ یہ ہے ۔
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا ۔ (سورہ الشوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے (براہ راست) بات کرے مگر ہاں (اس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اللہ) کسی فرشتے کو بھیج دے ۔
علماء نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ کسی بشر کی مجال نہیں کہ وہ بے حجاب اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہو سکے اس لیے اس کا دیدار بے حجاب ممکن ہی نہیں ۔ اس دلیل کی بنا پر وہ تسلیم نہیں کرتے کہ شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذات باری تعالیٰ کا بے حجاب دیدار کیا ۔ اس آیت کو سمجھنے میں ان سے وہی مغالطہ سرزد ہوا جو سابقہ آیت کو سمجھنے میں ہوا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں بے حجاب کلام کی نفی کی گئی ہے نہ کہ بے حجاب مشاہدے کی ، جبکہ اس میں دیدار اور مشاہدے کا نہیں بلکہ بے حجاب کلام کا ذکر ہے اور یہ تو نہیں کہا گیا کہ اللہ کو طاقت نہیں کہ وہ اپنا دیدار کسی کو بے حجاب کرا سکے ۔ چونکہ اس آیت میں خدا کی نہیں بلکہ بشر کی طاقت کی نفی کی جا رہی ہے اس لیے اسے شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار الٰہی کی نفی کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔
سفر معراج رب کائنات کی قدرت کاملہ کا مظہر
ہم نے سابقہ مضامین میں عرض کیا ہے کہ معجزہ معراج کا انکار اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کیونکہ خدائے رحیم و کریم ، کائنات کا ہر ذرہ جس کے حکم کا پابند ہے نے اپنے محبوب رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرئیل امین کے ذریعہ براق بھیج کر بلوایا اور انہیں آسمانوں کی سیر کرائی کہ محبوب تیری چادرِ رحمت کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے ۔ قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ پر اِستعجاب کیسا ؟
واقعہ معراج کو قرآن نے اول تا آخر خدائے لم یزل کی قدرت کاملہ قرار دیا ہے اسی لیے اس قصے کو سبحان الذی سے شروع کیا تاکہ ذہن میں کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری اس عظیم و برتر ذات پر ہے جو ہر قسم کی کمزوری، نقص اور عیب سے پاک ہے اور بلاشرکتِ غیرے اس بات پر قادر ہے کہ وہ معراج جیسا عظیم و بے مثال سفر کرا سکے۔ اگر دعویٰ کسی فرد بشر کی طرف سے ہوتا کہ میں نے اپنی طاقت اور صلاحیت کے بل بوتے پر معراج کیا تو معاملے کی صورت مختلف ہوتی لیکن یہاں تو بات ہی اور ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی ذات کو ہر کمزوری، عیب اور سقم سے پاک قرار دے کر معراج کو اپنی طاقت اور قدرت کاملہ سے منسوب کر رہا ہے لہٰذا یہ بحث کہ رؤیت باری تعالیٰ کس طرح ممکن ہے خود خالقِ مطلق کی قدرت و اختیار کے دائرے کو زیر بحث لانے کے مترادف ہو گا لیکن خدا کی قدرت و طاقت کا اندازہ انسان کے حیطہ ادراک سے باہر ہے۔ اگر واقعہ معراج کی صحت کی کسوٹی انسان کی طاقت و قدرت ہو تو پھر یہ سارا معاملہ انسان کی دسترس اور دائرہ اختیار سے باہر ہے لیکن جہاں خدا کی قدرت اور اختیار کی بات آ جائے تو پھر اس واقعہ کی مختلف جہتوں سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔
قرآن و حدیث کی روایات کی من مانی تاویل سے واقعہ معراج کی عظمت سے روگردانی کا پہلو نکلتا ہے ۔ معجزہ معراج کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے سے ممکن و ناممکن کی لایعنی بحث کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ پھر بیت المقدس کے سفر ، آسمانوں اور عالمِ اُخروی کے مشاہدات کی عقلی توجیہہ ذہن میں ان گنت سوال چھوڑ جاتی ہے ۔ معجزہ تو ہے ہی وہ خرقِ عادت واقعہ جو عقل میں نہ آ سکے ۔ اسے دلیل نبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ بنابریں نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک معجزے کا انکار سارے معجزات کا انکار اور خود رسالت کا انکار سمجھا جائے گا ۔
انکارِ رؤیت کی تیسری دلیل
منکرین رؤیت باری تعالیٰ اِس حدیث کے حوالے سے دیتے ہیں جس میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ان سے معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار الٰہی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا ۔
نورٌاَنّٰی أَرَاَه ۔
وہ تو نور تھا میں بھلا اسے کیسے دیکھ سکتا تھا ۔ (الصحيح لمسلم، 1 : 99، کتاب الايمان، رقم : 291)
اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ بالعموم یہی کیا جاتا ہے اور اسی سے وہ نفی رؤیت کا استدال کرتے ہیں ۔ اگر ہم گہرائی میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی پر غور کریں تو اس کا یہ معنی نہیں جو بادی النظر میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے اگلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ : رايت نورا ۔ میں نے نور کو دیکھا ۔ (الصحيح لمسلم، 1 : 99، کتاب الايمان، رقم : 292،چشتی)
اس کی روشنی میں متذکرہ بالا حدیث کا معنی یہ ہوا کہ میں نے جس طرف سے بھی دیکھا اسے نور پایا ۔ یہ معنی نہیں کہ وہ نور تھا میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا ۔ رایت نورا کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الٰہی کا اثبات کرتے ہوئے اس کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو جس طرف سے بھی دیکھا نورٌ علٰی نور پایا ۔
اللہ تعالیٰ خالقِ نور ہے
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نور اپنی ماہیت کے اعتبار سے وہ چیز ہے جس کو دیکھا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی مدد سے اشیاء نظر آتی ہیں لہٰذا اللہ کے نور کا دیدار چہ معنی دارد ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی ماہیت کو نور قرار دینا اصلاً غلط ہو گا کیونکہ بشر کی طرح نور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جسے اپنی ذات کے اعتبار سے کسی جہت اور ہیئت میں مقید نہیں کیا جا سکتا اس لیے بعض علماء کے نزدیک اللہ کو نور کہنا کفر کے مترادف ہے ۔ بے شک وہ اللہ تعالیٰ خالق نور ہے کہ وہ بشر اور دیگر مخلوقات کا خالق ہے مگر جب باری تعالیٰ نے اپنا تعارف قرآن پاک میں اس طرح کرایا ہے کہ : اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔ (النور، 24 : 35) ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔
تو مفسرین قرآن اور ائمہ کرام علیہم الرّحمہ نے اس کا معنی مراد یہ لیا ہے کہ وہ ذات جو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والی ہے لہٰذا آیت کریمہ میں مجازاً سمجھانے کےلیے اللہ تعالیٰ کو نور سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد اس کی تجلی ذات ہے نہ کہ اس کی ماہیت ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا تو اس کے جلوہ ذات کی کیفیت کو نور کی مانند پایا جس نے ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا ۔ یہی ’’نورانی اراہ‘‘ کا مفہوم ہے اور اس کی کیفیت کو جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج مشاہدہ کیا دیدار الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ رؤیت باری تعالیٰ کے ضمن میں یہ خیال عام ہے کہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے اور بطور انعام دیدار الٰہی محض آخرت کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کی دو آیات کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہو گا جس سے اس دنیا میں دیدار الٰہی کی اِمکانی صورت واضح ہو جائے گی ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت کا محل موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا بارگاہ رب العزت میں دیدار کےلیے خواستگار ہونا ہے ۔ وہ سراپا سوال بن کر باری تعالیٰ کے حضور اِستدعا کرتے نظر آتے ہیں ۔ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۔ (الاعراف، 7 : 143) ۔ اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں ۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی جنہیں بارہا اپنے رب سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا ہے، اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ وہ دیدارِ الٰہی کا مطالبہ کر کے ایسی چیز کا تقاضا کر رہے ہیں جو سرے سے ممکن ہی نہیں ؟ جناب کلیم اللہ کا رؤیت باری تعالیٰ کے عدم امکان کے بارے میں بے خبر ہونا بعید از فہم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا بارہا خدا کے حضور دیدار کا تقاضا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ علی وجہ البصیرت ان کا اعتقاد تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں عین ممکن ہے ۔ یہی سبب ہے کہ سر طور رب ارنی کی صدا بلند کرتے رہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس التجا کے جواب میں باری تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا وہ بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ خدا کی طرف سے اپنے کلیم کو خطاب فرمایا گیا ۔ لَن تَرَانِي ۔ (الاعراف، 7 : 143) ۔ تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے ۔
جواب کی نوعیت پر غور کریں تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مجھے دیکھا نہیں جا سکتا بلکہ ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تیری آنکھ مجھے دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ یہ نہیں کہا کہ کوئی آنکھ مجھے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتی ۔ اس سے امکانِ رؤیت کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس فرمودہ خداوندی میں اس بات کا اثبات مضمر ہے کہ میرے دیدار کا شرف معراج کی شب صرف میرا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل کرے گا۔ قضا و قدر نے یہ شرف و امتیاز حضور سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں رکھا ہے ۔ یہی سبب تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی التجا کو شرف پذیرائی نہ بخشا گیا کیونکہ اس سعادت کےلیے ازل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کو منتخب کیا جا چکا تھا ۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
دوسری آیت میں اہل جنت کےلیے مژدہ ہے کہ انہیں اللہ رب العزت اپنے دیدار سے نوازیں گے ۔ ارشاد ربانی ہے : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ۔ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ۔ (القيامة، 75 : 22 - 23)
بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تروتازہ ہوں گے o اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال) کو تک رہے ہوں گے ۔
بموجب ارشادِ خداوندی اہل خلد کے تروتازہ چہروں پر بشاشت کی لہر دوڑ جائے گی جب انہیں خدا کا دیدارِعام بے حجاب کرایا جائے گا ۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بے حجاب دیدار سے بڑھ کر اور کوئی نعمت اہل ایمان کے لئے نہ ہو گی ۔
رؤیت باری پر متفق علیہ حدیث : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انکم سترون ربکم عيانا ۔ بے شک تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1105، کتاب التوحيد، رقم : 6998)(مسند احمد بن حنبل، 3 : 16)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا ۔ تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد،چشتی)(سنن ابی داؤد، 2 : 302، کتاب السنة، رقم : 4729)(سنن ابن ماجه، 1 : 63، رقم : 177)(مسند احمد بن حنبل، 4 : 360)
اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ مندرجہ بالا ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے ذات باری تعالیٰ کے مطلقاً دیدار کی نفی نہیں ہوئی ۔ اب اگر بالفرض اس کے عدم امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو منطق کے اصول کے مطابق جو چیز اس جہان میں ناممکن ہے وہ عالم اخروی میں بھی ناممکن ہے لیکن بفحوائے ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مومن کےلیے آخرت میں سب سے بڑی نعمت دیدار خداوندی ہو گا ۔
یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اپنے ہر ایمان دار امتی سے بدرجۂ اَتم کہیں بڑھ کر ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہر مومن کو ایمان کی دولت ان کے صدقے سے عطا ہوئی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ منفرد امتیاز صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حاصل ہے کہ انہیں معراج کی شب مشاہدہ و دیدار حق نصیب ہوا جبکہ دوسرے اہل ایمان کو یہ سعادت آخرت میں نصیب ہو گی۔ احادیث میں ہے کہ معراج کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو احوال آخرت ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا جبکہ باقی سب کو ان کا چشم دید مشاہدہ موت کے بعد کرایا جائے گا ۔ بلاشبہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات میں شامل ہے کہ انہیں قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی پیشگی مشاہدے کے ذریعے خبر دے دی گئی اور آخرت کے سب احوال ان پر بے نقاب کر دیئے گئے۔ اس بنا پر تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ منجملہ کمالات میں سے یہ کمال صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا کہ دیدار الٰہی کی وہ عظمت عظمیٰ جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی وہ آپ کو شب معراج ارزانی فرما دی گئی ۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ چھوٹی نعمتوں کے باوصف سب سے بڑی نعمت جو دیدار الٰہی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محروم کر دیا جاتا ۔
امکان کی بات سے قطع نظر سورہ نجم کی آیات معراج میں چار مقامات ایسے ہیں جن میں ذات باری تعالیٰ کے حسن مطلق کے دیدار کا ذکر کیا گیا ہے : ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ۔ (النجم، 53 : 8 - 9)
ترجمہ : پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا ۔ پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا) ۔
ارشاد ربانی میں اس انتہائی درجے کے قرب کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ اور نقطہ منتہی سوائے دیدار الٰہی کے اور کچھ قرین فہم نہیں۔ اس کے بعد فرمایا : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ۔ (النجم، 53 : 11)
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا ۔
قرآن حکیم نے یہ واضح فرما دیا کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمال ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے بھی کیا اور سر کی آنکھ سے بھی ۔ حدیث طبرانی میں ہے کہ : ان محمدا رای ربه مرتين مرة بعينه و مرة بفواده ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے ۔ (المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564،چشتی)(المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757)(المواهب اللدنيه، 2 : 37)(نشر الطيب تھانوی صفحہ 55)
اس حدیث پاک سے رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اوپر درج کی گئی قرآنی آیات کے مضمون کی بخوبی تائید ہوتی ہے ۔
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ جیسے برگزیدہ اصحاب رسول کی صحبت سے فیض یافتہ نامور تابعی ہیں، ان سے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے معراج کی شب ذات باری تعالیٰ کا دیدار کیا ؟ تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر اس بات کا اقر ار کیا کہ ہاں انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔
اسی طرح جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے، قد رای ربہ یعنی انہوں نے اپنے رب کودیکھا، یہاں تک کہ ان کی سانس پھول گئی ۔
یہ خیالات و معتقدات سب ممتاز اور قابل ذکر صحابہ ، صحابیات ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کرام رضی اللہ عنہم و علیہم الرحم کے ہیں ۔ قرآن حکیم نے رؤیت باری کی تائید فرماتے ہوئے شک کرنے والوں سے پوچھا : أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى ۔ (سورہ النجم، 53 : 12) ۔ کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو جو انہوں نے دیکھا ۔
نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری آنکھ کے علاوہ ایک آنکھ باطنی دل کی بھی عطا فرمائی تھی ۔ جب ساعت دیدار آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری جلوہ اور باطنی جلوہ دونوں نصیب ہوئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۔ (سورہ النجم، 53 : 13) ۔ اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)
بارگاہِ خداوندی میں مسلسل حاضری
یہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالق و مالک سے وصال و دیدار کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے بعد سفلی دنیا کی طرف لوٹے تو اللہ جل مجدہ کی طرف سے امت کے لئے پچاس نمازوں اور چھ ماہ کے روزوں کا تحفہ لائے ۔ راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو ان کے استفسار پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں صورتحال سے مطلع فرمایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اصرار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار رب تعالیٰ کے ہاں بھیجتے رہے یہاں تک کہ آپ نے 9 مرتبہ ذات باری تعالیٰ سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے تخفیف فرما کر پانچ نمازیں اور ایک ماہ کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مزید تخفیف کے بارے میں اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اب دسویں مرتبہ رب کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نو مرتبہ دیدار اور ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا ۔
چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدارِ الٰہی میں محو تھیں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک جو دیدارِ الٰہی کے شرف سے مشرف ہوئیں ، کائنات سماوی کا ایک ایک نقش جن میں ثبت ہے ، کتاب زندگی کے سرورق کا وہ جلی عنوان ہے جو ان گنت کائناتی سچائیوں کے انکشاف کا نقیب ہے ، انہیں چشمان مبارک کے تصدق میں کائنات رنگ و بو میں رعنائیوں کے جھرمٹ اترتے ہیں، انہی چشمان مقدس میں موسیٰ علیہ السلام کی آرزو، انوار و تجلیات الہٰیہ کی صورت میں جاگزیں ہے اور یہی چشمان مقدس سدرۃ المنتہیٰ کے جمال کی عینی شاہد ہیں ۔ کلام ربانی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مبارک آنکھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اپنے حوصلے، اعتماد، ہمت اور عزم و یقین کے باعث اس ارشاد ربانی کا مصداق ٹھہریں : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى ۔ (سورہ النجم، 53 : 17) ۔ اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بصارت اس درجہ طاقت و وسعت کی حامل تھی کہ شب معراج مشاہدہ حق کے وقت اس میں نہ صرف اضمحلال واقع نہ ہوا بلکہ وہ کمال ہوش کے ساتھ مشاہدہ جمال میں محو رہی ۔
حضرت سہل بن عبداللہ التستری رحمۃ اللہ علیہ اسی مشاہدہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں : شاهد نفسه والی مشاهدتها و انما کان مشاهدا ربه تعالی بشاهد ما يظهر عليه من الصفات التی اوجبت الثبوت فی ذلک المحل ۔ (تفسیر روح المعانی، 27 : 54،چشتی)
اس طرح مستغرق ہوئے کہ سوائے ذات باری اور صفات الہٰیہ کے کسی طرف متوجہ نہ ہوئے ۔
اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تجلی الہٰی کی ایک جھلک بھی برداشت نہ کر سکے اور صفاتی تجلی کی انعکاسی شعاع کے اثر سے آپ علیہ السلام کا خرمن ہوش جل گیا ۔ کسی صاحب نظر نے بصارتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بصارت موسیٰ علیہ السلام سے کیا خوبصورت موازنہ کیا ہے : ⬇
موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک پر تو صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
قرآن آگے چل کر رؤیت آیات الہٰیہ کے باب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال بصارت کا ذکر بایں الفاظ کرتا ہے : لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى ۔ (سورہ النجم، 53 : 18) ۔ بیشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔
نبیکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان چشمان مقدس نے اللہ رب العزت کا بے حجاب نظارہ کیا۔ اب اس کے بعد وہ کونسی چیز ہو گی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم بینا سے پوشیدہ رہی ہو گی۔ یہی چشم بینا کائنات کی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ماضی، حال کے علاوہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات اور تغیرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک پر روز روشن کی طرح واضح اور نمایاں تھے ۔
دل نے تجلیاتِ الہٰیہ کی تصدیق کی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال بصارت کے ذکر کے بعد قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کا ذکر بھی کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ۔ (سورہ النجم، 53 : 11) ۔ (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا ۔
سفرِ مراجعت
معراج سے واپسی کا سفر براق پر طے ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی راہ سے حرم کعبہ میں تشریف لائے۔ رات کی وہی تاریکی تھی جب آپ بستر پر محو استراحت ہوئے ۔ وہ ایک لمحہ جو کائنات ارضی و سماوی کی زمانی و مکانی وسعتوں کو محیط تھا اپنے دامن میں معراج کی عظمتوں اور رفعتوں کو سمیٹے ہوئے تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب اور بیداری کے بارے میں حدیث پاک کے الفاظ ملاحظہ ہوں : واستيقظ وهو فی مسجد الحرام ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد حرام میں تھے ۔ (صحيح البخاری جلد 2 صفحہ 1120 کتاب التوحيد رقم : 7079)
اس حدیث مبارکہ سے کچھ لوگ مغالطے کا شکار ہو گئے اور انہیں واقعہ معراج میں تضاد دکھائی دینے لگا۔ لوگوں پر وارد ہونے والے اشکال کا جواب ائمہ کرام (جن میں امام ترمذی، امام عسقلانی اور امام قسطلانی رحمھم اللہ تعالیٰ کے نام قابل ذکر ہیں) نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے لیکن وہ جن کی سوچ میں کجی اور عدم مطالعہ کی بنا پر جن کا مبلغ علم محدود ہے انہیں واقعہ معراج میں سوائے تضادات کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔ سفر معراج پر روانہ ہونا بھی عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے اور سفر معراج سے مراجعت یعنی اس کرہ ارضی کی طرف واپسی بھی شوکت حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظہر ہے۔ جن عجائبات کا آپ نے اس سفر میں مشاہدہ کیا وہ بھی رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو دوبالا کرنے کےلیے تھے ۔ سفر معراج سے عروج آدم خاکی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ علوم جدیدہ نے جن کائناتی سچائیوں کو بے نقاب کیا ہے ان میں سفر معراج بھی شامل ہے۔ اگر تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے کہ کائنات کی بے کراں وسعتوں میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مقدسہ کی تلاش ہی جدید سائنسی انکشافات کی بنیاد ہے۔ دنیا اس حقیقت کا بلاواسطہ اعتراف نہیں کرے گی کہ آج کا انسان اپنی تمام آزاد خیالی کے سفلی اور علاقائی تعصبات سے دامن نہیں چھڑا سکا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنی اور انسانی بنیادوں پر جس وسیع معاشرے کی بنیاد رکھی تھی دنیا شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر ان اہداف کے حصول کےلیے مصروف عمل ہے۔ اگر سفر معراج کو جدید سائنسی انکشافات کی بنیاد قرار دیا جائے تو یہ اس عظیم معجزہ کے محض ایک پہلو کا اعتراف ہو گا لیکن جوں جوں سائنس ترقی کرے گی ذہن انسانی میں تحقیق و جستجو کے نئے نئے دروازے کھلیں گے توں توں سفر معراج کے حوالے سے ان گنت کائناتی پیچیدگیاں خودبخود حل ہوتی جائیں گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ زندہ معجزہ اللہ رب العزت کی قدرت مطلقہ کا مظہر بن کر شاہراہ حیات کا وہ سنگ میل ثابت ہو گا کہ جسے بوسہ دیے بغیر ارتقاء کے سفر پر روانہ ہونے والا انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا ۔ سفر معراج عروج آدم خاکی وہ دروازہ ہے جس میں داخل ہوئے بغیر انسان پتھر اور دھات کے زمانے کی طرف تو لوٹ سکتا ہے ارتقاء کی سیڑھی کے پہلے زینے پر بھی قدم نہیں رکھ سکتا ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment