Tuesday, 14 February 2023

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ پنجم

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ پنجم
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ : جو کہے کہ  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے  ۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ اگر صحیح  ہے  تو  اس کا جواب کیا  ہو گا ؟

جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے معراج کی رات بیداری کی حالت میں  اللہ تبارک وتعالی کا دیدار کیا ، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اللہ تبارک وتعالی کا دیدار کرنا مرفوع احادیث سے ثابت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود فرمایا : رأيت ربي تبارك وتعالى ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب  تبارک وتعالی کو دیکھا ہے ۔ (مسند امام احمد مسند ابن عباس جلد 4 صفحہ 351 بیروت)

یہی جمہور صحابہ و ائمہ سلف و خلف کا موقف ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی روایت مرفوع نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا قول ہے جو کہ آپ رضی اللہ عنہا نے قرآن پاک کی آیات کے ظاہر سے اخذ کیا ہے ۔ لہذا مرفوع حدیث (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اپنے فرمان ) کے مقابل ،حضرت عائشہ کے اس قول سے دلیل پکڑنا درست نہیں ۔

نیز دیگر کئی صحابہ کرام  کا موقف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے قول کے خلاف ہے ۔ اور جب ایک صحابی کوئی قول کرے اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کریں تو وہ قول حجت نہیں رہتا ۔ لہذا جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول حجت نہ رہا تو اب مرفوع حدیث  ہی کی ترجیح ثابت ہوئی ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کئی معراجیں ہوئیں ، جسمانی اورروحانی ۔ جسمانی معراج ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تبارک وتعالی کا دیدار کیا ، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت چھوٹی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں  حاضر نہ ہوئیں تھیں ۔ لہذا یہ ان  روحانی معراجوں کی بات کر رہی ہی،ں جو ان  کے زمانے میں ہوئیں ۔

فتح الباری میں ہے : فروى الخلال في كتاب السنة عن المروزي قلت لأحمد إنهم يقولون إن عائشة قالت من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية فبأي شيء يدفع قولها قال بقول النبي صلى الله عليه وسلم رأيت ربي قول النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم أكبر من قولها ۔
ترجمہ : خلال نے کتاب السنہ میں مروزی سے نقل کیا (وہ کہتے ہیں کہ ) میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جس نے گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا ۔ حضرت عائشہ کے اس قول کا جواب کس طرح ہو گا ؟ تو حضرت امام احمد نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس قول سے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے ترجیح رکھتا ہے ۔ (فتح الباری، ج 8 صفحہ 608، بیروت،چشتی)

اسی میں ہے : قال النووي تبعا لغيره لم تنف عائشة وقوع الرؤية بحديث مرفوع ولو كان معها لذكرته وإنما اعتمدت الاستنباط على ما ذكرته من ظاهر الآية وقد خالفها غيرها من الصحابة والصحابي إذا قال قولا وخالفه غيره منهم لم يكن ذلك القول حجة اتفاقا ۔
ترجمہ : امام نووی نے دیگر کی اتباع کرتے ہوئے فرمایا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مرفوع حدیث سے رویت (دیدار) واقع ہونے کی نفی نہیں کی ۔ اگر ان کے پاس مرفوع حدیث ہوتی تو آپ اسے ضرور ذکر فرماتیں ۔ حضرت عائشہ نے جو آیات ذکر کی ہیں ان کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام نے آپ رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی ۔ اور صحابی جب کوئی بات کرے اور دیگر صحابہ اس کی مخالفت کر دیں تو وہ قول بالاتفاق حجت نہیں رہتا ۔ (فتح الباری جلد 8 صفحہ 607 بیروت)

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں : الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابة ۔
ترجمہ : مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شبِ معراج اپنے رب کو جاگتی آنکھ سے دیکھا ، جیسا کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (نسیم الریاض ،فصل واما رؤیة لربہ جلد 2 صفحہ 303 مرکز اھلسنت برکات رضا گجرات ھند،چشتی)

فتاوی رضویہ میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا شبِ معراج تک خدمت اقدس میں حاضر بھی نہ ہوئی تھیں بہت صغیر السن بچی تھیں ۔ وہ جو فرماتی ہیں ، ان روحانی معراجوں کی نسبت فرماتی ہیں جو اُن کے زمانے میں ہوئیں ۔ معراجِ جسمانی ان کی حاضری سے کئی سال پیشتر ہو چکا تھا ۔ (فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 632 رضا فاونڈیشن لاہور)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں ؟

حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ جل مجدہ الکریم کا دیدار حاصل ہوا یا نہیں ۔ اس مسئلے میں صحابہ کرام کے زمانے ہی سے اختلاف رہا ہے چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیدار نہیں ہوا ۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس ، دیگر صحابہ ، تابعین اور ان کے ہمنواٶں کی یہ رائے ہے کہ اللہ تعالی نے شب معراج اپنے محبوب مکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دولت دیدار سے شرف یاب فرمایا ۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس دنیا میں بیداری کی حالت میں اللہ تعالی کا دیدار ممکن ہے محال نہیں ۔ اگر محال ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کا سوال نہ کرتے ، کیونکہ انبیائے کرام کو اس کا علم ہوتا ہے کہ فلاں چیز ممکن ہے اور فلاں چیز محال ۔ اور محال چیز کے بارے میں سوال کرنا درست نہیں ہوتا ۔
مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا سوال کیا اس لیے سب کا ماننا ہے کہ اس دنیا میں بیداری کی حالت میں اللہ تعالی کا دیدار ممکن ہے ۔

جو حضرات شب معراج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے دیدارِ الہی نہیں مانتے ان کے دلائل مند رجہ ذیل ہیں ۔

دلیل نمبر 1 : عن ابن مسعود فی قولہ تعالی ’’ وکان قاب قوسین او ادنی ‘‘ و فی قولہ ’ما کذب الفواد مارای‘ وفی قولہ ’لقد رای من اٰیات ربہ الکبری‘ رای جبرئیل علیہ السلام لہ ستمائۃ جناح ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر،باب فکان قاب قوسین او ادنیٰ حیث الوتر من القوس ،حدیث :۴۸۵۶)(ترمذی ،حدیث :۳۲۷۷)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان آیات کے بارے میں فرمایا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے جبرئیل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔

دلیل نمبر 2 : ما کذب الفواد مارای : قال ابن مسعود رای رسول اللہ جبرئیل فی حلۃ من رفرف قد ملاء مابین السماء والارض۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے ’’ ماکذب الفواد مارای‘‘ کی تشریح یوں فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جبرئیل کو ایک ریشمی حلّہ (پوشاک) میں دیکھا کہ آپ نے آسمان و زمین کے مابین خلا کو پُر کر دیا ۔ (جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، باب ومن سورۃ النجم ، حدیث: ۳۲۸۳ )

دلیل نمبر 3 : حضرت مسروق سے مروی ہے، انہوں نے کہا میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر تھا ۔ تو آپ نے فرمایا: ائے مسروق! تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کسی کے ساتھ تکلم کیا اس نے اللہ تعالی پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ میں نے پو چھا وہ کیاہیں؟ آپ نے کہا : جو شخص یہ خیال کرے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالی پر بڑا بہتان باندھا ۔ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا ، اٹھ کر بیٹھ گیا اور عرض کیا : اے ام المومنین! میری طرف دیکھئے جلدی نہ کیجئے ۔ کیا اللہ تعالی نے خود نہیں فرمایا : ولقد راہ بالافق المبین۔ کہ آپ نے اُسے اُفق مبین میں دیکھا اور دوبارہ دیکھا ۔آپ نے جواب دیا : میں پہلی ہوں اس امت میں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : وہ جبرئیل علیہ السلام ہیں ، میں نے ان کو ان کی اصلی شکل میں صرف دو مرتبہ دیکھا ۔ اے مسروق ! کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں سنا : لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر۔ کہ آنکھیں اس کو نہیں پا سکتی ، وہ آنکھوں کو پا لیتا ہے ۔وہ لطیف و خبیر ہے۔ اور کیا تو نے اللہ تعالی کا ارشاد نہیں سنا :وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من وراء حجاب او یرسل رسولا۔ کسی انسان کو یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالی اس سے کلام کرے مگر بذریعہ وحی یا پس پردہ یا کوئی فر شتہ بھیجے ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان ،باب معنی قول اللہ عزوجل ’ ولقد رأہ نزلۃ اخریٰ ‘ وھل رأی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربّہ لیلۃ الاسراء ، حدیث:۱۷۷)
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ دونوں اس بات کے قائل تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار نہیں کیا ۔ اور دلیل میں دو آیتیں بھی پیش فرمائیں ۔

جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیدارِ الہی نصیب ہوا ، ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں : ⬇

دلیل نمبر 1 : عن ابن عباس ، ماکذب الفواد مارای و لقد راہ نزلۃ اخری‘ قال راہ بفوادہ مرتین ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب معنی قول اللہ عزوجل ’ ولقد رأہ نزلۃ اخریٰ ‘ وھل رأی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربّہ لیلۃ الاسراء ، حدیث:۱۷۶)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ کیا ۔

دلیل نمبر 2 : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔عکرمہ (آپ کے شاگرد) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ : کیا اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں ہے’ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار ‘ کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔ آپ نے فرمایا : افسوس تم سمجھے نہیں ۔ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ۔ (جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۹،چشتی)

دلیل نمبر 3 : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : نور ُ ُ اِنّی اُراہٗ ۔ وہ سراپا نور ہے بے شک میں نے اسے دیکھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )

دلیل نمبر 4 : حضرت عبد اللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا : اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے میں ضرور پوچھتا ۔ انہوں نے کہا تم کس چیز کے بارے میں پوچھتے ؟ کہا : میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھتا ، کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے اس کے بارے میں پوچھ لیا ہے ۔ قال رأیتُ نوراََ ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : میں نے دیکھا وہ نور ہے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )

دلیل نمبر 5 : شعبی کہتے ہیں کہ میدان عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت کعب سے ملاقات کی اور ان سے کسی  چیز کے متعلق سوال کیا ، تو کعب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا یہاں تک پہاڑ گونج اٹھے ، پھر حضرت ابن عباس نے فرمایا : میں بنو ہاشم ہوں (یعنی آپ میرا سوال نہ ٹالیں) تو حضرت کعب نے فرمایا : اللہ تعالی نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے دو مرتبہ کلام کیا ، اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالی کو دو بار دیکھا ۔ (جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۸،چشتی)

دلیل نمبر 6 : حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : رایت ربی تبارک وتعالی ، کہ میں نے اپنے رب تبارک و تعالی کو دیکھا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۲۹۰ تحت مسند عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حدیث:۲۶۲۳،۲۶۷۸)

دلیل نمبر 7 : مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ام المومنین یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کا کیا جواب دیا جائے؟ آپ نے فرمایا حضور کے اس قول سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود فرمایا : رأیتُ ربی تبارک وتعالی ۔ میں نے اپنے رب تبارک وتعالی کو دیکھا ۔ (مسند احمد ،حدیث :۲۶۷۸)
اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا جواب دیں گے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بہت بڑا ہے ۔ (فتح الباری جلد ۸ صفحہ ۴۹۲)

یہ مختلف دلائل ہیں جو قائلین رویت پیش کرتے ہیں ۔ ان میں فحول صحابہ مثلا ابن عباس، کعب احبار، انس ، ابو ذر رضی اللہ عنھم کے علاوہ کبار تابعین عروہ بن زبیر ،حسن بصری ، عکرمہ وغیرہ ہیں ۔

ہر صاحبِ عقل انسان دونوں طرف کے دلائل پڑھ کر بآسانی فیصلہ کر سکتا ہے ۔ ہم مزید رہنمائی کےلیے علامہ نووی شافعی کا فیصلہ نقل کرتے ہیں ۔ امام نووی اس مسئلہ پر دونوں طرف کے دلائل اور اقوال بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : حاصل بحث یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شب معراج اللہ تعالی کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مزید لکھتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ام المومنین رضی اللہ عنہما نے اپنے موقف کی تائید میں کو ئی مرفوع حدیث نہیں پیش کی محض اپنے قیاس اور اجتہاد سے کام لیا ہے ۔ اس پر علامہ ابن حجر نے کہا : صحیح مسلم جس کی شرح علامہ نووی کر رہے ہیں اسی کے اگلے صفحے پر حدیث مرفوع موجود ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ولقد راہ بالافق المبین ، اور ولقد راہ نزلۃ اخری ، کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : وہ جبرئیل امین تھے ۔ جب مسلم میں یہ حدیث موجود ہے تو حیرت ہے کہ شارح مسلم نے کیسے اس کا انکار کیا ۔
علامہ ابن حجر کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہ نے ۔ ولقد راہ بالافق المبین ۔ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : وہ جبرئیل ہیں اور یہ بلاشبہ درست ہے ، کیونکہ یہ آیت سورہ تکویر کی ہے اور وہاں حضرت جبرئیل ہی کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : وانہ لقول رسول کریم ذی قوۃ عند ذی العرش المکین مطاع ثم امین و ما صاحبکم بمجنون و لقد راہ بالافق المبین ۔ یہ سارا ذکر جبرئیل امین کا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب ان کو اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش کی تو جبرئیل علیہ السلام آسمان کے افق پر نمودار ہوئے ۔ وہ افق جہاں جبرئیل نمودار ہوئے اسے ’افق مبین ‘ کہا گیا لیکن سورہ نجم میں جس افق کا ذکر ہو رہا ہے : و ھو بالافق الاعلی ، ہے ۔ آسمان اور زمین کے افق کو افق مبین تو کہہ سکتے ہیں لیکن افق اعلی ، وہ ہوگا جو تمام آفاق سے بلند تر ہو یعنی فلک الافلاک کا کنارہ ۔ اس لیے امام نووی کا قول ہی درست ہے کہ شب معراج دیدار کی نفی کے بارے میں کوئی حدیث مرفوع موجود نہیں ہے ۔ جبکہ اثبات کی مرفوع اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ تو اب ہر کوئی بآسانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شب معراج اپنے رب کو دیکھا یا نہیں ؟

امام احمد بن حنبل سے جب کوئی پوچھتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا یا نہیں ؟ تو آپ کہتے : ہاں دیکھا ، ہاں دیکھا ۔ یہ جملہ آپ بار بار دہراتے یہاں تک کہ آپ کی سانس ٹوت جاتی ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اشعۃ اللمعات جلد چہارم میں اس کی تحقیق کرتے ہوئے اسی قول کو پسند فرمایا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالی کے دیدار کا شرف حاصل کیا ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دع و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...