حضرت سیّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حصّہ دوم
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے ۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی ۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشین گوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ نبی آخرزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں ۔
ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے ۔ (صحیح البخاری حدیث:4897)
یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پر دلالت کرتی ہے ، کیونکہ امام صاحب کا تعلق اسی قوم سےتھا ، اور آج تک اس قوم میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کا ظہور نہیں ہوا ۔
غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ سرگرم تھے ۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ "سلمان ہمارا ہے" انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان ہمارا ہے" ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "سلمان منا اہل البیت" یعنی سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ، اس لیے سلمان کو مہاجرین یا انصار کے بجائے (بطور تکریماً) اہل بیت رضی اللہ عنہم میں شمار کیا گيا ۔ (مستدرک علی الصحیحین:6539،چشتی)(معجم الکبیر:6040)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا زہد و ورع اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہوجاتی ہے ، اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمر بھر گھر نہیں بنایا ، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ ملتا پڑے رہتے ، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کےلیے مکان بنادوں ؟ فرمایا : مجھ کو اس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا رہا ، یہ برابر انکار کرتے رہے ، آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤنگا ، فرمایا : وہ کیسا ؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور اگر آرام کریں تو پیر دیواروں سے لگیں ، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی ۔ زُہدو قَناعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پھولوں کو اپنے دامن پر سجانے والے ، حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے تابعی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے مشہور صحابیِ رسول ، سَلْمانُ الخَیْر حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے اِسلام لانے کا واقعہ بہت اہم ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 522)
ایران سے مدینے تک کا سفر آپ رضی اللہ عنہ اَصْفَہَان (ایران) کے رہنے والے تھے ۔ آباو اَجداد آتش پرَسْت تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی سادہ اور خاموش طبیعت تھے، ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ہر وقت آتش کَدے کی آگ روشن رکھنے میں مصروف رہتے مگر جلد ہی مجوسیّت سے بیزارہوگئے اور دینِ حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکل کر شام جا پہنچے ، جہاں مختلف دینی و مذہبی راہنماؤں کی صحبت اختیار کی ۔ ہر مذہبی راہنما یا تو خود یہ وصِیَّت کردیا کرتا کہ میرے بعد فلاں کے پاس جانا ، یا پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ خود پوچھ لیا کرتے کہ اب کس ہستی کی صحبت اختیار کروں؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آخری رَاہِب سے پوچھا تواس نے کہا : اے حق کے مُتَلاشی بیٹے ! اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کی صحبت میں تمہیں اَمن و سلامتی نصیب ہو ، ہاں ! اب نبیِّ آخِرُ الزَّماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظہور کا وقت قریب ہے جو دینِ ابراہیمی پر ہوں گے ، اُس مقام کی جانب ہجرت کریں گے جو دو پہاڑوں کے درمیان ہوگا ، جہاں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جائیں گے ، اُن کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نَبُوَّت ہوگی ، وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے ۔ رَاہِب کے انتقال کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اِس وصیت کو پیشِ نظر رکھا اور ایک قافلے کے ہمراہ آگے بڑھ گئے ۔ راستے میں قافلے والوں کی نیَّت بدل گئی اور انہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا یوں آپ رضی اللہ عنہ کو غلامی کی زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا ۔ (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 56،چشتی) ۔ تقریباً دس بار بیچے گئے ۔ (بخاری جلد 2 صفحہ 607 حدیث نمبر 3946) ۔ بالآخر بکتے بِکاتے مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ گئے ۔
آپ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ کھجور کے درخت پر چڑھ کر کھجور توڑ رہے تھے کہ خبر سنی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت فرماکر مدینے کے قریب مقامِ قُبا میں تشریف لا چکے ہیں اسی وقت دل بے قرار ہوگیا،فوراً نیچے تشریف لائے اور خبر لانے والے سے دوبارہ یہ روح پَروَر خبر سننے کی خواہش ظاہر کی یہودی آقا نے اپنے غلام کا تَجَسُّس اور بے قراری دیکھی تو چراغ پَا (غصے) ہو گیا اور ایک زوردار تھپڑ رسید کرکے کہنے لگا : تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب ؟ جاؤ ! دوبارہ کام پر لگ جاؤ ، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہو گئے لیکن متاعِ صَبْر و قَرار تو لُٹ چکا تھا لہٰذا جونہی موقع ملا چند تازہ کھجوریں ایک طَباق میں رکھ کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یہ صدقہ ہے ، قبول فرمالیجیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا : تم کھالو،اور خود تناول نہ کیا ۔ آپ نے دل میں کہا : ایک نشانی تو پوری ہوئی ، اگلی مرتبہ پھر کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ یہ ہدیہ ہے ، قبول فرمالیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کوکھانے کا اشارہ کیا اور خود بھی تناول فرمایا ۔ دل میں کہا : دوسری نشانی بھی پوری ہوئی اس درمیان میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان ’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘ کو بھی دیکھ لیا اس لیے فوراً اسلام قبول کر لیااور اس دَر کے غلام بن گئے جس پر شاہَوں کے سَر جھکتے ہیں ۔ (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 58)
آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر و اُحد میں حصہ نہ لے سکے پھر تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے آزادی کا تاج سر پر سجایا اور ایک سرفروش مجاہد کی طرح بعد میں آنے والے تمام غزوات میں حصہ لیا ۔ (تاریخ ِابنِ عساکر جلد 21 صفحہ 388 ،389،چشتی)
غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہی کا تھا ۔ (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 2 صفحہ 51)
آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ محبت تھی ، اپنے وقت کا بیشتر حصہ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں گزارتے اور فیضانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بَہرہ مَند ہوتے ، اِس کے بدلے میں بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سَلْمَانُ الْخَیْر ۔ (سنن الکبری للنسائی جلد 6 صفحہ 9 حدیث نمبر 9849) ۔ اور سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت (سلمان ہمارے اَہلِ بیت سے ہیں) ۔ (مسند بزار،ج13، ص139، حدیث: 6534،چشتی) ۔ جیسی نویدِ جاں فِزا سننے کی سعادت پائی ایک اور مقام پر اس بشارتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے کہ جنّت ”سلمان فارسی“ کی مشتاق ہے ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 438 حدیث نمبر 3822) ۔ جب کوئی پوچھتا کہ آپ کے والد کون ہیں ؟ تو ارشاد فرماتے : میں دینِ اِسلام کا بیٹا سلمان ہوں ۔ (الاستیعاب جلد 2 صفحہ 194)
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے ایک عرصہ تک مدینہ میں قیام فرمایا پھرعہد ِفاروقی میں عراق میں سکونت اختیار کرلی ۔ کچھ عرصے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آپ کو مدائِن کا گورنر مقرر کر دیا ۔ گورنر کے اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے بڑی سادہ زندگی گزاری ، ایک دن مدائن کے بازار میں جارہے تھے کہ ایک ناوَاقِف شخص نے آپ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھانے کےلیے کہا ، آپ رضی اللہ عنہ چپ چاپ سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگے ، لوگوں نے دیکھا تو کہا : اے صاحبِ رسول ! آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھا رکھا ہے ؟ لائیے ! ہم اِسے اٹھالیتے ہیں ۔ سامان کا مالک ہَکَّا بَکَّا رَہ گیا ، پھر نہایت شرَمْسار ہوکر آپ رضی اللہ عنہ سے معافی مانگی اور سامان اُتروانا چاہا لیکن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا : میں نے تمہارا سامان اٹھانے کی نیّت کی تھی،اب اِسے تمہارے گھرتک پہنچا کر ہی دَم لوں گا ۔ (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 66)
آپ رضی اللہ عنہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو محبوب رکھا کرتے تھے چنانچہ بطورِ تنخواہ چار یا پانچ ہزار درہم ملتے لیکن پوری تنخواہ مساکین میں تقسیم فرما دیتے اور خود کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بناکر چند درہم کماتے اور اسی پر اپنا گزر بسر کرتےتھے ۔ (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 65)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مواخاۃ (بھائی چارہ) قائم فرمادیا تھا ، اور پھر ان میں ایسی محبت تھی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی باید و شاید ۔
جب آپ رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیاتو آپ نے اپنی بیوی صا حبہ سے فرمایا کہ تم نے جو تھوڑا سا مشک رکھا ہے اس کو پانی میں گھول کر میرے سر میں لگادو کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جو نہ انسان ہیں اورنہ جن ۔ ان کی بیوی صا حبہ کا بیان ہے کہ میں نے مشک کو پانی میں گھول کر ان کے سر میں لگا دیا اورمیں جیسے ہی مکان سے باہر نکلی گھر کے اندر سے آواز آئی : اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا صَاحِبَ رَسُوْلِ اللہِ میں یہ آواز سن کر مکان کے اندر گئی تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح مطہرہ پروازکرچکی تھی اور وہ اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ گویا گہری نیند سورہے ہیں ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۲۲۱)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ مجھ سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آئيے ہم اورآپ یہ عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وصال کرے وہ خواب میں آکر اپنا حال دوسرے کو بتادے ۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں مؤمن کی روح آزاد رہتی ہے ۔ روئے زمین میں جہاں چاہے جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا ۔ پھر میں ایک دن قیلولہ کر رہا تھا تو بالکل ہی اچانک حضرت سلمان رضی اللہ عنہ میرے سامنے آگئے اوربلند آوازسے انہوں نے کہا : اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ ، میں نے جواب میں : وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ ، کہا اور ان سے دریافت کیا کہ وصال کے بعد آپ پر کیا گزری ؟ اورآپ کس مرتبہ پر ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں بہت ہی اچھے حال میں ہوں اور میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خدا پر توکل کرتے رہیں کیونکہ توکل بہترین چیز ہے ، تو کل بہترین چیز ہے ، توکل بہترین چیز ہے ۔ اس جملہ کو انہوں نے تین مرتبہ ارشادفرمایا ۔ (شواہدالنبوۃ صفحہ ۲۲۱)
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کے نیک بندوں کی روحیں اپنے گھر والوں یا احباب کے مکانوں پر جایا کرتی ہیں اوراپنے متعلقین کو ضروری ہدایات بھی دیتی رہتی ہیں اور یہ روحیں کبھی خواب میں اورکبھی عالم امثال میں اپنے مثالی جسموں کے ساتھ بیداری میں بھی اپنے متعلقین سے ملاقات کرکے ان کو ہدایات دیتی اور نصیحت فرماتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے وفات کے بعد اپنے جسموں کے ساتھ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے متعلقین سے ملاقات کی نیز اپنے اور دوسروں کے حالات کے بارے میں بات کی ۔ مشہور روایت ہے کہ حضر ت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ روزانہ حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ قبر منور سے باہر تشریف لائے اور حضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی نسبت طریقت سے سرفراز فرما کر خلافت عطا فرمائی ۔ شجرہ نقشبندیہ پڑھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت خوا جہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں حالانکہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے تقریباً انتالیس برس بعد حضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خرقان میں پیدا ہوئے ۔ ان کی مشہور کرامت یہ ہے کہ جنگل میں دوڑتے ہوئے ہرن کو بلایا تو وہ آپ کے پاس فوراً ہی حاضر ہوگیا ۔ اسی طرح ایک مرتبہ اڑتی ہوئی چڑیا کو آپ نے آواز دی تو وہ آپ کی آواز سن کر زمین پر اترپڑی ۔ (تذکرۂ محمود)
سلم بن عطیہ اسدی علیہ الرحمہ کابیان ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک مسلمان کے پاس اس کی عیادت کےلیے تشریف لے گئے وہ جاں کنی کے عالم میں تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے فرشتہ ! تو اس کے ساتھ نرمی کر ! راوی کہتے ہیں کہ اس مسلمان نے کہا کہ اے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ یہ فرشتہ آپ کے جواب میں کہتا ہے کہ میں تو ہر مؤمن کے ساتھ نرمی ہی اختیار کرتاہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد ۱ صفحہ ۲۰۴)
وصال مبارک حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے 10 رَجَبُ المُرَجَّب 33 یا 36 ہجری میں اس دنیا سے کوچ فرمایا ، مزارِ مبارک عراق کے شہر مدائن (جسے’’ سلمان پاک‘‘ بھی کہا جاتا ہے) میں ہے ۔ (تاریخ ابنِ عساکر جلد 21 صفحہ 376)(کراماتِ صحابہ صفحہ 219) آپ رضی اللہ عنہ نے ساڑھے تین سو سال (جبکہ بعض روایات کے مطابق اڑھائی سو سال) کی طویل عمر پائی ۔ (معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 455) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment