فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 14
کربلا کے مختلف نام و تعارف اور واقعہ کربلا کے راوی : یزید کے وکیلوں کو جب ہم نے دلائل سے لاجواب کر دیا ان دلائل میں انہیں کی بڑوں کی کتابوں کے حوالے بھی تھے تو اِن کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی ہوگئی اور سادہ لوگوں کو بہکانے کےلیے کہ مقام شہادت امام حسین علیہ السّلام کو تو ثابت کرو کہ کربلا ہے یا نینوا مجھے ہنسی آتی ہے اِن جہلاء کے کمنٹس پڑھ کر کہ اِن کا مبلغ علم و تحقیق اتنا ہی ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک جگہ کے متعدد نام ہیں خیر فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے ایک مختصر سی تحریر لکھی ہے سادہ لوح مسلمانوں کو اِن فتنہ پرور یزید کے وکیلوں کے شر و فتنہ سے بچانے کےلیے اہل علم و تحقیق اگر کہیں غلطی پائیں تو ضرو آگاہ فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
مشہور نام : کربلا
مقامی نام : نینوا
صوبہ : کربلا / الکربلاء
ملک : عراق
مقامی زُبان : عَرَبی
کربلا کا محل وقوع : شہر کربلا، صوبہ کربلا کا دارالخلافہ ہے ۔ یہ صوبہ شمال میں صوبہ الانبار، جنوب میں صوبہ نجف، مشرق میں صوبہ بابل اور مغرب میں بادیہ شام اور سعودی عرب سے ملتا ہے۔ شہرِ کربلا دریائے فرات کے جنوب مغربی حصے میں، شہرِ بغداد کے جنوب مغرب میں 105 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
کربلا کے مختلف نام
عراق کا جو خِطَّۂِ زمین کربلا کے نام سے مشہور ہے وہ دراصل ان قریوں اور زمینی ٹکڑوں کا مجموعہ ہے جو اس زمانے میں ایک دوسرے سے ملحق تھے۔ عرب میں چھوٹے چھوٹے قطعاتِ اراضی (زمین کے ٹکڑے) تھے جو مختلف ناموں سے موسوم ہوا کرتے تھے چنانچہ جب انہیں خصوصیت یا صفات کے اعتبار سے دیکھا جاتا تو وہ کئی مقام مُتَصَوُّر ہوتے تھے اور جب ان کے باہمی قرب (adjacency) پر نظر کی جاتی تو وہ سب ایک قرار پاتے اور یہی وجہ ہے بعض اوقات ایک مقام کا واقعہ دوسرے مقام سے منسوب کیاجاتا ہے۔ علامہ سید ہبتہ الدین شہر ستانی نے ”نہضہ الحسین“ میں تحریر کیا ہے کہ ”کربلا کے محل وقوع کے تحت جو بہت سے نام مشہور ہیں اُنہیں ایک ہی جگہ کے متعدد نام نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ متعدد جگہیں تھی جو باہمی اتصال (adjacent) کی وجہ سے ایک سمجھی جاسکتی تھیں ۔
کربلا : اس لفظ کے معنی کے بارے میں کئی اقوال ہیں
(1) کربلا، لفظ "کر بَلَہ" سے ماخوذ ہے جس کے معنی قدموں کے سست پڑنے کے ہیں ۔ (کتاب العین، جلد پنجم، ص 431،چشتی)
(2) کربلا لفظ "کربل" سے ماخوذ ہے اور کربال کے معنی چھانٹی کرنے اور تمیز کرنے کے ہیں۔ اس شہر کو ریت، پتھر اور درخت وغیرہ سے عاری ہونے کی وجہ سے کربلا کہا جاتا ہے ۔
(3) کربلا، دو لفظ "کرب" اور "ایلا" سے مرکب ہے جس کے معنی خدا کا حرم اور خدائی بندوں کا گھر کے ہیں ۔
(4) یہ لفظ اصل میں فارسی زبان کا مرکب لفظ تھا جو دو لفظ "کار" اور "بالا" سے ماخوذ ہے جس کے معنی "آسمانی" یا "با ارزش" کام کے ہیں دوسرے لفظوں میں نماز اور راز و نیاز کی جگہ ۔
(5) اصل میں یہ لفظ "کوَر بابل" تھا جس کے معنی شہرِ بابل کے گاؤں کے ہیں۔
(6) حضرت امام حسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام اور آپ کے والد گرامی حضرت علی رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام اور آپ کے نانا رسول اکرم صَلَّی اللهُ تعالٰی علیہِ وَ آلِهِ وَ بارِک وسلم نے کربلا کو "کرب و بلا" یعنی درد، بلا، آزمائش اور ابتلاء سے تفسیر کیا ہے ۔
(7) کربل، کربلا اور کربلة؛ فصل یا غَلَّہ خاص کر فصلِ گندم کاٹ کر پچھوڑنے یعنی بھُوسا اڑا کر صاف کرنے کو کربل کہتے ہیں۔ کیچڑ میں بدِقَّت اور آہستہ چل کر آنے کے لیے بھی "مکربلا" کہا جاتا ہے ۔ جیسے "جاء یمشی مکربلاً" (ص 720 المنجد طبع بیروت) یعنی "وہ مٹی ملے ہوئے پانی (کیچڑ) میں بدقت چل کر آیا ۔" عربی زبان کے لفظ "کربل" اور "كربلة" تلفظ کے اعتبار سے یکساں ہیں، کربلاء (اردو میں "کربلا") اسی سے بنا ہے ۔ عَرَبی کی مشہور و معروف لغت "المنجد" میں دو لفظ، "غربل" اور "غربلة" اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں (المنجد، صفحہ 820، طبع بیروت،چشتی) ، جیسے "غربل الحنطلة"۔ "الحنطلة" عربی میں گیہوں صاف کرنے کو کہتے ہیں (المنجد، اردو ترجمہ، مطبوعہ خزینہ علم و ادب، لاہور۔ صفحہ 734) اور الکربال، گیہوں صاف کرنے کی چھلنی کو ۔
نوٹ : قدیم ترین شعر جس میں کربلا کا نام آیا ہے ، حضرت معن بن اوس رضی اللہ عنہ کا ہے جو عہدِ جاہلیت کے مشہور شاعر تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا ۔ (الاغانی، جلد دواز دہم، ص 309)
حائر: معنٰی اور وجۂِ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال
(1) حائر لغت میں مادہ "حار - یحیر" سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اس جگہ کو کہا جاتا ہے جس میں پانی جمع ہوتا ہو اور باہر جانے کا کوئی راستہ نہ ہو۔
(2) سب سے پہلے حضرت امام جعفر صادق رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام نے قبرِ حضرت امام حُسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام اور اس کے ارد گرد کے محصور علاقے کو حائر کا نام دیا ۔
(4) حائر کے لغوی معنٰی "حیران" و "سرگردان" کے ہیں۔
نواویس (Nawaweess) : معنٰی اور وجۂِ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال
(1) یہ نام مسیحی اور سریانی نقطہ نگاہ سے بولا جاتا ہے چونکہ کربلا کے شمال مغرب میں مسیحیوں کا قدیمی اور تاریخی قبرستان ہے۔ آجکل یہ قبرستان دریائے سلیمانیہ کے کنارے پر واقع "براز علی" نامی گاؤں میں واقع ہے ۔
(2) حضرت امام حسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام نے بھی اِسی نام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (ابن طاؤس، اللہوف علی القتلی الطفوف، صفحہ 53)
طفّ : معنٰی اور وجۂِ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال
(1) "طف" دریا کے "لَب" (ساحل) کے معنی میں ہے اور چونکہ حضرت امام حسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام کی شہادت لَبِ فرات پر واقع ہوئی اس لیے اسے طف کہا جاتا ہے ۔ (لسان العرب جلد نہم صفحہ نمبر 221،چشتی)
(2) عمدہ الطالب فی انساب آلِ ابی طالب نامی کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر بھی شہادتِ عون و محمد و امام حسین رضوان اللهُ تعالٰی علیہم اجمعین وَ علیہم السلام اجمعین کو "طف کی لڑائی" کہہ کر ذکر کیا گیا ہے ۔
غاضریہ : معنٰی اور وجۂِ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال
(1) کربلا کو "غاضریہ" بھی کہا جاتا ہے وہ اسلیے کہ کربلا کے نزدیک "بنی اسد" کا ایک قبیلہ بنام "بنی غاضر" رہتے تھے ۔ (معجم البلدان، جلد چہارم، ص 183)
(2) حقیقت میں یہ مقام کوفہ کے پاس اور کربلا کے نزدیک تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام جب موجودہ کربلا کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے اِس جگہ پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ کیا لیکن حُر بن یزید ریاحی رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام (پہلے یزیدی فوجی، بعد میں 10 مُحرم کو تائب ہو کر امام حُسین کے قافلے میں شامل ہو گئے تھے اور شہید ہوئے) نے منع کیا کیونکہ ﺍُس وقت حُر بن یزید ریاحی، عبید اللہ بن زیاد لعنت الله علیہ (والئِ کوفہ) کی طرف سے حضرت امام حسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ وَ علیہِ السلام کو بے آب و گیاہ (ویران) جگہ پر روکنے پر مامور تھا ۔
(3) یہ علاقہ کربلا سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس زمین کو اراضی حسینیہ بھی کہتے ہیں۔ طول تاریخ میں دوسرے ناموں کی طرح کربلا کی زمین کے لیے بھی یہ نام استعمال ہوتا رہا ہے ۔ (دینوری اخبارالطوال جلد اوّل صفحہ 252،چشتی)
(4) بعض تاریخی اقوال کے مطابق جہاں اسوقت حضرت امام حُسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ کی قبر ہے یہ جگہ حضرت امام حُسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ نے اہل نینوا سے خریدی تھی اور یہ زمین اِس شرط پر اُنہیں (واپس) صدقہ کر دی تھی کہ وہ لوگوں کو حضرت امام حُسین رضی اللهُ تعالٰی عنهُ کی قبر کی طرف راہنمائی کریں گے اور تین دن تک زائرین کی مہمان نوازی کریں گے ۔
(5) امام باقر رضی اللهُ تعالٰی عنهُ سے منقول روایات میں آیا ہےکہ، "غاضریہ میں وہی بُقعہ ہے جہاں الله عَزَّوجل نے حضرت موسی علیہِ السلام کے ساتھ بات کی اور حضرت نوح علیہِ السلام کے ساتھ مناجات کی تھی۔ زمین کا یہ ٹکڑا خدا کے نزدیک نہایت قابل احترام ہے ۔ (شیعہ کتاب بحارالانوار جلد 98، صفحہ 109، جلد 101، صفحہ 108)
نینوا : یہ ایک گاؤں کا نام تھا، یہ گاؤں "غاضریہ" کے پہلو میں" تھا۔
عقر : معنٰی اور وجۂِ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال
(1) "عقر" لُغت میں "شگاف" اور دو جگہوں کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ (کتاب العین، جلد اوّل، صفحہ 151)
(2) جب امام حسین اس جگہ پر پہنچے تو اس جگہ کا نام پوچھا تو کسی نے کہا کہ اس کا نام "عقر" ہے تو امام نے فرمایا "عقر" سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ (معجم البلدان، جلد چہارم، ص 136)
واقعہ کربلا کے راوی لکیر کے فقیروں کےلیے
محترم قارئینِ کرام : فقیر کا واقعہ کربلا کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید پلید اور اس کے حواری باطل پر تھے ۔ حق آج بھی حسنیت کے نام پر زندہ ہے ۔ اور باطل یوں مٹا کہ آج یزید پلید ایک گالی بن کر رہ گیا الحَمْدُ ِلله اس فقیر کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر خود کو غلامِ امام حسین رضی اللہ عنہ کہنے والے کروڑوں ہیں مگر خود کو یزید کا غلام کہنے والا کوٸی نہیں اگرچہ یزید پلید کی دلالت و وکالت کرنے والے بہت سے لوگ ہیں مگر یہ سب فتنہ و شر پھیلانے کے ایسا کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ یزید ملعون کو حق سمجھتے ہیں پھر لکھ کر دیں کہ یا اللہ ہمارا حشر یزید ملعون کے ساتھ کر ؟ مگر یہ کبھی لکھ کر نہیں دینگے ۔ اور ہم اہلسنت بابانگ دہل لکھتے اور دعا کرتے ہیں کہ : یا اللہ ہمیں یزید ملعون کے ساتھ حشر سے بچا اور ہمارا حشر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ فرما آمین ۔
اب آیٸے واقعہ کربلا کے من گڑت واقعات گھڑنے والے راویوں کے متعلق حقاٸق پڑھتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ ہی افسوس بھی کرتے ہیں اُن پر نہوں بغیر تحقیق کیے ایسے من گھڑت توہین آمیز واقعات کو لکھا اور بیان کیا اور آج تک لکیر کے فقیر بن کر بغیر تحقیق کیے مکھی پہ مکھی مارتے جا رہے ہیں ۔ کبھی ہم سے بھی کم علمی کی وجہ سے ایسا ہوا یا کوٸی آمیز واقعہ بیان ہوا تو ہم اللہ عز و جل سے معافی مانگتے ہیں وہ ہمیں معاف فرماۓ آمین ۔
واقعہ کربلا پرسب سے پہلی کتاب ابومِخنف لوط بن یحییٰ کوفی (متوفیٰ 157 یا 158 ہجری) کی تصنیف ’مقتل الحسین‘ جو مقتل ابومخنف کے نام سے مشہور ہے‘ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ ابو مخنف ایک شیعہ مصنف تھا اور عبد الله بن سبا کے نظریات کا پیروکار تھا - اس کا دادا سالم بن بن یحییٰ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی فوج میں شامل تھا اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں نے اسے قتل کردیا تھا - اس لیے ابو مخنف بنو امیہ خاندان کا جانی دشمن تھا - اس نے کل 23 کتابیں (صحیفوں کی شکل میں) تحریر کیں جو سب کے سب بنو امیہ خاندان کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئیں تھیں ۔ ابو مخنف کی مشھورِ زمانہ کتاب " مقتل الحسین " (170) ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً 110 سال بعد کی ہے اور اس کتاب کو مشھور مورخ حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے ۔ لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ علامہ ابن جریر طبری نے اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنایا ۔ سانحہ کربلا کے موضوع پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اس واقعے سے متعلق جیسا جھوٹ گھڑا گیا ہے ، شاید ہی کسی اور واقعے سے متعلق گھڑا گیا ہو ۔ ہزاروں مرثیے لکھے گئے اور انتہاء درجے کی مبالغہ آرائی کے ساتھ اس سانحہ کو ایک افسانے کا رنگ دے دیا گیا ۔ محرم میں عجیب و غریب من گھڑت قصوں ، کہانیوں اور اشعار میں سانحہ کربلا کی داستانیں سنائی جاتی ہیں اور ایک ایک بات کی ایسی منظر نگاری کی جاتی ہے جیسےیہ واقعہ ان کے سامنے پیش آیا ہو ۔
تاریخی کتابیں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اولین کتب تاریخ میں اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی ۔ اس سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں، ان کا نام ہشام کلبی ہے ۔ اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی ۔ ان سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں ، ان کا نام ہشام کلبی ہے ۔ ان دونوں راویوں سے ہمارا اس تاریخی سلسلے میں پرانا تعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نہایت ہی متعصب مورخ ہیں اور مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سخت بغض رکھتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں سوائے چند ایک کے ، سانحہ کربلا کی تقریباً سبھی روایات انہی دونوں سے مروی ہیں ۔ ان دونوں راویوں کا حضرت معاویہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض اتنا نمایاں ہے کہ انہوں نے ان روایات میں بھی جگہ جگہ اس بغض کو داخل کر دیا ہے ۔
تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں اس سے متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے ۔ اس وجہ سے مناسب یہی رہے گا کہ ہم ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کریں ۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور ناقابل اعتماد مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں ، جن کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہر جھوٹی سچی بات کو ملا کر ایک کہانی بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی سند کے بیان کر دیتے ہیں ۔ کبھی وہ سند بھی بیان کر دیتے ہیں جو بالعموم مکمل نہیں ہوتی ہے ۔ یہاں ہم تاریخ کی اولین کتب تاریخ میں سانحہ کربلا کی روایات سے متعلق کچھ اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں ۔
واقعہ کربلا کی روایات تاریخ کی کتب میں
تاریخ کی کتاب طبت ابن سعد (168-230 /784 -845،چشتی) میں ٹوٹل ایک روایت ہے کربلا کے بارے اور وہ روایت بھی ناقابل اعتماد راوی
واقدی ، ابو مخنف اور کلبی سے ہے ۔
بلاذری ۔ (279/893) میں ٹوٹل 39 روایات ہیں ، جن میں سے 14 روایات ناقابل اعتماد راوی واقدی ، ابو مخنف ، عباد بن عوام ، حصین بن عبد الرحمن اور ہیثم بن عدی سے ہیں ، بقایا پیچھے 25 روایات رہ جاتی ہیں ۔
طبری ۔ (224-310/838-922) میں ٹوٹل کربلا کے متعلق 129 روایات ہیں،جن میں سے 120 روایات ناقابل اعتبار راویوں کی ہیں، جن میں ابو مخنف اور ہشام کلبی: سے 113 اور واقدی: سے 7 ہیں ، اس کتاب میں بقایا 9 روایات بچتی ییں ۔
تاریخ طبری کے بارے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 129 روایات کا بڑا حصہ ابو مخنف، ہشام کلبی اور واقدی سے مروی ہے۔ طبری سے پہلے کے مورخین میں ابن سعد (230/845) ہیں جو کہ ہیں تو واقدی کے شاگرد ، لیکن بذات خود ایک قابل اعتماد مورخ ہیں۔ ان کے بارے میں محدثین کا یہ اصول ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان کی وہ روایات، جو وہ واقدی کےعلاوہ کسی اور سے روایت کرتے ہیں، پر اعتماد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے راوی قابل اعتماد ہوں۔ ابن سعد نے سانحہ کربلا کے واقعات سے متعلق 23 روایات اپنی کتاب میں درج کی ہیں،لیکن ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو انہوں نے مختلف اسناد کو ملا کر پورے واقعہ کو ایک طویل کہانی کی صورت میں بیان کی ہے۔ بقیہ 22 چھوٹی چھوٹی روایتیں ہیں جن میں ابن سعد نے واقعے کی کچھ جزوی تفصیلات کو نقل کیا ہے اور ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر روایت کو نقل کرنے کے بعد وہ رجع الحديث إلى الأول (اب ہم پہلے بیان کی طرف واپس پلٹتے ہیں) کے الفاظ لکھ کر اسی طویل روایت کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ روایت 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ بقیہ 5-6 صفحات پر بقیہ 22 روایتیں ہیں ۔
طویل روایت کی اسناد کو انہوں نے کچھ اس طرح نقل کیا ہے :
أخبرنا محمد بن عمر (الواقدي)، قال: حدثنا ابن أبي ذئب، قال : حدثني عبدالله بن عمير مولى أم الفضل ۔
أخبرنا عبدالله بن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه ۔
أخبرنا يحيي بن سعيد بن دينار السعدي، عن أبيه ۔
وحدثني عبدالرحمن بن أبي الزناد، عن أبي وجزة السعدي، عن علي بن حسين ۔
قال : وغير هؤلاء أيضا قد حدثني. قال محمد بن سعد: وأخبرنا علي بن محمد، عن يحيي بن إسماعيل بن أبي مهاجر، عن أبيه ۔
وعن (أبو مخنف) لوط بن يحيي الغامدي، عن محمد بن نشر الهمداني، وغيره ۔
وعن محمد بن الحجاج، عن عبدالملك بن عمير ۔
وعن هارون بن عيسى، عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه ۔
وعن يحيي بن زكريا بن أبي زائدة، عن مجالد، عن الشعبي ۔
قال ابن سعد : وغير هؤلاء أيضا قد حدثني في هذا الحديث بطائفة فكتبف جوامع حديثهم في مقتم الحسين رحمة الله عليه ورضوانه وصلوته وبركاته. قالوا ۔
ابن سعد نے کہا : ان اسناد کے علاوہ بھی اس روایت کو (راویوں کے) ایک گروہ نے مجھ سے بیان کیا ۔ میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق ان سب کی روایتوں کو اکٹھا کر کے لکھ لیا ہے ۔ ان لوگوں نے بیان کیا ۔ (ابن سعد طبقات الکبری 6/421-422،چشتی)
ابن سعد نے اس طویل روایت میں یہ نہیں بتایا کہ روایت کا کون سا حصہ کس راوی نے بیان کیا ہے بلکہ انہوں نے اسے ایک مسلسل قصے کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے کہ تقریباً 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی اس روایت کا کون سا حصہ قابل اعتماد راویوں نے بیان کیا ہے اور کون سا حصہ ناقابل اعتماد راویوں نے۔ اس وجہ سے ان کی پوری روایت کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ابن سعد کی بیان کردہ تفصیلات کا موازنہ اگر طبری میں بیان کردہ ابو مخنف ، ہشام کلبی اور واقدی کی روایتوں سے کیا جائے تو ان میں مماثلت پائی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن سعد نے بھی زیادہ تر تفصیلات انہی تین راویوں سے اخذ کی ہیں ۔
اب آیئے تیسرے مورخ احمد بن یحیی بلاذری (279/893)کی طرف
انہوں نے سانحہ کربلا کے ضمن میں 39 روایتیں بیان کی ہیں جو کہ مکتبہ دار الفکر والے ورژن کی جلد 3 میں صفحہ 363-426 پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 14ایسی روایتیں ہیں جو نہایت ہی ناقابل اعتماد راویوں سے مروی ہیں۔ ان میں ابو مخنف لوط بن یحیی (راوی نمبر4654)، عباد بن عوام (راوی نمبر2651)، عوانہ بن حکم (راوی نمبر4372)، حصین بن عبد الرحمن (راوی نمبر1795) اور ہیثم بن عدی (راوی نمبر6546)شامل ہیں۔
یہ سب کے سب راوی ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ۔ (سیر الاعلام النبلا می راویوں کے نمبر کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے)
ان میں لوط بن یحیی اور عباد بن عوام اسی باغی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو مسلسل بغاوتیں اٹھاتی رہی۔ عوانہ بن حکم، ہشام کلبی کے استاذ تھے۔ ہیثم بن عدی کو محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ حصین بن عبد الرحمن اگرچہ قابل اعتماد تھے مگر ان کا حافظہ کمزور تھا اور وہ روایات کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے۔
آپ امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مشہور انسائیکلو پیڈیا ’’سیر الاعلام النبلاء‘‘ میں متعلقہ نمبر پر ان سب کے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر ان راویوں کی بیان کردہ روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو اس طرح سے بقیہ 25 روایتیں بچتی ہیں جن سے ہم واقعے کی حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
آٹھویں صدی کے مشہور مورخ ابن کثیر نے بھی ابو مخنف وغیرہ کی ان روایتوں کو اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں درج کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے : اہل تشیع اور روافض نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سا جھوٹ اور جھوٹی خبریں گھڑی ہیں ۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، اس کا بعض حصہ محل نظر ہے ۔ اگر ابن جریر (طبری) وغیرہ حفاظ اور ائمہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا ۔ اس کا اکثر حصہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی روایت سے ہے جو کہ شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک واقعات بیان کرنے میں ضعیف (ناقابل اعتماد) ہے ۔ لیکن چونکہ وہ اخباری اور (خبروں کا) محفوظ کرنے والا ہے اور اس کے پاس ایسی چیزیں ہیں جو اس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہیں ، اس وجہ سے اس کے بعد کے کثیر مصنفین نے اس پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ (ابن کثیر 11/577،اردو ترجمہ جلد 8 صفحہ 259،چشتی)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو سانحہ کربلا سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہ ہو سکے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا کوئی حل نہیں ہے تاہم دو صورتیں ایسی ہیں جن پر احتیاط سے عمل کیا جائے تو ہم کسی حد تک درست معلومات تک پہنچ سکتے ہیں ۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ ان دونوں کی روایتوں کو چھوڑ کر دیگر روایات پر غور کیا جائے ۔ اس سے جتنی معلومات حاصل ہوں ، ان پر اکتفا کر کے بقیہ معاملات کو حسن ظن پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح طرز عمل ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایات میں جہاں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض ظاہر ہوتا ہو ، اسے چھوڑ کر بقیہ معاملات میں ان کی باتوں کو پوری احتیاط سے قبول کیا جائے اور ان کی کسی ایسی بات کو قبول نہ کیا جائے جس میں ان کا تعصب جھلکتا ہو اور انہوں نے واقعات کو جذباتی انداز میں ایسے بیان کیا ہو کہ اس دور کے مسلمانوں کی نہایت ہی بھیانک تصویر سامنے آئے ۔
تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے ۔ اس وجہ سے علمائے اہل سنت نے ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کیا۔ ان راویوں کے علاوہ ایک اور مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں، اس کے علاوہ ایک راوی عمار الدھنی ہیں ، یہ تاریخی روایات میں قابل اعتبار مانے جاتے ہیں ۔ واقعہ کربلا کے متعلق اہل سنت کے ہاں منقو ل اکثر روایات انہی کی ہیں ۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔ صدوق یتشیع “ عمار الدھنی بہت سچا راوی ہے اور شیعہ عقیدہ رکھتا ہے ۔ (تقریب التہذیب صفحہ 152)
صاحب تنقیح المقال بھی لکھتے ہیں : کان شیعا ثقۃ “ عمار الدھنی شیعہ عقیدہ رکھتا ہے لیکن قابل اعتبار تھا ۔ (تنقیح المقال صفحہ نمبر 317 جلد نمبر 2) عمار الدھنی راوی شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک قابل اعتبار ہے ۔ عمار الدھنی کی روایت تاریخ طبری ، تہذیب التہذیب ، الاصابہ میں موجود ہیں ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کے جتنے بھی من گھڑت واقعات ہیں وہ شیعہ روافضیوں ابن سبا کے پیرکار راویوں سے منقول ہیں وہ سب بے اصل ہیں جن کی اصل حقیقت اللہ عزوجل کو ہی معلوم ہے ۔ اس سے واقعہ سے متعلق تمام روایات بعد کے ادوار میں گھڑی گئیں تا کہ اہل بیعت رضی اللہ عنہم کی جھوٹی بناوٹی محبّت کی آڑ میں سارے خاندانِ بنو امیہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بدنام کیا جا سکے ۔ الله تعالیٰ صحیح و مستند رایات کی روشنی میں مقام حضرت امام رضی اللہ اور واقعہ کربلا بیان کرنے کی توفیق عطا فرماۓ اور نسلِ ابن سبا و ابن سبا یہودی کے پیروکاروں کے پھیلاۓ جھوٹ اور شر و فتنہ سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 15 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment