فضائلِ توبہ و استغفار حصّہ سوم
اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ توبۃ النصوح یعنی حقیقی توبہ کسے کہتے ہیں ؟ اللہ جل شانہٗ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اپنے بندوں کو ’’توبۃ النصوح‘‘ یعنی حقیقی توبہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ۔ (سورۃ التحریم آیت 8)
ترجمہ : اے ایمان والو ! توبہ کرواللہ کی طرف ، صاف سچے دل کی توبہ ۔
مندرجہ بالا سوال کا جواب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین کرام ، سلف الصالحین اور مفسرین کرام کے اقوال کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں ۔
’’نصوحاً‘‘ النصح سے ماخوذ ہے اور عربی میں سلائی کرنے کو النصح کہا جاتا ہے۔ گویا ’’توبۃ النصوح ’’ حقیقی توبہ‘‘ گناہوں کے باعث ہونے والی پھٹن کو رفو کرکے ایسے ختم کر دیتی ہے جس طرح ایک درزی اور رفوگر کسی پھٹے ہوئے کپڑے کو سلائی اور رفو کر کے اس کی پھٹن کو بالکل ختم کر دیتے ہیں۔ توبۃ النصوح کو حقیقی، خالص، سچی، محکم و پختہ توبہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ’’ نصوحًا‘‘ کو ’’ن‘‘ کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جس سے مراد ایسی ’’ توبہ‘‘ ہے کہ جس سے مومن نصیحت حاصل کرے ۔ (تفسیر روح المعانی)
امام قرطبی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ کا مطلب خالص ہونا ہے ۔ ملاوٹ سے پاک شہد کو ’’ عسل ناصح‘‘ کہتے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ ’’نصاحۃ‘‘ بمعنی سلائی سے ماخوذ ہے اس ماخذ کی دو وجوہات ہیں : ⬇
1 ۔ تو بہ حقیقی مومن کا اطاعت ِ الٰہی کو محکم و پختہ کرنا ہے جس طرح کہ درزی سلائی سے کپڑے کو محکم و پختہ کر دیتا ہے ۔
2 ۔ توبہ حقیقی نے اسے یعنی توبہ کرنے والے کو اللہ کے اولیا کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار کرنے کی توفیق بخشی ، جوڑ دیا اور ملادیا اور جمع کیا جیسا کہ درزی سلائی کے ذریعے کپڑے کو اور اس کے مختلف حصوں کو آپس میں ملا اور جوڑ دیتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’ توبۃ النصوح‘‘ یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے ہوئے گناہ سے نادم ہو کر اللہ کی طرف یوں دوڑے کہ دوبارہ گناہ کی طرف نہ لوٹے یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے ۔ (تفسیر در المنشور)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے توبۃ النصوح حقیقی توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آدمی بُرے عمل سے تائب ہو اور پھر کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہ جائے ۔
٭ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ توبۃ نصوح یہ ہے کہ تو گناہ سے ویسے ہی نفرت کرے جیسے کہ تو نے اس سے محبت کی اور جب تجھے یاد آئے تو اس سے توبہ و استغفار کر ۔ (بحوالہ تفسیر، ابن ِ کثیر)
امام دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ یعنی حقیقی توبہ یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے، دل سے ندامت اختیار کرے اور اپنے بدن کو قابو میں رکھے ۔ (تفسیر الخازن)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچی نصیحت آمیز توبہ کو ’’توبۃ النصوح‘‘ کہتے ہیں ۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ توبۃ النصوح‘‘ مقبول توبہ کو کہتے ہیں اور توبہ اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی جب تک اس میں مندرجہ ذیل تین چیزیں نہ پائی جائیں : ⬇
1 ۔ عدم قبولیت کا خوف موجود رہے ۔
2 ۔ قبولیت کی امید ہو ۔
3 ۔ طاعت پر ثابت قدمی ہو ۔
امام محمد بن سعید قرطبی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ چار شرائط کے پائے جانے کانام ہے ۔
1 ۔ زبان سے استغفار کرنا ۔
2 ۔ بدن سے گناہوں کو اکھیڑ پھینکنا ۔
3 ۔ دل سے دوبارہ لوٹنے کے ترک کا اظہار کرنا یعنی استقامت کے ساتھ اس پر قائم رہنا ۔
4 ۔ برے دوستوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنا ۔
حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : چار چیزیں ’’توبۃ النصوح‘‘ مقبول توبہ کی علامت ہیں : ⬇
1 ۔ گناہوں کو زائل کرنا ۔
2 ۔ اللہ کی یاد میں دل لگانا یا تشویش میں مبتلا ہونا یعنی نادم و شرمندہ ہونا ۔
3 ۔ انکساری اور تابعداری اختیار کرنا ۔
4 ۔ گناہوں سے دوری و جدائی اختیار کرنا ۔
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نے فرمایا : توبہ کے بعد گناہ اس کی آنکھوں میں کھٹکے گویا گناہ کو برابر دشمنی کی نگاہ سے دیکھے یا دیکھ رہا ہو ۔
ابوبکر واسطی علیہ الرحمہ نے فرمایا : ’’توبۃ النصوح‘‘ خالص توبہ کا نام ہے نہ کہ معاوضہ کا۔ اس لئے کہ جس نے دنیا میں اپنے نفس کی سہولت اور مفاد کی خاطر گناہ کیا اور پھر اس نفس کی سہولت کے پیش نظر توبہ کی تو اس کی توبہ اپنے نفس کے لئے ہوگی نہ کہ اللہ کےلیے ۔ (تفسیر ثعلبی ۔9۔35)
حضرت رابعہ بصری رحمة اللہ علیہا نے کہا : ایسی توبہ جس میں گناہ کی طرف لوٹنے کا خیال نہ ہو مقبول و حقیقی توبہ کہلاتی ہے ۔
حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ نے فرمایا توبۃ النصوح کی تین علامتیں ہیں : ⬇
1 ۔ قلت ِ کلام (کم بولنا)
2 ۔ قلتِ طعام ( کم کھانا)
3 ۔ قلتِ منام ( کم سونا)
شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ توبۃ النصوح کرنے والا بکثرت اپنے نفس پر ملامت کرے اور ندامت اس سے کبھی جد انہ ہو تاکہ وہ گناہوں کی آفتوں سے سلامتی کے ساتھ نجات پا سکے۔
حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’توبۃ النصوح‘‘ ایمان والوں کو اصلاحِ نفس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے کہ جس کی توبہ درست قرار پائی تو وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ سب لوگ اس کی طرح توبۃ النصوح کرنے والے ہوں ۔ (تفسیر ثعلبی)
حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے فرمایا : توبۃ النصوح یہ ہے کہ انسان گناہوں کو ایسے بھول جائے کہ پھر اس کا تذکرہ بھی نہ کرے کیونکہ جس کی توبہ درست قرار پائی وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی وہ اللہ کے ماسویٰ کو بھول گیا ۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ نے فرمایا : توبۃ النصوح اہل ِسنت والجماعت کی توبہ کا نام ہے اس لیے کہ بدعتی و بدمذہب کی کوئی توبہ نہیں‘‘ اور انہوں نے یہ استدلال حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس ارشاد ِ مبارکہ کی وجہ سے کیا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ہر صاحب ِبدعت کو توبہ کرنے سے محجوب کر دیا ہے ۔
ابو عبداللہ علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ دس چیزوں کا نام توبۃ النصوح ہے : ⬇
1 ۔ جہل سے نکلنا
2 ۔ اپنے برے فعل پر نادم ہونا
3 ۔ خواہشات (نفسانی) سے دوری اختیار کرنا
4 ۔ سوال کئے جانے والے نفس کی پکڑ کا یقین
5 ۔ ناجائز معاملات کی تلافی کرنا
6 ۔ ٹوٹے ہوئے رشتوں کا جوڑنا
7 ۔ جھوٹ کو ساقط کرنا
8 ۔ بُرے دوست کو چھوڑنا
9 ۔ معصیت سے خلوت اختیار کرنا
10 ۔ غفلت کے طریق سے جدائی اختیار کرنا
٭ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ لکھتے ہیں:
توبۃ النصوح حقیقی توبہ سے مراد صاف دل کی توبہ ہے وہ یہ کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے ۔ اگر توبہ کے بعد انہی خرافات و معصیات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی ۔ ( تفسیر عثمانی سورۃ التحریم)
ہر انسان اپنی زندگی میں موت کا وقت آنے سے پہلے پہلے توبہ کرلے کیونکہ سانسیں اکھڑنے کے بعد کی جانے والی توبہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے : وَلَیْسَت ِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِج حَتّٰیٓ اِذَاحَضَرَ اَحَدَ ھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ ولَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌط اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ (سورۃ النساء۔18)
ترجمہ : اور ایسوں کی توبہ (قابل ِ قبول) نہیں جو گناہ اور بُرے کام کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آجائے تو کہے ’’میں توبہ کرتا ہوں‘‘ اور نہ ایسوں کی توبہ جو حالت ِ کفر میںمر جاتے ہیں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰہ یقبل توبۃ العبد مالم یعرغر ۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات)
ترجمہ : بے شک اللہ رحمتہ اللعالمین بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اس کی روح گلے تک نہ پہنچے ۔
اس سے پہلے پہلے توبہ کر لے ۔ یعنی جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑ جائیں ۔
ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق توبہ اس وقت تک قابل ِقبول ہے جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہونے لگے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : من تاب قبل تطلع الشمس من مغربھا تاب للّٰہ علیہ ۔
ترجمہ : جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کی اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعا)
اللہ ربّ العزت کی جانب سے توبہ کی توفیق ملنے کے اعتبار سے لوگوں کی مختلف اقسام کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
1 ۔ قسمِ اوّل : قسم اوّل ان لوگوں کی ہے جن کو زندگی بھر سچی توبہ کی توفیق نہیںملتی۔ ان کی تمام عمر گناہوں کی انجام دہی میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ زبانی توبہ کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقتاً گناہوں سے تائب نہیں ہوتے ۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کو موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ۔ اس حالت کو بدبخت لوگوں کی حالت کہا جاتا ہے جن کو توفیق ِ توبہ نہیں ملتی ۔
2 ۔ قسمِ دوم : اس سے بھی بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کا ابتدا سے لے کر آخر عمر تک تمام عرصہ حیات نیک اعمال میں صرف ہوتا ہے مگر آخری وقت میں کسی بُرے عمل میں مبتلا ہوجاتے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے ’’تم میں سے بعض لوگ اہلِ جنت والے اعمال (اعمالِ صالح) اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر ان پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمی لوگوں والا عمل اختیار کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہونے کے حق دار بن جاتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء،چشتی)
3 ۔ قسمِ سوم ۔ اعلیٰ و ارفع قسم : قسم سوم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں ۔ پھر موت سے قبل ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آن پہنچا ہے تو وہ اس ملاقات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایسا زادِ راہ و توشہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملاقات کے شایانِ شان ہو۔ یہ مومنوں کی سب سے اعلیٰ و ارفع قسم ہے ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : توبۃ النصوح کی اعلیٰ و ارفع مثال اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بارے میں اشارہ فرمایا گیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی تمام تر صلاحیتیں، توانائیاں اور کوششیں (اپنی اُمت کے لئے مثال چھوڑنے کے لئے) آخرت میں کام آنے والے اعمالِ صالحہ میں صرف کرنے لگے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معمول تھا۔ ( تفسیر الدرالمنشور، سورۃ النصر، تفسیر ابن ِ کثیر)
حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیات کے آخری لمحات میں اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے ہر وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ کہا کرتے تھے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم سے اس کثرتِ ذکر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سورۃ النصر کی تلاوت فرمائی ۔ (تفسیر ابن ِ کثیر سورۃ النصر، تفسیر القرطبی سورۃ النصر،چشتی)
توبۃ النصوح کا طریقہ : ⬇
علما کرام فرماتے ہیں کہ بندہ جن گناہوں کا مرتکب ہو ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ گناہ کا تعلق اور نوعیت کس طرح کی ہے، گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے یا حقوق العباد سے ۔ اگر اللہ ربّ العزت کے حقوق میں سے کوئی حق ہے جیسا کہ ترکِ نماز، ترکِ روزہ یا ترکِ زکوٰۃ وغیرہ تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے ۔ اسی طرح روزہ اور زکوٰۃ کا معاملہ ہوگا کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرے گا اسوقت تک اس کی توبہ حقیقی اور کامل نہ ہوگی ۔
اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے یعنی کسی کو ناحق قتل کیا تو اسلام میں اس کا قصاص درج ہے۔ پس اپنے آپ کو قصاص کےلیے پیش کرے اگر مقتول کے ورثا نے اس کا تقاضا کیا ہے ورنہ دیت ادا کرے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی ہے جس سے ’’حد‘‘ لازم آتی ہے تو اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرے ۔ اگر قتل اور تہمت کے معاملات میں اسے معاف کر دیا گیا ہے تو نہایت اخلاص کے ساتھ ندامت اختیار کرے اور آئندہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرے ۔ اسی طرح چور ، ڈاکو ، زانی ، شرابی بھی توبہ کو بجا لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کی توبہ درست ہو جائے گی ۔ اگر گناہوں کا تعلق کسی کے حقوق کی ادائیگی سے ہے اور اگر قدرت اور استطاعت رکھتا ہے تو فوراً صاحب ِحق کا حق ادا کرے اور اگر فوری ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا پکا سچا ارادہ و عزم کرلے ۔ اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا تو فوری طور پر اس سبب ِ نقصان کو زائل کر دے مثلاً کسی کو سود پر رقم دی ہو تو سود معاف کر دے اسطرح اسکا یہ سبب ِ پریشانی و نقصان زائل ہو جائے گا پھر اپنے اس مسلمان بھائی سے معافی بھی طلب کرے اور اس کے لیے اور اپنے لئے استغفار بھی کرے اور اگر صاحبِ حق نے معاف کر دیا تو اس گناہ سے بری ہو جائے گا ۔ اسی طرح کسی کو کسی بھی طرح کا ضرر یا نقصان پہنچایا ہو یا ناحق اسے ستایا ہو تو صاحبِ حق سے نادم ہو کر معافی مانگے اور آئندہ کسی کے بھی ساتھ ایسا نہ کرنے کا عزمِ مصمم کرے اور برابر صاحب ِ حق سے معافی طلب کرے یہاں تک کہ مظلوم اسے معاف کر دے تو اس کے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ (تفسیر القرطبی)
مندرجہ بالا بَحَث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ والدین ، اساتذہ ، بزرگوں کی دل آزاری کرنا یا کسی مجبور و لاچار کی دل آزاری کرنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور والدین، اساتذہ ، بزرگوں اور مرشدِ کامل کی دل آزاری سخت گناہ میں شمار ہوتی ہے اس لیے اولاد ، طالبِ علم اور سالکین کو ان معاملات میں ان گناہوں سے بچنا چاہیے اور والدین ، اساتذہ ، بزرگوں اور مرشد کامل اکمل کی دل آزاری اور نافرمانی سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ وہ نفوس ہیں جن کی وجہ سے انسان اور اس کے ارادے و عقائد پرورش پاتے اور استحکام حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی نافرمانی گناہ بن کر راہِ حق میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ یہی طریقہ تمام معاصی و گناہوں اور لغزشوں کا ہے ۔
طریقِ سلف الصالحین علیہم الرحمہ : ⬇
سلف الصالحین علیہم الرحمہ کی رائے مبارکہ ہے کہ جس شخص کی موت کسی نیک عمل کی ادائیگی روزہ، حج ، عمرہ یا جہاد کے دوران یا فوراً بعد واقع ہو جائے تو اللہ ربّ العزت کی رحمت ِکاملہ سے امید ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ بذاتِ خود اکابرین سلف الصالحین عمر بھر نیک اعمال کی انجام دہی میں صرف کرنے کے باوجود موت سے قبل اور بوقت آثارِ موت توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے اور اپنا عمل استغفار اور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘اور ذکر الٰہی پر ختم کیا کرتے ۔
دعوتِ توبۃ النصوح : ⬇
آج کے دور میں انسان گناہ و معصیات کے بحر عمیق میں ڈوبا ہوا ہے ۔ نفسِ بشری خطا و لغزشوں سے بچا ہوا نہیں لیکن لا تقنطومن رحمۃ اللّٰہ کے مصداق اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ہر وہ شخص جس نے گناہ و معصیت کے ذریعے اپنے نفس پر ظلم و زیادتی کی ہے اسے اللہ کریم غفور الرحیم اپنے کلام پاک میں انہیں توبہ و رجوع الی اللہ کی دعوت دے رہا ہے اور یہ اعلانِ عالی شان بھی فرما رہا ہے کہ وہ تمام گناہوں اور معصیات کی لغزشوں کو معاف کرنے والا بھی ہے قرآنِ مجید میں ربّ العالمین کا ارشادِ گرامی ہے : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذَّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْالَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ۔ (سورۃ الزمر ۔54۔53)
ترجمہ : (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ بے شک اللہ تمام گناہ بخشنے والا ہے ۔ وہی تو ہے جو تمام گناہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور تم اپنے ربّ کی طرف توبہ کرو اور اس کے اطاعت گزار بن جاؤ ۔ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب نازل ہو تو پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا ۔
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنْ وَعمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی ۔ (سورۃ طہٰ آیت نمبر 82)
ترجمہ : اور بیشک میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور پھر اسی راہ پر قائم رہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : جس نے اس کے بعد اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا تو گویا اس نے کتاب اللہ کا انکار کیا ۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
حماد بن سلمہ علیہ الرحمہ جب سفیان ثوریؒ کی عیادت کے لئے آئے تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے شخص کی مغفرت فرمائے گا ؟
تو حماد بن سلمہؒ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور اپنے والدین میں سے کسی ایک کا محاسبہ اختیار کرنے کا کہا جائے تو میں اللہ کے محاسبہ کواختیار کروں گا۔ وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ میرے والدین سے زیادہ رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے ۔
امام ابنِ قدامہحنبلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’کتاب التوابین‘‘ میں ایک نوجوان کا قصہ نقل کیا ہے کہ رجاء بن سور کہتے ہیں : ایک دن حضرت صالح علیہ الرحمہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ گفتگو فرما رہے تھے ۔ انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ایک نوجوان سے کہا ’’اے نوجوان ! قرآن میں سے پڑھو ۔ ‘‘ اس نوجوان نے اللہ تعالیٰ کے کلام میں سے اس آیت کی تلاوت کی : وَ اَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْاَزِفَۃِ اِذَا الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیْنَ ج مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَ لَا شَفِیْعٍ یُطَاعُ ۔ (المومن۔18)
ترجمہ : اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبط ِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے ۔ ظالموں کے لیے نہ کوئی مہربان دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے ۔
اگر ہم میں سے کوئی وہ منظر دیکھ لے کہ جب گناہ گاروں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ننگے پائوں اور برے حال جہنم کی طرف لایا جائے گا اور ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں پیلی اور جسم خوف سے پگھلے جا رہے ہوں گے اور وہ پکا رہے ہوں گے اے ہماری ہلاکت اے ہماری موت ! یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ؟ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے وہ کیسا دردناک منظر ہوگا جب ملائکہ انہیں آگ کی لگاموں کے ذریعے ہانکتے لے جارہے ہوں گے کبھی ان کو منہ کے بل گھسیٹا جا رہا ہوگا اور کبھی اس حال میں کہ وہ خون کے آنسو رورہے ہوں گے دل ان کے حیران ہونگے اور وہ خود تکلیف سے چلا رہے ہونگے اور وہ منظر اتنا ہیبت ناک او ردرد ناک ہوگا کہ کوئی آنکھ اس کو دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی کسی دل میں اتنا حوصلہ کہاں کہ بے قرار نہ ہو قدم اس دن کی شدت کی وجہ سے بے قابو ہوں گے ۔ پھر روتے ہوئے فرمانے لگے کیا ہی برا منظر اور کیا ہی برا انجام ہوگا ۔ ان کے ساتھ سامعین بھی رونے لگے ۔ حاضرین محفل میں ایک گناہ و مستی و معصیت میں ڈوبا ہو اجوان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شیخ ابن قدامہ ؒ کی یہ گفتگو سن کر کہا : اے بو البشر! کیا یہ سارا کچھ جو آپ علیہ الرحمہ نے بیان کیا قیامت کے دن ہوگا ؟ شیخ نے فرمایا : ہاں ! اے میرے بھتیجے اس سے بھی بڑھ کر حالات ہوں گے ۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ آگ میں چیخ رہے ہوں گے یہاں تک کہ چیختے چیختے ان کی آواز بیٹھ جائے گی اور عذاب کی شدت کی وجہ سے صرف ایک بھنبھناہٹ باقی رہ جائے گی ۔ اس غافل جوان نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور کہا اے اللہ ! ہائے میری زندگی کے غفلت کے ایام اے میرے آقا و مولا ! میں نے تیری اطاعت میں کوتاہی سے کام لیا ۔ ہائے افسوس صد افسوس میں نے اپنی عمر فانی زندگی کےلیے برباد کی ۔ اس کے بعد اس نوجوان نے رونا شروع کر دیا اور قبلہ رخ ہو کر کہنے لگا ’’اے اللہ جل شانہٗ آج میں ایسی سچی توبہ (توبۃ النصوح) کے ساتھ تیری طرف رجوع کرتا ہوں اے اللہ! اگر تو میری توبہ قبول نہیں کرے گا تو یہ میری ہلاکت اور بربادی ہے ۔‘‘ اسی دوران وہ جوان بے ہوش ہو کر غشی کھا کر گر پڑا۔اسے وہاں سے منتقل کیا گیا ۔ شیخ صالح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ دنوں تک اس کی عیادت کرتے رہے پھر اس جوان کا انتقال ہو گیا ۔ اس جوان کی نمازِ جنازہ میں خلقِ خدا نے شرکت کی ۔ وہ روتے ہوئے اس کےلیے دعائے مغفرت کر رہے تھے ۔ شیخ صالح گاہے بگاہے اس جوان کا اپنی مجلس میں تذکرہ کرتے اور فرماتے ’’میرے والدین اس نوجوان پر قربان ہوں یہ قرآن کا قتیل ہے ، وعظ اور غم و حزن کا قتیل ہے یعنی اس آیت اور اس کی تفسیر نے اس نوجوان پر اتنا اثر ڈالاکہ وہ قیامت کے دہشت ناک احوال کے خوف سے جان سے گزر گیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اس جوان کو خواب میں دیکھا تواس سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ اس جوان نے کہا کہ شیخ صالح علیہ الرحمہ کی مجلس کی برکت سے اللہ کی رحمت و مغفرت میرے شاملِ حال ہوئی اور میں اللہ کی وسیع رحمت کا مستحق بن گیا یعنی میری مغفرت کر دی گئی ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment